عاصمہ شیرازی کا کالم: خوابوں کی لُوٹ سیل

جاسم محمد

محفلین
عاصمہ شیرازی کا کالم: خوابوں کی لُوٹ سیل
عاصمہ شیرازی صحافی
  • 6 گھنٹے پہلے
_110584625_reuters.jpg
تصویر کے کاپی رائٹREUTERS
Image captionپارلیمان اپنا استحقاق عوام کی نظروں میں تقریباً کھو چکی ہے اور رہی سہی کسر آرمی ایکٹ میں ترمیم پر پارلیمانی جماعتوں کے کردار نے پوری کر دی ہے

عکس ختم بھی ہو جائے تو اثر برقرار رہتا ہے، بلبلے ٹوٹ جاتے ہیں لیکن جاتے جاتے حلقہ ضرور بنا لیتے ہیں۔ ثبات کسی شے کو نہیں لیکن ثبوت کی جنگ زندگی کے لیے لازم قرار پاتی ہے۔ وقت اور حالات کس کو کس جگہ لے آئیں اس کا اندازہ نہ کبھی کسی کو ہوا نہ ہو پائے گا۔

وطنِ عزیز میں ہر گزرے دن کے ساتھ تقسیم بڑھ رہی ہے۔ رنگ، نسل اور مذہب کی تقسیم، قومیت کی بنیاد پر تقسیم، نظریے اور بیانیے کی تقسیم۔ یعنی معاشرہ جتنا آج منقسم ہے اس سے قبل کبھی نہ تھا۔ ملک اور قومیں ایک نظریے سے جُڑی رہتی ہیں، نظریہ اتحاد اور مقصد کو جنم دیتا ہے۔

گذشتہ دو آمریتوں نے نظریاتی تفریق پیدا کرنے، فرقہ واریت کو جنم دینے اور طبقاتی تقسیم میں جو اہم کردار ادا کیا ہے وہ کسی سیاسی جماعت نے نہیں کیا۔

بیرونی دباؤ کی مظہر خارجہ پالیسی اور ’سکیورٹی اسٹیٹ‘ بننے نے ہماری ترجیحات بدل ڈالیں، نہ ہم مکمل جمہوریت بن پائے نہ ہی مکمل آمریت۔ نتیجہ دھاک کے تین پات، ایک بے مقصد قوم اور ایک بے معنی سوچ کے حامل افراد کا ہجوم بڑھتا چلا گیا۔

موجودہ حالات کا درست جائزہ لینے کی کوشش بھی معتوب ٹھہرائی جا سکتی ہے تاہم وقت کا تقاضا یہی ہے کہ جو لکھا جائے سچ لکھا جائے۔ ایک طرف قدغنوں کا شکار میڈیا ہے تو دوسری جانب مصلحتوں کی شکار سیاسی جماعتیں، مختصر ہوتی سول سوسائٹی اور دبتی ہوئی جمہوری آوازیں۔

عدلیہ ماضی کے داغ دھونے کی کوشش کرتی ہے تو ایک بار پھر لاہور ہائی کورٹ کا غداری کیس میں مشرف کے حق میں فیصلہ اُسے متنازعہ بنا دیتا ہے۔ پارلیمان اپنا استحقاق عوام کی نظروں میں تقریباً کھو چکی ہے اور رہی سہی کسر آرمی ایکٹ میں ترمیم پر پارلیمانی جماعتوں کے کردار نے پوری کر دی ہے۔

بس ایک فوج کا مضبوط ادارہ ہی بچا ہے مگر ’بُوٹ تنازع‘ نے اُسے بھی ایسے ہوا دی ہے کہ نقصان کا اندازہ فی الحال لگایا نہیں جا سکتا۔

اداروں کی رٹ چیلنج ہو چکی، انتظامیہ پہلے ہی طرز حکمرانی پر ہدف تنقید ہے۔ مقننہ غیر اہم، میڈیا مشکوک جبکہ عدلیہ کو غیر مستند بنایا جا رہا ہے۔۔ یہ جانے بنا کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا اور کیا اس بد اعتمادی سے مقتدر ادارہ بھی محفوظ رہ پائے گا؟

