صحافی اسد علی طور پر تین ’نامعلوم افراد‘ کا گھر میں گھس کر تشدد

جاسم محمد

محفلین
صحافی اسد علی طور پر تین ’نامعلوم افراد‘ کا گھر میں گھس کر تشدد
26 مئ 2021، 01:25 PKT
اپ ڈیٹ کی گئی 2 گھنٹے قبل
_118674075_ac32e501-1510-4aef-a7a1-fecd754977f9.jpg

اسلام آباد میں نامعلوم افراد نے صحافی اور یو ٹیوب ولاگر اسد علی طور کو ان کے گھر میں گھس کر تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔

یہ واقعہ منگل کی شب اسلام آباد کے سیکٹر ایف الیون میں پیش آیا جب تین نامعلوم افراد اسد علی طور کے فلیٹ میں زبردستی داخل ہوئے اور ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر انھیں زد و کوب کیا۔

اسد علی طور نے پولیس کو اپنے بیان میں بتایا ہے کہ ان پر تشدد کر نے والے افراد پستول سے مسلح تھے اور انھوں نے اسد علی طور کو پستول کے بٹ اور پائپ سے مارا پیٹا۔

بی بی سی کے اعظم خان کے مطابق اسد علی طور کا کہنا ہے کہ ان پر حملہ کرنے والے افراد نے انھیں ٹھوکریں ماریں اور ان سے زبردستی 'پاکستان زندہ باد کے نعرے لگوائے۔'

فلیٹ کے سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اسد طور پر حملے کرنے والے تینوں افراد چہرے پر ماسک پہنے ہوئے تھے اور انھیں زود و کرب کرنے کے بعد باآسانی فرار ہو گئے۔

سی سی ٹی وی فوٹیج میں اسد علی طور کو زخمی حالت میں فلیٹ سے باہر نکلتے اور مدد کے لیے پکارتے دیکھا جا سکتا ہے۔

_118674072_15d3a867-8912-45b8-b6b2-ad5a4f2c3765.jpg

،تصویر کا کیپشن
اسد علی طور نے پولیس کو اپنے بیان میں بتایا ہے کہ ان پر تشدد کر نے والے افراد پستول سے مسلح تھے اور انھوں نے اسد علی طور کو پستول کے بٹ اور پائپ سے مارا پیٹا

اسد علی طور پر حملے کی خبر عام ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر جہاں ان پر ہونے والے حملے کی مذمت کا سلسلہ شروع ہوا وہیں حال ہی میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے منظور کیے جانے والے قانون کی اہمیت پر بھی سوال اٹھائے جانے لگے۔

صحافی برادری کے علاوہ حکومتی نمائندوں کی جانب سے بھی اسد علی طور پر کیے جانے والے حملے مزمت کی گئی ہے۔

وزارت اطلاعات و نشریات کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ٹویٹ میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی جانب سے اسد طور پر کیے گئے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے ایس ایس پی اسلام آباد کو ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ اس حملے کی فوری تفتیش کریں۔

اسد علی طور اپنی عدالتی رپورٹنگ اور حکومت اور ریاستی اداروں پر تنقیدی یو ٹیوب پر ویڈیو بلاگز کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔

_118673901_e2qxgeaxeamq3io.jpg

گذشتہ برس اسد طور پر راولپنڈی کی پولیس نے سوشل میڈیا پر پاکستانی اداروں بالخصوص فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے، پوسٹس اور تبصرہ کرنے کے الزام میں صحافی اسد طور کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا تھا۔

خیال رہے کہ یہ اسلام آباد میں حکومت کے ناقدین صحافیوں پر حملے کا حال ہی میں دوسرا واقعہ ہے۔

چند ہفتے قبل ایک اور صحافی ابصار عالم ایف الیون میں ہی اس وقت زخمی ہو گئے تھے اب ان پر گھر کے قریبی پارک میں چہل قدمی کرتے ہوئے فائرنگ کی گئی۔
 
