صوبائی اسمبلیاں تحلیل یا گورنر راج، پی ٹی آئی کا اجلاس، پنجاب اور KP اسمبلی توڑنے کے فیصلے کی توثیق، اسمبلی بچانے کیلئے آخری حد تک جائیں گے، ن لیگ

29 نومبر ، 2022

لاہور، اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں، نمائندہ جنگ، مانیٹرنگ ڈیسک) پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل ہونگی یا وہاں گورنر راج کا لگے گا، پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی جانب سے اسمبلیوں سے نکلنے کے اعلان کے بعد پاکستان تحریک انصاف کا مشاورتی اجلاس لاہور میں ہوا جس میں پنجاب اسمبلی اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کے فیصلے کی توثیق کردی گئی، دوسری جانب حکمراں اتحاد نے پنجاب اسمبلی بچانے کیلئے کوششیں تیز کردیں، وزیراعظم شہباز شریف نے بھی سابق صدر آصف علی زرداری سے رابطہ کیا ہے جس میں پنجاب میں حکومت کی تبدیلی سمیت تمام آپشنز پر غور کیا گیا، ن لیگ کا کہنا ہے کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کو روکنے کیلئے آخری حد تک جائینگے، ن لیگ پنجاب کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں گورنر راج لگانے اور وزیراعلیٰ پنجاب کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے سمیت کئی آپشنز پر غور کیا گیا، اجلاس کے شرکاء کا کہنا تھا کہ عمران خان کی صورت میں آمر اسمبلیوں کے پیچھے پڑ گیا، تحلیل روکنے کیلئے سیاسی، قانونی آپشنز استعمال کئے جائینگے، جبکہ وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے آدھے سے زیادہ لوگ رابطے میں ہیں کہ استعفے منظور نہ کرنا، جبکہ پی ٹی آئی کے فواد چوہدری کہنا ہے کہ جمعہ اور ہفتہ کو پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے بعد اسمبلیاں تحلیل کر دی جائینگی، اسمبلی توڑنا چیف منسٹرکا حق ہے، اسد قیصر کا کہنا تھا کہ اسمبلی تحلیل کرنے سے متعلق کوئی بھی فیصلہ جذبات میں نہیں کرینگے۔ تفصیلات کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے اسمبلیوں سے نکلنے کے اعلان کے بعد تحریک انصاف کے مشاورتی اجلاس میں پنجاب اورخیبرپختونخوا اسمبلی توڑنے کے فیصلے کی توثیق کی گئی۔فواد چوہدری نے کہا ہمارے استعفوں کے بعد ملک بھر میں567نشستیں خالی ہونگی،سندھ اوربلو چستان میں ہمارے اراکین اسمبلی استعفے جمع کرائیں گے۔ عمران خان کے زیر صدارت پی ٹی آئی سینئر لیڈر شپ کے اجلاس کا انعقاد کیا گیا، اجلاس میں پنجاب، کے پی کے اور سندھ سے لیڈر شپ شریک ہوئی۔ اجلاس میں اسد عمر، شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری، وزیر اعلیٰ کے پی کے محمود خان، شفقت محمود، تیمور جھگڑا، بابر اعوان، جمشید چیمہ، اعجاز چوہدری، فردوس شمیم نقوی، عثمان بزدار، اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان، ڈاکٹر یاسمین راشد، سینئر صوبائی وزیر میاں اسلم اقبال، میاں محمود الرشید، سیکرٹری اطلاعات فرخ حبیب، قاسم سوری اور پارٹی کے دیگر رہنما بھی شریک ہوئے۔ بابر اعوان اور علی ظفر کی طرف سے اجلاس کے شرکا کو آئینی اور قانونی معاملات پر بریفنگ دی گئی، اسمبلی سے مستعفی ہونے کیلئے آئینی مرحلہ سے آگاہ کیا گیا۔ اجلاس میں حکومت مخالف تحریک کے مزید آپشنز کا بھی جائزہ لیا گیام،قانونی ماہرین نے بریفنگ میں بتایا کہ اسمبلیاں تحلیل ہوتی ہیں تو نگران سیٹ اپ تک موجودہ وزیراعلیٰ ہی رہیں گے، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نگران سیٹ اپ پر اتفاق نہ ہوا تو الیکشن کمیشن فیصلہ کریگا، نگران سیٹ اپ کا اختیار الیکشن کمیشن کو ملنے سے فائدہ پی ڈی ایم کو ہو گا۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے مشاورتی اجلاس میں اسمبلیاں تحلیل کرنے یا مستعفی ہونے کا اختیار سابق وزیراعظم عمران خان کو دیدیا گیا، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے کہا کہ پارٹی چیئرمین جو فیصلہ کرینگے اس پر من و عن عمل ہوگا۔ اجلاس کے دوران فیصلہ کیا گیا کہ کسی بھی اہم فیصلے سے قبل وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی اور مونس الٰہی کو بھی اعتماد میں لینے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ عمران خان پنجاب اور خیبرپختونخوا کی پارلیمانی پارٹی کو اعتماد میں لینگے جبکہ عمران خان اور پرویز الٰہی کی آج ملاقات کا بھی امکان ہے۔ اس سے قبل وزیر اعلی کے پی کے محمود احمد خان سے آج کے اجلاس میں ملاقات ہوچکی ہے۔ اجلاس میں اسمبلی تحلیل کرنے کے حوالے سے آئینی اپشن کا جائزہ لینے کیلئے کمیٹی تشکیل دی گئی جسکی سربراہی سابق وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کرینگے، دیگر ممبران میں سبطین خان، میاں اسلم اقبال، میاں محمود الرشید بھی شامل ہیں۔ اجلاس کے بعد لاہور زمان پارک کے باہر میڈیا سے گفتگو میں فواد چوہدری نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی کی مشاورت کے بعد پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی کو تحلیل کرنے کی تاریخ کا اعلان کر دیا جائیگا، اسپیکر قومی اسمبلی کوبھی پی ٹی آئی اراکین کے استعفے منظور کرنے کا کہا جائیگا،آئینی طورپرپنجاب اور کےپی کے میں90روز میں انتخابات کرانا ہونگے، عمران خان نے جمعےکو پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلایا ہے۔ ادھر مسلم لیگ (ن) کے رہنما عطا تارڑ نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی پنجاب اسمبلی بچانے کیلئے آخری حد تک جائیگی، حکمراں اتحاد نے پنجاب اسمبلی بچانے کیلئے کوششیں تیز کردیں، اسپیکر الیکشن اور ہمارے ایم پی ایز معطلی کی پٹیشنزابھی تک سرد خانے میں پڑی ہیں ،عدالت دونوں کیسز کو لگا کر فیصلہ کرے۔عظمیٰ بخاری نے کہا پہلے آمر آج عمران خان ایسے مطالبے کر رہے ہیں۔اس سلسلہ میں وزیر اعظم شہباز شریف نے سابق صدر آصف علی زرداری سے رابطہ کیا جس میںحکومت کی تبدیلی سمیت تمام آپشنز پر غور کیا گیا،ن لیگ پنجاب کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میںگورنر راج اور وزیراعلیٰ کیخلاف تحریک عدم اعتماد پر بھی غورکیا گیا۔
 