_110512322_eoqp_w6woaakvld.jpg
تصویر کے کاپی رائٹARY NEWS
Image captionبس ایک فوج کا مضبوط ادارہ ہی بچا ہے مگر 'بُوٹ تنازع' نے اُسے بھی ایسے ہوا دی ہے کہ نقصان کا اندازہ فی الحال لگایا نہیں جا سکتا

حکومت کی کارکردگی عوام میں بے چینی بڑھا رہی ہے اور اس کا ذمہ دار صرف حکومت کو نہیں ٹھہرایا جا رہا۔ کمر توڑ مہنگائی، بے روزگاری اور غربت میں اضافہ عوامی غم اور غصے کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں نہ صرف منظر نامے سے غائب ہیں بلکہ حقیقی حزب اختلاف کا کردار بھی ادا نہیں کر پا رہیں۔ کیا کسی نے سوچا کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟

منقسم معاشرے میں بھانت بھانت کی بولیاں شور تو پیدا کریں گی لیکن کانوں میں انگلیاں ڈال کر شور کو نظر اندا کیسے کیا جا سکتا ہے؟

گذشتہ دو سالوں سے سیاست کا انداز قطعی طور پر بدلا گیا ہے۔ مقتدر حلقوں سے ناراض قیادت جس نئے بیانیے کو متعارف کرا چکی ہے روز بروز اُسے تقویت مل رہی ہے۔ بلوچستان کی سیاسی جماعتیں بی این پی مینگل ہو پی کے میپ، نیشنل پارٹی یا جے یو آئی ایف۔

خیبر پختونخواہ میں پی ٹی ایم کا ناراض نوجوان ہو یا اے این پی۔۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کا ورکر ہو یا پنجاب میں ن لیگ کا کارکن۔۔۔ ملک میں اس وقت ستر فی صد نوجوان ووٹرز ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کیا کسی نے سوچا ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت اگر اس بیانیے کے ساتھ ہو گئی تو پھر کیا ہو گا؟

_110584620_gettyimages-1192656540.jpg
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionملک بھر کے نوجوان طلبا یونینز کے حق میں متحرک ہو چکے ہیں۔ وقت ہے کہ اسے موقعے میں بدلا جائے

کیا موجودہ صورتحال اس بات کی متقاضی نہیں کہ نا صرف قومی مکالمے کا آغاز کیا جائے بلکہ نوجوانوں کو بھی اس کا حصہ بنایا جائے۔ یوں بھی ملک بھر کے نوجوان طلبا یونینز کے حق میں متحرک ہو چکے ہیں۔ وقت ہے کہ اسے موقعے میں بدلا جائے تاکہ انتشار سے بچنے کی پیش بندی اور سیاسی سرگرمیوں کے پنپنے کی راہ ہموار ہو سکے۔ اس کے لیے آزادانہ سیاسی ماحول کا دستیاب ہونا بھی ایک سوال ہے۔

موجودہ صورتحال میں اپوزیشن کیا۔۔۔ حکومتی اتحادی بھی آنکھیں دکھانے لگیں ہیں۔

کیا قلیل المدت حل محض حکمرانوں کی تبدیلی کی صورت نکالا جا سکتا ہے؟ کیا محض ان ہاؤس تبدیلی عوام کو مطمئن کر پائے گی؟ یوں محسوس ہوتا ہے کہ لاوا پک رہا ہے۔۔ خدا نہ کرے یہ لاوا پھٹے۔ اس سے پہلے کہ ستر فی صد نوجوان مایوسی کے سمندر میں ڈوب جائیں اُنہیں اُمید کی ضرورت ہے، ان کے خوابوں کو تعبیر کی ضرورت ہے۔۔ یا تو بڑے بڑے خواب نہ دکھائے جاتے یا اب اُنہیں مایوسی سے بچا یا جائے۔

