صلاح الدین ایوبی

orlando_bloom5.jpg

سلطان صلاح الدین ایوبی سلطنت کے بانی تھے۔ وہ نہ صرف تاریخ اسلام بلکہ تاریخ عالم کے مشہور ترین فاتحین و حکمرانوں میں سے ایک ہیں ۔ وہ 1138ء میں موجودہ عراق کے شہر تکریت میں پیدا ہوئے۔ ان کی زیر قیادت ایوبی سلطنت نے مصر، شام، یمن، عراق، حجاز اور دیار باکر پر حکومت کی۔ صلاح الدین ایوبی کو بہادری، فیاضی، حسن خلق، سخاوت اور بردباری کے باعث نہ صرف مسلمان بلکہ عیسائی بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ صلاح الدین کو فاتح بیت المقدس کہا جاتا ہے جنہوں نے 1187ء میں یورپ کی متحدہ افواج کو عبرتناک شکست دے کر بیت المقدس ان سے آزاد کروا لیا تھا۔
ابتدائی دور
سلطان صلاح الدین نسلاً کرد تھے اور 1138ء میں کردستان کے اس حصے میں پیدا ہوئے جو اب عراق میں شامل ہے ۔ شروع میں وہ سلطان نور الدین زنگی کے یہاں ایک فوجی افسر تھے۔ مصر کو فتح کرنے والی فوج میں صلاح الدین بھی موجود تھے اور اس کے سپہ سالار شیر کوہ صلاح الدین کے چچا تھے۔ مصر فتح ہو جانے کے بعد صلاح الدین کو 564ھ میں مصر کا حاکم مقرر کردیا گیا۔ اسی زمانے میں 569ھ میں انہوں نے یمن بھی فتح کرلیا۔ نور الدین زنگی کے انتقال کے بعد چونکہ اس کی کوئی لائق اولاد نہیں تھی اس لئے صلاح الدین حکمرانی پر فائز ہوئے۔
کارنامے
صلاح الدین اپنے کارناموں میں نور الدین پر بھی بازی لے گیے۔ اس میں جہاد کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور بیت المقدس کی فتح اس کی سب سے بڑی خواہش تھی۔
مصر کے بعد صلاح الدین نے 1182ء تک شام، موصل، حلب وغیرہ فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کر لیے۔ اس دوران صلیبی سردار رینالڈ کے ساتھ چار سالہ معاہدہ صلح ہو چکا تھا جس کی رو سے دونوں ایک دوسرے کی مدد کرنے کے پابند تھے لیکن یہ معاہدہ محض کاغذی اور رسمی تھا۔ صلیبی بدستور اپنی اشتعال انگیزیوں میں مصروف تھے اور مسلمانوں کے قافلوں کو برابر لوٹ رہے تھے۔
جنگ حطین
1186ء میں عیسائیوں*کے ایک ایسے ہی حملے میں رینالڈ نے یہ جسارت کی کہ بہت سے دیگر عیسائی امرا کے ساتھ مدینہ منورہ پر حملہ کی غرض سے حجاز مقدس پر حملہ آور ہوا۔ صلاح الدین ایوبی نے ان کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے اور فوراً رینالڈ کا تعاقب کرتے ہوئے حطین میں اسے جالیا۔ سلطان نے یہیں دشمن کے لشکر پر ایک ایسا آتش گیر مادہ ڈلوایا جس سے زمین پر آگ بھڑک اٹھی۔ چنانچہ اس آتشیں ماحول میں 1187ء کو حطین کے مقام پر تاریخ کی خوف ناک ترین جنگ کا آغاز ہوا ۔ اس جنگ کے نتیجہ میں تیس ہزار عیسائی ہلاک ہوئے اور اتنے ہی قیدی بنا لیے گئے۔ رینالڈ گرفتار ہوا اور سلطان نے اپنے ہاتھ سے اس کا سر قلم کیا۔ اس جنگ کے بعد اسلامی افواج عیسائی علاقوں پر چھا گئیں۔
فتح بیت المقدس
حطین کی فتح کے بعد صلاح الدین نے بیت المقدس کی طرف رخ کیا ایک ہفتہ تک خونریز جنگ کے بعد عیسائیوں نے ہتھیار ڈال دیے اور رحم کی درخواست کی۔ بیت المقدس پورے 91 سال بعد دوبارہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا اور تمام فلسطین سے مسیحی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ بیت المقدس کی فتح صلاح الدین ایوبی کا عظیم الشان کارنامہ تھا۔ اس نے مسجد اقصٰی میں داخل ہوکر نور الدین کا تیار کردہ منبر اپنے ہاتھ سے مسجد میں رکھا۔ اس طرح نور الدین کی خواہش اس کے ہاتھوں پوری ہوئی۔
صلاح الدین نے بیت المقدس میں داخل ہوکر وہ مظالم نہیں کئے جو اس شہر پر قبضے کے وقت عیسائی افواج نے کئے تھے ۔ صلاح الدین ایک مثالی فاتح کی حیثیت سے بیت المقدس میں داخل ہوا۔ اس نے زر فدیہ لے کر ہر عیسائی کو امان دے دی اور جو غریب فدیہ نہیں ادا کر سکے ان کے فدیے کی رقم صلاح الدین اور اس کے بھائی ملک عادل نے خود ادا کی۔
