سید شہزاد ناصر
محفلین
مَلک صاحب آج کل خاموشی کے بائیکاٹ پر ہیں، اس لیے جہاں وہ مس کال سے کام چلانے کی کوشش کرتے تھے اب جھٹ پٹ اور دھڑا دھڑ بیلنس ضائع کررہے ہیں۔ اس سے قبل انہوں نے خاموشی کا بائیکاٹ کسی اور انداز سے کیا تھا، جہاں ایک محفل میں کچھ دیر کے لیے خاموشی ہوئی تو مَلک صاحب نے اچانک دھماکا کرکے ماحول آلودہ کردیا۔ جب اس حرکت پر سب انہیں عجیب و غریب نظروں سے گھورنے لگے تو انہوں نے جھٹ کہا: ”خاموشی کا بائیکاٹ!“ بعد میں ہم نے سمجھایا اس قسم کے بائیکاٹ سے لوگ ان کا بائیکاٹ کردیں گے تو بات ان کی سمجھ میں آگئی اور اب یہ بیلنس ضائع کررہے ہیں۔ اس کی وجہ بھی یہ بتاتے ہیں کہ لوگ ان کے” Bell Balance“ سے واقف ہوکر ان کی عزت کریں گے جس طرح بینک بیلنس والوں کی کی جاتی ہے۔
قدر کھودیتا ہے روز کا آنا جانا اسی طرح قدر کھودیتا ہے روز روز کا سیل فون کی بیل بجانا۔ صبح سے کوئی اٹھارہ کالز کرکے مَلک صاحب نے تنگ کررکھا تھا، تلملا کر میں نے کہا: ”اس سے بہتر ہے کہیں بیٹھ کر تمام باتیں کرلیں تاکہ فون کرنے کی نوبت نہ آئے۔“ مَلک صاحب نے جھٹ کہا: ”آجاﺅ پندرہ منٹ بعد جنگل اسکول کے پاس۔“
”اس وقت کہاں ہو؟“ میں نے پوچھا تو فرمایا: ”پریشان چوک پر۔“
میں خود اس وقت چاندنی چوک پر تھا جو اس وقت اسم بامسما بنا ہوا تھا۔ کیونکہ لائٹ تھی نہیں اور چاند چمک رہا تھا۔ میں تو پانچ منٹ میں جنگل اسکول پہنچ گیا اور دس منٹ مَلک صاحب کی آمد کا انتظار کرنا ہے تو سوچا آپ کو بتادوں کہ جنگل اسکول کو جنگل اسکول اور پریشان چوک کو پریشان چوک کیوں کہا جاتا ہے بلکہ لگے ہاتھوں آج کراچی کی دیگر عجیب وغریب آبادیوں اور چوک چوراہوں کے نام بھی دیکھ لیتے ہیں جو یقینا لطف اندوز معلومات ہوں گی لیکن پہلے آپ کو دلچسپ واقعہ بتادوں کہ مَلک صاحب کو جب ہم نے بتایا، اُن کے نام پر ایک سڑک ہے تو وہ خوشی سے بولے کون سی؟ ہمارا جواب تھا”بندر رَوڈ۔“
بلدیہ ٹاﺅن جب آباد ہوا تو ایک سرکاری گرلز اسکول مضافاتی آبادی کے مشرقی مضافات میں بنادیا گیا جس کے اطراف میں خود رو جنگلی پودے اور جھاڑیاں تھیں جس کی وجہ سے لوگ اسے جنگل اسکول پکارنے لگے اور اصل نام گم ہوتا چلاگیا۔ فرق آیا ہے تو اتنا کہ جنگل، اسکول کے اطراف سے سمٹ کر اندر داخل ہوچکا ہے۔ پریشان چوک کا اصل نام ”پَری شان“ ہے جو بگڑتے بگڑتے پریشان ہوگیا کیونکہ یہاں چوک پر بڑے بڑے گڑھے تھے جس سے لوگوں کو چلنے اور گاڑیوں کو نکلنے میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا، اس طرح لوگ اسے حقیقت میں پریشان چوک ہی سمجھنے لگے۔ اسی سے تھوڑا آگے چلیں تو فقیر کالونی ہے جو غیر آباد علاقہ تھا جہاں کچھ فقیر پہاڑوں پر رہائش پذیر تھے۔ لوگ اکثر شام میں چہل قدمی کے لیے وہاں تک چلے جاتے اور فقیروں سے بھی سلام دعا کرلیتے۔ اس طرح آہستہ آہستہ یہ علاقہ فقیروں کے نام سے ہی موسوم ہوگیا اور نئے بسنے والوں نے فقیروں کو بے دخل کردیا لیکن اس نام سے چھٹکا را حاصل نہ کرسکے۔ بہت سے لوگ اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ یہاں بسنے والے تمام کے تمام فقیر ہیں۔ ہمارے خیال سے تو یہ علاقہ سیاستدانوں کے لیے مخصوص ہونا چاہیے۔
