جب سے تیرے وجود سے نکلے
ہم حدود و قیود سے نکلے
دائرے میں سما گئی دُنیا
تیرے بندے حدود سے نکلے
عشق تیرا ہے، ہم بھی تیرے ہیں
ہم میں کیوں پھر صمود سے نکلے ؟
خوشبوں کے دوام کی خاطر
کچھ شگوفے نمود سے نکلے
لوگ نفعِ نقدمیں ڈوبے
ہم جو صابر تھے، سود سے نکلے
صابر بلوچ