صحافی اسد علی طور پر تین ’نامعلوم افراد‘ کا گھر میں گھس کر تشدد ، ایمنٹسی انٹرنیشنل کا حکومت سے صحافیوں کے تحفظ کا مطالبہ
26 مئ 2021، 01:25 PKT
اپ ڈیٹ کی گئی 26 مئ 2021، 09:24 PKT
_118674075_ac32e501-1510-4aef-a7a1-fecd754977f9.jpg

اسلام آباد میں نامعلوم افراد نے صحافی اور یو ٹیوب ولاگر اسد علی طور کو ان کے گھر میں گھس کر تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔

یہ واقعہ منگل کی شب اسلام آباد کے سیکٹر ایف الیون میں پیش آیا جب تین نامعلوم افراد اسد علی طور کے فلیٹ میں زبردستی داخل ہوئے اور ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر انھیں زد و کوب کیا۔

اسد علی طور نے پولیس کو اپنے بیان میں بتایا ہے کہ ان پر تشدد کر نے والے افراد پستول سے مسلح تھے اور انھوں نے اسد علی طور کو پستول کے بٹ اور پائپ سے مارا پیٹا۔

بی بی سی کے اعظم خان کے مطابق اسد علی طور کا کہنا ہے کہ ان پر حملہ کرنے والے افراد نے انھیں ٹھوکریں ماریں اور ان سے زبردستی 'پاکستان زندہ باد کے نعرے لگوائے۔'

اسی حوالے سے مزید پڑھیے
صحافی اسد علی طور پر فوج کے خلاف ’ہرزہ سرائی‘ کے الزام میں مقدمہ

ابصار عالم پر قاتلانہ حملہ: ’میں حوصلہ نہیں ہارا، نہ ان چیزوں سے ڈرنے والا ہوں'

ابصار عالم پر فوج کے خلاف اکسانے کا مقدمہ، آرٹیکل چھ کے تحت مقدمے کی درخواست

فلیٹ کے سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اسد طور پر حملے کرنے والے تینوں افراد چہرے پر ماسک پہنے ہوئے تھے اور انھیں زود و کرب کرنے کے بعد باآسانی فرار ہو گئے۔

سی سی ٹی وی فوٹیج میں اسد علی طور کو زخمی حالت میں فلیٹ سے باہر نکلتے اور مدد کے لیے پکارتے دیکھا جا سکتا ہے۔

_118674072_15d3a867-8912-45b8-b6b2-ad5a4f2c3765.jpg

،تصویر کا کیپشن
اسد علی طور نے پولیس کو اپنے بیان میں بتایا ہے کہ ان پر تشدد کر نے والے افراد پستول سے مسلح تھے اور انھوں نے اسد علی طور کو پستول کے بٹ اور پائپ سے مارا پیٹا

اسد علی طور پر حملے کی خبر عام ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر جہاں ان پر ہونے والے حملے کی مذمت کا سلسلہ شروع ہوا وہیں حال ہی میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے منظور کیے جانے والے قانون کی اہمیت پر بھی سوال اٹھائے جانے لگے۔

صحافی برادری کے علاوہ حکومتی نمائندوں کی جانب سے بھی اسد علی طور پر کیے جانے والے حملے مزمت کی گئی ہے۔

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 1
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1

وزارت اطلاعات و نشریات کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ٹویٹ میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی جانب سے اسد طور پر کیے گئے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے ایس ایس پی اسلام آباد کو ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ اس حملے کی فوری تفتیش کریں۔

اسد علی طور اپنی عدالتی رپورٹنگ اور حکومت اور ریاستی اداروں پر تنقیدی یو ٹیوب پر ویڈیو بلاگز کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔

_118673901_e2qxgeaxeamq3io.jpg

گذشتہ برس اسد طور پر راولپنڈی کی پولیس نے سوشل میڈیا پر پاکستانی اداروں بالخصوص فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے، پوسٹس اور تبصرہ کرنے کے الزام میں صحافی اسد طور کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا تھا۔

خیال رہے کہ یہ اسلام آباد میں حکومت کے ناقدین صحافیوں پر حملے کا حال ہی میں دوسرا واقعہ ہے۔