سمجھا یہ جاتا ہے کہ ٹرانسپورٹ سے وابستہ لوگ جاہل، اجڈ اور اکھڑ مزاج ہوتے ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری ٹرانسپورٹ کا ہمارے ادب پر بھی بہت بڑا احسان ہے۔ حالات کے مطابق اشعار اور جملہ بازی یہاں ہی دیکھنے کو ملتی ہے اور کنڈیکٹر جو اس شعبہ کا سب سے کمتر کارکن سمجھا جاتا ہے بہت فنکارانہ صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے، خود یہ اپنا پشاوری شاہ رخ خان بھی ماضی میں کنڈیکٹر تھے۔ اگریہ کہا جائے کہ کراچی کے زیادہ تر علاقوں، چوراہوں اور چوکوں کے نام انہی کنڈکٹر ز کی دین ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ وجہ یہ ہے کراچی میں بسیں اور منی بسیں اسٹاپوں کے علاوہ ہر جگہ روکی جاسکتی ہیں۔ لہٰذا جہاں جہاں لوگ اپنی آسانی کے لیے گاڑیاں رکواتے تو کنڈیکٹر اِرد گرد نظر ڈال کر دیکھتا اور جو چیز اس کے دل کو بھا جائے وہی جگہ کا نام رکھ دیتا۔
انڈہ موڑ کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ نارتھ کراچی میں ایک بیضوی شکل کا چوک تھا، کنڈیکٹرز نے اس چوک کو انڈہ موڑ کا نام دے دیا جو اردگرد واقع مختصر علاقے کی شناخت بن گیا۔ نارتھ کراچی میں ہی ایک بیگار کیمپ ہے۔ یہاں مختلف بسوں اور منی بسوں کا اڈا ہونے کی وجہ سے ڈرائیور اور کلینر قریب ہی قائم مختلف چھپر ہوٹلوں پر بیٹھے رہتے تھے۔ بے کار بیٹھنے کی وجہ سے اسے بے کار کیمپ کا نام دے دیا گیا جو بعد میں بےگار کیمپ ہوگیا۔ نارتھ کراچی کی ہی دو منٹ چورنگی اپنے نام کی انفرادیت کی وجہ سے سارے شہر میں مشہور ہے۔ مَلک سمجھا کہ بس دو منٹ میں یہاں پہنچا جاسکتا ہے مگر وہ دو گھنٹے بعد دو منٹ چورنگی دریافت کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔ مَلک صاحب نے سوچا کہ شاید یہاں ہر دو منٹ بعد کوئی نیا واقعہ ہوتا ہوگا لیکن ایسا بھی کچھ نہ ہوا۔ بعد میں معلومات سے پتا چلا کہ تقریباً 35، 40 سال قبل یہاں سرکاری بسوں کا ڈپو تھا جہاں سے ہر دو منٹ بعد ایک بس چلتی تھی جسے کنڈکٹرز بھائیوں نے اپنی اور عوامی سہولت کے لیے دومنٹ چورنگی کا نام دے دیا۔
جہاں سب سے زیادہ شور ہو سمجھ جائیں وہی خاموش کالونی ہوگی۔ ارے ہاں بھئی! یہ سچ ہے۔ لسبیلہ کے پاس واقع خاموش کالونی کے مکین اتنا ہی بولتے ہیں جتنا شہر کے دوسرے علاقوں کے باسی بلکہ اس سے کہیں زیادہ ٹرانسپورٹ اور چھوٹے چھوٹے کارخانوں کا شور البتہ جب یہاں چھوٹی سی آبادی تھی، زندگی کی گہما گہمی نہ ہونے کے برابر تھی۔ کنڈیکٹرز نے مشورہ کیا اور دے دیا نام خاموشی کالونی کا۔
