صوبہ خیبر پختون خوا کے جنوبی اضلاع کے ساتھ ناانصافیاں

خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت اور انصاف کے علمبرداروں سے جنوبی اضلاع کے عوام کے ساتھ انصاف کے نام پر سنجیدہ مکالمہ درکار ہے۔
بین الاقوامی سیاست کے طلباء جانتے ہیں، کہ کرہ عرض پر آباد اقوام کے درمیان غربت وامارت، ترقی و پسماندگی اور عدم مساوات و استحصال کے حوالے سے عالمی سطح پر North-South Dialogue یعنی شمال-جنوب کا سیاسی مکالمہ اور کشمکش چلتا رہتا ہے۔ کرہ جنوبی میں آباد ایشیائی، افریقی اور لاطینی امریکہ کے پسماندہ اقوام، کرہ شمالی کے ترقی یافتہ امریکی، یورپی اور ایشیائی اقوام سے بےانصافی اور عدم مساوات کی وجہ سے غیر مطمئن اور نالاں نظر آتے ہیں۔ اور ان کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والا چپقلش، مخاصمت اور بحث چلتا رہتا ہے۔
کچھ اسی قسم کی صورتحال صوبہ خیبر پختونخوا کے شمالی اور جنوبی اضلاع میں آباد قبائلی عوام کے درمیان نظر آرہی ہے۔
یہ صوبہ آئینی طور پر ایک سیاسی اور انتظامی وحدت ہے۔ لیکن اس کی ابادی کی غالب اکثریت قبائلی شناخت اور دیہاتی ساخت کے ساتھ مقامی عصبیتوں کی حقیقی اور تاریخی شعور و ادراک رکھتے ہیں۔ بدقسمتی سے خام قبائلی سماج کو مصنوعی قومی قباء پہنائی گئی ہے۔ اور ان لوگوں کو مذہبی، ثقافتی، لسانی اور نسلی حوالوں سے پاکستانی یا پختون قومیتوں کی مصنوعی تشخص اور شناخت کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پاکستانی قومیت اسلامی بھائی چارے اور نظریاتی اخوت پر قائم ہے، جبکہ پختون قومیت لسانی، نسلی اور ثقافتی حوالوں سے فروغ پائی ہے۔ یہ بات واضح ہے، کہ پاکستان میں پہچان اور شناخت کے قوم پرست اور مصنوعی حوالے ہمیشہ استحصال، عدم مساوات اور غیر منصفانہ سیاسی، سماجی اور معاشی رشتوں اور تعلقات کار کے جواز کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سندھی، بلوچ، پختون اور پنجابی پاکستانی قومیت کے حوالے سے اسلامی بھائی چارے کے باوجود، ایک دوسرے کے ہاتھوں بے انصافی اور استحصال کا شکار ہیں۔
اور بالکل اسی طرح، صوبہ خیبر پختونخوا کے عوام، پختون قومیت کے حوالے سے بھائی چارے اور اخوت کے باوجود بھی، آپس میں سنگین علاقائی تفاوت، طبقاتی ناہمواریوں اور قبائلی تفریق کا شکار ہیں۔
بد قسمتی سے پاکستان میں وفاق صوبوں کا استحصال کرتے ہوئے نظر ارہا ہے، اور صوبائی حکومتیں دور دراز کےاضلاع میں رہائش پذیر قبائلی عوام کے ساتھ بےانصافی اور استحصال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
گزشتہ 70 سال سے صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع کے عوام کو اس قسم کی ناانصافیوں، ناہمواریوں اور محرومیوں کا سامنا ہے۔ قومی بھائی چارے کی مقدس قباء میں ملبوس، مرکزی اور صوبائی حکومتیں، اس علاقے کے عوام کو مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں۔ جنوبی اضلاع کے عوام کو مسلسل پسماندگی میں رکھا گیا ہے۔ ان کے حقوق کو پامال کیا جارہا ہے، اور ان کے ترقی کے سارے امکانات کو معدوم کیا گیا ہے۔ صوبائی خودمختاری کے نشے میں بد مست تنگ نظر، متعصب اور نااہل حکمران شمالی اضلاع کی ترقی اور خوشحالی پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ جبکہ جنوبی اضلاع کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اس علاقے کی ناعاقبت اندیش سیاسی قیادت، جو عمومی طور پر مذہبی پیشواؤں اور روایتی جاگیر داروں کے ہاتھوں میں ہے، چپ سادھ لئے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ صوبائی سطح پر وسائل کی تقسیم انتہائی غیر منصفانہ انداز سے ہورہی ہے۔
