شیطان کا پچھتاوا

تو نے جس وقت یہ انسان بنایا یا رب
اس گھڑی مجھ کو تو اک آنکھ نہ بھایا یا رب
اس لیے میں نے سر اپنا نہ جھکایا یا رب
لیکن اب پلٹی ہے کچھ ایسی ہی کایا یا رب

عقل مندی ہے اسی میں کہ میں توبہ کر لوں
سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں

نرم طبیعت اس کی ابتداءً تھی بڑی
قلب و جان پاک تھے شفاف تھی طینت اس کی
پھر بتدریج بدلنے لگی خصلت اس کی
اب تو خود مجھ پر مسلط ہے شرارت اس کی

اس سے پہلے میں اپنا ہی تماشا کر لوں
سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں

بھر دیا تو نے بھلا کون سا فتنہ اس میں
پکتا رہتا ہے ہمیشہ کوئی لاوہ اس میں
اک اک سانس ہے اب صورت شعلہ اس میں
آگ موجود تھی کیا مجھ سے زیادہ اس میں؟

اپنا آتش کدۂ ذات ہی ٹھنڈا کر لوں
سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں

اب تو یہ خون کے بھی رشتوں سے اکڑ جاتا ہے
باپ سے بھائی سے بیٹے سے بھی لڑ جاتا ہے
اُکھڑ جاتا ہے جب کبھی طیش میں ہتھے سے
خود مرے شر کا توازن بگڑ جاتا ہے

اب تو لازم ہے کہ میں خود کو ہی سیدھا کر لوں
سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں

مری نظروں میں تو بس مٹی کا مادھو تھا بشر
میں سمجھتا تھا اسے خود سے بہت ہی کمتر
مجھ پہ پہلے نہ کھلے اس کے سیاسی جوہر
کان میرے بھی کترتا ہے یہ لیڈر بن کر

شیطنت چھوڑ کے میں بھی یہی دھندا کر لوں
سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں

اب جھجھکتا ہے، نہ ڈرتا ہے، نہ شرماتا ہے
نت نئی فتنہ گری روز یہ دکھلاتا ہے
اب یہ ظالم میرے بہکاوے میں کب آتا ہے
میں برا سوچتا رہتا ہوں یہ کر جاتا ہے

سید طالب خوند میری​
 
Top