چند ہفتے قبل ایک اور صحافی ابصار عالم ایف الیون میں ہی اس وقت زخمی ہو گئے تھے اب ان پر گھر کے قریبی پارک میں چہل قدمی کرتے ہوئے فائرنگ کی گئی۔

واقعے پر رد عمل
صحافی اسد طور پر حملے کے بعد صحافیوں، سماجی کارکنوں اور سیاستدانوں کی جانب سے اس کی مذمت کی گئی۔

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹر نیشنل جنوبی ایشیا کی جانب سے بھی اس حملے کی مذمت کی گئی۔ ادارے کی ٹویٹ میں کہا گیا کہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں صحافیوں کے تحفظ کے بل اسی ہفتے پیش کیے جانے کے بعد صحافی کے خلاف اسی کے گھر میں پُرتشدد حملے پر ادارے کو شدید تشویش ہے۔ ہم حکام سے اپنا مطالبہ دہراتے ہیں کہ وہ صحافیوں کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھائے۔

_118675164_5f607598-5fc2-4584-8b72-a44f6e43b2c4.jpg

،تصویر کا ذریعہTWITTER

صحافی مطیع اللہ جان نے ٹویٹ کیا کہ 'یہ سنجیدہ اور انتہائی قابل مذمت ہے۔ حکومت اپنے شہریوں اور صحافیوں کے تحفظ میں ناکام رہی ہے۔ وزیر داخلہ شیخ رشید اور وزیر اعظم عمران خان کو اتنا بے بس اور بے شرم نہیں ہونا چاہیے۔'

_118675166_7286737b-7c86-4019-9e77-1e84d25c4a9f.jpg

،تصویر کا ذریعہTWITTER

ریما عمر نے لکھا ’صحافیوں کے تحفظ کا بل‘ (جو اس ہفتے کے شروع میں قومی اسمبلی میں انتہائی دھوم دھام کے ساتھ پیش کیا گیا) #AsadTur کے خلاف اس طرح کے بے رحمانہ تشدد کو روکنے اور مجرموں کو سامنے لانے میں کس طرح مدد فراہم کرے گا جن کو اب تک انتہائی گھناؤنے جرائم کے لیے مکمل استثنیٰ حاصل ہے؟ ‘

_118675158_edeeaad1-f513-4a93-ad0c-140e32f1a1f9.jpg

،تصویر کا ذریعہTWITTER

علی ڈار کا کہنا تھا ’ اسد علی طور صاحب نے ہمیشہ مظلوموں کے لیے آواز اُٹھائی اور حق کے ساتھ چٹان بن کر کھڑے ہوئے۔ آج ہم سب پر فرض ہے کہ ان کے لیے اور اس نظام کی تبدیلی کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں جس کو بدلنے کی کوشش کرنے پر آج اسد کو نشانِ عبرت بنانے کو کوشش کی گئی۔‘

_118675160_0e7708b1-c32e-4f25-b22d-3930bb25a0e5.jpg

،تصویر کا ذریعہTWITTER

گلالئی اسماعیل نے بھی اسد علی طور پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے سماجی رابطے کی سئٹ ٹوئٹر پر لکھا ’اسد علی طور جو ’اسد علی طور ان سینسرڈ" کے اپنے نعرے پر قائم رہے ہیں وہ اقتدار سے سچ بولنے اور اپنی صحافتی ذمہ داریوں کو نبھانے کی قیمت ادا کررہے ہیں۔ حملہ آوروں کو جوابدہ ہونا چاہیے۔ تشدد صحافیوں کو خاموش نہیں کرسکتا۔‘
 

جاسم محمد

محفلین
صحافی اسد علی طور پر تین ’نامعلوم افراد‘ کا گھر میں گھس کر تشدد ، ایمنٹسی انٹرنیشنل کا حکومت سے صحافیوں کے تحفظ کا مطالبہ
26 مئ 2021، 01:25 PKT
اپ ڈیٹ کی گئی 26 مئ 2021، 09:24 PKT
_118674075_ac32e501-1510-4aef-a7a1-fecd754977f9.jpg

