ام اویس
محفلین
سر زمین ِشام، جس سے اسلامی تاریخ کی عظمت رفتہ وابستہ ہے، گزشتہ دو سال سے خونِ مسلم سے لالہ زار ہے۔ یہاں انسان نما وحشی درندے ظلم و جبر، قتل و غارت گری اور انسانیت سوزی کی بدترین داستانیں رقم کر رہے ہیں۔ رپورٹوں کے مطابق بیس ہزار سے زیادہ افراد لقمۂ اجل بن چکے۔
بستیوں کی بستیاں ویران ہو گئی ہیں اور لاکھوں افراد ہجرت کر کے پڑوسی ممالک میں قائم پناہ گزیں کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہبہ الدباغ کی خود نوشتُ خمس دقائق وحسب، جس کا اردو ترجمہ ’صرف پانچ منٹ‘ کے نام سے منظر عام پر آیا ہے۔ دستاویزی ثبوت فراہم کرتی ہے کہ شام کے اسلام پسند عوام پر انسانیت سوز مظالم کا یہ سلسلہ نیا نہیں ہے بلکہ گزشتہ چالیس سال سے برابر جاری ہے۔
اس کا آغاز شام کے موجودہ حکمران کے باپ حافظ الاسد نے کیا تھا۔ اس کا تعلق اشتراکی نظریات کی حامل بعث پارٹی سے تھا۔ اسی طرح وہ گمراہ علوی نصیری فرقے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس نے اپنے عہد حکومت میں مغربی کلچر اور اشتراکیت کو فروغ دینے کی بھرپور کوشش کی اور اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے فوج اور انتظامیہ میں علویوں کو بھر دیا جب کہ شام کی غالب اکثریت سنی مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ ان میں اسلامی عقائد اور اسلامی تہذیب و ثقافت کی بنیادیں بہت گہری تھیں اور وہ غیر اسلامی کلچر اور اقلیتی غلبہ سے سخت متنفر تھے۔
شامی اخوان المسلمون، جن کی سرگرمیاں مصر میں اس تحریک کی تاسیس (1964ئ) کے کچھ عرصہ بعد ہی شروع ہو گئی تھیں۔ حافظ الاسد کے منصوبوں اور عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔ وہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ہر جگہ اس کی مخالفت میں پیش پیش رہتے تھے۔ اس لیے حافظ الاسد ان کی سرکوبی کے بہانے ڈھونڈتا رہتا تھا۔
970ء میں سنی مسلمانوں اور نصیریوں کے درمیان فرقہ وارانہ کشمکش برپا ہوئی تو بعثی حکومت نے اس کا ذمہ دار اخوان المسلمون کو قرار دے کر ان پر پابندی عائد کر دی اور یہ قانون منظور ہوا کہ اخوان سے وابستگی کی سزا پھانسی ہے۔
[to_like id=”14254″]
اس کے بعد بڑے پیمانے پر ان کے ارکان و وابستگان کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی۔ جس پر بھی اخوانی ہونے کا شبہ ہوا اسے داخلِ زنداں کر دیا، جیلوں میں ان کے ساتھ بدترین تشدد کیا گیا۔ ہزاروں افراد کو بغیر کسی عدالتی کاروائی کے گولیوں سے بھون دیا گیا۔
جیلوں میں وقتاً فوقتاً قیدیوں کو فائرنگ اسکواڈ کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔قتل و غارت گری کا نقطۂ عروج وہ واقعہ ہے جو دو فروری 1982ء کو شہر حمات میں پیش آیا تھا۔ اس شہر کو اخوان المسلمین کا گڑھ قرار دے کر اس کا محاصرہ کر لیا گیا اور ٹینکوں، توپوں، بکتر بند گاڑیوں اور بھاری اسلحہ کے ساتھ ہلّہ بول دیا گیا۔ شہر میں زبردست تباہی مچائی گئی۔ پورے پورے محلے ان کے مکینوں کے ساتھ زمین بوس کر دیے گئے۔
اٹھاسی مسجدیں اور تین چرچ بالکل منہدم ہو گئے۔ شہر کا محاصرہ ستائیس روز تک جاری رہا، تقریباً چالیس ہزار افراد کو گولیوں سے بھون کر اجتماعی قبروں میں دفن کر دیا گیا۔ پندرہ ہزار افراد کا کچھ پتا نہ چلا، گرفتاریوں، ایذا رسانیوں اور تشدد و بربریت کا یہ سلسلہ برسوں جاری رہا۔ ہبہ الدباغ کی یہ خود نوشت اسی دور میں شام کے عقوبت خانوں میں اخوان المسلمون کے مردوں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں پر توڑے جانے والے دل دوز و الم ناک مظالم کی مختصر روداد ہے۔
ہبہ کا تعلق حمات کے ایک دین دار گھرانے سے تھا۔ وہ ماں باپ، سات بھائیوں اور چار بہنوں کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہی تھیں۔ ان کے ماں باپ کوئی سیاسی وابستگی رکھتے تھے نہ خود ہبہ کسی پارٹی کی ممبر تھیں۔ صرف ان کا ایک بھائی (صفوان) اخوان المسلمون کا سرگرم کارکن تھا۔ اخوان پر پابندی عائد کر دیے جانے کے بعد ان کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تو جو لوگ پڑوسی ملک اردن نکل جانے میں کامیاب ہو گئے ان میں وہ بھی تھا۔
اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے شوق میں ہبہ حمات چھوڑ کر دمشق چلی گئیں اور وہاں یونیورسٹی کے شریعہ کالج میں داخلہ لے لیا۔ رہائش کے لیے انھوں نے چند ہم جماعت لڑکیوں کے ساتھ مل کر ایک مکان کرائے پر حاصل کیا۔ ابھی ایک سال بھی پورا نہ ہوا تھا اور امتحان شروع ہونے والا تھا کہ 1980ء کی آخری تاریخ میں نصف شب خفیہ محکمہ کے اہل کاروں نے ان کی رہائش گاہ پر دھاوا بولا، انھیں اور ساتھ ہی رہنے والی دو لڑکیوں (ماجدہ اور ملک) کو اپنے ساتھ تفتیشی دفتر لے گئے۔ لے جاتے وقت تو انھوں نے کہا تھا کہ صرف پانچ منٹ میں تفتیش کر کے واپس بھیج دیں گے۔ لیکن ان لڑکیوں کو عقوبت خانوں میں نو سال تک تعذیب و تشدد کے جاں گسل مراحل سے گزرنے کے بعدرہائی نصیب ہوئی۔