جاسم محمد

محفلین
29 نومبر ، 2022

لاہور، اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں، نمائندہ جنگ، مانیٹرنگ ڈیسک) پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل ہونگی یا وہاں گورنر راج کا لگے گا، پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی جانب سے اسمبلیوں سے نکلنے کے اعلان کے بعد پاکستان تحریک انصاف کا مشاورتی اجلاس لاہور میں ہوا جس میں پنجاب اسمبلی اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کے فیصلے کی توثیق کردی گئی، دوسری جانب حکمراں اتحاد نے پنجاب اسمبلی بچانے کیلئے کوششیں تیز کردیں، وزیراعظم شہباز شریف نے بھی سابق صدر آصف علی زرداری سے رابطہ کیا ہے جس میں پنجاب میں حکومت کی تبدیلی سمیت تمام آپشنز پر غور کیا گیا، ن لیگ کا کہنا ہے کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کو روکنے کیلئے آخری حد تک جائینگے، ن لیگ پنجاب کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں گورنر راج لگانے اور وزیراعلیٰ پنجاب کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے سمیت کئی آپشنز پر غور کیا گیا، اجلاس کے شرکاء کا کہنا تھا کہ عمران خان کی صورت میں آمر اسمبلیوں کے پیچھے پڑ گیا، تحلیل روکنے کیلئے سیاسی، قانونی آپشنز استعمال کئے جائینگے، جبکہ وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے آدھے سے زیادہ لوگ رابطے میں ہیں کہ استعفے منظور نہ کرنا، جبکہ پی ٹی آئی کے فواد چوہدری کہنا ہے کہ جمعہ اور ہفتہ کو پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے بعد اسمبلیاں تحلیل کر دی جائینگی، اسمبلی توڑنا چیف منسٹرکا حق ہے، اسد قیصر کا کہنا تھا کہ اسمبلی تحلیل کرنے سے متعلق کوئی بھی فیصلہ جذبات میں نہیں کرینگے۔ تفصیلات کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے اسمبلیوں سے نکلنے کے اعلان کے بعد تحریک انصاف کے مشاورتی اجلاس میں پنجاب اورخیبرپختونخوا اسمبلی توڑنے کے فیصلے کی توثیق کی گئی۔فواد چوہدری نے کہا ہمارے استعفوں کے بعد ملک بھر میں567نشستیں خالی ہونگی،سندھ اوربلو چستان میں ہمارے اراکین اسمبلی استعفے جمع کرائیں گے۔ عمران خان کے زیر صدارت پی ٹی آئی سینئر لیڈر شپ کے اجلاس کا انعقاد کیا گیا، اجلاس میں پنجاب، کے پی کے اور سندھ سے لیڈر شپ شریک ہوئی۔ اجلاس میں اسد عمر، شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری، وزیر اعلیٰ کے پی کے محمود خان، شفقت محمود، تیمور جھگڑا، بابر اعوان، جمشید چیمہ، اعجاز چوہدری، فردوس شمیم نقوی، عثمان بزدار، اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان، ڈاکٹر یاسمین راشد، سینئر صوبائی وزیر میاں اسلم اقبال، میاں محمود الرشید، سیکرٹری اطلاعات فرخ حبیب، قاسم سوری اور پارٹی کے دیگر رہنما بھی شریک ہوئے۔ بابر اعوان اور علی ظفر کی طرف سے اجلاس کے شرکا کو آئینی اور قانونی معاملات پر بریفنگ دی گئی، اسمبلی سے مستعفی ہونے کیلئے آئینی مرحلہ سے آگاہ کیا گیا۔ اجلاس میں حکومت مخالف تحریک کے مزید آپشنز کا بھی جائزہ لیا گیام،قانونی ماہرین نے بریفنگ میں بتایا کہ اسمبلیاں تحلیل ہوتی ہیں تو نگران سیٹ اپ تک موجودہ وزیراعلیٰ ہی رہیں گے، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نگران سیٹ اپ پر اتفاق نہ ہوا تو الیکشن کمیشن فیصلہ کریگا، نگران سیٹ اپ کا اختیار الیکشن کمیشن کو ملنے سے فائدہ پی ڈی ایم کو ہو گا۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے مشاورتی اجلاس میں اسمبلیاں تحلیل کرنے یا مستعفی ہونے کا اختیار سابق وزیراعظم عمران خان کو دیدیا گیا، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے کہا کہ پارٹی چیئرمین جو فیصلہ کرینگے اس پر من و عن عمل ہوگا۔ اجلاس کے دوران فیصلہ کیا گیا کہ کسی بھی اہم فیصلے سے قبل وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی اور مونس الٰہی کو بھی اعتماد میں لینے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ عمران خان پنجاب اور خیبرپختونخوا کی پارلیمانی پارٹی کو اعتماد میں لینگے جبکہ عمران خان اور پرویز الٰہی کی آج ملاقات کا بھی امکان ہے۔ اس سے قبل وزیر اعلی کے پی کے محمود احمد خان سے آج کے اجلاس میں ملاقات ہوچکی ہے۔ اجلاس میں اسمبلی تحلیل کرنے کے حوالے سے آئینی اپشن کا جائزہ لینے کیلئے کمیٹی تشکیل دی گئی جسکی سربراہی سابق وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کرینگے، دیگر ممبران میں سبطین خان، میاں اسلم اقبال، میاں محمود الرشید بھی شامل ہیں۔ اجلاس کے بعد لاہور زمان پارک کے باہر میڈیا سے گفتگو میں فواد چوہدری نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی کی مشاورت کے بعد پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی کو تحلیل کرنے کی تاریخ کا اعلان کر دیا جائیگا، اسپیکر قومی اسمبلی کوبھی پی ٹی آئی اراکین کے استعفے منظور کرنے کا کہا جائیگا،آئینی طورپرپنجاب اور کےپی کے میں90روز میں انتخابات کرانا ہونگے، عمران خان نے جمعےکو پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلایا ہے۔ ادھر مسلم لیگ (ن) کے رہنما عطا تارڑ نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی پنجاب اسمبلی بچانے کیلئے آخری حد تک جائیگی، حکمراں اتحاد نے پنجاب اسمبلی بچانے کیلئے کوششیں تیز کردیں، اسپیکر الیکشن اور ہمارے ایم پی ایز معطلی کی پٹیشنزابھی تک سرد خانے میں پڑی ہیں ،عدالت دونوں کیسز کو لگا کر فیصلہ کرے۔عظمیٰ بخاری نے کہا پہلے آمر آج عمران خان ایسے مطالبے کر رہے ہیں۔اس سلسلہ میں وزیر اعظم شہباز شریف نے سابق صدر آصف علی زرداری سے رابطہ کیا جس میںحکومت کی تبدیلی سمیت تمام آپشنز پر غور کیا گیا،ن لیگ پنجاب کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میںگورنر راج اور وزیراعلیٰ کیخلاف تحریک عدم اعتماد پر بھی غورکیا گیا۔
آئین و قانون کے تحت اسمبلیاں توڑنا وزرا اعلی کا آئینی استحقاق ہے۔ اپوزیشن کسی حد تک بھی چلی جائے۔ جب عمران خان کہیں گے صوبائی وزرا اعلی اسمبلیاں توڑ دیں گے۔ اس معاملہ میں اسٹیبلشمنٹ یا عدالت بھی اپوزیشن کی کوئی مدد نہیں کر سکتی۔
علی وقار محمد عبدالرؤوف عبدالقیوم چوہدری سیما علی سید عاطف علی محمد وارث
 