پھر بھوت بنگلہ، ارے نہیں وہ یہاں کہاں اس کے لیے ملیر کے علاقہ کھوکھرا پار چلتے ہیں۔ ڈریں مت بھوت بنگلے پر بھی انسانوں کا قبضہ ہے۔ اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟ جنات سے زیادہ انسان قبضہ گیر ہیں۔ چلیں بھوت بنگلہ کی کہانی دیکھتے ہیں۔ یہاں ایک پولیس افسر نے اپنا وسیع مکان تعمیر کرایا جو کافی عرصہ خالی پڑا رہا اور کنڈیکٹر حضرات نے حسبِ عادت اس اسٹاپ کو بے رونق بنگلہ کی مناسبت سے بھوت بنگلہ اسٹاپ کا نام دے دیا۔
بیوہ کالونی میں اتنی بیوائیں نہ ہوں گی جتنی کنواری کالونی میں کنواریاں پائی جاتی ہیں لیکن یہ بات سو فیصد سچ ہے کہ لانڈھی بھینس کالونی میں اتنی بھینسیں ہیں کہ دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی نہیں کیا جاسکتا۔ آدھے کراچی کو یہاں سے ہی دودھ سپلائی کیا جاتا ہے۔ کچھ ڈبوں کے دودھ کے سہارے جیتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ڈبہ کالونی میں رہتے ہیں۔ بلدیہ کے علاقے، ڈبہ کالونی میں کسی زمانے ایک ہی سرکاری نلکا تھا جہاں صبح سویرے ہی ٹین کے کنستروں کی طویل قطار نظر آتی جسے کنڈیکٹر بھائیوں نے شرف نظر بخشا اور بنادی ڈبہ کالونی۔ جس طرح لانڈھی سے دودھ کی نہریں بہتی ہیں اسی طرح کراچی کی سیوریج مچھر کالونی میں جاکر پیچھے سمندر میں شامل ہوجاتی ہے۔ کچھ غریب غربا نے سر چھپانے کے لیے گندے نالے کے اطراف میں اپنی جھونپڑیاں ڈال لیں اور مچھروں کے ساتھ ساتھ اپنی بھی آبادی بڑھانا شروع کردی۔ اب یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ مچھر کالونی میں مچھر زیادہ ہیں یا انسان؟ ہنسئے مت بلکہ دیکھا جائے تو دنیا کی حقیقت بھی مچھر کے پَر کے برابر نہیں ہے، لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ پوری دنیا مچھر کالونی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
مچھر کالونی میں تو مچھروں کی بہتات ہے اور بھینس کالونی میں بھینسوں کی تو کیا گیدڑ کالونی میں گیڈر ہوتے ہیں؟ یہی جاننے کے لیے مَلک صاحب کی ہمراہی میں بڑے شوق سے گیڈر کالونی پہنچے تو معلوم ہوا لانڈھی کی گیدڑ کالونی کا سرکاری نام نیو مظفرآباد ہے مگر آج بھی اسے برسوں قبل ملنے والے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ایک زمانہ میں اس علاقے میں گیدڑوں کی ایک بہت بڑی تعداد تھی۔ جن کی آوازوں سے یہ علاقہ گونجتا تھا، یوں اس کا نام گیدڑ کالونی پڑگیا۔ جی نہیں! کنڈیکٹروں کی دال یہاں نہیں گلی، دا ل تو صحافیوں نے ناگن چورنگی کے حوالے سے بھی نہیں گلنے دی۔ شہر کی مشہور ومعروف ناگن چورنگی آج جس جگہ پر ہے وہاں کبھی کچا راستہ تھا جہاں سے ٹرک ریتی، بجری لینے کے لیے کراچی کے ایک سرے گڈاپ تک جاتے تھے۔ تیز رفتار ٹرک ڈرائیور کچی سڑک پر راہ گیروں کو دیکھ کر بھی بریک لگانے کی زحمت گوارا نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ ہر دوسرے، تیسرے روز ایکسیڈنٹ سے کوئی نہ کوئی راہ گیر ہلاک ہوجاتا تھا۔ اخبارات کے کرائم رپوٹرز کو جنہیں ان ہلاکتوں کی خبریں بنانا ہوتی تھیں یہ مسئلہ درپیش رہا کہ جائے حادثہ کو کیا نام دیا جائے اور کسی شاعرانہ مزاج کے حامل اخبار نویس نے اس مقام کو ناگن سے موسوم کیا جو انسانوں کو مسلسل ڈستی رہتی ہے۔
