صرف پندرہ لاکھ روپے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کی پریشانیاں بڑھتی جارہی تھیں، شرافت اسکی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی،وہ اپنے بیوی بچوں کے لیے کچھ نہیں کر پا رہا تھا۔
اس کی تربیت اس طرح سے کی گئ تھی کہ وہ کسی کو دھوکا دینا بھی چاہے ،تو نہیں دے سکتا تھا، شرافت ایمانداری اس کے خون میں شامل تھی۔ اس کی معاشی بدحالی کی بنیادی وجہ اس کی شرافت تھی۔" یہ ملک شرفاء کے لیے نہیں بنا، یہ ملک بنا ہے بدمعاشوں کے لیے، شرفاء تو یہاں گھٹ گھٹ کر زندگی گزارتے ہیں۔ یہ منفی سوچ اس کے دماغ میں کئ دن سے آرہی تھی، کہ وہ ایمانداری کا راستہ چھوڑ دے اور بے ایمانی کی گنگا میں نہائے تاکہ بھوک و افلاس کے جراثیم ہمیشہ کے لیے اس کے وجود سے دور ہوجائیں"۔
اس نے کئ لوگوں پر اعتبار کیا، مگر ہر شخص نے اعتبار کو ٹھیس پہنچائ، کاروبار میں سخت ناکامی کے بعد اس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ اب ایمانداری کو خیرباد کہہ دے گا۔ حاجی صاحب کی بات بار بار کانوں میں گونج رہی تھی "بیٹا گاہگ کو قائل کرنا ضروری ہے، اگر جھوٹ نہ بولیں تو گاہگ قائل نہیں ہوتا"۔
اس نے کرائے پر ایک دکان لی ،اسے آفس بنایا، اس کے اوپر بورڈ لگوایا، بورڈ کی عبارت یہ تھی کہ" گھر بیٹھے آن لائن جاب کریں، پچیس سے پچاس ہزار کمائیں" اس کی مشہوری اخبار میں دے دی۔
وہ اس فراڈ سے اچھی طرح سے واقف تھا۔ یہ فراڈ اسے اس ظالم دنیا نے ہی سکھایا تھا، اس نے بھی اسی طرح ایک ویب سائیٹ کو دیکھ کر آن لائن جاب کے لیے درخواست دی، دس ہزار سیکیورٹی لے کر فضول سا ایڈ پوسٹ کرنے کا کام دیا، جس میں دراصل کمپنی کی ہی مشہوری ہوتی تھی، یعنی دوسرے لوگوں کو مزید اس جال میں پھنسانا، کام اتنامشکل تھا کہ انسان زیادہ دیر تک کام نہیں کرسکتا تھا، اگر سارا دن بھی لگالے، تو مہینے میں دو ہزار مشکل سے کمائے، نہ ہی کوئ فراڈ کرنے کا کیس کرسکتا تھا، کیونکہ یہ ایک طرح کا قانونی فراڈ تھا۔
وہ حیران رہ گیا، اس کے موبائل نمبرز پر کالز کا تانتا بندھ گیا، بے روزگار نوجوان پچاس ہزار کمانے کے لیے پر امید تھے، اس کے لیے وہ دس ہزارکی سیکیورٹی دینے کو تیار تھے، ایک ماہ میں ہی اس کے پاس پندرہ لاکھ کی رقم جمع ہوگئ۔
مگر وہ دل سے خوش نہیں تھا، جیسے اس کی روح اندر سے بے چین ہو، راتوں کی نیند بھی اڑ گئ۔ اسے ایک شخص کی کال کئ دن سے آرہی تھی
۔"میں بہت سخت ضرورت مند ہوں، میری بیوی اور چھوٹے چھوٹے دو معصوم بچے ہیں، پرائیویٹ کمپنی میں جاب کرتا تھا،ڈاءون سائزینگ کی وجہ سے کمپنی نے مجھے بھی نکال دیا، میرے پاس تھوڑی سی جمع پونچی ہے وہ میں نے آپ کو دے دی ہے، اس امید سے کہ مجھے کوئ معقول کام کرنے کا ذریعہ مل جائے گا"۔
رات کواس لڑکے کے بارے میں سوچتے سوچتے ، خواب میں چلا گیا۔