علی وقار

محفلین
آئین و قانون کے تحت اسمبلیاں توڑنا وزرا اعلی کا آئینی استحقاق ہے۔ اپوزیشن کسی حد تک بھی چلی جائے۔ جب عمران خان کہیں گے صوبائی وزرا اعلی اسمبلیاں توڑ دیں گے۔ اس معاملہ میں اسٹیبلشمنٹ یا عدالت بھی اپوزیشن کی کوئی مدد نہیں کر سکتی۔
علی وقار محمد عبدالرؤوف عبدالقیوم چوہدری سیما علی سید عاطف علی محمد وارث
عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنا اپوزیشن کا حق ہے جسے حیلے بہانے سے روکنا غلط اور غیر جمہوری رویہ ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست کہ اسمبلی تحلیل کرنا وزیراعلیٰ کا صوابدیدی اختیار ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنا اپوزیشن کا حق ہے جسے حیلے بہانے سے روکنا غلط اور غیر جمہوری رویہ ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست کہ اسمبلی تحلیل کرنا وزیراعلیٰ کا صوابدیدی اختیار ہے۔
بالکل۔ جیسے عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنا اپوزیشن کا آئینی حق ہے، بالکل ویسے ہی وزیر اعلی کا اسمبلی تحلیل کرنا اس کا آئینی حق ہے۔ اب اگر اپوزیشن اسمبلی تحلیل کرنے سے روکنے کیلئے تحریک عدم اعتماد لانا چاہ رہی ہے تو حکومت بھی اسمبلی تحلیل کو کامیاب بنانے کیلئے اسمبلی کے اجلاس کو لمبا کھینچ رہی ہے۔ یعنی دونوں طرف کے فریق اپنے اپنے مطلوبہ سیاسی نتائج حاصل کرنے کیلئے آئین کیساتھ رسی کشی میں مصروف ہیں۔
مجھے پورا یقین ہے کہ آئین بنانے والوں نے یہ دن دیکھنے کیلئے تحریک عدم اعتماد و اسمبلی کی قبل از وقت تحلیل کو آئین کا حصہ نہیں بنایا تھا۔ مگر جب مارچ ۲۰۲۲ میں آئین آئین کا ڈھنڈورا پیٹ کر سیاسی انجینئرنگ کا آغاز کر دیا گیا تو پھر متاثرہ فریق سے شرافت کی توقع کیوں؟ وہ بھی اب آئین آئین کرتا اسمبلیاں تحلیل کر دیگا اور اپوزیشن ہاتھ ملتے رہ جائے گی 😉
 

جاسم محمد

محفلین
عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنا اپوزیشن کا حق ہے جسے حیلے بہانے سے روکنا غلط اور غیر جمہوری رویہ ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست کہ اسمبلی تحلیل کرنا وزیراعلیٰ کا صوابدیدی اختیار ہے۔
عمران خان نے نئی اسٹیبلشمنٹ کی نیوٹرلٹی چیک کرنے کیلئے دانہ ڈال دیا ہے 😁
 

