طالبان آ بھی چکے، جا بھی چکے

قمراحمد

محفلین
طالبان آ بھی چکے، جا بھی چکے

090306160959_hanif_byline_106x60.jpg

محمد حنیف (بی بی سی اردو)
پاکستان میں 'طالبان آرہے ہیں، طالبان آرہے ہیں‘ کی دہائی دینے والوں کے جواب میں ایک ٹھنڈے دل و دماغ والے تجزیہ کار نے پوچھا: کیا آپ واقعی سوچ سکتے ہیں کہ مولانا فضل الحق ایک دن اسلام آباد کے صدارتی محل میں بیٹھا ہوگا اور اسکے پیچھے ملا عمر کا سرکاری پورٹریٹ آویزاں ہوگا؟

تقریباً ہر پاکستانی شہری اس کا جواب نفی میں دے گا پاکستان کی مسلح افواج کبھی ایسا نہیں ہونے دیں گی۔ عوام نے انتخابات میں ہمیشہ ملائیت کو مسترد کیا ہے، ہمارے لوگوں کا اسلام مولوی کا نہیں صوفی کا اسلام ہے، پاکستان کے زیادہ تر لوگ دنیا دار قسم کے لوگ ہیں دھندے پر کبھی سمجھوتا نہیں کرتے چاہے انہیں آخرت کے عذاب سے ڈرایا جائے۔ جب دھندہ زیادہ چل پڑے اور عذاب سے زیادہ ڈر لگنے لگے تو ایک آدھ عمرہ کرکے انشورنس خرید لیتے ہیں، کسی مسجد مدرسے کی تعمیر میں حصہ ڈال لیتے ہیں کبھی کبھار گاڑی کے شیشے پر دستک دیتے اپاہج کو بیس روپے کا نوٹ دے کر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں اور پروردگار کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتے ہیں۔

ان لوگوں کا طالبان کے جہاد سے وہی رشتہ ہے جو فلم بین کا فلم کے ہیرو سے ہوتا ہے۔ گنڈاسا اٹھا کر ظالم جاگیردار کی انتڑیاں نکالنا یا کلاشنکوف اٹھا کر کفار کے کشتوں کے پشتے لگانےکی خواہش سب کے اندر موجود ہے (یا کم از کم پاکستان کے نوجوان مردوں کو اکثر یہ خیال آتا ہے) لیکن دھندے، نوکریاں، اور گھریلو ذمے داریاں اس خواب کے پورا ہونے کی اجازت نہیں دیتیں۔ تو اس پس منظر میں چند ہزار داڑھیوں اور راکٹ لانچروں والے ایک پوری قوم کو کیسے اپنا تابع کریں گے، ایک پورے ملک پر کیسے قابض ہونگے؟

ہر لمبے سفر کی ابتدا ایک چھوٹے سے قدم سے ہوتی ہے اور اگر طالبان کا سفر دیکھا جائے تو انکے پہلے قدم کی سمت آپ کو بتا دیتی ہے کہ کارواں چل پڑا ہے۔ ابھی چند سال پہلے وانا میں بچیاں سکولوں میں جاتی تھیں علیحدہ کلاس روموں میں بیٹھتی تھیں، پردے میں جاتی تھیں لیکن جاتی ضرور تھیں۔ پہلے دھمکیوں والے خط، پھر چھوٹے دھماکے اور پھر بڑے دھماکے۔ اور اگر پھر بھی کوئیی راہ راست پر نہ آئے تو گردن تن سے جدا اور اگر دل میں رحم آجائے تو سر میں صرف ایک گولی۔

لڑکیوں کے سکولوں کے خلاف یہ مہم وانا سے شروع ہوئی تھی آخری اطلاعات کے مطابق لاہور کے مشہور کنیئرڈ کالج کی انتظامیہ نے اپنی طالبات کو جینز اور شرٹ پہننے کی ممانعت کی ہے۔ کسی نے کہا کہ اگر طالبان وہ شلوار قمیض ہی دیکھ لیں جو کنیئرڈ کالج کی لڑکیاں پہنتی ہیں تو انکی راتوں کی نیندیں حرام ہو جایئں۔ لیکن کالج کی انتظامیہ نے کہا ہے کہ انہوں نے یہ اقدام کسی کے ڈر سے نہیں کیا بلکہ کالج کے موجودہ ڈریس کوڈ کو ہی نافذ کرنے کے لیے کیا ہے۔

(جس طرح ہماری بیچاری حکومت مالاکنڈ میں پہلے سے موجود نظام عدل کو صرف نافذ کر رہی تھی) اور سچی بات تو یہ ہے کہ طالبان کو لاہور آنے کی ضرورت ہی نہیں۔ بہت سے لوگ میڈیا پر یہ کہتے پائے جائیں گے اگر شلوار ٹخنے سے اوپر کرنے سے امن عام کی صورت حال بہتر ہو سکتی ہے تو مغرب نواز حلقے اس پر اتنا شور کیوں مچا رہے ہیں۔ اگر ہماری عفت مآب بیٹیوں کو لاہور کے بھونڈی کرنے والوں کی نظر بد سے بچانے کی لیے سر پر دوپٹہ لینے اور جسم کی زیبائش نہ کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے تو اس میں طالبان کہاں سے آگئے۔

