شیطان اور پاکستان

یوسف-2

محفلین
ایک زمانہ تھا کہ شیطان کی شیطانیاں، شراتوں کے زمرے میں آتی تھیں اور لوگ شفیق الرحمٰن کے افسانوں میں شیطان کے کارنامے پڑھ کر لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ شیطان نوجوانوں کا پسندیدہ کردار بن گیا تھا۔ وہ ایک دوسرے کو اس کے کارنامے سناتے اور ہنستے۔ شیطان بھی ان کو ہنستا دیکھ کر دل ہی دل میں ہنستا اور کہتا تھا ’’مجھے پسند کرنے والو! مجھے دوست بنانے والو، ابھی تمہیں پتہ چل جائے گا کہ میری دوستی کیسی ہوتی ہے‘‘۔
ایک زمانہ اب یہ آیا ہے کہ شیطان کی شیطانیاں ہولناک وارداتیں بن چکی ہیں۔ شیطان سے آج کسی نے پوچھا ’’تمہارا پسندیدہ ملک کون سا ہے؟‘‘
شیطان نے جواب دیا’’میرا پسندیدہ ملک پاکستان ہے!‘‘
پھر پوچھا ’’تمہاری پسندیدہ شکار گاہ کون سی ہے؟‘‘شکاری شیطان نے کہا ’’پاکستان!‘‘
پوچھنے والے نے پوچھا ’’اس کی وجہ کیا ہے؟‘‘شیطان نے کہا ’’وجہ صاف ظاہر ہے۔ پاکستان میں میری ہر بات مان لی جاتی ہے اور پاکستان میں، میں جس کو چاہوں شکار کر سکتا ہوں۔ لوگ کہتے ہیں۔ انسان کا سب سے بڑا دشمن شیطان ہے۔ میں کہتا ہوں۔ انسان کا سب سے بڑا دوست شیطان ہے اور پاکستان مجھے اسی لئے پسند ہے کہ پاکستان میں سارے اہم لوگ مجھے اپنا دوست سمجھتے ہیں‘‘۔
پوچھنے والے نے پوچھا’’کیا ان لوگوں کو بات معلوم نہیں کہ تمہاری دوستی اچھی ہے نہ دشمنی؟‘‘
شیطان نے کہا’’میں ایسے لوگوں کی عقلوں پر کرنسی نوٹوں کے پردے لٹکا دیتا ہوں‘‘۔
شیطان نے ایک پاکستانی سے کہا’’آئو تمہیں آئی ایم ایف سے ملوائوں‘‘۔ وہ اس شخص کو لے کر اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں گیا۔ ہال میں بہت سے اجنبی لوگوں کے ساتھ بہت سے پاکستانی بیٹھے تھے‘‘اجنبی لوگوں میں سے ایک اجنبی اسٹیج پر آیا اور اپنا تعارف کراتے ہوئے بولا ’’آئی ایم ایف‘‘۔
ایک پاکستانی نے پوچھا ’’ایف، کس لفظ کا مخفف ہے؟‘‘
اجنبی نے کہا’’آئی ایم فراڈ!!‘‘
اس پر ہال کی کرسیوں سے آٹھ کر بہت سے لوگ اسٹیج کی طرف لپکے، ہر شخص کہہ رہا تھا ’’سر آئی LOVE یو‘‘۔ وہ سب اس سے ہاتھ ملانے کو بیتاب ہو رہے تھے۔
کافی دیر بعد وہ اجنبی اسٹیج سے اپنے مداحوں کے جھرمٹ میں نیچے اترا تو ایک دوسرا اجنبی اسٹیج پر آیا اور اعلان کیا ’’آئی ایم ایف!‘‘ لوگوں نے کہا ’’ایف کا مطلب کیا؟‘‘
اجنبی نے کہا ’’آئی ایم FOE‘‘۔ (میں دشمن ہوں)۔ اس پر بہت سے لوگ اٹھے اسٹیج کی طرف لپکے اور اس کے ہاتھ چومنے لگے۔ وہ کہہ رہے تھے ہم تمہاری ہر بات مانیں گے‘‘۔ FOE بہت خوش ہوا اور بولا ’’میں اپنے تمام مداحوں کو بلیک واٹر کی بوتلیں تحفے میں پیش کروں گا‘‘۔
پھر تیسرا اجنبی اسٹیج پر آیا اور اس نے اعلان کیا ’’آئی ایم ایف‘‘ ایک بار پھر لوگوں نے پوچھا ’’ایف سے کیا مطلب؟‘‘ اجنبی شخص نے کہا ایف کا مطلب ہے فرینڈ!‘‘