امیدوں کی لوٹ سیل جاری ہے۔۔۔ مگر اب بھی وقت ہے۔۔۔مناسب یہی ہو گا کہ عوام سے خوابوں کی قیمت وصول نہ کی جائے۔۔۔ کیونکہ خواہشیں نا تو سیل پر دستیاب ہیں نہ ان کی حقیقت۔
 

جاسم محمد

محفلین
بیرونی دباؤ کی مظہر خارجہ پالیسی اور ’سکیورٹی اسٹیٹ‘ بننے نے ہماری ترجیحات بدل ڈالیں، نہ ہم مکمل جمہوریت بن پائے نہ ہی مکمل آمریت۔ نتیجہ دھاک کے تین پات، ایک بے مقصد قوم اور ایک بے معنی سوچ کے حامل افراد کا ہجوم بڑھتا چلا گیا۔
ایک ناکارہ گھڑیال بھی دن میں دو باروقت صحیح بتا تا ہے۔ ملک میں جب تک فوج اور جمہوری قوتوں کا ہائبرڈ نظام نافذ ہے یہ بے سمتی کا شکار رہے گا۔
 

فرقان احمد

محفلین
حکومت کی کارکردگی عوام میں بے چینی بڑھا رہی ہے اور اس کا ذمہ دار صرف حکومت کو نہیں ٹھہرایا جا رہا۔ کمر توڑ مہنگائی، بے روزگاری اور غربت میں اضافہ عوامی غم اور غصے کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں نہ صرف منظر نامے سے غائب ہیں بلکہ حقیقی حزب اختلاف کا کردار بھی ادا نہیں کر پا رہیں۔ کیا کسی نے سوچا کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟
اس حکومت کو پانچ سال نہ دیے گئے تو ہم مزید بڑے بحران کا شکار ہو سکتے ہیں۔ نئی حکومت آ گئی تو کیا تیر مار لے گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس حکومت کو پانچ سال نہ دیے گئے تو ہم مزید بڑے بحران کا شکار ہو سکتے ہیں۔ نئی حکومت آ گئی تو کیا تیر مار لے گی۔
اپوزیشن اس وقت عملی طور پر اپنی "باری" کا انتظار کر رہی ہے۔ تاکہ وہ جو معاشی لینڈ مائنز بچھا کر گئے ہیں وہ اچھی طرح سے اگلے 5 سالوں میں پھٹ جائیں۔ اور ان کا بوجھ موجودہ حکومت اٹھا لے۔ یوں وہ دوبارہ اقتدار میں آکر نئی معاشی لینڈ مائنز بچھانے کا انتظام اچھے طریقہ سے کر سکیں گے۔
 

فرقان احمد

محفلین
اپوزیشن اس وقت عملی طور پر اپنی "باری" کا انتظار کر رہی ہے۔ تاکہ وہ جو معاشی لینڈ مائنز بچھا کر گئے ہیں وہ اچھی طرح سے اگلے 5 سالوں میں پھٹ جائیں۔ اور ان کا بوجھ موجودہ حکومت اٹھا لے۔ یوں وہ دوبارہ اقتدار میں آکر نئی معاشی لینڈ مائنز بچھانے کا انتظام اچھے طریقہ سے کر سکیں گے۔
عوام میں اچھا خاصا شعور آ چکا ہے۔ یہ حکومت پانچ سال پورے کر لے تو بہتر ہے۔ نئی حکومت بھی کچھ نہ کچھ تو بہتر کرنے کی کوشش کرے گی۔ حوصلہ رکھیں!
 