کریلا اور اَوپر سے نیم چڑھا۔ اس محاورے سے پھر ذہن کنڈکٹر کی طرف جارہا ہے لیکن اب جان چھوڑو دو کنڈیکٹر کی انہیں کرایہ بھی لینے دو۔ نارتھ کراچی کا کریلا موڑ ایک سبزی فروش کی یادگار ہے۔ اس مقام پر ایک سبزی فروش اپنا ٹھیلا لگاتا تھا، جسے لوگ کریلا کہہ کر چھیڑتے تھے۔ اس سبزی فروش کے انتقال کے بعد اس جگہ کو اسی سبزی فروش سے منسوب کردیا گیا اور یہ کریلا اسٹاپ موڑ ہوگیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پہلے لوگ طبعی موت مرتے تھے، گولیوں سے تو اب مرنے لگے ہیں۔ مَلک صاحب ایک عرصے تک گولی مار کے علاقے اس لیے نہ جاتے تھے کہ کہیں کوئی گولی نہ داغ دے مگر اب تو شہر کا شہر گولی مار سٹی بنا ہوا ہے۔ پاک کالونی کے قریب واقع علاقہ گولی مار کے نام سے شہری خوب واقف ہیں۔ شہر میں اس نام سے دو علاقے تھے، ایک پرانا گولی مار اور دوسرا صرف گولی مار، پرانا گولی مار شہر کے قدیم ترین آبادیوں میں سے ایک ہے۔ جب کراچی کے کنڈیکٹرز اس دنیا سے واقف بھی نہ تھے۔ یہ علاقہ انگریزوں کے دورِ حکومت میں فوج کی چاند ماری کے لیے مختص تھا، جہاں فوجی نشانے بازی کی مشق کرتے تھے۔ انہی گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے یہ علاقہ گولی مار بن گیا۔ اب بھی انگریز اپنے بزرگوں کی یاد کرتے ہوئے یہاں چاند ماری کرنے آتے ہیں لیکن جان ماری نہیں کرتے اور پورے ملک کو گولیمار سمجھ کر جسے چاہیں نشانے پر رکھ لیں۔ مَلک صاحب بھی اپنے زمانے کے اچھے نشانے باز رَہے ہیں۔ گاﺅں میں گوریوں کے مٹکوں پر غلیل سے خوب نشانے بازی کی ہے۔ جب گاﺅں سے کراچی ہجرت کرکے آئے تو یہاں نشانے بازی کا شوق انہیں تنگ کرتا لیکن نہ یہاں گوریاں نظر آتیں نہ مٹکے لیکن کسی طرح پتا چلا کہ یہاں کہیں کورنگی ڈیڑھ نمبر کے پاس مٹکے والی پُلیا ہے تو اپنی غلیل لے کر پہنچ گئے اور تین چار مٹکے پھوڑنے کے بعد ہی اپنی غلیل ضمانتاً رکھواکر واپس آئے اور آج تک وہاں جانے سے ڈرتے ہیں کیونکہ گندے نالے کی پُلیا پر بڑے میاں آج بھی مٹکوں اور مٹی کے برتنوں کی دکان سجائے مَلک صاحب کے منتظر ہیں اور دروغ بر گردن راوی مَلک صاحب کی غلیل بھی سجارکھی ہے۔
گذری کو لوگ گیا گزرا نہیں سمجھتے ہیں لیکن اگر میں سچ بتادوں تو آپ پھر بھی کیا اسے عزت کی نگاہ سے دیکھیں گے؟ چلیں آپ کو اس پوش علاقے کی کہانی بتاتے ہیں، پھر فیصلہ کیجےے گا۔ متمول ترین علاقہ ڈیفنس سوسائٹی کے پاس واقع اس علاقہ کا نام بظاہر بھلا معلوم ہوتا ہے مگریہ لفظ بلوچی زبان کے دو الفاظ ”گذ“ اور ”ری“ سے مل کر بنا ہے۔ گذ کا مطلب کیکر اور رِی کا رفع حاجت ہے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے یہاں کیکر کے بے شمار درخت تھے جہاں ارد گرد کے دیہاتوں کے باشندے رواج کے مطابق رفع حاجت کے لیے آیا کرتے تھے۔ اس وجہ سے یہ علاقہ گذری بن گیا۔ ناک بھوں نہ چڑھائیں آپ کی پریشانی کا حل ہے ہمارے پاس، چلیں ”پرفیوم چوک“ چلتے ہیں۔ گلستان جوہر میں قائم ایک چھوٹے چوک میں چھوٹے سے کھوکے میں پرفیوم فروخت کرنے والے نے دس سالوں کی محنت کے بعد اس نام کو شہریوں کے دماغ میں بسایا ہے۔ اس کے لیے اس نے مخالفین کی مار بھی کھائی، کھوکھا کی توڑ پھوڑ کا نقصان بھی اٹھایا اور پھر ایک اسپرے گن لے کر رات میں شہر کی دیواروں پر چوک کا نام لکھتا اور صبح اسپرے خریدنے کے لیے پھر کھوکھا پر پرفیوم بیچتا اب تو وہ صاحب ایک بڑی دکان کے مالک ہیں لیکن کچھ منچلے ان جگہوںکو بھی پرفیوم چوک کا نام دے چکے ہیں جہاں لوگ دیوار کی طرف منہ کرکے اس کی بنیادوں کو پانی دیتے ہیں۔ جیسے صدر نعمان شاپنگ اسکوائر کے سامنے چھوٹا سا پرفیوم چوک۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ کچھ لوگ مجبوری میں یہاں اپنی دکانداری کرتے ہیں اور شام میں پرانے جوتے زمین پر سجاکر روزی روٹی کماتے ہیں اور ان کے پیچھے…. ان کے پیچھے چلنے سے پہلے پاﺅں میں نئے جوتے ہونے چاہئیں تو اس کے لیے جانا ہوگا ناظم آباد کی بستی پاپوش نگر جہاں جوتے بنانے کا کاروبار ہوتا تھا اب بھی کئی دکانیں ہیں۔ شہر میں نام رکھنے کے مجموعی رجحان کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس علاقہ کا نام جوتا کالونی ہونا چاہےے تھا مگر باذوق اہلِ محلہ نے اسے پاپوش نگر کا نام دیا۔ واضح رہے کہ پاپوش فارسی زبان میں جوتے کو ہی کہتے ہیں۔ کان یہاں سے پکڑوں یا وہاں سے بات ایک ہی ہے۔ کان تو لالو کھیت والوں نے بھی کسی زمانے میں پکڑوائے تھے۔ خوب پتھر بازی اور لٹھ بازی کے مظاہرے ہوتے تھے۔ ہم نے تو جب سے ہوش سنبھالا ہے نہ لالو کو دیکھا ہے نہ یہاں کوئی کھیت نظر آئے سنا ہے کہ کسی زمانے میں لالو کے کھیت یہاں لہلہاتے رہے ہیں۔ اب یہ لیاقت آباد کے نام سے جانا جاتا ہے مگر اکثریت اب بھی اسی نام سے پکارتی ہے۔
تنگ آگئے نا علاقے ناپتے چلیں کچھ ونڈو شاپنگ کے لیے بازاروں کا رُخ کرتے ہیں۔ ارے! جب چلنا ہی ٹھہرا تو اچھی اچھی گلیوں سے لے کر جائیں تو آپ کا سفر اچھا کٹ جائے گا تو چلتے ہیںبوتل گلی، صرافہ گلی، موچی گلی، دوپٹہ گلی، قوال گلی اور فنکار گلی۔ اب آپ کنڈیکٹرز سے تو گئے گزرے نہیں کہ ان کی تفصیلات بھی سے آگاہ کیا جائے۔ جو نام ہیں وہی کچھ نظر بھی آتا ہے۔ یہ الگ بات کہ کالی مارکیٹ میں کالے اور لال مارکیٹ لال نہ ہوں البتہ گھانس منڈی، پان منڈی، کباڑی بازار، شومارکیٹ، کاغذی بازار، کپڑا مارکیٹ، جامع کلاتھ میں جو نام وہی کام والا حساب کتاب ملے گا مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب آپ جیکسن مارکیٹ میں مائیکل جیکسن، کھڈا مارکیٹ میں کھڈے اور سولجر بازار سولجرز کی خریداری کی ضد کرنے لگیں۔ اگر ایسی حرکت کی تو آپ کو کٹی پہاڑی پر لے جاکر دھکا دینے کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ وہاں حالات کٹے پھٹے رہتے ہیں۔ شہری حکومت نے تو پہاڑ کاٹ کر یہ راستہ اس لیے بنایا تھا کہ لوگ یہاں سے با آسانی گزرا کریں گے مگر کیا خبر تھی کہ یہاں سے گزرنے والا دنیا سے گزر جاتا ہے۔ دعا کریں حالات ٹھیک ہوجائیں تو ایک چکر ضرور لگائیے گا۔ بڑا خوبصورت راستہ ہے۔ ایک خوبصورت راستہ نیٹی جیٹی پُل کی طرف بھی جاتا ہے جہاں لوگ مچھلیوں کو آٹا ڈالنے جاتے ہیں اور کچھ پُل سے کود کر خود ہی مچھلیوں کی خوراک بن جاتے ہیں۔
چلیں بہت ہوگئی آوارگی اب نیٹی جیٹی سے اترتے ہیں کہ سامنے ہی انگریزوں کی یادگار ٹاور ہے جس سے کچھ ہی فاصلے پر آرام باغ چلیں تاکہ آرام کیا جاسکے اور ہاں اس کا پرانا نام ”رام باغ“ ہے کیونکہ قیام پاکستان سے قبل اس کے اطراف میں بہت سے ہندو آباد تھے جو اپنا گھر بار اسی طرح چھوڑ کر رَفو چکر ہوگئے۔ کیا کہا مَلک صاحب نے جنگل اسکول بلایا تھا تو میں بتانا ہی بھول گیا کہ انہوں نے ایس ایم ایس کرکے بتایا ہے کہ وہ کبوتر چورنگی پر کبوتروں کو دانہ ڈال رہے ہیں جو آرام باغ سے قریب ہی ہے کیونکہ اُن کا اِرادہ ہمیں برنس روڈ پر تکے کھلانے کا ہے۔ کیا کریں بھئی! کراچی کی یہی تو سب سے مشہور فوڈ اسٹریٹ ہے۔ ویسے بھی مَلک صاحب اگر خاموشی کے بائیکاٹ پر ہیں تو میں مفتا لگارہا ہوں!!
ربط
http://pak.net/?p=5303
قدر کھودیتا ہے روز کا آنا جانا اسی طرح قدر کھودیتا ہے روز روز کا سیل فون کی بیل بجانا۔ صبح سے کوئی اٹھارہ کالز کرکے مَلک صاحب نے تنگ کررکھا تھا، تلملا کر میں نے کہا: ”اس سے بہتر ہے کہیں بیٹھ کر تمام باتیں کرلیں تاکہ فون کرنے کی نوبت نہ آئے۔“ مَلک صاحب نے جھٹ کہا: ”آجاﺅ پندرہ منٹ بعد جنگل اسکول کے پاس۔“
”اس وقت کہاں ہو؟“ میں نے پوچھا تو فرمایا: ”پریشان چوک پر۔“
میں خود اس وقت چاندنی چوک پر تھا جو اس وقت اسم بامسما بنا ہوا تھا۔ کیونکہ لائٹ تھی نہیں اور چاند چمک رہا تھا۔ میں تو پانچ منٹ میں جنگل اسکول پہنچ گیا اور دس منٹ مَلک صاحب کی آمد کا انتظار کرنا ہے تو سوچا آپ کو بتادوں کہ جنگل اسکول کو جنگل اسکول اور پریشان چوک کو پریشان چوک کیوں کہا جاتا ہے بلکہ لگے ہاتھوں آج کراچی کی دیگر عجیب وغریب آبادیوں اور چوک چوراہوں کے نام بھی دیکھ لیتے ہیں جو یقینا لطف اندوز معلومات ہوں گی لیکن پہلے آپ کو دلچسپ واقعہ بتادوں کہ مَلک صاحب کو جب ہم نے بتایا، اُن کے نام پر ایک سڑک ہے تو وہ خوشی سے بولے کون سی؟ ہمارا جواب تھا”بندر رَوڈ۔“