ہبہ پر الزام لگایا گیا کہ وہ اخوان کی آرگنائزر ہے، اس کا ترجمان ’مجلہ النذیر‘ بانٹا کرتی ہے، سید قطب کے افکار پر مشتمل درس قرآن دیتی ہے، اپنے پاس اسلحہ رکھتی ہے وغیرہ۔ حالانکہ وہ ان تمام الزامات سے بری تھیں۔ ان کا اگر کوئی جرم تھا تو بس یہ کہ وہ ایک اخوانی کی بہن تھیں۔ ان برسوں میں ہبہ پر کیا کچھ بیتی، اس کا تذکرہ انھوں نے تفصیل سے اپنی اس خود نوشت میں کیا ہے۔ اس کا خلاصہ انھوں نے کتاب کے مقدمے میں ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’میں اتنا عرصہ جیل کی کال کوٹھڑی میں اپنے بھائی کی ’رہین‘ کے طور پر رہی جو پُرجوش سیاسی کارکن تھا۔ میری زندگی کے بہترین سال قاتل وحشیوں کی نذر ہو گئے۔ میرے اعضاء شل ہو گئے اور میری روح نے بڑھاپے کی چادر اوڑھ لی۔ صرف ایک افترا کے سبب جو مجھ پر باندھا گیا… میں نو برس تک جیل کے ایک سیل سے دوسرے سیل، ایک بلاک سے دوسرے بلاک اور ایک جیل سے دوسری جیل میں منتقل ہوتی رہی۔
نوبنجر برس… ان برسوں میں انسانی رحم کا ہر دروازہ مجھ پر بند کر دیا گیا۔ ان کی سزائوں نے میرے اندر اٹھنے والی ہر اُمید کا دم توڑ دیا اور بنی نوع انسان سے متعلق ادنیٰ سی آس بھی معدوم ہو گئی، صرف اللہ سے امید زندہ رہی… میں شام کی حکومتی جیلوں کے جہنم میں نو برس تک بلاقصور کسی اور کی رہین کے طور پر جلتی رہی۔ میں بتا نہیں سکتی کہ عمرِ عزیز کے نو برس اس ملعون نظام میں کس طرح بیتے۔ جو کچھ پیش آیا اس کی حقیقی تصویر گری سے یہ قلم عاجز ہے۔‘‘ (ص22۔25)
یہ صرف ایک خاتون کے ایام اسیری کی آپ بیتی نہیں ہے بلکہ اس میں بے شمار معصوم خواتین کی داستانِ الم آ گئی ہے۔ ان خواتین کا جرم اگر کچھ تھا تو بس یہ کہ ان میں سے کوئی کسی اخوانی کی ماں تھی، کسی کی بہن، کسی کی بیوی اور کسی کی بیٹی یا انھوں نے کسی اخوانی کو اپنے گھر میں پناہ دے رکھی تھی۔ اس خود نوشت میں مصنفہ نے ان میں سے بہت سی خواتین کا تذکرہ نام بہ نام کیا ہے۔ مثلاً:
الحاجتہ مدیحہ، چالیس کے پیٹے میں تھیں، بالکل ان پڑھ، مگر وہ حلب کی مشہور شخصیت تھیں۔ ان کا جرم یہ تھا کہ انھوں نے اپنے گھر کا ایک حصہ ہاسٹل کی طرح بنا رکھا تھا جس میں رہنے والوں میں سے کچھ لوگ حکومت کو مطلوب تھے۔
الحاجتہ ریاض، چالیس برس کی، غیر شادی شدہ، سیدھی سادی خاتون۔ الزام یہ کہ انھوں نے اخوان کے مصیبت زدہ بعض خاندانوں تک کچھ بہی خواہوں کی دی ہوئی رقم پہنچائی تھی۔ عائشہ کا تعلق حلب سے تھا اور پیشے سے ڈاکٹر تھی۔ اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے حکومت کے خلاف سرگرم کچھ زخمی نوجوانوں کا علاج کر دیا تھا۔ مُنیٰ، پینتیس، چھتیس سال کی خاتون، تین بچوں کی ماں، اس نے ایک اخوانی کو پناہ دے دی تھی۔ اس جرم میں اسے، اس کی بہن، بھائی اور باپ کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ حلیمہ، پینتیس برس کی دیہاتی خاتون، پانچ بچوں کی ماں، جن کی عمریں چار سے نو برس کے درمیان تھیں۔ اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے حکومت کو مطلوب کچھ افراد کو اپنے گھر میں چھپا رکھا تھا۔
منتہیٰ، سولہ برس کی دوشیزہ، شوہر کو حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کے الزام میں قتل کر دیا گیا۔ خفیہ پولیس نے اس کی شیرخوار بچی کو پرے پھینکا اور اسے گرفتار کر کے داخلِ زنداں کر دیا۔
غزوہ، حمات کی رہنے والی ماہرِ دندان خاتون۔ جرم یہ کہ اس نے ایک گھر خریدنے میں اخوانی نوجوانوں کی مدد کی تھی۔
مطیعہ، عمر تقریباً چالیس سال، چار بچوں کی ماں، شوہر اخوان کے حامیوں میں سے تھے۔ گرفتاری سے بچنے کے لیے وہ فرار ہو گئے تو اسے پکڑ لیا گیا۔ وہ اس وقت حمل سے تھی، دوران اسیری جیل میں اس کے یہاں ولادت ہوئی۔
ام ہیثم، شوہر اور چار بچوں کے ساتھ اخوان کے حامیوں میں سے ایک کے گھر کرائے پر رہتی تھیں۔ خفیہ پولیس نے چھاپہ مارا تو سب کے ساتھ انھیں بھی گرفتار کر لیا پھر شوہر کو اسی قید خانے میں قتل کر دیا۔
نجویٰ، حلب کے میڈیکل کالج میں سال دوم کی طالبہ۔ اس کا جرم یہ تھا کہ وہ ایک اخوانی کی منگیتر تھی۔
تفتیشی مراکز اور جیلوں میں ان خواتین کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا اورو حشت وبربریت کا جو ننگا ناچ دکھایا گیا وہ خون کے آنسو رُلانے والا ہے۔ کیا کوئی انسان اس حد تک نیچے گر سکتا ہے۔ ہبہ الدباغ نے اپنی خود نوشت میں اپنے ساتھ پیش آئے ظلم و تشدد کی روداد تفصیل سے بیان کی ہے۔
