صف ماتم کہاں کہاں !

طالوت

محفلین
اوباما کی جیت پر نوحا کناں کیوں
جاوید سومرو
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن


میرے سامنے کئی مضطرب چہرے تیر رہے ہیں۔ ان کے دل خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ باراک اوباما کی جیت پر ظاہر ہے ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار جان مکین اور نائب صدارتی امیدوار سارہ پیلن ، ان کے حامی اور ریپبلکن پارٹی کے کارکن تو ضرور افسردہ ہیں، لیکن دنیا میں انسانوں کی کچھ اور بھی اقسام ہیں جو بہت مایوس اور دکھی ہیں۔ کون ہیں یہ لوگ؟
یہ شام غریباں نما چہرے ان لوگوں کے ہیں جن کا باراک اوباما کی جانب سے صدارتی امیدوار بننے کی دوڑ میں شامل ہونے کے بعد سے فلسفہ یہ رہا ہے کہ چاہے رائے عامہ کے جائزے کچھ بھی کہیں، امریکی ایک سیاہ فام کو صدر نہیں بناسکتے۔

یہ وہ لوگ ہیں جو بنیادی طور پر انسان کی بنیادی اچھائی پر اور خاص طور سے غیر مسلموں کی اچھائی پر تو بلکل یقین نہیں کر سکتے۔ وہ انسانی تاریخ کا یہ سچ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ ہر چیز، سوچ، فلسفہ اور نظام تغیر پزیر ہے، تاریخ بنتی رہتی ہے، معاشرتی سوچ ارتقا کے مراحل طے کرتی ہے اور بنی نوع انسان مجموعی طور پر اچھائی کی اگلی سطح پر ترقی کرتی ہے۔ ان کے لئے یہ ماننا بہت تکلیف کا باعث ہوتا ہے کہ دنیا صرف سیاہ و سفید میں نہیں بٹی ہوئی۔

مجھے ایک جہاندیدہ شخص نے یہ عندیہ تک دے ڈالا کہ اگر اوباما جیت بھی گئے تو بھی انہیں امریکی سفید فام قتل کردیں گے۔ اب چونکے اوباما کی جیت سے یہ بات واضع ہوگئی ہے کہ تمام امریکی صدر بش اور ان کی جنگجوعانہ پالیسی کے حامی نہیں اور یہ کہ امریکی عوام کی اکثریت فیصلے صرف رنگت کی بنیاد پر نہیں کرتی، ان لوگوں کے خود ساختہ فلسفے میں دراڑ پڑی ہے اور وہ بہت غمگین ہیں۔

باراک اوباما کی جیت پر وہ لوگ بھی نالاں ہیں جن کی سوچ ہے کہ صدر بش اور نیو کنزروٹو ہی امریکی سامراج کی اصل صورت ہیں اس لئے ذرا سے بھی بہتر شخص کے اقتدار میں آنے سے امریکہ کی خون خوار شبیھ میں کچھ بہتری آتی ہے جس کے نتیجے میں سامراج مخالف جدوجہد کمزور پڑجاتی ہے۔

یہ بات ایسے ہی ہے کہ جیسے جنرل ضیاءالحق کے زمانے میں قومپرست کہتے تھے کہ آمر کے مظالم سے پاکستان کے خلاف نفرت پیدا ہوگی اور سندھو دیش بنانے کی راہ ہموار ہوگی۔ اس سوچ کے حامیوں کو میرا ایک دوست کہتا تھا کہ آپ چاہتے ہو جنرل ضیاء پورے سندھ میں جگہ جگہ پھانسی گھاٹ بنادے اور لوگوں کو بازاروں میں پھانسیاں دے اور کوڑے مارے، اور پورے دیس کو قبرستان بنادے تاکہ آپ کا سندھو دیش بن سکے۔
ان انتخابی نتائج سے وہ پاکستانی بھی ناخوش ہیں جو آمریتوں کو ملک کے تمام مسائل کا حل سمجھتے ہیں اور جمہوریت کو ایک شیطانی نظام اور جاہل و کرپٹ سیاستدانوں کو اقتدار دینے سے تعبیر کرتے ہیں۔
ان کی ناراضگی کی وجہ تاریخی ہے، کیونکہ تقریباً تمام پاکستانی آمروں کو امریکہ کے ریپبلکن صدور ہی مظبوط بناتے رہے ہیں۔ باراک اوباما نے واضع کیا ہے کہ وہ پاکستان میں جمہوریت کو مظبوط کریں گے نہ کہ سابق صدر کی طرح کسی آمر کو۔ اب ظاہر ہے آمر نواز اشرافیہ کا آنسو بہانا تو فطری ہے۔