اپوزیشن اس وقت عملی طور پر اپنی "باری" کا انتظار کر رہی ہے۔ تاکہ وہ جو معاشی لینڈ مائنز بچھا کر گئے ہیں وہ اچھی طرح سے اگلے 5 سالوں میں پھٹ جائیں۔ اور ان کا بوجھ موجودہ حکومت اٹھا لے۔ یوں وہ دوبارہ اقتدار میں آکر نئی معاشی لینڈ مائنز بچھانے کا انتظام اچھے طریقہ سے کر سکیں گے۔
گویا پورے پانچ سال تک یہی راگنی بجائی جائے گی۔ معاشی حالات کیوں خراب ہیں ، اس لیے کہ نون لیگ نے یہ سب کچھ کیا۔ بھائی جان نون لیگ تو اپنے تئیں الیکشن جیتے ہوئے تھی۔ کیا کسی کے علم میں تھا کہ پی ٹی آئی جو گزشتہ کئی الیکشن ہارتی رہی تھی یوں اچانک سیلیکٹ کرلی جائے گی؟ پی پی پی تو پہلے ہی ختم ہوچکی تھی۔ کیا نون لیگ اپنے لیے ہی لینڈ مائننز بچھارہی تھی؟
 

جاسم محمد

محفلین
عوام میں اچھا خاصا شعور آ چکا ہے۔ یہ حکومت پانچ سال پورے کر لے تو بہتر ہے۔ نئی حکومت بھی کچھ نہ کچھ تو بہتر کرنے کی کوشش کرے گی۔ حوصلہ رکھیں!
گویا پورے پانچ سال تک یہی راگنی بجائی جائے گی۔ معاشی حالات کیوں خراب ہیں ، اس لیے کہ نون لیگ نے یہ سب کچھ کیا۔ بھائی جان نون لیگ تو اپنے تئیں الیکشن جیتے ہوئے تھی۔ کیا کسی کے علم میں تھا کہ پی ٹی آئی جو گزشتہ کئی الیکشن ہارتی رہی تھی یوں اچانک سیلیکٹ کرلی جائے گی؟ پی پی پی تو پہلے ہی ختم ہوچکی تھی۔ کیا نون لیگ اپنے لیے ہی لینڈ مائننز بچھارہی تھی؟
ن لیگ کو پہلے ہی معلوم ہو گیا تھا کہ ان کی بچھائی معاشی لینڈ مائنز اگلے 4 سالوں میں پھٹ جائیں گی۔ ذیل میں 2016کا یہ آرٹکل پڑھ لیں جس میں آزاد ماہرین معیشت نے ملک کے مالی حالات کا تخمینہ لگا کر پیشگوئی کر دی تھی کہ 2020 میں ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 22ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا ۔ جسے پورا کرنے کیلئے بیرونی قرضوں کے حجم میں ہر سال شدید اضافہ ہوگا۔
Capture.jpg

18-1478976900.jpg

اور یوں پیش گوئی کے عین مطابق 2 سال بعد اقتدار کے اختتام تک ن لیگ ریکارڈ تجارتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ چھوڑ کر گئی۔ جس کے ہوتے ہوئے ملک دیوالیہ پن کے قریب پہنچ گیا تھا اور یوں نئی آنے والی حکومت کو شدید غیرمقبول اقدامات کر کے ان خسارے کو لگام دینی پڑی۔ یہ نہ کرتے تو خسارے اتنا بڑھ جاتے کہ ملک عملی طور پر دیوالیہ ہو جاتا۔ اور اس کے نتیجہ میں ارجنٹائن ، زمبابوے کے مصداق جو مہنگائی کا ہوش ربا طوفان آتا اسے کس نے روکنا تھا؟



اسی لئےفوجی اسٹیبلشمنٹ نے ان قومی چوروں لٹیروں کا اقتدار میں واپسی کا راستہ روک دیا ہے۔ اور ان کی جگہ عمران خان کو ملک کی معاشی سمت درست کرنے کیلئے سلیکٹ کیا ہے۔ جس کی حکومت نے ریکارڈ 16 ماہ میں ان خساروں میں شدید کمی کر دی ہے۔ جو ملک کوعملی طور پر دیوالیہ پن کی طرف لے جا رہے تھے۔
Current account deficit shrinks 75pc in H1 on weak imports
Fitch reaffirms Pakistan’s rating at B-, outlook stable - Newspaper - DAWN.COM
Moody's lifts Pakistan's outlook to stable from negative
 