ایک اقتباس ملاحظہ ہو: ’’ایک اہل کار نے مجھے لکڑی کے تختے پر لٹکا کر میری گردن، کلائیاں، پیٹ، گھٹنے اور پائوں اس سے باندھ دیے اور مجھے الٹا لٹکا دیا۔ میرے پائوں فضا میں تھے اور ان سے کپڑا ہٹ چکا تھا صرف جرابیں ان کو ڈھانپ رہی تھیں۔ اہل کار پوری قوت اور غضب سے چلایا: سر! دیکھیے، آپ نے نوٹ کیا؟ یہ کہتی ہے یہ اخوانی نہیں لیکن اس نے اپنے آپ کو مکمل ڈھانپ رکھا ہے ان ہی کی طرح، اس ٹکٹکی پر بھی اس کا ستر قائم ہے۔‘‘ (ص:53)
تفتیش کا ایک اور انداز ملاحظہ کیجیے:
’’تفتیشی افسر کے ہاتھ میں مربع شکل کا بجلی کا بورڈ اور پلگ تھا اور ایک ہاتھ نما چیز تھی، جس پر کلپ لگے ہوئے تھے۔ اس نے کلپ میری انگلی کے ساتھ لگا کر اس میں کرنٹ چھوڑ دیا اور ڈنڈے سے میرے پائوں کے درمیان میں ضرب لگائی۔ ایسا لگا جیسے میرے پورے بدن میں آگ لگ گئی ہو۔ وہ میری چیخوں کو خاطر میں لائے بنا بولا:
’’ہوں… تمھیں بکواس کرنی پڑے گی۔‘‘
میں چلائی: ’’میں کہہ چکی ہوں، میرے پاس اعتراف کرنے کو کچھ نہیں۔‘‘
وہ سرد مہری سے بولا: ’’تم نے دیکھا نہیں کہ بجلی کی طاقت کیا ہوتی ہے؟ یہ ہمارے پاس سب سے ہلکا ٹارچر ہوتا ہے۔ میں نے کہا: اگر ایسا ہی ہو تو بھی کیا میںان چیزوں کا اعتراف کر وں جو میں نے نہیں کیا۔‘‘
اس پر وہ بولا: ’’تم جھوٹ کہہ رہی ہو اور ہم سے چھپا رہی ہو۔ تمھیں ابھی ہمارے ساتھ جانا ہو گا اور اس گھر کی نشان دہی کرنی ہو گی جہاں تمھارا بھائی اور اس کے ساتھی رہتے ہیں۔ ورنہ ہم تجھے ہلاکت تک پہنچا دیں گے۔
میرے انکار پر تعذیب کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا۔ آپریشنل ہیڈ پوری قوت سے میرے پائوں پر کوڑے برسانے لگا۔ پائوں پر ضرب پڑنے سے پہلے اس کی سنسناہٹ سنائی دیتی۔ ایک اور اہل کار اپنے بید کے ساتھ تعذیب دینے میں شریک ہو گیا۔ دوسرا اہل کار میرے سر کی جانب کھڑا ہو کر میری انگلیوں پر نئے سرے سے کرنٹ لگانے لگا۔ اتنی شدید تکلیف ہوئی کہ اس کو الفاظ میں نہیں بیان کر سکتی۔ شروع میں چیختی رہی اور میری زبان پر ’یااللہ‘ کا کلمہ جاری رہا۔ لیکن کچھ دیر بعد آواز نکالنا بھی میری بس میں نہ رہا۔ میں سر پٹختی رہی اور مجھے کسی بھی چیز کا احساس نہ رہا۔‘‘ (ص:53۔55)
تفتیشی سیل میں ٹارچر کے ایسے ہی وحشیانہ طریقے دیگر خواتین کے ساتھ بھی اختیار کیے جاتے تھے۔ ہبہ نے ان کا تذکرہ اپنی کتاب میں جا بجا کیا ہے۔ ان کے مطابق کپڑے پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جاتے۔ تھپڑوں، گھونسوں، کوڑوں اور ڈنڈوں کی بارش کی جاتی، انگلیوں پر شدید ضربیں لگائی جاتیں اور ناخن کھینچ کر اکھاڑ دیے جاتے، سگریٹ سلگا کر پوشیدہ اور نازک اعضاء کو جلایا جاتا، بالوں کو پکڑ کر کھینچا جاتا اور سر کو دیواروں اور زمین پر پٹخا جاتا، ٹکٹکی پر باندھ کر الٹا لٹکا دیا جاتا، بے ہوش ہونے پر پوری قوت سے پانی انڈیلا جاتا، جس سے بسا اوقات قیدی کے کان کے پردے پھٹ جاتے، بجلی کے کرنٹ لگائے جاتے۔ اس طرح کے اور بھی بے شمار وحشیانہ طریقے تھے جن کے ذریعے ملزم کو ناکردہ جرم قبول کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ جرم نہ قبول کرنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ مسلسل ان اذیتوں سے دوچار رہے اور جرم قبول کرنے کا نتیجہ لازماً سزائے موت تھی۔
یہ تو خواتین پرمظالم کا حال تھا۔ اخوان کے مردوں کا حال اوربھی برا تھا۔ وہ ان جلادوں کی نظر میں کسی ہمدردی کے مستحق نہ تھے۔ ان کو سخت سے سخت اذیتیں دینے کی کھلی چھوٹ حاصل تھی۔ انھیں ہر طرح سے مشق ستم بنایا جاتا، ان کے ساتھ جانوروں جیسا بلکہ اس سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا۔کتاب سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
’’بلاک میں قیدیوں کی تعداد اس قدر بڑھ چکی تھی کہ اگر ایک خاتون کروٹ لینا چاہتی تو پورے بلاک کی خواتین کو حرکت دینا پڑتی۔‘‘ (ص:83)
’’اگر ہم اپنی حالت کا مقابلہ نوجوان مرد قیدیوں سے کرتے تو وہ بالفعل جہنم میں رہ رہے تھے۔ جب بلاک میں خواتین قیدیوں کی تعداد دس سے زیادہ ہو جاتی اور ہم دم گھٹنے کی شکایت کرتے، اس وقت ان کے ایک ایک بلاک میں پچاس سے زیادہ گرفتار ان بلا ہوتے اور انھیں دن میں بھی سانس لینا دشوار محسوس ہوتا اور رات کو سونے کے لیے پائوں دیوار کے ساتھ اونچے کر کے صرف کمر زمین پر رکھ کر سوتے اور اس میں بھی انھیں اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا۔‘‘ (ص: 115)
’’ایک روز اہل کاروں نے ایک مسکین کو کمرۂ تعذیب سے نکال کر ہمارے بلاک کے سامنے ڈالا تاکہ اسے دوسری جگہ منتقل کر کے باقی کمی پوری کر سکیں۔ اس کا چہرہ اور بدن زخموں سے چور تھا۔ پیاس کی شدت سے اس کی زبان باہر نکلی ہوئی تھی اور جسم سے خون رس رہا تھا۔ وہ گڑ گڑا کر پانی کا ایک گھونٹ مانگ رہا تھا۔ لیکن اسے جواب دینے والا کوئی نہ تھا۔ کچھ دیر بعد ہم نے کچھ پانی بلاک سے باہر زمین پر بہا دیا اور اس نے زمین سے چاٹ لیا۔‘‘ (ص: 120)