عراق کے حکمرانوں میں سے بھی کئی اپنے دکھی دلوں کو دلاسا دے رہے ہیں۔ ان کو اقتدار چھننے کا خطرہ ہے۔ امریکی فوج کے بل بوتے پر ان کی حکمرانی قائم ہے اور اب ان کو خدشہ ہے کہ اگر صدر اوباما نے اپنے واعدے پر عملدرآمد کرتے ہوئے امریکی فوج کو عراق سے نکالنا شروع کیا تو کیا وہ اپنی کرسیاں بچا پائیں گے یا عوامی ریلا انہیں بہا لیجائے گا؟ بس یہی فکر ان کو کھائے جارہی ہے۔

صف ماتم ان نسل پرست سفید فام اور گندمی رنگت والے لوگوں میں بھی بچھی ہوئی ہے جنہیں سیاہ رنگت والے لوگوں سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ میں اکثر حیران اور پریشان ہوتا ہوں کہ سفید فام لوگوں کے بعض حصوں کی نسل پرستی کے تو تاریخی اسباب ہیں لیکن ایشیائی یا گندمی رنگت والے لوگوں کی سیاہ فاموں سے کیا دشمنی ہے؟

مجھے میری ایک ایشیائی دوست کے وہ الفاظ آج بھی یاد آتے ہیں کہ’ کالے‘ چور اور جرائم پیشہ ہوتے ہیں اور کوشش کرکے ان سے دور ہی رہنا۔ کئی ایسے ایشیائی آپ کو ملیں گے جو عام بول چال میں ، بغیر محسوس کئے ایسی باتیں کہتے اور کرتے ہیں جن سے باریک پردے میں چھپی نسل پرستی چھلکتی ہے۔
ایسے ’نرم‘ نسل پرستوں کو سفید فام امریکی صدور کی ڈانٹ ڈپٹ تو برداشت ہے لیکن وہ ایک سیاہ فام سے ڈکٹیشن لینے میں توھین محسوس کریں گے۔
اور ظاہر ہے دنیا میں ایسے بھی لوگ ہیں جنہوں نے مکین کے جیتنے پر لاکھوں ڈالروں کی شرطیں لگا رکھی تھیں۔ ان لوگوں کا صدارتی امیدوار کی پالیسی یا شخصیت سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، بس ان کو لگا کہ مکین پر ’اوڈز‘ اچھے لگے ہوئے ہیں تو اگر وہ جیت گئے تواچھے پیسے ملیں گے۔ ان بے چارے جواریوں کی کھٹیا کھڑی ہوگئی ہے۔ آج وہ پبوں میں غم غلط کر رہے ہیں۔

لیکن سب ہی اتنے غمزدہ نہیں۔ امریکی صدر جارج بش کی صورت میں باراک اوباما کے لئے خوش ہونے والے ایک ریپبلکن بھی موجود ہیں۔ ان کی خوشی کی وجہ بڑی ذاتی ہے۔ وہ بس یہ چاہتے ہیں کہ انہوں نے کھیل کھیل میں جو دنیا کو اتنا پرآشوب اور خطرناک بنا دیا ہے، کوئی آکے اسے ٹھیک کردے تاکہ وہ تاریخ کی سزا سے بچ سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وسلام
 

طالوت

محفلین
تمام تر اختلافات کے باوجود باراک اوباما کی جیت میں ایک روشن پہلو ضرور ہے کہ اس کی وہائٹ ہاوس آمد سے نسل پرستوں کے یہاں صف ماتم بچھ گئی ہے ۔۔۔ اور دنیا میں نسل پرستی کے بڑھتے ہوئے رحجان کو شدید دھچکا لگا ہے ۔۔۔ خصوصا امریکہ میں سیاہ فام امریکیوں کے ساتھ روا رکھا جانے والے ظلم کا کسی حس تک مداوا ہو سکے گا ۔۔۔۔۔
اچھے کی امید ہے ۔۔۔ تاہم ہتھیلی پر سرسوں نہیں جما کرتی ۔۔۔ سو اک ذرا انتظار ۔۔۔۔
وسلام
 

قیصرانی

لائبریرین
یہاں فن لینڈ میں ٹی وی، ریڈیو چینلوں اور عام لوگوں کی گفتگو میں باراک اوبامہ کے جیتنے پر باتیں ہوتی رہتی ہیں لیکن اس طرح جیسے ان کا کوئی مر گیا ہو اور مجبوراً انہیں فرض پورا کرنے کے لئے اس موضوع پر بات کرنی پڑ رہی ہو
 
Top