فرقان احمد

محفلین
عوامی کی ایک بڑی تعداد آج بھی ان قومی چور لٹیروں، بھگوڑوں کی یاد میں آنسو بہائے جا رہی ہے۔ اور اسٹیبلشمنٹ کے تعاون سے ان کی اقتدار میں واپسی کو ترس رہی ہے۔
AR-200119680-jpg-Max-W-780-image-Version-16by9-NCS-modified-exif.jpg
عوام کی اگر یہی مرضی ہے تو پھر! انہوں نے کیا عوام پر کالا جادو کروا رکھا ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
عوام کی اگر یہی مرضی ہے تو پھر! انہوں نے کیا عوام پر کالا جادو کروا رکھا ہے؟
ظاہر ہے عوام کی تو یہی خواہش ہوگی کہ ملک کا دیوالیہ نکال کر ان کو ریلیف دیا جائے جیسا کہ پچھلی حکومت کر رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ حکومت مقبول تھی اور یہ والی غیرمقبول ہے۔ اب فیصلہ اسٹیبلشمنٹ نے کرنا ہے کہ عوام کو ریلیف دیناہے یا ملک دیوالیہ ہونے سے بچانا ہے۔ کیونکہ شریفوں، زرداریوں کی اقتدار میں واپسی کا نتیجہ وہی نکلے گا جو پچھلے دس سال میں نکلا تھا۔ یعنی ریکارڈ قرضے لے کر اور خسارے کر کے عوام کو(ووٹوں کے چکر میں) عارضی خوشحالی دینا اور پھر ملک کو دیوالیہ پن کے قریب چھوڑ کر جانا۔
 

فرقان احمد

محفلین
ظاہر ہے عوام کی تو یہی خواہش ہوگی کہ ملک کا دیوالیہ نکال کر ان کو ریلیف دیا جائے جیسا کہ پچھلی حکومت کر رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ حکومت مقبول تھی اور یہ والی غیرمقبول ہے۔ اب فیصلہ اسٹیبلشمنٹ نے کرنا ہے کہ عوام کو ریلیف دیناہے یا ملک دیوالیہ ہونے سے بچانا ہے۔ کیونکہ شریفوں، زرداریوں کی اقتدار میں واپسی کا نتیجہ وہی نکلے گا جو پچھلے دس سال میں نکلا تھا۔ یعنی ریکارڈ قرضے لے کر اور خسارے کر کے عوام کو(ووٹوں کے چکر میں) عارضی خوشحالی دینا اور پھر ملک کو دیوالیہ پن کے قریب چھوڑ کر جانا۔
کاش معاملہ اس قدر سیدھا ہوتا۔ اس حکومت پر تو نااہلی کا بڑا الزام بھی ہے۔ تاہم، یہ بات سچ ہے کہ ہر طرح کا ملبہ موجودہ حکومت پر گرانا زیادتی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
کاش معاملہ اس قدر سیدھا ہوتا۔ اس حکومت پر تو نااہلی کا بڑا الزام بھی ہے۔ تاہم، یہ بات سچ ہے کہ ہر طرح کا ملبہ موجودہ حکومت پر گرانا زیادتی ہے۔
اس حکومت پر نااہلی کا الزام میڈیا کو لفافے نہ ملنے کی وجہ سے ہے۔ باقی معاشی نااہلی کا اعتراف پچھلی حکومت کے اپنے وزیر خزانہ کر چکے ہیں کہ کس طرح ان کو زرمبادلہ کے تیزی سے گرتے ہوئے ذخائر روکنے کیلئے ڈالر مہنگا کرنا پڑا۔ مہنگائی کو کنٹرول کیلئے جو 4 سال ڈالر سستا رکھا گیا یہ سب اس کے سنگین نتائج تھے۔
 