علی وقار

محفلین
بات سیدھی سی ہے کہ عمران خان حکومت سے نکالے جانے کے بعد بہت زیادہ مقبول ہو چکے ہیں اور جلد انتخابات کا مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں۔ اسمبلیاں توڑنے کا آپشن بھی ان کے پاس موجود ہے جسے وہ استعمال کر سکتے ہیں اس لیے بہتر آپشن بظاہر یہی ہے کہ حکومت تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کرے اور ملک میں مارچ اپریل میں نئے عام انتخابات کروا دیے جائیں، وگرنہ دوسری صورت میں معاملات مزید بگڑ سکتے ہیں اور ملکی معیشت کا سوا ستیاناس ہو سکتا ہے جو پہلے ہی جان کنی کے عالم میں ہے۔ پی ڈی ایم اقتدار میں جس مقصد یا جن مقاصد کے لیے آیا تھا، ان میں سے بیشتر پورے ہو چکے ہیں۔ اب وہ معیشت ٹھیک (؟) کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ مشکل اور طویل کام ہے سو زیادہ انتظار مناسب نہیں، بالخصوص اس صورت میں کہ عمران کی جانب سے اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد معاملات ان کے قابو سے یکسر باہر ہو سکتے ہیں۔ سیاسی لحاظ سے ایک اور نسبتاً محفوظ آپشن یہ ہے کہ عمران خان کی جانب سے اسمبلیوں کے تحلیل ہونے کا انتظار کیا جائے اور تب تک انہیں اس اقدام سے باز رکھنے کی کوشش کی جائے اور ہر ممکن و جائز حربہ استعمال کیا جائے اور ناکامی پر، خود بھی نئے عام انتخابات کی طرف چلے جائیں۔
 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
جس طرح پی ڈی ایم کو یہ خوف تھا کہ باجوہ کے بعد فیض تین یا چھ سال کے لیے بطور آرمی چیف مسلط ہو جائیں گے اور ان کی شامت اعمال لائیں گے، بعینہ یہی خوف عمران خان اینڈ کمپنی کو بھی ہے کہ اگر عام انتخابات کا ڈول جلد نہ ڈالا گیا تو ان پر بہت زیادہ کیسز کھل سکتے ہیں، وہ زیادہ وقت گزرنے پر کم مقبول ہو سکتے ہیں، اور یہ کہ نواز شریف پلٹ کر آ سکتے ہیں یعنی کہ لیول پلیئنگ فیلڈ، وغیرہ کا اہتمام کیا جا سکتا ہے، پی ڈی ایم عوام کو ممکنہ طور پر ریلیف فراہم کر کے اپنی پوزیشن قدرے بہتر بنا سکتی ہے۔ اس وقت عام انتخابات کا انعقاد عمران خان کے لیے موزوں ترین آپشن ہے اور بصورت دیگر اگر وہ صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر کے دوبارہ فتح یاب ہو کر آ جاتے ہیں تو یہ بھی ان کے حق میں موزوں ہے۔ انہیں شاید یہ ایشو لگ رہا ہو گا کہ کہیں اسمبلیاں تحلیل کرنے کے بعد یا قبل معاملات عدالت میں نہ چلے جائیں اور صوبائی الیکشن تاخیر کا شکار نہ ہو جائیں گو کہ آئین میں اس کی گنجائش نہیں ہے مگر یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے کہ حالات غیر معمولی ہیں۔ ایک خطرہ ان کے لیے یہ بھی منڈلا رہا ہے کہ جب وہ صوبائی حکومتیں چھوڑیں گے تو ان پر مقدمات قائم کیا جانا نسبتاً آسان ہو جائے گا اور وہ طاقت کے مراکز سے نکل کر کسی حدتک بے یقینی کا شکار ضرور ہو جائیں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
جس طرح پی ڈی ایم کو یہ خوف تھا کہ باجوہ کے بعد فیض تین یا چھ سال کے لیے بطور آرمی چیف مسلط ہو جائیں گے اور ان کی شامت اعمال لائیں گے، بعینہ یہی خوف عمران خان اینڈ کمپنی کو بھی ہے کہ اگر عام انتخابات کا ڈول جلد نہ ڈالا گیا تو ان پر بہت زیادہ کیسز کھل سکتے ہیں، وہ زیادہ وقت گزرنے پر کم مقبول ہو سکتے ہیں، اور یہ کہ نواز شریف پلٹ کر آ سکتے ہیں یعنی کہ لیول پلیئنگ فیلڈ، وغیرہ کا اہتمام کیا جا سکتا ہے، پی ڈی ایم عوام کو ممکنہ طور پر ریلیف فراہم کر کے اپنی پوزیشن قدرے بہتر بنا سکتی ہے۔ اس وقت عام انتخابات کا انعقاد عمران خان کے لیے موزوں ترین آپشن ہے اور بصورت دیگر اگر وہ صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر کے دوبارہ فتح یاب ہو کر آ جاتے ہیں تو یہ بھی ان کے حق میں موزوں ہے۔ انہیں شاید یہ ایشو لگ رہا ہو گا کہ کہیں اسمبلیاں تحلیل کرنے کے بعد یا قبل معاملات عدالت میں نہ چلے جائیں اور صوبائی الیکشن تاخیر کا شکار نہ ہو جائیں گو کہ آئین میں اس کی گنجائش نہیں ہے مگر یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے کہ حالات غیر معمولی ہیں۔ ایک خطرہ ان کے لیے یہ بھی منڈلا رہا ہے کہ جب وہ صوبائی حکومتیں چھوڑیں گے تو ان پر مقدمات قائم کیا جانا نسبتاً آسان ہو جائے گا اور وہ طاقت کے مراکز سے نکل کر کسی حدتک بے یقینی کا شکار ضرور ہو جائیں گے۔
چونکہ فوج اب نیوٹرل ہو گئی ہے اور عدالتیں آزاد ہیں۔ تو پی ٹی آئی اور ان کے حامی صحافیوں کو اب ان مقدمات سے گھبرانے کی قطعی ضرورت نہیں۔ عمران خان نے اپنے دور حکومت میں اپوزیشن اور ان کے حامی صحافیوں پر اتنے مقدمات بنوائے مگر ان میں سے نکلا کچھ بھی نہیں۔ تو موجودہ حکومت بھی یہ کوشش کر کے دیکھ لے۔ پہلے ہی عمران خان پر ۲۲ ایف آئی آر کٹ چکی ہیں۔ ان میں سے اب تک کیا نکلا جو آئیندہ مزید مقدمات سے نکل آئے گا؟
 

