ظلم سہنے کا عادی

ضیاء حیدری

محفلین
تھانیدار ڈوڈابابو کا اصل نام کچھ اور ہے، لیکن ان کردار وہی ہے، جو کسی پولسیا کا ہوتا ہے، کسی شریف آدمی کی ٹانگ کھینچنے میں انھیں بہت مزہ آتا ہے، اور کمینوں کو بطور خاص چھوٹ تھی، اس کی کوئی خاص وجہ نظر نہ آتی تھی شاید وہ ان کے محلے دار ہوں یا شاید ۔ ۔ ۔ وہ کمینے کسی کی ماں بہن کا احترام کریں یا نا کریں انھیں نظر نہیں آتا تھا، گردن پکڑنا تو بڑی بات ہے انھیں پیار بھری گھڑکی بھی نہ دیتے تھے، چاہے محکمہ بدنام ہوجائے۔۔۔۔۔ لیکن ایسا کب تک چلتا؟ نتیجہ ہوا کہ محلہ کے شرفا نے محلہ چھوڑنے کی ٹھان لی۔
ایک کمینے سے ڈر کر یوں بھاگنا اچھا نہیں ہے اس لئے ہم نے ان کے مقابل کھڑا ہونے کا عزم کرلیا، کھیل تو ہم نے بھی سارے کھیلے ہوئے تھے، بلوٹ، لاٹھی، کشتی، پنجہ یہی سب کھیل ، ہم بھی دیسی گھی کھاتے تھے اور گڑ کا شربت پیتے تھے، اب بھی وہی ہڈیاں ہیں۔ اگر کھڑا ہو جاؤں تو ان جیسے پانچ پلسیے مل کر بھی میری ٹانگ ایک انچ نہیں کھسکا سکیں گے۔ لیکن مجھے رنج ہے کہ معاشرے میں مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رہی ۔۔۔۔
مجھے منٹو کے ایک افسانے کی ایک لائن یاد آ رہی ہے۔
۔ کْام کرتے وقت باتیں کرتے ہوئے حتی کے سوچنے پر بھی ایک عجیب قسم کا درد محسوس ہوتا تھا۔ایسا درد جس کو اگر وہ بیان بھی کرنا چاہتا تو نہ کرسکتا“۔
ظلم سہنے کا عادی، معاشرہ کا میں باسی ہوں یہ بات مجھے دکھی رکھتی ہے،




ہم سوچ رہے ہیں، وہ اسی عمر میں ماشاء اللہ بلوغت کی ساری منزلیں طے کر چکے ہیں یا ابھی کچے ہیں، چیک کرنا ابھی باقی ہے۔۔۔۔۔۔
 
Top