اب پھر بہت سے لوگ اس کی طرف لپکے، وہ کہہ رہے تھے ’’اے دوست ہم بھی تمہارے دوست ہیں، ہم اپنا تن اور من تم پر قربان کر دیں گے۔ بس تم اپنا تھوڑا سا دھن یہیں دیتے رہو تاکہ ہماری دوستی تن من اور دھن کی دوستی کہلائے‘‘۔
اجنبی شخص جس نے اپنا نام فرینڈ بتایا تھا کہنے لگا۔ مجھے تمہاری دوستی کا یقین ہے۔ تم نے میرے کہنے پر اپنا آدھا تن کاٹ کر پھینک دیا۔ تم نے اپنے من میں میری محبت بسا لی اور میں نے جو دھن دیا وہ بھی تم نے اپنے پاس نہ رکھا دوسرے ملکوں میں بھیج دیا، مجھے تم پر ناز ہے!‘‘
شیطان اپنی شیطانیوں پر تکبر کرتے ہوئے اونچی آواز میں بول رہا تھا۔ ’’مجھے پاکستان بے حد پسند ہے۔ یہاں میری ہر بات مانی جاتی ہے۔ میرا ایک بڑا حربہ مایوسی ہے۔ میں نے یہاں مایوسی پھلانے کے لئے کہا تو لوگوں نے مایوسیوں کے طوفان اٹھا دیئے۔ تحریروں تقریروں اور ٹاک شوز کے ذریعے یہ کام ہونے لگا۔ پھر مجھے اللہ کی عبادت کرنے والے اچھے نہیں لگتے۔ میں نے مسجدوں، امام بارگاہوں، گرجوں میں عبادت کرنے والوں کو نشانہ بنانے کو کہا۔ میری بات مانی گئی۔ مجھے نفرتوں سے پیار ہے، میں نے نفرتوں کے فروغ کے لیے کہا لوگوں نے ایک کو دوسرے سے لڑانا شروع کر دیا، ایک دوسرے میں پھوٹ ڈالنے کے لیے سرگرم ہو گئے۔
میں نے کہا مایوسی پھیلانے کا ایک حربہ یہ ہے کہ لوگوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا جائے۔ مجھے اندھیروں سے محبت ہے۔ میں نے کہا روشنی کم کر دو۔ لوڈشیڈنگ بڑھا دو تاکہ لوگ اندھیروں میں الجھ کر رہ جائیں۔ میرے چیلوں نے لوڈشیڈنگ بڑھانا شروع کر دی۔ میں خوش ہوا۔ میں نے کہا۔ اور!! اور!! اور!! اور لوڈشینگ کا دورانیہ بڑھتا چلا گیا۔ میں نے کہا زندگی کی روانی میں خلل ڈال دو، پیڑول مہنگا کرو۔ اور۔ اور۔ اور پھر میں نے کہا، ان کو رزق کی فکر میں الجھا دو۔ آٹا مہنگا کرو، اور مہنگا۔ اور مہنگا۔ پاکستان بنا تھا تو آٹا ایک روپے کا 5 سیر ملتا تھا لیکن آج میرے چیلوں نے آٹا ایک روپے کا 2 تولے کرایا ہے۔
میں نے کہا، بجلی مہنگی کر دو تاکہ لوگوں کو جو روشنی ملے وہ اتنی مہنگی ہو کہ روشنی سے نفرت ہونے لگے۔ پاکستان بنا تھا تو ایک گھر کا بجلی کا بل ایک روپے ماہانہ سے بھی کم ہوتا تھا۔ اب عام گھر کا بل بھی 6 ہزار روپے ماہانہ ہے۔ مجھے کتنی خوشی ہوتی ہے یہ بل دیکھ کر پاکستان میں میری عملداری میں میرے مداحوں کے لئے خوشیاں ہی خوشیاں ہیں۔ میں نے ایک بار کہا کہ میرے ہزاروں لوگ تمہارے وطن میں آنا چاہتے ہیں۔ فوری طور پر ان کو آنے کی اجازت مل گئی۔ یہ لوگ پاکستان آئے اور پاکستان میں میرے مداحوں کے ساتھ مل کر کام کرنے لگے۔ میری خوشی اس میں ہے کہ پاکستان کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے رہیں۔ دونوں طرف کا خون دیکھ کر میرا دل بہت خوش ہوتا ہے اور میں پاکستان کو اسی لئے پسند کرتا ہوں کہ یہ میری سب سے اچھی شکار گاہ ہے۔ (عظیم سرور کا کالم مطبوعہ جنگ 28 نومبر 2013ء)
 
Top