مرکزی حکومت سے صوبے کے اجتماعی حقوق کے نام پر وسائل لئے جارہے ہیں، اور چند مخصوص اضلاع پر بے دریغ خرچ کئے جارہے ہیں۔
عصر حاضر میں CPEC کے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے عالمی اور علاقائی سطح پر تعمیر نو کا وسیع تر انقلابی عمل چل رہا ہے۔ شہروں، علاقوں اور لوگوں کی قسمتوں کے متعلق دور رس فیصلے ہورہےہیں۔ شاہراہوں، اقتصادی راہداریوں، ترقیاتی منصوبوں اور تجارتی منڈیوں کاجال بچھایا جارہاہے۔ لیکن شومئی قسمت کہ تقدیر سازی کے ان تاریخی لمحوں میں جنوبی اضلاع کے ساتھ تاریخی بےانصافی ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
اندھی سیاست کی جبر اور قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے، کہ صوبے میں بننے والے 10 اقتصادی زونز میں سے ایک بھی جنوبی اضلاع کو نہیں مل سکا۔
ستم پر ستم دیکھئے، کہ وسط ایشیا کے ساتھ تجارت کے لئے درہ بولان، درہ گومل، درہ ٹوچی اور درہ کرم کے وسیع وعریض شاہراہوں کے امکانات کو نظر انداز کرتے ہوئے، درہ خیبر کے تنگ اور طویل ترین راستے پر اقتصادی راہداریاں بنائی جارہی ہیں۔
تاریخ کے عام طالب علم جانتے ہیں، کہ صدیوں سے درہ خیبر کی اہمیت کبھی بھی تجارتی مقاصد کے لیے نہیں رہی ہے۔ یہ درہ دفاعی اہمیت کا حامل ہے۔ جو عسکری مقاصد کے لیے استعمال ہوتا آرہا ہے۔ جبکہ گوادر کی بندرگاہ کے لیے وسطی ایشیاء تک موزوں ترین رسائی بولان، گومل، ٹوچی اور کرم کے راستے سے ہی ممکن ہوسکتی ہے۔
وسائل کی تقسیم اور بندربانٹ کا موجودہ انداز شاید پشتون روایات کی غمازی کرتا ہوا نظر آتا ہو۔ جس میں بے انصافی، جبر، سینہ زوری اور چیرہ دستی کی روایت واضح طور نظر آرہی ہے۔ لیکن یہ انداز کسی بھی حوالے سے مہذب دنیا اور شائستہ اقوام کے لئے قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ یہ بات واضح ہے، کہ اگر پختون قومیت اور بھائی چارہ انصاف کرنے سے قاصر ہے، اور اپنے پختون عوام کے ساتھ برابری اور مساوات کا سلوک نہیں کر سکتا، تو جنوبی اضلاع کے عوام کو سوچنا ہوگا۔ کہ علاقے کے مفادات کے حوالے سے مزید قربانی کے جانور نہ بنیں۔ اور اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے کی جسارت کریں۔ اور اپنے مقدر کے حوالے سے فیصلوں پر اپنے مفادات کی روشنی میں غور وفکر کرنے کی کوشش کریں۔ مثلاً پانی کی تقسیم کے متعلق صوبائی موقف پر نظر ثانی کریں۔ کالاباغ ڈیم کے حوالے سے اپنے ترجیحات کا تعین کریں۔ گیس، تیل، یورینئم اور دوسرے معدنیات کی رائلٹی کے محصولات پر سوالات اٹھائیں۔ صوبے کے تشکیل نو کے امکانات پر غور کریں۔ اور عوام کے وسیع تر مفاد میں صوبائی سطح پر نئے معائدہ عمرانی کی تشکیل کے لئے کام کریں۔
کیونکہ اگر پختون بھائی انصاف کرنے سے قاصر ہیں، تو پنجاب کے ساتھ مصلحت اندیش تعاون میں کیا مضائقہ ہے؟
صوبائی حکومتیں اور غالب پختون بھائی کیوں نہیں سمجھتے، کہ استحصال اور بے انصافی کی فضا میں عوامی سطح پر قبائلی عصبیتوں، دوریوں اور نفرتوں کو مزید فروغ مل رہا ہے۔ میرے خیال میں وقت آچکا ہے، کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں سنجیدگی کے ساتھ
NORTH-SOUTH DIALOGUE
کا آغاز کیا جائے۔
(کاپی)
 
Top