آخر یہ تو ہمارا اپنا کلچر ہے، ہم اسکی طرف لوٹ رہے ہیں۔ یہ دلیل دینے والوں کو یہ بھی یاد نہیں رہے گا کہ انکی ماؤں نے کبھی برقعہ نہیں پہنا تھا لیکن اپنی بیٹیوں کو پہنا کر وہ نجانے کس تہذیب کی آبیاری کر رہے ہیں۔ سوات کے شہر منگورہ میں موسیقی اور فلموں کی سی ڈیز بیچنے والی چار سو دکانیں تھیں۔ طالبان آئیں یا جائیں اب یہ دکانیں بہت عرصے کے لیے بند رہیں گی۔ دو مہینے پہلے اس بازار سے گزر ہوا تو ایک دوکاندار کباب بنا کر بیچنے کی کوشش کر رہا تھا۔ بیچارے کو نہ کباب بنانے کا تجربہ تھا نہ بیچنے کا۔ دیکھ لیں، آگئی شریعت۔ اس نے کباب کی سیخیں الٹتے پلٹتے کہا۔

منگورہ لاہور سے بہت دور ہے لیکن یہاں کے تاجران زیادہ جہاں دیدہ ہیں انہوں نے چند مہینے پہلے ہی رضاکارانہ طور پر فحش سی ڈیز اور فلموں کو نذر آتش کیا۔ آزاد عدلیہ نے اس رویے کو آئینی اور قانونی تحفظ فراہم کرتے ہوئے پنجاب کی سب سے مقبول عام گلوکارہ نصیبو لال اور اس کی بہن کے درجنوں گانوں پر پابندی لگا دی۔ لاہور کے تھیٹروں کے باہر چھوٹے دھماکے ہو چکے، بڑوں کا انتظار ہے۔ آپکو معاشرے میں بہت سے لوگ یہ کہتے بھی ملیں گے کہ دراصل ان ڈراموں میں شاید ذومعنی جگتیں ہوتی ہیں اور ان میں لڑکیاں رقص کرتی ہیں شاید اس لیے۔۔۔ غالباً دلیل یہ ہے کہ طالبان اقبال بانو مرحوم کو تو برداشت کر لیں گے لیکن آپ خود ہی بتائیں کیا نصیبو لال کے گانے آپ فیملی کے ساتھ سن سکتے ہیں؟

اب شک ہونے لگا ہے کہ اگر کل کوئیی یہ فتویٰ دے دے کہ پالک کھانا حرام ہے تو پنجاب کے کئی آڑھتی اسے خریدنے اور بیچنے سے اجتناب کریں گے اور کسانوں سے کہیں گے کہ سرسوں کا ساگ اگاؤ وہ ہمارا کلچر ہے، پالک تو آئی مغرب سے ہے۔ اور اگر کوئیی بیچاری خاتون خانہ یہ کہ بیٹھے کہ پالک کو ساگ کے ساتھ اگر نہ پکائیں تو ذائقہ ٹھیک نہیں بنتا تو یقیناً کوئی تاریخ دان ہمیں یہ سمجھائے گا کہ یہ ایک ہندو رسم تھی جو ہماری جاہل خواتین نے اپنا لی ہے۔

خواتین کی ایک اور قسم جو طالبان کے ہراول دستے کے نشانے پر رہتی ہے وہ ہیںNGO میں کام کرنے والی خواتین۔ انکے دفاتر پر حملے، قتل، اغوا اور اغوا کے بعد قتل اتنے تواتر سے ہو رہے ہیں کہ نہ صرف میڈیا ان کی کوریج سرسری انداز میں کرتا ہے بلکہ NGO خود بھی کسی موثر طریقے سے اس کے خلاف آواز اٹھانے سے قاصر ہیں۔ ابھی پچھلے مہینے شنکیاری میں تین خواتین کارکنوں کو گولیاں مار کر جنگل میں پھینکا گیا۔ کسی اخبار نے دو انچ سے زیادہ کی خبر نہیں لگائی۔ کسی ٹی وی چینل کے کسی شو پر کسی تجزیہ نگار نے اس کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ کیوں؟ اس لیے کہ اس خاتون کارکن کش مہم کے تانے بانے تو ہمارے کلچر سے ملتے ہیں۔ ہماری بہنیں اور بیٹیاں، غیر ملکی اداروں سے تنخواہیں لیتی ہیں پھر گاڑیوں اور جیپوں میں بیٹھ کر دور دراز دیہاتوں میں جا کر ہماری معصوم خواتین کو ورغلانے کی کوشش کرتی ہیں یہ بے غیرتی اور بے حیائی کا ایسا امتزاج ہے جس کے خلاف ہمارا میڈیا بھی آواز نہیں اٹھا سکتا۔

مولانا فضل الحق کو شاید صدر پاکستان کے دفتر میں بیٹھنا کبھی نصیب نہ ہو لیکن اس دفتر پر گیارہ سال تک ایک طالب قابض رہا جس کا نام ضیا الحق تھا۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ 'طالبان آرہے ہیں‘ کا نعرہ لگانے والے غلطی پر ہیں۔ کیوں طالبان آ بھی چکے اور جا بھی چکے۔ دوبارہ انہیں آنے کی ضرورت شاید اس لیے نہ پڑے کہ ان کے کام ہم خوش اسلوبی سے سرانجام دے لیں گے۔ کبھی خوف سے اور کبھی شوق سے۔
 
Top