اس مراسلہ میں جو کچھ کہنا مقصود ہے اس کو بہتر طور پر سمجھنے کے لئیے سب سے پہلے اردو محفل پہ چند روز قبل ارسال کردہ میرا یہ مراسلہ غور سے پڑھئے اور اس کے دوسرے اور تیسرے پیرے پر خصوصی توجہ دیں۔
اب آتے ہیں بی بی سی کی ایک خبر کی طرف جس میں ایک امریکی اپنے مبینہ جرم کا اعتراف کرتا ہے اور جرم بھی ایسا جو بیس سال سے امریکی اداروں کی ناک کے نیچے ہوتا رہا۔ اس مبینہ جرم کے دوسرے مرتکب کی موجودگی پاکستان میں بتائی جا رہی ہے۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ جس جرم کا اس خبر میں غلغلہ بلند کیا جا رہا ہے الزام لگانے والے خود اس جرم کا دنیا بھر میں ارتکاب کرتے ہیں۔
پاکستان مین بلیک واٹر اور ریمنڈ ڈیوس جیسے اہلکار جن کے بارے میں امریکی صدر کو بار بار جھوٹ کا سہارا لینا پڑا ،سی آئی اے کے لئیے یہی بلکہ اس سے بھی خطرناک نوعیت کا کام کر رہے تھے ۔ انصاف کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کا جو حربہ انہوں نے اختیار کیا ہے وہ قابل مذمت ہے۔ مسئلہ کشمیر نہ صرف اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے بلکہ انصاف پسند امریکی حلقے بھی امریکہ پر اس حوالے سے اپنائے گئے دہرے معیار پر خبردار کرتے رہتے ہیں۔
وقت کی کمی کی وجہ سے تفصیل میں نہیں جا سکتا صرف یہ بتانا مقصود تھا کہ پاکستان کے فوجیوں کو شہید کرنے کے بعد پہلے تو جھوٹ بولا گیا کہ دہشت گردوں کے تعاقب میں وہ نشانہ بنے۔بلکہ ایک بھارتی سائٹ نے تو یہ بے پرکی اڑائی کہ پاکستانی فوجیوں نے ان پر پہلے فائرنگ کی تھی۔ اس کے بعد پاکستان پر سپلائی بحال کرنے کا دباؤ پھر بون کانفرنس میں پاکستان کا شریک ہونے سے انکار بعد ازاں امریکیوں کے حنا ربانی کھر اور صدر و وزیراعظم کو فون پر دباؤ ڈالنے کے حربے اور جب کسی طرح سے کام نہیں بنا تو اب وہی حربہ جو ان کا طریقہ واردات ہے ہم سب دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان ان کی بات نہ مانا تو یہ اور بھی الزامات لگائیں گے اور پھر پابندیوں کی طرف بھی جا سکتے ہیں۔
سوچنے کی بات صرف یہ ہے کہ ہم پاکستانیوں نے جب ان کی دوستی کی قیمت اپنی جان اور معیشت کی قربانی کی صورت میں ادا کر کے بھی ایسے الزامات کا سامنا کرنا ہے تو کیوں نہ ان سے راستہ علیحدہ کر لیا جائے۔ جب مرنا ہی ہمارا مقدر ہے تو ان کی غلامی کرتے کیوں مریں؟ ۔
پھر گزارش ہے کہ میڈیا کے حوالے سے ان کا سامنا کرنا ہم سب پر لازم ہے تا کہ ان کے اس شرم ناک پراپیگنڈا کا اثر زائل کیا جا سکے۔
اب آتے ہیں بی بی سی کی ایک خبر کی طرف جس میں ایک امریکی اپنے مبینہ جرم کا اعتراف کرتا ہے اور جرم بھی ایسا جو بیس سال سے امریکی اداروں کی ناک کے نیچے ہوتا رہا۔ اس مبینہ جرم کے دوسرے مرتکب کی موجودگی پاکستان میں بتائی جا رہی ہے۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ جس جرم کا اس خبر میں غلغلہ بلند کیا جا رہا ہے الزام لگانے والے خود اس جرم کا دنیا بھر میں ارتکاب کرتے ہیں۔
پاکستان مین بلیک واٹر اور ریمنڈ ڈیوس جیسے اہلکار جن کے بارے میں امریکی صدر کو بار بار جھوٹ کا سہارا لینا پڑا ،سی آئی اے کے لئیے یہی بلکہ اس سے بھی خطرناک نوعیت کا کام کر رہے تھے ۔ انصاف کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کا جو حربہ انہوں نے اختیار کیا ہے وہ قابل مذمت ہے۔ مسئلہ کشمیر نہ صرف اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے بلکہ انصاف پسند امریکی حلقے بھی امریکہ پر اس حوالے سے اپنائے گئے دہرے معیار پر خبردار کرتے رہتے ہیں۔
وقت کی کمی کی وجہ سے تفصیل میں نہیں جا سکتا صرف یہ بتانا مقصود تھا کہ پاکستان کے فوجیوں کو شہید کرنے کے بعد پہلے تو جھوٹ بولا گیا کہ دہشت گردوں کے تعاقب میں وہ نشانہ بنے۔بلکہ ایک بھارتی سائٹ نے تو یہ بے پرکی اڑائی کہ پاکستانی فوجیوں نے ان پر پہلے فائرنگ کی تھی۔ اس کے بعد پاکستان پر سپلائی بحال کرنے کا دباؤ پھر بون کانفرنس میں پاکستان کا شریک ہونے سے انکار بعد ازاں امریکیوں کے حنا ربانی کھر اور صدر و وزیراعظم کو فون پر دباؤ ڈالنے کے حربے اور جب کسی طرح سے کام نہیں بنا تو اب وہی حربہ جو ان کا طریقہ واردات ہے ہم سب دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان ان کی بات نہ مانا تو یہ اور بھی الزامات لگائیں گے اور پھر پابندیوں کی طرف بھی جا سکتے ہیں۔
سوچنے کی بات صرف یہ ہے کہ ہم پاکستانیوں نے جب ان کی دوستی کی قیمت اپنی جان اور معیشت کی قربانی کی صورت میں ادا کر کے بھی ایسے الزامات کا سامنا کرنا ہے تو کیوں نہ ان سے راستہ علیحدہ کر لیا جائے۔ جب مرنا ہی ہمارا مقدر ہے تو ان کی غلامی کرتے کیوں مریں؟ ۔
پھر گزارش ہے کہ میڈیا کے حوالے سے ان کا سامنا کرنا ہم سب پر لازم ہے تا کہ ان کے اس شرم ناک پراپیگنڈا کا اثر زائل کیا جا سکے۔