فرقان احمد

محفلین
اس حکومت پر نااہلی کا الزام میڈیا کو لفافے نہ ملنے کی وجہ سے ہے۔
صرف یہی معاملہ نہیں ہے؛ ہوم ورک نہیں کیا گیا تھا۔ بہرصورت، صبر اور انتظار بہتر ہے۔ ممکن ہے موجودہ حکومت ملک کو معاشی بحران سے نکال لے۔
 

جاسم محمد

محفلین
صرف یہی معاملہ نہیں ہے؛ ہوم ورک نہیں کیا گیا تھا۔ بہرصورت، صبر اور انتظار بہتر ہے۔ ممکن ہے موجودہ حکومت ملک کو معاشی بحران سے نکال لے۔
جی بالکل۔ ہوم ورک کیا ہوتا تو بڑے بڑے دعوے نہ کرتے۔ بہرحال عوام سے ووٹ لینے اور اسٹیبلشمنٹ کو راضی کرنے کیلئے وہ بھی ضروری تھا۔
مجھے ق لیگ، پی پی پی، ن لیگ وغیرہ سے کوئی ذاتی لڑائی نہیں ۔ ان سے گزارش صرف اتنی سی ہے کہ ٹھیک ہے الیکشن جیتنے کیلئے آپ نے عوام سے بلند و باند دعوے کر لئے۔ اسٹیبلشمنٹ کو بھی رام کر لیا۔ لیکن پھر اقتدار میں آکر پتا چلا کہ وعدے پورے کرنے کیلئے قومی خزانہ تو خالی پڑا ہے۔
اب صرف 5 سال بعد اپنا ووٹ بینک برقرار رکھنے کیلئے ملک کی سالمیت سے کھیلنے کا حق ان جماعتوں کو کس نے دیاہے؟ یہ تو ملک و قوم سے غداری کے مترادف ہے کہ آپ حکومت میں آتے ساتھ ہی بجٹ کے خساروں کو پورا کرنے کیلئے بیرونی قرضے لیتے رہیں۔ اور ان کو اتارنے کی ذمہ داری آئندہ آنے والی حکومتوں پر ڈال دیں۔ ان آنے والی حکومتوں نے بھی پھر وہی پرانی تاریخ ہی دہرانی ہے اور قوم کا خون نچوڑنا ہے۔ کم از کم مشرف دور سے ملک میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ ذیل میں مشرف دور سے مسلسل بڑھتا تجارتی خسارہ چیک کریں:
5cdd135cca0eb.png

46800199-2218118698212820-6128520776334180352-n.jpg


اب ہوتا کیا ہے کہ ہر نئی آنے والی حکومت قومی خزانہ خالی دیکھ کر آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لیتی ہے۔ جس سے وقتی طور پر شدید مہنگائی کا بحران آتا ہے لیکن قومی خزانہ تیزی سے بھرنا شروع ہوجاتا ہے۔ پھر دو یا تین سال بعد ملک آئی ایم ایف پروگرام سے نکل جاتا ہے اور الیکشن قریب آجاتے ہیں تو حکومت اس جمع شدہ قومی خزانے کا منہ عوام کیلئے کھول دیتی ہے۔ جس سے وقتی خوشحالی آجاتی ہے۔ ذیل میں 2008، 2013 اور 2018 الیکشن سے قبل تیزی سے گرتا ہوا زرمبادلہ چیک کریں:
Screenshot-2020-01-21-Pakistan-Foreign-Exchange-Reserves.png

لیکن جیسے وہ مہنگائی عارضی تھی ویسے ہی خوشحالی بھی عارضی ہوتی ہے۔ نئی حکومت بنتے ساتھ ہی پچھلے قرضوں کا بوجھ اس کے کندھوں پر پڑ جاتا ہے۔ اور یوں یہ چکر پھر سے شروع ہوتا ہے۔ اس دوران ملک کے قرضے کئی گنا بڑھتے ہیں اور روپے کی قیمت یعنی قوت خرید گر جاتی ہے۔ آج سے 20 سال قبل مشرف دور میں ڈالر 60 روپے کا تھا۔ آج 155 روپے کا ہے۔ یعنی صرف 20 سالوں میں پاکستانی روپے کی قوت خرید 158 فیصد گر چکی ہے:
Screenshot-2020-01-21-Pakistan-Rupee.png