بیت المقدس پر قبضہ کے ساتھ یروشلم کی وہ مسیحی حکومت بھی ختم ہوگئی جو فلسطین میں 1099ء سے قائم تھی۔ اس کے بعد جلد ہی سارا فلسطین مسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔
بیت المقدس پر تقریباً 761 سال مسلسل مسلمانوں کا قبضہ رہا۔ تاآنکہ 1948ء میں امریکہ ، برطانیہ ، فرانس کی سازش سے فلسطین کے علاقہ میں یہودی سلطنت قائم کی گئی اور بیت المقدس کا نصف حصہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں بیت المقدس پر اسرائیلیوں نے قبضہ کرلیا ۔
تیسری صلیبی جنگ
جب بیت المقدس پر قبضے کی خبر یورپ پہنچی تو سارے یورپ میں کہرام مچ گیا۔ ہر طرف لڑائی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ جرمنی، اٹلی، فرانس اور انگلستان سے فوجوں پر فوجیں فلسطین روانہ ہونے لگیں۔ انگلستان کا بادشاہ رچرڈ جو اپنی بہادری کی وجہ سے شیر دل مشہور تھا اور فرانس کا بادشاہ فلپ آگسٹس اپنی اپنی فوجیں لے کر فلسطین پہنچے ۔ یورپ کی اس متحدہ فوج کی تعداد 6 لاکھ تھی جرمنی کا بادشاہ فریڈرک باربروسا بھی اس مہم میں ان کے ساتھ تھا۔
عیسائی دنیا نے اس قدر لاتعداد فوج ابھی تک فراہم نہ کی تھی۔ یہ عظیم الشان لشکر یورپ سے روانہ ہوا اور عکہ کی بندرگاہ کا محاصرہ کر لیا اگرچہ سلطان صلاح الدین نے تن تنہا عکہ کی حفاظت کے تمام انتظامات مکمل کر لیے تھے لیکن صلیبیوں کو یورپ سے مسلسل کمک پہنچ رہی تھی۔ ایک معرکے میں دس ہزار عیسائی قتل ہوئے مگر صلیبیوں نے محاصرہ جاری رکھا لیکن چونکہ کسی اور اسلامی ملک نے سلطان کی طرف دست تعاون نہ بڑھایا اس لیے صلیبی ناکہ بندی کی وجہ سے اہل شہر اور سلطان کا تعلق ٹوٹ گیا اور سلطان باوجود پوری کوشش کے مسلمانوں کو کمک نہ پہنچا سکا۔ تنگ آکر اہل شہر نے امان کے وعدہ پر شہر کو عیسائیوں کے حوالہ کر دینے پر آمادگی ظاہر کی۔ فریقین کے درمیان معاہدہ طے ہوا کہ جس کے مطابق مسلمانوں نے دو لاکھ اشرفیاں بطور تاوان جنگ ادا کرنے کا وعدہ کیا اور صلیب اعظم اور 500 عیسائی قیدیوں کی واپسی کی شرائط طے کرتے ہوئے مسلمانوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ مسلمانوں کو اجازت دے دی گئی ۔ وہ تمام مال اسباب لے کر شہر سے نکل جائیں لیکن رچرڈ نے بدعہدی کی اور محصورین کو قتل کر دیا۔
عکہ کے بعد صلیبیوں نے فلسطین کی بندرگاہ عسقلان کا رخ کیا۔ عسقلان پہنچنے تک عیسائیوں کا سلطان کے ساتھ گیارہ بارہ بار مقابلہ ہوا سب سے اہم معرکہ ارسوف کا تھا۔ سلطان نے جواں مردی اور بہادری کی درخشندہ مثالیں پیش کیں لیکن چونکہ کسی بھی مسلمان حکومت بالخصوص خلیفہ بغداد کی طرف سے کوئی مدد نہ پہنچی۔ لہذا سلطان کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ واپسی پر سلطان نے عسقلان کا شہر خود ہی تباہ کر دیا۔ اور جب صلیبی وہاں پہنچے تو انہیں اینٹوں کے ڈھیر کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ اس دوران سلطان نے بیت المقدس کی حفاظت کی تیاریاں مکمل کیں کیونکہ اب صلیبیوں کا نشانہ بیت المقدس تھا۔ سلطان نے اپنی مختصر سی فوج کے ساتھ اس قدر عظیم لاؤ لشکر کا بڑی جرات اور حوصلہ سے مقابلہ کیا۔ جب فتح کی کوئی امید باقی نہ رہی تو صلیبیوں نے صلح کی درخواست کی۔ فریقین میں معاہدہ صلح ہوا۔ جس کی رو سے تیسری صلیبی جنگ کا خاتمہ ہوا۔
اس صلیبی جنگ میں سوائے عکہ شہر کے عیسائیوں کو کچھ بھی حاصل نہ ہوا اور وہ ناکام واپس ہوئے۔ رچرڈ شیر دل ، سلطان کی فیاضی اور بہادری سے بہت متاثر ہوا جرمنی کا بادشاہ بھاگتے ہوئے دریا میں ڈوب کر مرگیا اور تقریباً چھ لاکھ عیسائی ان جنگوں میں*کام آئے۔
ربط
http://pak.net/?p=1740
 