جاسم محمد

محفلین
پی ڈی ایم اقتدار میں جس مقصد یا جن مقاصد کے لیے آیا تھا، ان میں سے بیشتر پورے ہو چکے ہیں۔ اب وہ معیشت ٹھیک (؟) کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ مشکل اور طویل کام ہے سو زیادہ انتظار مناسب نہیں
عمران خان کا اسٹیبلشمنٹ سے ایک بڑا گلہ یہ بھی ہے کہ ۲۰۱۸ میں مجھے قریبا دیوالیہ ملک دیا گیا جس کو میں نے تین سال جان ماری کر کے کافی حد تک پٹڑی پر چڑھا دیا۔ اب جب یوکرین روس جنگ کی وجہ سے دنیا کے معاشی حالات مشکلات میں جا رہے تھے تو عین اس وقت رجیم چینج آپریشن کر کے ملک کی معیشت برباد کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ عمران خان نے اس وقت اپنا وزیر خزانہ اسٹیبلشمنٹ کو یہی بات سمجھانے کیلئے بھیجا بھی تھا کہ ملک کی معیشت بچانے کیلئے اس رجیم چینج آپریشن کو روکیں۔ مگر اس وقت تو اسٹیبلشمنٹ کے سر پر نیوٹرلٹی اور آئین کا بھوت سوار تھا۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کو سبق سکھانے کے چکر میں سب کچھ تہس نہس کر دیا۔ اب عمران خان پاگل ہی ہوگا جو اس دیوالیہ معیشت کو ایک بار پھر سے ٹھیک کرنے کیلیے اقتدار میں آجائے جب تک اسٹیبلشمنٹ سے ماضی کی غلطیوں پر تلافی نہیں ملتی
 

علی وقار

محفلین
چونکہ فوج اب نیوٹرل ہو گئی ہے اور عدالتیں آزاد ہیں۔ تو پی ٹی آئی اور ان کے حامی صحافیوں کو اب ان مقدمات سے گھبرانے کی قطعی ضرورت نہیں۔ عمران خان نے اپنے دور حکومت میں اپوزیشن اور ان کے حامی صحافیوں پر اتنے مقدمات بنوائے مگر ان میں سے نکلا کچھ بھی نہیں۔ تو موجودہ حکومت بھی یہ کوشش کر کے دیکھ لے۔ پہلے ہی عمران خان پر ۲۲ ایف آئی آر کٹ چکی ہیں۔ ان میں سے اب تک کیا نکلا جو آئیندہ مزید مقدمات سے نکل آئے گا؟
پہلے باجوہ کے ہوتے ہوئے انہیں کسی حد تک بوجوہ پروٹیکشن حاصل تھی مگر جب وہ آل آؤٹ جائیں گے تو وفاقی حکومت مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق آل آؤٹ جا سکتی ہے۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ مقدمات میں تو جان ہوتی ہی نہیں، یا پیدا ہی نہیں کی جاتی، وگرنہ پھنسائے جانے کے لیے ایک معمولی مقدمہ بھی بہت ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ عمران کے خلاف کیسز کھل ہی نہیں سکتے، دیکھنا یہ ہو گا کہ نظام کے اندر ان کے لیے کس قدر سپورٹ موجود ہے۔
 