اسلام آباد میں نامعلوم افراد نے صحافی اور یو ٹیوب ولاگر اسد علی طور کو ان کے گھر میں گھس کر تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔

یہ واقعہ منگل کی شب اسلام آباد کے سیکٹر ایف الیون میں پیش آیا جب تین نامعلوم افراد اسد علی طور کے فلیٹ میں زبردستی داخل ہوئے اور ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر انھیں زد و کوب کیا۔

اسد علی طور نے پولیس کو اپنے بیان میں بتایا ہے کہ ان پر تشدد کر نے والے افراد پستول سے مسلح تھے اور انھوں نے اسد علی طور کو پستول کے بٹ اور پائپ سے مارا پیٹا۔

بی بی سی کے اعظم خان کے مطابق اسد علی طور کا کہنا ہے کہ ان پر حملہ کرنے والے افراد نے انھیں ٹھوکریں ماریں اور ان سے زبردستی 'پاکستان زندہ باد کے نعرے لگوائے۔'

اسی حوالے سے مزید پڑھیے
صحافی اسد علی طور پر فوج کے خلاف ’ہرزہ سرائی‘ کے الزام میں مقدمہ

ابصار عالم پر قاتلانہ حملہ: ’میں حوصلہ نہیں ہارا، نہ ان چیزوں سے ڈرنے والا ہوں'

ابصار عالم پر فوج کے خلاف اکسانے کا مقدمہ، آرٹیکل چھ کے تحت مقدمے کی درخواست

فلیٹ کے سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اسد طور پر حملے کرنے والے تینوں افراد چہرے پر ماسک پہنے ہوئے تھے اور انھیں زود و کرب کرنے کے بعد باآسانی فرار ہو گئے۔

سی سی ٹی وی فوٹیج میں اسد علی طور کو زخمی حالت میں فلیٹ سے باہر نکلتے اور مدد کے لیے پکارتے دیکھا جا سکتا ہے۔

_118674072_15d3a867-8912-45b8-b6b2-ad5a4f2c3765.jpg

،تصویر کا کیپشن
اسد علی طور نے پولیس کو اپنے بیان میں بتایا ہے کہ ان پر تشدد کر نے والے افراد پستول سے مسلح تھے اور انھوں نے اسد علی طور کو پستول کے بٹ اور پائپ سے مارا پیٹا

اسد علی طور پر حملے کی خبر عام ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر جہاں ان پر ہونے والے حملے کی مذمت کا سلسلہ شروع ہوا وہیں حال ہی میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے منظور کیے جانے والے قانون کی اہمیت پر بھی سوال اٹھائے جانے لگے۔

صحافی برادری کے علاوہ حکومتی نمائندوں کی جانب سے بھی اسد علی طور پر کیے جانے والے حملے مزمت کی گئی ہے۔

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 1
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1

وزارت اطلاعات و نشریات کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ٹویٹ میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی جانب سے اسد طور پر کیے گئے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے ایس ایس پی اسلام آباد کو ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ اس حملے کی فوری تفتیش کریں۔

اسد علی طور اپنی عدالتی رپورٹنگ اور حکومت اور ریاستی اداروں پر تنقیدی یو ٹیوب پر ویڈیو بلاگز کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔

_118673901_e2qxgeaxeamq3io.jpg

گذشتہ برس اسد طور پر راولپنڈی کی پولیس نے سوشل میڈیا پر پاکستانی اداروں بالخصوص فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے، پوسٹس اور تبصرہ کرنے کے الزام میں صحافی اسد طور کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا تھا۔

خیال رہے کہ یہ اسلام آباد میں حکومت کے ناقدین صحافیوں پر حملے کا حال ہی میں دوسرا واقعہ ہے۔

چند ہفتے قبل ایک اور صحافی ابصار عالم ایف الیون میں ہی اس وقت زخمی ہو گئے تھے اب ان پر گھر کے قریبی پارک میں چہل قدمی کرتے ہوئے فائرنگ کی گئی۔