واہ سید شہزاد ناصر بھائی! اسلامی تاریخ کے ہیرو کو آپ کا خراجِ تحسین پسند آیا۔ پوری دنیا کی تاریخ میں ہے کوئی ایسا جری، بہادر، رحم دل اور فیاض حکمران؟

بیت المقدس کے دو عظیم ترین مسلمان فاتح تو تاریخ نے دیکھ لیے، فاروقِ اعظم ؓ اور سلطان صلاح الدین ایوبی۔ اب تیسرا مسلمان فاتح کون ہوگا؟ مسلمان اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں۔
 

arifkarim

معطل
بیت المقدس پر تقریباً 761 سال مسلسل مسلمانوں کا قبضہ رہا۔ تاآنکہ 1948ء میں امریکہ ، برطانیہ ، فرانس کی سازش سے فلسطین کے علاقہ میں یہودی سلطنت قائم کی گئی اور بیت المقدس کا نصف حصہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں بیت المقدس پر اسرائیلیوں نے قبضہ کرلیا ۔
اس سازش میں خود اس زمانہ کے عرب سردار بھی شامل تھے جو صیہونیوں کیساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہے:
http://en.wikipedia.org/wiki/Faisal%E2%80%93Weizmann_Agreement
 
واہ سید شہزاد ناصر بھائی! اسلامی تاریخ کے ہیرو کو آپ کا خراجِ تحسین پسند آیا۔ پوری دنیا کی تاریخ میں ہے کوئی ایسا جری، بہادر، رحم دل اور فیاض حکمران؟

بیت المقدس کے دو عظیم ترین مسلمان فاتح تو تاریخ نے دیکھ لیے، فاروقِ اعظم ؓ اور سلطان صلاح الدین ایوبی۔ اب تیسرا مسلمان فاتح کون ہوگا؟ مسلمان اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں۔
اللہ آپ کی زبان مبارک کرے بھائی جی
نہیں اقبال نا امید اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
 
اس سازش میں خود اس زمانہ کے عرب سردار بھی شامل تھے جو صیہونیوں کیساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہے:
http://en.wikipedia.org/wiki/Faisal%E2%80%93Weizmann_Agreement
حسن بن صباح جن قید کیا گیا تو اس نے جناب صلاح الدین ایوبی صاحب کو ایک بات کہی تھی۔ وہ پڑھ لینا ۔
کافر کبھی بھی مسلمان کو میدان جنگ میں شکست نہیں دے سکتا، مگر ایمان کی شکست
 

سید ذیشان

محفلین
حسن بن صباح جن قید کیا گیا تو اس نے جناب صلاح الدین ایوبی صاحب کو ایک بات کہی تھی۔ وہ پڑھ لینا ۔
کافر کبھی بھی مسلمان کو میدان جنگ میں شکست نہیں دے سکتا، مگر ایمان کی شکست

حسن بن صباح کی تاریخ وفات ہے 1124 عیسوی اور صلاح الدین ایوبی 1134 عیسوی میں پیدا ہوئے تھے۔

بات کرنے سے پہلے ذرا دیکھ لیا کریں کہ جو بات کر رہا ہوں اس کی کوئی تک بھی بنتی ہے یا پھر جہالت پر مبنی سنی سنائی بات ہے۔
 
حسن بن صباح کی تاریخ وفات ہے 1124 عیسوی اور صلاح الدین ایوبی 1134 عیسوی میں پیدا ہوئے تھے۔

بات کرنے سے پہلے ذرا دیکھ لیا کریں کہ جو بات کر رہا ہوں اس کی کوئی تک بھی بنتی ہے یا پھر جہالت پر مبنی سنی سنائی بات ہے۔
اس بات کا کوئی ماخذ بھی بتائیں تا کہ لوگوں کی غلط فہمی دور ہو سکے
 

سید ذیشان

محفلین
اصولاً تو سلیمان صاحب سے ان کی بات کا ماخذ معلوم کرنا چاہیے تھا۔ میں نے تو صرف تاریخ وفات اور تاریخ پیدائش ہی بتائی ہے جو آپ کو کہیں سے بھی مل سکتی ہے۔ :)
 

سید ذیشان

محفلین
التمش صاحب کی کتاب پڑھ لیں ۔ جس میں انہوں نے یہ تاریخ لکھی ہے۔ بے وجہ زیادہ "سیانا " نہیں بننا چاہیے۔۔۔

آپ کا اشارہ شائد "داستان ایمان فروشوں کی" ناول کی طرف ہے جو التمش نے تحریر کیا ہے۔ اگر آپ کو مستند تاریخ اور ناولوں میں فرق نظر نہیں آتا تو میں اس پر کیا بحث کر سکتا ہوں؟
 
Top