’’ایک دفعہ ہم نے دیکھا کہ وہ ایک دیہاتی کو پکڑ لائے اور اسے برہنہ کر دیا۔ اہل کار دونوں جانب کھڑے ہو گئے اور ڈنڈوں اور لاتوں سے اس کی درگت بنانے لگے۔ وہ اسے ہینڈز اپ کرا کر کبھی ایک طرف بھگاتے اور کبھی دوسری جانب۔ وہ کبھی تیزی سے بھاگتا اور کبھی سست پڑ جاتا، حتیٰ کہ وہ بے ہوش ہو گیا۔ پھر وہ اسے اٹھا کر غسل خانوں میں لے گئے۔ وہ کبھی اس کے سر پر ٹھنڈا پانی ڈالتے اور کبھی تیز گرم۔ وہ مسکین بڑی بے بسی سے چیختا چلاتا رہا۔ کسی کو اس پر رحم نہ آیا۔ گویا وہ بھیڑ بکری ہو قصابوں کے بیچ میں۔‘‘ (ص:119)
’’جب نوجوانوں کو ہوا خوری کے لیے باہر نکالا جاتا تو وہ بھی بڑا الم ناک وقت ہوتا۔ تعذیب کے باعث وہ سیدھے کھڑے نہ ہو سکتے۔ ٹارچر سے ان کے پائوںاس قدر سوج چکے ہوتے کہ اس سردی میں بھی وہ جوتا نہ پہن سکتے اور ننگے پائوں چل رہے ہوتے۔ ان کو ہانکنے کے لیے مسلسل کوڑا برستا رہتا، جیسے وہ جانور ہوں۔ ان کے رنگ اتنے زرد ہو چکے تھے کہ ان کے جسموں سے روشنی نکلتی محسوس ہوتی تھی۔
مجھے اب تک یاد ہے کہ ایک نوجوان نے بیت الخلا میں ذرا دیر لگا دی۔ اہل کار نے اسے وہیں مارنا شروع کر دیا اور اس سے مطالبہ کیا کہ وہ گندگی اپنے منہ میں ڈالے۔ وہ اسے مسلسل زنجیروں سے مار بھی رہا تھا اور انتہائی گندے مطالبات بھی کر رہا تھا۔ وہ اس کا منہ زمین پر بھی رگڑ رہا تھا۔ بے چارہ قیدی مدد کے لیے فریاد کر رہا تھا مگر اسے بچانے والا کوئی نہ تھا۔‘‘ (256۔ 257)
دورانِ اسیری ہی ہبہ کو حمات کے قتلِ عام (فروری 1982ئ) کے موقع پر اپنے پورے خاندان کی شہادت کی خبر ملی۔ اس واقعہ کو پیش آئے اگرچہ آٹھ ماہ گزر چکے تھے لیکن اس کا علم اس وقت ہوا جب قطناجیل میں قید خواتین کے رشتہ داروں کو ان سے ملاقات کی اجازت ملی۔ اس کی تفصیل خود ہبہ کی زبانی سنیے: ’’حمات کا رابطہ بیرونی دنیا سے مکمل طور پر منقطع کر دیا گیا تھا۔
اس کی شاہراہیں ذبح خانوں میں تبدیل ہو گئیں اور اس کے باشندے سیکڑوں کی تعداد میں قتل ہونے لگے۔ بجلی، پانی اور خوراک پہنچنے کے راستے بند کر دیے گئے۔ یہ محاصرہ سات دن تک جاری رہا۔ ہمارے گھر میں کھانا اور پانی بالکل ختم ہو گیا تو میرے ابا جان باہر نکلے اور حکومتی اہل کاروں سے درخواست کی کہ بچوں کے لیے کھانا دے دیں۔ خواہ روٹی کا ایک ٹکڑا ہی ہو۔ اس کے جواب میںایک گولی سنسناتی ہوئی آئی اور ابا جان خون میں لت پت زمین پر گر پڑے۔ میری امی ان پر روتی ہوئی باہر نکلیں۔ وہ ابھی دروازے تک بھی نہ پہنچی تھیں کہ ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی گئی۔ پھر وہ گھر کے اندر داخل ہو گئے اور وہاں جو بھی نظر آیا اس کا کام تمام کردیا۔
یاسر چار برس کا تھا، قمر پانچ سال کی تھی، رنا چھٹے برس میں تھی اورسات برس کی صفانے نیا نیا اسکول جانا شروع کیا تھا۔ ان سب کو مارنے کے بعد میری بیس سالہ بہن ظلال کو بھی شہید کر دیا۔ میرا چودہ برس کا بھائی عامر اور بارہ برس کا بھائی ماہر بھی انہی حادثات کے دوران شہید ہوئے۔ سب نے اکٹھے ہی اپنی نذر پوری کر دی اور ان کے لاشے یوں ہی بے گوروکفن پڑے رہے۔
اس واقعہ سے کچھ دن پہلے حلب میں میرے بھائی وارف، جس کی عمر اٹھارہ برس تھی، کی شہادت کا سانحہ پیش آ چکا تھا۔ اس طرح مجھے والدین اور آٹھ بہن بھائیوں کی شہادت کی خبر ایک ساتھ ملی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس خبر کا مجھ پر ایسا اثر نہ ہوا جیسا میری ساتھی قیدی خواتین سمجھ رہی تھیں۔ اللہ نے مجھے اس ناگہانی خبر پر صبر اورحوصلہ دیا۔ کیونکہ یہ سب ان شاء اللہ شہادت کے درجے پر فائز ہوں گے اور شہادت کی آرزو تو ہر مسلمان کرتا ہے۔‘‘ (ص: 171۔176، بہ تلخیص)
مصر میں اخوان المسلمون پر توڑے جانے والے مظالم کے تذکرے پر مشتمل متعدد کتابیں منظر عام پر آئی ہیں اور ان کا دیگر زبانوں میں ترجمہ بھی ہوا ہے۔ لیکن دیگر مسلم ممالک اور خاص طور پر شام میں اخوان کے ناگفتہ بہ حالات کا دنیا کو بالکل علم نہ تھا۔ ہبہ الدباغ انتہائی شکریے کی مستحق ہیں کہ انھوں نے بڑے موثر اسلوب اور ادبی پیرائے میں اپنی خود نوشت لکھ کر ان کی ایک ہلکی سی جھلک دکھا دی ہے۔
اس کتاب کا انگریزی ترجمہ، جسے بیان الخطیب نامی خاتون نے کیا ہے، کینیڈا سے ’’Just Five Minute‘‘ کے نام سے 2007ء میں شائع ہوا ہے۔ اردو ترجمہ ’صرف پانچ منٹ‘ کے نام سے میمونہ حمزہ نے کیا ہے اور اسے 2012ء میں لاہور کے مشہور اشاعتی ادارے ’منشورات‘ نے شائع کیا ہے۔ ضرورت ہے کہ اس کتاب کو زیادہ سے زیادہ عام کیا جائے اور اس کا ترجمہ دیگر زبانوں میں بھی کیا جائے تا کہ اجتماعی شعور بیدار ہو اور دنیا کو شام کی بعثی حکومت کے انسانیت سوز مظالم سے واقفیت ہو سکے۔