علی وقار

محفلین
عمران خان کا اسٹیبلشمنٹ سے ایک بڑا گلہ یہ بھی ہے کہ ۲۰۱۸ میں مجھے قریبا دیوالیہ ملک دیا گیا جس کو میں نے تین سال جان ماری کر کے کافی حد تک پٹڑی پر چڑھا دیا۔ اب جب یوکرین روس جنگ کی وجہ سے دنیا کے معاشی حالات مشکلات میں جا رہے تھے تو عین اس وقت رجیم چینج آپریشن کر کے ملک کی معیشت برباد کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ عمران خان نے اس وقت اپنا وزیر خزانہ اسٹیبلشمنٹ کو یہی بات سمجھانے کیلئے بھیجا بھی تھا کہ ملک کی معیشت بچانے کیلئے اس رجیم چینج آپریشن کو روکیں۔ مگر اس وقت تو اسٹیبلشمنٹ کے سر پر نیوٹرلٹی اور آئین کا بھوت سوار تھا۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کو سبق سکھانے کے چکر میں سب کچھ تہس نہس کر دیا۔ اب عمران خان پاگل ہی ہوگا جو اس دیوالیہ معیشت کو ایک بار پھر سے ٹھیک کرنے کیلیے اقتدار میں آجائے جب تک اسٹیبلشمنٹ سے ماضی کی غلطیوں پر تلافی نہیں ملتی
عمران دور بھی ہمیں بھولا نہیں، تب بھی حالات دگرگوں ہی تھے۔
 

جاسم محمد

محفلین
پہلے باجوہ کے ہوتے ہوئے انہیں کسی حد تک بوجوہ پروٹیکشن حاصل تھی
میں اس سے اتفاق نہیں کرتا کہ جنرل باجوہ یا ان کے نیچے کور کمانڈرز کی حمایت کی وجہ سے عمران خان و پی ٹی آئی کو پروٹیکشن حاصل تھی۔ اگر ایسا ہوتا تو پی ٹی آئی تین ماہ سے جنرل فیصل نصیر کے خلاف چیخیں نہ مار رہی ہوتی۔ عمران خان پر قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر میں جنرل فیصل نصیر کا نام اب تک ڈل چکا ہوتا۔ میرے خیال میں سسٹم کے اندر سے جو عمران خان کو حمایت حاصل تھی وہ رجیم چینج آپریشن سے قبل تک ختم ہو چکی تھی۔ وگرنہ اگر کہیں تھوڑی سی بھی حمایت ہوتی تو یہ رجیم چینج آپریشن روک دیا جاتا
 

علی وقار

محفلین
میں اس سے اتفاق نہیں کرتا کہ جنرل باجوہ یا ان کے نیچے کور کمانڈرز کی حمایت کی وجہ سے عمران خان و پی ٹی آئی کو پروٹیکشن حاصل تھی۔ اگر ایسا ہوتا تو پی ٹی آئی تین ماہ سے جنرل فیصل نصیر کے خلاف چیخیں نہ مار رہی ہوتی۔ عمران خان پر قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر میں جنرل فیصل نصیر کا نام اب تک ڈل چکا ہوتا۔ میرے خیال میں سسٹم کے اندر سے جو عمران خان کو حمایت حاصل تھی وہ رجیم چینج آپریشن سے قبل تک ختم ہو چکی تھی۔ وگرنہ اگر کہیں تھوڑی سی بھی حمایت ہوتی تو یہ رجیم چینج آپریشن روک دیا جاتا
جنرل فیصل نصیر اس دھڑے کی نمائندگی کرتے ہیں جو اینٹی عمران کہا جا سکتا ہے مگر باجوہ تو زیادہ تر نیوٹرل تھے اور معاملات کو ٹھنڈا کرنے کی کوششوں میں مصروف رہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
جنرل فیصل نصیر اس دھڑے کی نمائندگی کرتے ہیں جو اینٹی عمران کہا جا سکتا ہے مگر باجوہ تو زیادہ تر نیوٹرل تھے اور معاملات کو ٹھنڈا کرنے کی کوششوں میں مصروف رہے۔
فوجی اسٹیبلشمنٹ کے اندر اہم ترین پوسٹنگ ٹرانسفر آرمی چیف ہی کرتا ہے۔ باجوہ اگر واقعی نیوٹرل تھا تو جب وزیر اعظم عمران خان نے اپنا آئینی استحقاق استعمال کرتے ہوئے جنرل فیض کو ڈی جی آئی ایس آئی برقرار رکھنا چاہا تو اس نے اڑی کیوں دکھائی؟ اور پھر جب وزیر اعظم نے اسکی بات مان کر جنرل ندیم انجم کو ڈی جی آئی ایس آئی بنا دیا تو پھر کیوں ایک پیج پھٹنے اور نیوٹرل ہو جانے کا ڈھنڈورا پیٹا؟
میرے تو خیال میں جنرل فیض کو ہٹا کر جنرل ندیم انجم کو لایا ہی اس مقصد کیلئے گیا تھا کہ وہ مارچ ۲۰۲۲ میں ہونے والے رجیم چینج آپریشن میں معاونت فراہم کرے۔ زرداری نے آن ریکارڈ ایک جلسہ میں نومبر ۲۰۲۱ میں ہی کہہ دیا تھا کہ ان سے رابطہ کیا گیا ہے کہ اس حکومت کو گھر بھیجنے کیلئے کوئی فارمولہ بنائیں۔ یعنی جنرل ندیم انجم کوئی نیوٹرل شخص نہیں۔ اس کو جنرل باجوہ ایک خاص مقصد کے تحت ڈی جی آئی ایس آئی بنا کر لائے تھے۔ اور وہ اس کی مضحکہ خیز بغض عمران سیاسی پریس کانفرنس سے ثابت بھی ہو چکا ہے
 

