شہر کتاب خوار --- آصف فرخی

الف نظامی

لائبریرین
شہر کتاب خوار

اب کی مرتبہ دمشق میں ایسا قحط پڑا کہ لوگ شعر کہنا بھول گئے۔ درختوں کی چھال اور پودوں کی جڑیں تک لوگ کھا گئے۔ باغوں سے گُل اور گُلوں سے بُلبل غائب ہوئے۔ لوگوں نے ہریالی کھائی ، پھر خاک پھانکنے لگے اور آخر حرام کھانے کی نوبت آگئی۔ جب اس طور بھوک آدمی کو کھانے لگی تو ایک شاعر نے اپنا دیوان چاک کر ڈالا اور کچھ نہ بن پڑا تو اس کے ورق چبانے لگا۔ حلق سے اُترا تو کاغذ اس کو لقمہ تر معلوم ہوا اور پیٹ کی آگ قدرے ٹھنڈائی۔ اب اس نے کیا کام کرا کتاب کی جلد توڑی ، دستے علیحدہ کیے اور لعاب لگا کر کاغذ نگلنے لگا۔ کتاب کو ذائقہ اس کو بھایا اور وہ کتاب خوری کا کمال شائق ہوا کہ جتنی کتابیں ہاتھ لگیں سب کو چٹ کر ڈالا۔ اور دمشق کے کوچہ و بازار میں کتابیں کھوجنے لگا۔ رات کو جو لیٹا تو یوں لگا کہ اس کے لہو میں حرف جگمگا رہے ہیں۔ اس کا کتابی چہرہ جو دیکھا تو شہر میں جتنے صاحبِ کتاب تھے سب اپنی اپنی کتابیں کھانے لگے۔ مدت کے بعد انہیں کتاب کی قدر ہوئی اور کتابوں کو غنیمت جانا اور اس مرزوقِ کتابی کے اس درجے طلب گار ہوئے کہ ذرا سا پرچہ بھی پڑا ملتا تو اٹھا لیتے اور کھا جاتے۔ اب حالت یہ ہوئی کہ شہر میں قسم کھانے کو کاغذ نہ ملتا ، لوگ سب کھا گئے۔ اس کے بعد سے دمشق میں کتاب کا دستور اُٹھ گیا اور کچھ لوگ کتاب ہوئے۔

لفظ چباتے چباتے بھوک جو چمکی تو انہوں نے کہا اب ہمیں کتاب کی کیا ضرورت ہے کہ ہم کتاب خواں سے کتاب خوار بلکہ اصل کتاب ہوئے۔ اور اس انتظار کی بھی کیا ضرورت کہ کتاب لکھی جائے پھر کھائی جائے ، سادہ کاغذ ہی اُتار لو کہ اب کتابوں کے لفظ ہمارے لہو میں رقم ہوئے اور ہمارے جسم معانی کی امانت۔

شہر کتاب خوار میں وہ چند لوگ جو کتاب ہوگئے تھے ، ان میں سے ایک بیٹھے بٹھائے بے کل ہوا اور ایک دن اپنے ساتھیوں سے بولا یارو میرے پیٹھ میں کُھجلی بہت ہوتی ہے کسی کے ناخن بڑے ہوں تو میری پیٹھ کھجا دو۔ تب اہالیانِ دمشق نے دیکھا کہ اس کی پُشت پر دیمک لگی ہوئی ہے۔

اسم اعظم کی تلاش از آصف فرخی ، صفحہ 69 ، بار اول 1984ء
ناشر: احسن مطبوعات 16 بی ، الہلال سوسائٹی ، یونیورسٹی روڈ ، کراچی
 
آخری تدوین:
Top