اس خطرناک معاشی چکر کو توڑنا کس کا کام ہے؟ نئی حکومت اگر بیرونی قرضے لے کر معیشت کو ٹھیک کرنے کی کوشش بھی کرے تو مہنگائی ہونے پر عوام، اپوزیشن اور میڈیا اس کا جینا حرام کردیتے ہیں۔ نتیجتاً الیکشن جیتنے کے چکر میں حکومتیں قومی خزانہ خالی کر کے جاتی ہیں۔ اقتدار پھر بھی نہیں ملتا البتہ آنے والی حکومت کا پہلے دن سے بیڑا غرق ہو جاتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
خبریں یہ بتاتی ہیں کہ پاکستانی بھوکے مرر ہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ رات آٹھ بجے کے بعد لکشمی چوک کے ٹھیلوں سے لے کر کر ایم ایم عالم روڈ کے لگژری ریستورانوں تک، کہیں بھی رش کی وجہ سے بیٹھنے کی جگہ نہیں ملتی ۔ ۔ ۔

خبریں یہ بتاتی ہیں کہ پاکستان کی معیشت تباہ ہوگئی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عالمی بنک، آئی ایم ایف، موڈیز سمیت تمام بڑے فنانشل انسٹیٹیوٹس نے پاکستان کی معیشت کو دنیا کی چند ایک تیزی سے ریکور ہونے والی معیشت میں شمار کیا ہے۔

خبریں یہ بتاتی ہیں کہ پاکستانی عوام کے پاس بنیادی سہولیات کو ترس رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ گھٹیا ترین ڈرامہ میرے پاس تم ہو کی آخری قسط سینما میں چلائی جارہی ہے جس کی اب تک پچیس ہزار سے زائد لوگ ایڈوانس بکنگ کروا چکے ہیں اور اتنی ہی تعداد اگلے تین روز میں مزید بکنگ کروانے جارہی ہے ۔ ۔ ۔

خبریں یہ بتاتی ہیں کہ پاکستان عالمی افق پر تنہا ہوگیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک سال کے اندر اندر امریکی صدر کی پاکستانی وزیراعظم کے ساتھ تین عدد ملاقاتیں اور متعدد بار براہ راست ٹیلیفون پر گفتگو ہوچکی ہے جو برصغیر کے کسی بھی حکمران کے ساتھ آج سے قبل نہیں ہوئیں۔

خبریں یہ بتاتی ہیں کہ حکومت نااہل ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جتنے قلیل عرصے میں اس حکومت نے معاشی گورننس کو بہتر بنایا ہے، وہ پچھلی چار صدیوں میں دنیا کی کوئی حکومت نہیں کرسکی۔

خبریں یہ بتاتی ہیں کہ دنیا میں پاکستان کا امیج خراب ہوچکا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ ٹورازم کے سب سے آتھنٹک میگزین نے پاکستان کو ٹورازم کیلئے دنیا کا ٹاپ ملک قرار دے دیا ہے۔

خبریں یہ بتاتی ہیں کہ حکومت کے پاس کوئی پلان نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ سٹیزن پورٹل سے لے کر ای گورنمنٹ پروگرام تک، موجودہ حکومت نے ٹیکنالوجی کے جدید ترین پروگرامز پر عملدرامد شروع کررکھا ہے جس کے ثمرات چند سال بعد نظر آئیں گے۔

خبریں یہ بتاتی ہیں کہ سرکاری ادارے تباہ ہوچکے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مراد سعید جیسے ناتجربہ کار وزیر نے مواصلات کے شعبے میں اصلاحات کرکے اس کی پرفارمنس ایک سال کے اندر اندر بہتر بنا دی۔

خبریں یہ بتاتی ہیں کہ پٹواری اور بغض عمرانی کا شکار ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ بات بالکل درست ہے!!! بقلم خود باباکوڈا
 
Top