علی وقار

محفلین
فوجی اسٹیبلشمنٹ کے اندر اہم ترین پوسٹنگ ٹرانسفر آرمی چیف ہی کرتا ہے۔ باجوہ اگر واقعی نیوٹرل تھا تو جب وزیر اعظم عمران خان نے اپنا آئینی استحقاق استعمال کرتے ہوئے جنرل فیض کو ڈی جی آئی ایس آئی برقرار رکھنا چاہا تو اس نے اڑی کیوں دکھائی؟ اور پھر جب وزیر اعظم نے اسکی بات مان کر جنرل ندیم انجم کو ڈی جی آئی ایس آئی بنا دیا تو پھر کیوں ایک پیج پھٹنے اور نیوٹرل ہو جانے کا ڈھنڈورا پیٹا؟
میرے تو خیال میں جنرل فیض کو ہٹا کر جنرل ندیم انجم کو لایا ہی اس مقصد کیلئے تھا کہ وہ مارچ ۲۰۲۲ میں ہونے والے رجیم چینج آپریشن میں معاونت فراہم کرے۔ زرداری نے آن ریکارڈ ایک جلسہ میں نومبر ۲۰۲۱ میں ہی کہہ دیا تھا کہ ان سے رابطہ کیا گیا ہے کہ اس حکومت کو گھر بھیجنے کیلئے کوئی فارمولہ بنائیں۔ یعنی جنرل ندیم انجم کوئی نیوٹرل شخص نہیں۔ اس کو جنرل باجوہ ایک خاص مقصد کے تحت ڈی جی آئی ایس آئی بنا کر لائے تھے۔ اور وہ اس کی مضحکہ خیز بغض عمران سیاسی پریس کانفرنس سے بھی ثابت ہو چکا ہے
باجوہ ڈبل گیم ہی تو کر رہے تھے۔ کبھی ایک کو ریلیف، تو کبھی دوسرے کو۔ جو کوئی پھنس گیا، اسے نکال لیا۔ گالیاں دیں تو برداشت کر لیں۔ اب تو تقریباََ ثابت ہو چکا ہے کہ وہ یا ان کے احباب بد عنوانی میں ملوث رہے تو پھر ان سے اس سے زیادہ کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ اگر باجوہ ایسے تھے تو عمران خان ان سے ملاقاتیں کیوں کرتے رہے، اقتدار چھن جانے کے بعد بھی۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ یہی چاہتے ہوں گے کہ ہمیں زیادہ نہ رگیدا جائے۔ یہی باجوہ تھے جن کے دور میں فیض من مانی کرتے تھے یعنی کہ جو حکومت میں آتا ہے، اپنی مرضی ایک حد تک چلا لیتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
باجوہ ڈبل گیم ہی تو کر رہے تھے۔ کبھی ایک کو ریلیف، تو کبھی دوسرے کو۔ جو کوئی پھنس گیا، اسے نکال لیا۔ گالیاں دیں تو برداشت کر لیں۔ اب تو تقریباََ ثابت ہو چکا ہے کہ وہ یا ان کے احباب بد عنوانی میں ملوث رہے تو پھر ان سے اس سے زیادہ کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ اگر باجوہ ایسے تھے تو عمران خان ان سے ملاقاتیں کیوں کرتے رہے، اقتدار چھن جانے کے بعد بھی۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ یہی چاہتے ہوں گے کہ ہمیں زیادہ نہ رگیدا جائے۔ یہی باجوہ تھے جن کے دور میں فیض من مانی کرتے تھے یعنی کہ جو حکومت میں آتا ہے، اپنی مرضی ایک حد تک چلا لیتا ہے۔
باجوہ کا انجام اس بدنصیب شخص جیسا ہوا ہے جس نے بیک وقت سب کو خوش رکھنے کی کوشش کی اور اس چکر میں سب کو ناراض کر کے چلے گئے 😂
 
Top