https://urdudigest.pk/sirf-5-min/
بستیوں کی بستیاں ویران ہو گئی ہیں اور لاکھوں افراد ہجرت کر کے پڑوسی ممالک میں قائم پناہ گزیں کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہبہ الدباغ کی خود نوشتُ خمس دقائق وحسب، جس کا اردو ترجمہ ’صرف پانچ منٹ‘ کے نام سے منظر عام پر آیا ہے۔ دستاویزی ثبوت فراہم کرتی ہے کہ شام کے اسلام پسند عوام پر انسانیت سوز مظالم کا یہ سلسلہ نیا نہیں ہے بلکہ گزشتہ چالیس سال سے برابر جاری ہے۔
اس کا آغاز شام کے موجودہ حکمران کے باپ حافظ الاسد نے کیا تھا۔ اس کا تعلق اشتراکی نظریات کی حامل بعث پارٹی سے تھا۔ اسی طرح وہ گمراہ علوی نصیری فرقے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس نے اپنے عہد حکومت میں مغربی کلچر اور اشتراکیت کو فروغ دینے کی بھرپور کوشش کی اور اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے فوج اور انتظامیہ میں علویوں کو بھر دیا جب کہ شام کی غالب اکثریت سنی مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ ان میں اسلامی عقائد اور اسلامی تہذیب و ثقافت کی بنیادیں بہت گہری تھیں اور وہ غیر اسلامی کلچر اور اقلیتی غلبہ سے سخت متنفر تھے۔
شامی اخوان المسلمون، جن کی سرگرمیاں مصر میں اس تحریک کی تاسیس (1964ئ) کے کچھ عرصہ بعد ہی شروع ہو گئی تھیں۔ حافظ الاسد کے منصوبوں اور عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔ وہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ہر جگہ اس کی مخالفت میں پیش پیش رہتے تھے۔ اس لیے حافظ الاسد ان کی سرکوبی کے بہانے ڈھونڈتا رہتا تھا۔
970ء میں سنی مسلمانوں اور نصیریوں کے درمیان فرقہ وارانہ کشمکش برپا ہوئی تو بعثی حکومت نے اس کا ذمہ دار اخوان المسلمون کو قرار دے کر ان پر پابندی عائد کر دی اور یہ قانون منظور ہوا کہ اخوان سے وابستگی کی سزا پھانسی ہے۔
[to_like id=”14254″]
اس کے بعد بڑے پیمانے پر ان کے ارکان و وابستگان کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی۔ جس پر بھی اخوانی ہونے کا شبہ ہوا اسے داخلِ زنداں کر دیا، جیلوں میں ان کے ساتھ بدترین تشدد کیا گیا۔ ہزاروں افراد کو بغیر کسی عدالتی کاروائی کے گولیوں سے بھون دیا گیا۔
جیلوں میں وقتاً فوقتاً قیدیوں کو فائرنگ اسکواڈ کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔قتل و غارت گری کا نقطۂ عروج وہ واقعہ ہے جو دو فروری 1982ء کو شہر حمات میں پیش آیا تھا۔ اس شہر کو اخوان المسلمین کا گڑھ قرار دے کر اس کا محاصرہ کر لیا گیا اور ٹینکوں، توپوں، بکتر بند گاڑیوں اور بھاری اسلحہ کے ساتھ ہلّہ بول دیا گیا۔ شہر میں زبردست تباہی مچائی گئی۔ پورے پورے محلے ان کے مکینوں کے ساتھ زمین بوس کر دیے گئے۔
اٹھاسی مسجدیں اور تین چرچ بالکل منہدم ہو گئے۔ شہر کا محاصرہ ستائیس روز تک جاری رہا، تقریباً چالیس ہزار افراد کو گولیوں سے بھون کر اجتماعی قبروں میں دفن کر دیا گیا۔ پندرہ ہزار افراد کا کچھ پتا نہ چلا، گرفتاریوں، ایذا رسانیوں اور تشدد و بربریت کا یہ سلسلہ برسوں جاری رہا۔ ہبہ الدباغ کی یہ خود نوشت اسی دور میں شام کے عقوبت خانوں میں اخوان المسلمون کے مردوں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں پر توڑے جانے والے دل دوز و الم ناک مظالم کی مختصر روداد ہے۔
ہبہ کا تعلق حمات کے ایک دین دار گھرانے سے تھا۔ وہ ماں باپ، سات بھائیوں اور چار بہنوں کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہی تھیں۔ ان کے ماں باپ کوئی سیاسی وابستگی رکھتے تھے نہ خود ہبہ کسی پارٹی کی ممبر تھیں۔ صرف ان کا ایک بھائی (صفوان) اخوان المسلمون کا سرگرم کارکن تھا۔ اخوان پر پابندی عائد کر دیے جانے کے بعد ان کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تو جو لوگ پڑوسی ملک اردن نکل جانے میں کامیاب ہو گئے ان میں وہ بھی تھا۔
اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے شوق میں ہبہ حمات چھوڑ کر دمشق چلی گئیں اور وہاں یونیورسٹی کے شریعہ کالج میں داخلہ لے لیا۔ رہائش کے لیے انھوں نے چند ہم جماعت لڑکیوں کے ساتھ مل کر ایک مکان کرائے پر حاصل کیا۔ ابھی ایک سال بھی پورا نہ ہوا تھا اور امتحان شروع ہونے والا تھا کہ 1980ء کی آخری تاریخ میں نصف شب خفیہ محکمہ کے اہل کاروں نے ان کی رہائش گاہ پر دھاوا بولا، انھیں اور ساتھ ہی رہنے والی دو لڑکیوں (ماجدہ اور ملک) کو اپنے ساتھ تفتیشی دفتر لے گئے۔ لے جاتے وقت تو انھوں نے کہا تھا کہ صرف پانچ منٹ میں تفتیش کر کے واپس بھیج دیں گے۔ لیکن ان لڑکیوں کو عقوبت خانوں میں نو سال تک تعذیب و تشدد کے جاں گسل مراحل سے گزرنے کے بعدرہائی نصیب ہوئی۔
