طوفان تعاقب میں ہے ،جاگ جائیں اور ہوش کے ناخن لیں! (کالم) احمدخان رام پور

فاخر

محفلین
طوفان تعاقب میں ہے:
جاگ جائیں اور ہوش کے ناخن لیں!

احمدخان پٹھان رام پور

کل ہمیں یہ خبر ملی تھی کہ باغپت کے بیس لوگوں نے اجتماعی طور پر اسلام سے برگشتہ ہوکر ارتداد میں داخل ہوچکے ہیں سوائے اس کمزور ’’بہو‘‘کے کہ جس کا عزم چٹان تھا اس نے یکلخت ارتداد سے منع کردیا اور اپنے بچوں کے ساتھ مائیکہ چلی گئی ۔ لیکن آج یہ خبر ملی رہی ہے کہ یوپی کے رام پور اسٹیٹ میں باضابطہ طور پر ایک مسلم لڑکی کو کاغذی طور ہندو ثابت کرکے اغوا کرلیا گیا جب اہل خانہ اس سلسلے میں رابطہ کیا تو اس سلسلے میں ٹکا سا جواب ملا کہ آپ جس لڑکی کی بابت گفتگو کررہے ہیں وہ در اصل مسلمان ہے ہی نہیں ! جب کہ اہل خانہ کا یہ اصرار ہے کہ ان کی لڑکی اس کمپنی میں ملازمت کرتی تھی اسی دوران ایک اجنبی لڑکے سے ملاقات ہوئی اور اس اجنبی لڑکے نے اس کے سارے کاغذات فرضی طور پر ہندوانہ نام پر بنالیے ۔ اہل خانہ نے ضلعی انتظامیہ سے اس سلسلے میں مدد بھی مانگی ؛لیکن اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہ ہوسکی ہے۔ اہل خانہ اب در در کی خاک چھانتے ہوئے مل رہے ہیں جب کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انتظامیہ اہل خانہ کی بات پر غور کرتی ،تاہم انتظامیہ بھی خاموش اور مہر بلب ہے ؛بلکہ یک طرفہ کاروائی کررہی ہے ۔ رام پور کی اپنی تاریخ رہی ہے اور اب بھی اس کے باقیات موجود ہیں، تاہم یہ سوال اہم ہے کہ ہندوتو ا ایجنڈہ کس طرح تیزی کے ساتھ کام کررہا ہے اور ہم ابھی بھی خواب ِ خرگوش میں ہیں ۔اس سے قبل بھی کئی طرح کی ویڈیو اور خبریںہمیں سوشل میڈیا کے ذریعہ ملی کہ مسلم بچیوں پر آ ر ایس ایس کی طرف سے خصوصی نگاہ رکھی جارہی ہیں اور ان کو گمراہ کرکے ، لالچ دے کر ، نام نہادعشق کے نام پر کفر میں داخل کررہے ہیں ان کا واضح منشا ہے کہ ایک بڑی تعداد کو کفر میں داخل کرایا جائے یا پھر بقول ایک مرددرویش کے کہ ’’ مسلم بطن سے کافر بچے پیدا کرنے ہیں ‘‘۔ حتیٰ کہ کئی بے جی پی لیڈروں کی زبانی اس کا اظہار بھی ہوچکا ہے اور وہ صاف طور پر کہہ چکے ہیں۔ ان کا واضح منشا ہے اور اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی ؛بلکہ عیاں ہوچکی ہے ۔اس کی تیاری بہت پہلے کی جاچکی تھی جس سے ہم غافل تھے اور اب بھی غافل ہیں جس کا نتیجہ ہمیں وقتاً فوقتاً تازیانہ کے طور پر سننے کو ملتے ہیں اور ایسی صورت میں ہم صرف کف ِ افسوس ملتے رہ جاتے ہیں ۔ آر ایس ایس کی توجہ مکمل طورپر ہمارے وجو د کو مٹادینے پر مرکو زہوچکی ہے اور وہ اس سلسلے میں پابندعمل بھی ہیں ؛لیکن ہم ابھی تک خوابِ خرگوش میں پڑے ہیں ۔یاد کیجئے ! لوجہاد کاپروپیگنڈہ انہوں نے پھیلایا اور پھر اسی لو جہاد کے نام پر اغوا، عصمت دری، جبری شادی اور پھر قتل کے روح فرسا امور کو وہ انجام دے رہے ہیں حتیٰ کہ انتظامیہ بھی خاموش ہے ؛بلکہ یوں کہہ لیں کہ انتظامیہ کی شہ پر سارے امور انجام دیئے جارہے ہیں۔تعلیم ، کھیل کود، ملازمت اور اس جیسے دیگر امور ہیں جن کے تئیں ہمارا ایک طبقہ کچھ زیادہ ہی روشن خیال ہے اور اسی روشن خیالی کا ہولناک نتیجہ مل رہا ہے کہ ہماری بچیاں کسی غیر کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہیں ۔ہم نے روشن خیالی کے نام پر اپنی بچیوں کو گھروں سے با ہر نکالا، اور اس سلسلے میں اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ۔ تعلیم کے لیے اختلاط زدہ ماحول کو پسند کیا اور پھر اسی اختلاط کا یہ نتیجہ نکلا کہ قوم کی عزت پر ’’کالک ‘‘ پوت دی گئی ۔ ملازمت کے لیے ہم نے اغیار کی تقلید میں درندوں کی بھیڑ میں اپنی بچیوں کو بھیجناگواراہ کیا جب کہ مذہب مقدس میں لڑکیاں اور خواتین کو ’’ملکہ ‘‘ کا درجہ دیا گیا ہے ۔لیکن جب ہم نے اسلامی تعلیمات سے روگردانی کی ،نتیجتاً اس کے ہولناک انجام سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے ۔آج جو نتائج رام پور سے آرہے ہیں اور اہل خانہ کو در بدر بھٹکنا پڑرہا ہے ان نتائج سے علماء اور دانشوران نے نصف صدی قبل ہی آگاہ کردیا تھا ؛لیکن ہم نے اس سے پہلو تہی کی، تغافل برتا ،لازماً آج یہ خبر مل رہی ہے کہ ہماری بچیاں غیر کے ہاتھوں ’’سرکار ی طور‘‘پر اغوا ہیں ۔ اہل خانہ در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں اور اب قوم سے مدد کی بھیک مانگ رہے ہیں ۔ آخر ایسا کیوں؟فیس بک اور واٹس ایپ جیسے سوشل میڈیا پر کئی طرح کی پوسٹ سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے کہ جن میں یہ واضح طور پر لکھا ہوتا ہے کہ ہندو لڑکوں کو مسلم لڑکیوں سے جھوٹے عشق کے لیے تیار کیا جارہا ہے اور حتیٰ کہ ان لڑکوں کو اردو بھی سکھائی جارہی ہے ، مسلمانوں کے طور طریقے بھی سکھائے جاتے ہیں ، مسلم لڑکوں کی طرح اسٹائل اور فیشن بھی اختیار کئے جانے کی ٹریننگ بھی جاتی ہے ۔زبان میں سلاست اور شیرینی کے لیے غالبؔ و میرؔ ،احمد فرازؔاور راحت اندوری جیسے شاعروں کے اشعار بھی رٹائے جاتے ہیںتاکہ ان کو مسلم لڑکیوں سے ’’عشق ‘‘ فرمانے میں آسانی ہواور مسلم لڑکیاں ان کے دام میں بآسانی پھنس جائیں ۔