یہ ایک خوبصورت وادی تھی، سرسبز پہاڑوں کے درمیان خوبصورت جھیل تھی، جھیل کے اندر رنگ برنگی مچھلیاں تیر رہی تھیں، یہ بہت خوبصورت منظر تھا، اس نے دیکھا کہ جھیل کنارے گھنے درخت ہیں، جن پر رنگ برنگے پرندے بیٹھے ہیں، جھیل کنارے تھوڑا سا آگے گیا، تو اسے پھل ٹہنیوں پر لٹکے ہوئے نظر آئے۔ پھر ایک دم منظر تبدیل ہوا، کالے سیاہ بادل آگئے، جو بہت خوفناک معلوم ہورہے تھے، ان کے گرجنے میں عجیب وحشت تھی، ان بادلوں کے اندر سے نکلنے والی بجلی جھیل کے اندر گر رہی تھی، دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف آگ لگ گئ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکی آنکھ کھل گئ، تیز تیز سانسیں چل رہی تھیں، وہ سخت خوفزدہ تھا۔
یہ خواب ایک اشارہ تھا کہ وہ فراڈ سے توبہ کرلے۔
اس نے پندرہ لاکھ کی رقم بینک سے لی، اس نےفیصلہ کیا کہ سب کو ان کی رقم واپس کردے گا۔ اس نے سب کو باری باری فون کیا، سب کو پیسے واپس کیے، سب سے معذرت کی، کچھ ناراض ہوئے ،کچھ نے غصہ کیا اور کئ ایمانداری سے بہت خوش ہوئے، مگر اس کے لیے ان باتوں کی کوئ اہمیت نہیں تھی۔
اس نے دکان کو تالا لگایا اور چابی دکان کے مالک کو دی، اس کا دل اندر سے اب مطمئن تھا جیسے دل کا بوجھ ہلکا ہوگیا ہو، اس نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ اسے اس بات کی فکر نہ تھی، کہ اب وہ کیسے کمائے گا، بس خوشی تھی کہ اس کے دل کو سکون ہے۔
گھر کی طرف جارہا تھا کہ اسکا ایکسیڈنٹ ہوگیا، اس کو ایک کار نے کچل دیا۔ اس کا تعلق اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔
اس کو مرے ہوئے ایک سال کا عرصہ ہوگیا، اس کی بیوی کی آنکھوں میں آنسو تھے، اپنے بچوں سے کہہ رہی تھی کہ" ان کا باپ ان کو دھوکا دے گیا، زمانے کی ٹھوکریں کھانے کے لیے تنہا چھوڑ گیا"۔
دروازے کی بیل بجی، اس کی بیوی نے دروازہ کھولا تو ایک اجنبی شخص کھڑا تھا۔ وہ مخاطب ہوا
محترمہ میں ہی وہ شخص ہوں ، جس کی گاڑی سے آپ کے شوہر کا اکسیڈنٹ ہوا تھا، میرا قصور نہ تھا، مگر میرا ضمیر تب سے مطمئن نہیں ہے کہ میں نے گاڑی روک کر انھیں ہسپتال کیوں نہ پہنچایا، مجھے کئ ماہ سے آپ کے شوہر خواب میں نظرآرہے ہیں، ایک ہی بات کہتے ہیں کہ "میرے خون کی قیمت تمھاری گاڑی کے برابر ہے"میں نے جتنے کی کار خریدی تھی اتنی رقم اس چیک پر ہے، آپ اسے لے لیں، میں نے بڑی مشکل سے آپ کو ڈھونڈا ہے، اور مجھے اللہ کے لیے معاف کردیجئیے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چیک اسکی بیوی کو پکڑا کر چلا گیا، وہ جیسے سکتے میں تھی، اسے کچھ سمجھ نہیں آیا۔
اس نے چیک کی طرف ایک نظر ڈالی، اس پر لکھا تھا ۔
صرف پندرہ لاکھ روپے
۔
۔
(عبدالباسط)https://www.facebook.com/notes/میری-تحریر-عبدالباسط/کہانی/319335938086981
 

میر انیس

لائبریرین
بہت ہی سبق آموز تحریر ہے گو کہ اس سے ملتی جھلتی ایک تحریر میں پہلے بھی پڑھ چکا ہوں پھر بھی اسنے دل موہ لیا ۔ کیا یہ آپ کی اپنی تحریر ہے اگر آپ کی ہے تو واقعی آپ نے کمال کیا ہے پر اگر آپ کی نہیں تو اسکے مصنف کا نام بھی لکھ دیں
 
بہت ہی سبق آموز تحریر ہے گو کہ اس سے ملتی جھلتی ایک تحریر میں پہلے بھی پڑھ چکا ہوں پھر بھی اسنے دل موہ لیا ۔ کیا یہ آپ کی اپنی تحریر ہے اگر آپ کی ہے تو واقعی آپ نے کمال کیا ہے پر اگر آپ کی نہیں تو اسکے مصنف کا نام بھی لکھ دیں
یہ میری اپنی ہی تحریر ہے۔
 
Top