ہبہ پر الزام لگایا گیا کہ وہ اخوان کی آرگنائزر ہے، اس کا ترجمان ’مجلہ النذیر‘ بانٹا کرتی ہے، سید قطب کے افکار پر مشتمل درس قرآن دیتی ہے، اپنے پاس اسلحہ رکھتی ہے وغیرہ۔ حالانکہ وہ ان تمام الزامات سے بری تھیں۔ ان کا اگر کوئی جرم تھا تو بس یہ کہ وہ ایک اخوانی کی بہن تھیں۔ ان برسوں میں ہبہ پر کیا کچھ بیتی، اس کا تذکرہ انھوں نے تفصیل سے اپنی اس خود نوشت میں کیا ہے۔ اس کا خلاصہ انھوں نے کتاب کے مقدمے میں ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’میں اتنا عرصہ جیل کی کال کوٹھڑی میں اپنے بھائی کی ’رہین‘ کے طور پر رہی جو پُرجوش سیاسی کارکن تھا۔ میری زندگی کے بہترین سال قاتل وحشیوں کی نذر ہو گئے۔ میرے اعضاء شل ہو گئے اور میری روح نے بڑھاپے کی چادر اوڑھ لی۔ صرف ایک افترا کے سبب جو مجھ پر باندھا گیا… میں نو برس تک جیل کے ایک سیل سے دوسرے سیل، ایک بلاک سے دوسرے بلاک اور ایک جیل سے دوسری جیل میں منتقل ہوتی رہی۔
نوبنجر برس… ان برسوں میں انسانی رحم کا ہر دروازہ مجھ پر بند کر دیا گیا۔ ان کی سزائوں نے میرے اندر اٹھنے والی ہر اُمید کا دم توڑ دیا اور بنی نوع انسان سے متعلق ادنیٰ سی آس بھی معدوم ہو گئی، صرف اللہ سے امید زندہ رہی… میں شام کی حکومتی جیلوں کے جہنم میں نو برس تک بلاقصور کسی اور کی رہین کے طور پر جلتی رہی۔ میں بتا نہیں سکتی کہ عمرِ عزیز کے نو برس اس ملعون نظام میں کس طرح بیتے۔ جو کچھ پیش آیا اس کی حقیقی تصویر گری سے یہ قلم عاجز ہے۔‘‘ (ص22۔25)
یہ صرف ایک خاتون کے ایام اسیری کی آپ بیتی نہیں ہے بلکہ اس میں بے شمار معصوم خواتین کی داستانِ الم آ گئی ہے۔ ان خواتین کا جرم اگر کچھ تھا تو بس یہ کہ ان میں سے کوئی کسی اخوانی کی ماں تھی، کسی کی بہن، کسی کی بیوی اور کسی کی بیٹی یا انھوں نے کسی اخوانی کو اپنے گھر میں پناہ دے رکھی تھی۔ اس خود نوشت میں مصنفہ نے ان میں سے بہت سی خواتین کا تذکرہ نام بہ نام کیا ہے۔ مثلاً:
الحاجتہ مدیحہ، چالیس کے پیٹے میں تھیں، بالکل ان پڑھ، مگر وہ حلب کی مشہور شخصیت تھیں۔ ان کا جرم یہ تھا کہ انھوں نے اپنے گھر کا ایک حصہ ہاسٹل کی طرح بنا رکھا تھا جس میں رہنے والوں میں سے کچھ لوگ حکومت کو مطلوب تھے۔
الحاجتہ ریاض، چالیس برس کی، غیر شادی شدہ، سیدھی سادی خاتون۔ الزام یہ کہ انھوں نے اخوان کے مصیبت زدہ بعض خاندانوں تک کچھ بہی خواہوں کی دی ہوئی رقم پہنچائی تھی۔ عائشہ کا تعلق حلب سے تھا اور پیشے سے ڈاکٹر تھی۔ اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے حکومت کے خلاف سرگرم کچھ زخمی نوجوانوں کا علاج کر دیا تھا۔ مُنیٰ، پینتیس، چھتیس سال کی خاتون، تین بچوں کی ماں، اس نے ایک اخوانی کو پناہ دے دی تھی۔ اس جرم میں اسے، اس کی بہن، بھائی اور باپ کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ حلیمہ، پینتیس برس کی دیہاتی خاتون، پانچ بچوں کی ماں، جن کی عمریں چار سے نو برس کے درمیان تھیں۔ اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے حکومت کو مطلوب کچھ افراد کو اپنے گھر میں چھپا رکھا تھا۔
منتہیٰ، سولہ برس کی دوشیزہ، شوہر کو حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کے الزام میں قتل کر دیا گیا۔ خفیہ پولیس نے اس کی شیرخوار بچی کو پرے پھینکا اور اسے گرفتار کر کے داخلِ زنداں کر دیا۔
غزوہ، حمات کی رہنے والی ماہرِ دندان خاتون۔ جرم یہ کہ اس نے ایک گھر خریدنے میں اخوانی نوجوانوں کی مدد کی تھی۔
مطیعہ، عمر تقریباً چالیس سال، چار بچوں کی ماں، شوہر اخوان کے حامیوں میں سے تھے۔ گرفتاری سے بچنے کے لیے وہ فرار ہو گئے تو اسے پکڑ لیا گیا۔ وہ اس وقت حمل سے تھی، دوران اسیری جیل میں اس کے یہاں ولادت ہوئی۔
ام ہیثم، شوہر اور چار بچوں کے ساتھ اخوان کے حامیوں میں سے ایک کے گھر کرائے پر رہتی تھیں۔ خفیہ پولیس نے چھاپہ مارا تو سب کے ساتھ انھیں بھی گرفتار کر لیا پھر شوہر کو اسی قید خانے میں قتل کر دیا۔
نجویٰ، حلب کے میڈیکل کالج میں سال دوم کی طالبہ۔ اس کا جرم یہ تھا کہ وہ ایک اخوانی کی منگیتر تھی۔
تفتیشی مراکز اور جیلوں میں ان خواتین کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا اورو حشت وبربریت کا جو ننگا ناچ دکھایا گیا وہ خون کے آنسو رُلانے والا ہے۔ کیا کوئی انسان اس حد تک نیچے گر سکتا ہے۔ ہبہ الدباغ نے اپنی خود نوشت میں اپنے ساتھ پیش آئے ظلم و تشدد کی روداد تفصیل سے بیان کی ہے۔
