عدم صبحِ ازل ہی آپ کی نیّت خراب تھی -عبد الحمید عدم

صبحِ ازل ہی آپ کی نیّت خراب تھی
میرے لئے کچھ اور نہیں تھا شراب تھی

میں آج اعتدال کی حد سے گزر گیا
ساقی خطا معاف طبیعت خراب تھی

جو ظلم تھا وہ حسبِ سلیقہ درست تھا
جو بات تھی وہ اپنی جگہ لاجواب تھی

کیوں التفاتِ زیست کا احساں نہ مانیئے
ہستی ہوئی سی ایک شبِ ماہتاب تھی

مجبور ہو کے شیشہِ مے میں بدل گئی
ڈرتی ہوئی سی اک نظر انتخاب تھی

لہرا کے آئی اور کھنک کر گزر گئی
رُت تھی شباب کی کہ نوائے رباب تھی

فردِ عمل میں جس کا حوالہ تھا اے عدمؔ
وہ میں نہیں تھا مستیِ عہدِ شباب تھی​
عبد الحمید عدم
 
آخری تدوین:
Top