عشق اندھا ہوتا ہے ؛لیکن شاید آج کے دور میں ہم اندھے اور بہرے ہیں جو کم ازکم ان امور کی طرف کبھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا کہ ہماری بچیاں کہاں جارہی ہیں اور ستم تو یہ ہے کہ ہم کبھی اس ذیل میں کبھی سنجیدہ بھی نہیں ہوسکتے ؛کیوں کہ ہم نے ’’روشن خیالی ‘‘ کا طوق گلے میں ڈال رکھا ہے ۔ سنجیدگی سے اس ذیل میں غور کیجئے ! کہ ہم سے اسلام نے کس امر کا مطالبہ کیا تھا اور ہم اپنی کم بختی ، حرماں نصیبی ؛بلکہ زبوں حالی کی وجہ سے ہم کن امور کو بجا لارہے ہیں ۔ ہر ایک عمل کا ردعمل ہوتاہے اور اسی طرح ہر ایک عمل کے نتائج بھی بھگتنے پڑتے ہیں ۔ قرآن میں صاف لفظوں میں کہا گیا کہ ’’منَ عمل صالحا ً فلنفسہ و من اساء فعلیہا ‘‘ ۔ ہم نے ماضی میں جو اعمال کئے ہیں اب ان کے نتائج ہمارے سامنے ہیں ۔ اب آئیے ! ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟ یہ سب سے اہم سوال ہے کہ ہمیں اس پرفتن دور میں جب کہ دشمنوں کی طرف سے خوفناک اور ہولناک سازش کی جارہی ہے ، نام نہاد مفروضہ عشق کے بہانے مسلم لڑکیوں کو جال میں پھنسایا جارہا ہے ، مسلم لڑکوں کے ساتھ ’’لوجہاد ‘‘ کے نام پر زیادتی اور قتل و خون کا رویہ اپنایا جارہا ہے تو ........اب قد م سنبھال کر اٹھانا ہوگا ، راہ کی تعیین کرتے ہوئے منزل کا پتہ لگانا ہوگا ۔ ماضی میں یہودیوں نے اپنی لڑکیاں مسلم سلاطین کے حرم میں بھیج کر اپنے مقاصد حاصل کئے ، تاریخ شاہد ہے کہ اندلس اسی کی وجہ سے لٹا اور جب آخری فرماںروا لٹتے ہوئے اندلس کو پھوٹ پھوٹ کر رویا تھا ؛لیکن اس وقت رونے سے کیا ہوگا جب جذبہ ٔ ’’اسد اللہی ‘‘ کے اظہار کاوقت تھا تو بزدلوں کی طرح عیار حسیناؤں کے حصار میں تھے۔ لیکن ہندوستان میں ان دشمنان اسلام نے اب نئی ترکیب نکالی ہے وہ ترکیب ہے ’’جھوٹے عشق ‘‘ کا ۔ اب عیار عاشق اپنے آقاؤں کے اشارے پر عشق کے نام پر مسلم لڑکیوں کو برباد کرنے ان کی زندگی اور پاکدامنی کے ساتھ درندوں کی طرح ’ہوس ‘‘ کا انجام دینے کی ٹھان لی ہے ۔ نانڈیز سے شائع ہونے والے معروف اخبار’’سحر ‘‘ کے مطابق مہاراشٹر میں نو ایسی مسلم لڑکیاں ہیں جنہوں نے باضابطہ طور پر غیر مسلم لڑکوں سے شادی کے لیے درخواست دی چکی ہیں ،یہ واقعہ بھی اسی ضمن کا ہے ۔ اس کو بھی سنجیدگی کے ساتھ اس کی تہہ تک پہنچنے کی ضرورت ہے ۔علماء ، قائدین ، اہل محلہ اور اسی طرح گارجین حضرات اس طرف توجہ دیں ورنہ یاد رکھیں کہ وہ دن دور نہیں جب دشمنان ا سلام اپنے مکروہ عزائم میں کامیاب ہوں گے۔ ابھی بھی وقت ہے اس ’’بلا ‘‘کو اپنی جدوجہد سے ٹال سکتے ہیں ۔
 
Top