ایک اقتباس ملاحظہ ہو: ’’ایک اہل کار نے مجھے لکڑی کے تختے پر لٹکا کر میری گردن، کلائیاں، پیٹ، گھٹنے اور پائوں اس سے باندھ دیے اور مجھے الٹا لٹکا دیا۔ میرے پائوں فضا میں تھے اور ان سے کپڑا ہٹ چکا تھا صرف جرابیں ان کو ڈھانپ رہی تھیں۔ اہل کار پوری قوت اور غضب سے چلایا: سر! دیکھیے، آپ نے نوٹ کیا؟ یہ کہتی ہے یہ اخوانی نہیں لیکن اس نے اپنے آپ کو مکمل ڈھانپ رکھا ہے ان ہی کی طرح، اس ٹکٹکی پر بھی اس کا ستر قائم ہے۔‘‘ (ص:53)
تفتیش کا ایک اور انداز ملاحظہ کیجیے:
’’تفتیشی افسر کے ہاتھ میں مربع شکل کا بجلی کا بورڈ اور پلگ تھا اور ایک ہاتھ نما چیز تھی، جس پر کلپ لگے ہوئے تھے۔ اس نے کلپ میری انگلی کے ساتھ لگا کر اس میں کرنٹ چھوڑ دیا اور ڈنڈے سے میرے پائوں کے درمیان میں ضرب لگائی۔ ایسا لگا جیسے میرے پورے بدن میں آگ لگ گئی ہو۔ وہ میری چیخوں کو خاطر میں لائے بنا بولا:
’’ہوں… تمھیں بکواس کرنی پڑے گی۔‘‘
میں چلائی: ’’میں کہہ چکی ہوں، میرے پاس اعتراف کرنے کو کچھ نہیں۔‘‘
وہ سرد مہری سے بولا: ’’تم نے دیکھا نہیں کہ بجلی کی طاقت کیا ہوتی ہے؟ یہ ہمارے پاس سب سے ہلکا ٹارچر ہوتا ہے۔ میں نے کہا: اگر ایسا ہی ہو تو بھی کیا میںان چیزوں کا اعتراف کر وں جو میں نے نہیں کیا۔‘‘
اس پر وہ بولا: ’’تم جھوٹ کہہ رہی ہو اور ہم سے چھپا رہی ہو۔ تمھیں ابھی ہمارے ساتھ جانا ہو گا اور اس گھر کی نشان دہی کرنی ہو گی جہاں تمھارا بھائی اور اس کے ساتھی رہتے ہیں۔ ورنہ ہم تجھے ہلاکت تک پہنچا دیں گے۔
میرے انکار پر تعذیب کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا۔ آپریشنل ہیڈ پوری قوت سے میرے پائوں پر کوڑے برسانے لگا۔ پائوں پر ضرب پڑنے سے پہلے اس کی سنسناہٹ سنائی دیتی۔ ایک اور اہل کار اپنے بید کے ساتھ تعذیب دینے میں شریک ہو گیا۔ دوسرا اہل کار میرے سر کی جانب کھڑا ہو کر میری انگلیوں پر نئے سرے سے کرنٹ لگانے لگا۔ اتنی شدید تکلیف ہوئی کہ اس کو الفاظ میں نہیں بیان کر سکتی۔ شروع میں چیختی رہی اور میری زبان پر ’یااللہ‘ کا کلمہ جاری رہا۔ لیکن کچھ دیر بعد آواز نکالنا بھی میری بس میں نہ رہا۔ میں سر پٹختی رہی اور مجھے کسی بھی چیز کا احساس نہ رہا۔‘‘ (ص:53۔55)
تفتیشی سیل میں ٹارچر کے ایسے ہی وحشیانہ طریقے دیگر خواتین کے ساتھ بھی اختیار کیے جاتے تھے۔ ہبہ نے ان کا تذکرہ اپنی کتاب میں جا بجا کیا ہے۔ ان کے مطابق کپڑے پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جاتے۔ تھپڑوں، گھونسوں، کوڑوں اور ڈنڈوں کی بارش کی جاتی، انگلیوں پر شدید ضربیں لگائی جاتیں اور ناخن کھینچ کر اکھاڑ دیے جاتے، سگریٹ سلگا کر پوشیدہ اور نازک اعضاء کو جلایا جاتا، بالوں کو پکڑ کر کھینچا جاتا اور سر کو دیواروں اور زمین پر پٹخا جاتا، ٹکٹکی پر باندھ کر الٹا لٹکا دیا جاتا، بے ہوش ہونے پر پوری قوت سے پانی انڈیلا جاتا، جس سے بسا اوقات قیدی کے کان کے پردے پھٹ جاتے، بجلی کے کرنٹ لگائے جاتے۔ اس طرح کے اور بھی بے شمار وحشیانہ طریقے تھے جن کے ذریعے ملزم کو ناکردہ جرم قبول کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ جرم نہ قبول کرنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ مسلسل ان اذیتوں سے دوچار رہے اور جرم قبول کرنے کا نتیجہ لازماً سزائے موت تھی۔
یہ تو خواتین پرمظالم کا حال تھا۔ اخوان کے مردوں کا حال اوربھی برا تھا۔ وہ ان جلادوں کی نظر میں کسی ہمدردی کے مستحق نہ تھے۔ ان کو سخت سے سخت اذیتیں دینے کی کھلی چھوٹ حاصل تھی۔ انھیں ہر طرح سے مشق ستم بنایا جاتا، ان کے ساتھ جانوروں جیسا بلکہ اس سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا۔کتاب سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
’’بلاک میں قیدیوں کی تعداد اس قدر بڑھ چکی تھی کہ اگر ایک خاتون کروٹ لینا چاہتی تو پورے بلاک کی خواتین کو حرکت دینا پڑتی۔‘‘ (ص:83)
’’اگر ہم اپنی حالت کا مقابلہ نوجوان مرد قیدیوں سے کرتے تو وہ بالفعل جہنم میں رہ رہے تھے۔ جب بلاک میں خواتین قیدیوں کی تعداد دس سے زیادہ ہو جاتی اور ہم دم گھٹنے کی شکایت کرتے، اس وقت ان کے ایک ایک بلاک میں پچاس سے زیادہ گرفتار ان بلا ہوتے اور انھیں دن میں بھی سانس لینا دشوار محسوس ہوتا اور رات کو سونے کے لیے پائوں دیوار کے ساتھ اونچے کر کے صرف کمر زمین پر رکھ کر سوتے اور اس میں بھی انھیں اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا۔‘‘ (ص: 115)
’’ایک روز اہل کاروں نے ایک مسکین کو کمرۂ تعذیب سے نکال کر ہمارے بلاک کے سامنے ڈالا تاکہ اسے دوسری جگہ منتقل کر کے باقی کمی پوری کر سکیں۔ اس کا چہرہ اور بدن زخموں سے چور تھا۔ پیاس کی شدت سے اس کی زبان باہر نکلی ہوئی تھی اور جسم سے خون رس رہا تھا۔ وہ گڑ گڑا کر پانی کا ایک گھونٹ مانگ رہا تھا۔ لیکن اسے جواب دینے والا کوئی نہ تھا۔ کچھ دیر بعد ہم نے کچھ پانی بلاک سے باہر زمین پر بہا دیا اور اس نے زمین سے چاٹ لیا۔‘‘ (ص: 120)