واقعے پر رد عمل
صحافی اسد طور پر حملے کے بعد صحافیوں، سماجی کارکنوں اور سیاستدانوں کی جانب سے اس کی مذمت کی گئی۔

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹر نیشنل جنوبی ایشیا کی جانب سے بھی اس حملے کی مذمت کی گئی۔ ادارے کی ٹویٹ میں کہا گیا کہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں صحافیوں کے تحفظ کے بل اسی ہفتے پیش کیے جانے کے بعد صحافی کے خلاف اسی کے گھر میں پُرتشدد حملے پر ادارے کو شدید تشویش ہے۔ ہم حکام سے اپنا مطالبہ دہراتے ہیں کہ وہ صحافیوں کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھائے۔

_118675164_5f607598-5fc2-4584-8b72-a44f6e43b2c4.jpg

،تصویر کا ذریعہTWITTER

صحافی مطیع اللہ جان نے ٹویٹ کیا کہ 'یہ سنجیدہ اور انتہائی قابل مذمت ہے۔ حکومت اپنے شہریوں اور صحافیوں کے تحفظ میں ناکام رہی ہے۔ وزیر داخلہ شیخ رشید اور وزیر اعظم عمران خان کو اتنا بے بس اور بے شرم نہیں ہونا چاہیے۔'

_118675166_7286737b-7c86-4019-9e77-1e84d25c4a9f.jpg

،تصویر کا ذریعہTWITTER

ریما عمر نے لکھا ’صحافیوں کے تحفظ کا بل‘ (جو اس ہفتے کے شروع میں قومی اسمبلی میں انتہائی دھوم دھام کے ساتھ پیش کیا گیا) #AsadTur کے خلاف اس طرح کے بے رحمانہ تشدد کو روکنے اور مجرموں کو سامنے لانے میں کس طرح مدد فراہم کرے گا جن کو اب تک انتہائی گھناؤنے جرائم کے لیے مکمل استثنیٰ حاصل ہے؟ ‘

_118675158_edeeaad1-f513-4a93-ad0c-140e32f1a1f9.jpg

،تصویر کا ذریعہTWITTER

علی ڈار کا کہنا تھا ’ اسد علی طور صاحب نے ہمیشہ مظلوموں کے لیے آواز اُٹھائی اور حق کے ساتھ چٹان بن کر کھڑے ہوئے۔ آج ہم سب پر فرض ہے کہ ان کے لیے اور اس نظام کی تبدیلی کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں جس کو بدلنے کی کوشش کرنے پر آج اسد کو نشانِ عبرت بنانے کو کوشش کی گئی۔‘

_118675160_0e7708b1-c32e-4f25-b22d-3930bb25a0e5.jpg

،تصویر کا ذریعہTWITTER

گلالئی اسماعیل نے بھی اسد علی طور پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے سماجی رابطے کی سئٹ ٹوئٹر پر لکھا ’اسد علی طور جو ’اسد علی طور ان سینسرڈ" کے اپنے نعرے پر قائم رہے ہیں وہ اقتدار سے سچ بولنے اور اپنی صحافتی ذمہ داریوں کو نبھانے کی قیمت ادا کررہے ہیں۔ حملہ آوروں کو جوابدہ ہونا چاہیے۔ تشدد صحافیوں کو خاموش نہیں کرسکتا۔‘
اگر کسی صحافی کا ویسے ہی کسی شہری سے جھگڑا ہو جائے اور اس چکر میں مار پیٹ بھی تو ایمنسٹی والے پھر بھی اسی طرح شور مچائیں گے؟ ایجنسیوں پر الزام صحافی حامد میر بھی ۶ گولیاں کھانے کے بعد لگاتے رہے ہیں۔ جب معاملہ عدالت میں گیا تو ان الزامات سے معافی مانگ لی۔ اور پھر فوج سے تعلقات بہتر کرنے کیلیے ڈی جی آئی ایس پی آر کو اپنے بیٹے کی شادی پر مدعو کر لیا۔

 
Top