’’ایک دفعہ ہم نے دیکھا کہ وہ ایک دیہاتی کو پکڑ لائے اور اسے برہنہ کر دیا۔ اہل کار دونوں جانب کھڑے ہو گئے اور ڈنڈوں اور لاتوں سے اس کی درگت بنانے لگے۔ وہ اسے ہینڈز اپ کرا کر کبھی ایک طرف بھگاتے اور کبھی دوسری جانب۔ وہ کبھی تیزی سے بھاگتا اور کبھی سست پڑ جاتا، حتیٰ کہ وہ بے ہوش ہو گیا۔ پھر وہ اسے اٹھا کر غسل خانوں میں لے گئے۔ وہ کبھی اس کے سر پر ٹھنڈا پانی ڈالتے اور کبھی تیز گرم۔ وہ مسکین بڑی بے بسی سے چیختا چلاتا رہا۔ کسی کو اس پر رحم نہ آیا۔ گویا وہ بھیڑ بکری ہو قصابوں کے بیچ میں۔‘‘ (ص:119)
’’جب نوجوانوں کو ہوا خوری کے لیے باہر نکالا جاتا تو وہ بھی بڑا الم ناک وقت ہوتا۔ تعذیب کے باعث وہ سیدھے کھڑے نہ ہو سکتے۔ ٹارچر سے ان کے پائوںاس قدر سوج چکے ہوتے کہ اس سردی میں بھی وہ جوتا نہ پہن سکتے اور ننگے پائوں چل رہے ہوتے۔ ان کو ہانکنے کے لیے مسلسل کوڑا برستا رہتا، جیسے وہ جانور ہوں۔ ان کے رنگ اتنے زرد ہو چکے تھے کہ ان کے جسموں سے روشنی نکلتی محسوس ہوتی تھی۔
مجھے اب تک یاد ہے کہ ایک نوجوان نے بیت الخلا میں ذرا دیر لگا دی۔ اہل کار نے اسے وہیں مارنا شروع کر دیا اور اس سے مطالبہ کیا کہ وہ گندگی اپنے منہ میں ڈالے۔ وہ اسے مسلسل زنجیروں سے مار بھی رہا تھا اور انتہائی گندے مطالبات بھی کر رہا تھا۔ وہ اس کا منہ زمین پر بھی رگڑ رہا تھا۔ بے چارہ قیدی مدد کے لیے فریاد کر رہا تھا مگر اسے بچانے والا کوئی نہ تھا۔‘‘ (256۔ 257)
دورانِ اسیری ہی ہبہ کو حمات کے قتلِ عام (فروری 1982ئ) کے موقع پر اپنے پورے خاندان کی شہادت کی خبر ملی۔ اس واقعہ کو پیش آئے اگرچہ آٹھ ماہ گزر چکے تھے لیکن اس کا علم اس وقت ہوا جب قطناجیل میں قید خواتین کے رشتہ داروں کو ان سے ملاقات کی اجازت ملی۔ اس کی تفصیل خود ہبہ کی زبانی سنیے: ’’حمات کا رابطہ بیرونی دنیا سے مکمل طور پر منقطع کر دیا گیا تھا۔
اس کی شاہراہیں ذبح خانوں میں تبدیل ہو گئیں اور اس کے باشندے سیکڑوں کی تعداد میں قتل ہونے لگے۔ بجلی، پانی اور خوراک پہنچنے کے راستے بند کر دیے گئے۔ یہ محاصرہ سات دن تک جاری رہا۔ ہمارے گھر میں کھانا اور پانی بالکل ختم ہو گیا تو میرے ابا جان باہر نکلے اور حکومتی اہل کاروں سے درخواست کی کہ بچوں کے لیے کھانا دے دیں۔ خواہ روٹی کا ایک ٹکڑا ہی ہو۔ اس کے جواب میںایک گولی سنسناتی ہوئی آئی اور ابا جان خون میں لت پت زمین پر گر پڑے۔ میری امی ان پر روتی ہوئی باہر نکلیں۔ وہ ابھی دروازے تک بھی نہ پہنچی تھیں کہ ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی گئی۔ پھر وہ گھر کے اندر داخل ہو گئے اور وہاں جو بھی نظر آیا اس کا کام تمام کردیا۔
یاسر چار برس کا تھا، قمر پانچ سال کی تھی، رنا چھٹے برس میں تھی اورسات برس کی صفانے نیا نیا اسکول جانا شروع کیا تھا۔ ان سب کو مارنے کے بعد میری بیس سالہ بہن ظلال کو بھی شہید کر دیا۔ میرا چودہ برس کا بھائی عامر اور بارہ برس کا بھائی ماہر بھی انہی حادثات کے دوران شہید ہوئے۔ سب نے اکٹھے ہی اپنی نذر پوری کر دی اور ان کے لاشے یوں ہی بے گوروکفن پڑے رہے۔
اس واقعہ سے کچھ دن پہلے حلب میں میرے بھائی وارف، جس کی عمر اٹھارہ برس تھی، کی شہادت کا سانحہ پیش آ چکا تھا۔ اس طرح مجھے والدین اور آٹھ بہن بھائیوں کی شہادت کی خبر ایک ساتھ ملی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس خبر کا مجھ پر ایسا اثر نہ ہوا جیسا میری ساتھی قیدی خواتین سمجھ رہی تھیں۔ اللہ نے مجھے اس ناگہانی خبر پر صبر اورحوصلہ دیا۔ کیونکہ یہ سب ان شاء اللہ شہادت کے درجے پر فائز ہوں گے اور شہادت کی آرزو تو ہر مسلمان کرتا ہے۔‘‘ (ص: 171۔176، بہ تلخیص)
مصر میں اخوان المسلمون پر توڑے جانے والے مظالم کے تذکرے پر مشتمل متعدد کتابیں منظر عام پر آئی ہیں اور ان کا دیگر زبانوں میں ترجمہ بھی ہوا ہے۔ لیکن دیگر مسلم ممالک اور خاص طور پر شام میں اخوان کے ناگفتہ بہ حالات کا دنیا کو بالکل علم نہ تھا۔ ہبہ الدباغ انتہائی شکریے کی مستحق ہیں کہ انھوں نے بڑے موثر اسلوب اور ادبی پیرائے میں اپنی خود نوشت لکھ کر ان کی ایک ہلکی سی جھلک دکھا دی ہے۔
اس کتاب کا انگریزی ترجمہ، جسے بیان الخطیب نامی خاتون نے کیا ہے، کینیڈا سے ’’Just Five Minute‘‘ کے نام سے 2007ء میں شائع ہوا ہے۔ اردو ترجمہ ’صرف پانچ منٹ‘ کے نام سے میمونہ حمزہ نے کیا ہے اور اسے 2012ء میں لاہور کے مشہور اشاعتی ادارے ’منشورات‘ نے شائع کیا ہے۔ ضرورت ہے کہ اس کتاب کو زیادہ سے زیادہ عام کیا جائے اور اس کا ترجمہ دیگر زبانوں میں بھی کیا جائے تا کہ اجتماعی شعور بیدار ہو اور دنیا کو شام کی بعثی حکومت کے انسانیت سوز مظالم سے واقفیت ہو سکے۔
https://urdudigest.pk/sirf-5-min/