بلدیہ ٹاﺅن جب آباد ہوا تو ایک سرکاری گرلز اسکول مضافاتی آبادی کے مشرقی مضافات میں بنادیا گیا جس کے اطراف میں خود رو جنگلی پودے اور جھاڑیاں تھیں جس کی وجہ سے لوگ اسے جنگل اسکول پکارنے لگے اور اصل نام گم ہوتا چلاگیا۔ فرق آیا ہے تو اتنا کہ جنگل، اسکول کے اطراف سے سمٹ کر اندر داخل ہوچکا ہے۔ پریشان چوک کا اصل نام ”پَری شان“ ہے جو بگڑتے بگڑتے پریشان ہوگیا کیونکہ یہاں چوک پر بڑے بڑے گڑھے تھے جس سے لوگوں کو چلنے اور گاڑیوں کو نکلنے میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا، اس طرح لوگ اسے حقیقت میں پریشان چوک ہی سمجھنے لگے۔ اسی سے تھوڑا آگے چلیں تو فقیر کالونی ہے جو غیر آباد علاقہ تھا جہاں کچھ فقیر پہاڑوں پر رہائش پذیر تھے۔ لوگ اکثر شام میں چہل قدمی کے لیے وہاں تک چلے جاتے اور فقیروں سے بھی سلام دعا کرلیتے۔ اس طرح آہستہ آہستہ یہ علاقہ فقیروں کے نام سے ہی موسوم ہوگیا اور نئے بسنے والوں نے فقیروں کو بے دخل کردیا لیکن اس نام سے چھٹکا را حاصل نہ کرسکے۔ بہت سے لوگ اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ یہاں بسنے والے تمام کے تمام فقیر ہیں۔ ہمارے خیال سے تو یہ علاقہ سیاستدانوں کے لیے مخصوص ہونا چاہیے۔
سمجھا یہ جاتا ہے کہ ٹرانسپورٹ سے وابستہ لوگ جاہل، اجڈ اور اکھڑ مزاج ہوتے ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری ٹرانسپورٹ کا ہمارے ادب پر بھی بہت بڑا احسان ہے۔ حالات کے مطابق اشعار اور جملہ بازی یہاں ہی دیکھنے کو ملتی ہے اور کنڈیکٹر جو اس شعبہ کا سب سے کمتر کارکن سمجھا جاتا ہے بہت فنکارانہ صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے، خود یہ اپنا پشاوری شاہ رخ خان بھی ماضی میں کنڈیکٹر تھے۔ اگریہ کہا جائے کہ کراچی کے زیادہ تر علاقوں، چوراہوں اور چوکوں کے نام انہی کنڈکٹر ز کی دین ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ وجہ یہ ہے کراچی میں بسیں اور منی بسیں اسٹاپوں کے علاوہ ہر جگہ روکی جاسکتی ہیں۔ لہٰذا جہاں جہاں لوگ اپنی آسانی کے لیے گاڑیاں رکواتے تو کنڈیکٹر اِرد گرد نظر ڈال کر دیکھتا اور جو چیز اس کے دل کو بھا جائے وہی جگہ کا نام رکھ دیتا۔
انڈہ موڑ کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ نارتھ کراچی میں ایک بیضوی شکل کا چوک تھا، کنڈیکٹرز نے اس چوک کو انڈہ موڑ کا نام دے دیا جو اردگرد واقع مختصر علاقے کی شناخت بن گیا۔ نارتھ کراچی میں ہی ایک بیگار کیمپ ہے۔ یہاں مختلف بسوں اور منی بسوں کا اڈا ہونے کی وجہ سے ڈرائیور اور کلینر قریب ہی قائم مختلف چھپر ہوٹلوں پر بیٹھے رہتے تھے۔ بے کار بیٹھنے کی وجہ سے اسے بے کار کیمپ کا نام دے دیا گیا جو بعد میں بےگار کیمپ ہوگیا۔ نارتھ کراچی کی ہی دو منٹ چورنگی اپنے نام کی انفرادیت کی وجہ سے سارے شہر میں مشہور ہے۔ مَلک سمجھا کہ بس دو منٹ میں یہاں پہنچا جاسکتا ہے مگر وہ دو گھنٹے بعد دو منٹ چورنگی دریافت کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔ مَلک صاحب نے سوچا کہ شاید یہاں ہر دو منٹ بعد کوئی نیا واقعہ ہوتا ہوگا لیکن ایسا بھی کچھ نہ ہوا۔ بعد میں معلومات سے پتا چلا کہ تقریباً 35، 40 سال قبل یہاں سرکاری بسوں کا ڈپو تھا جہاں سے ہر دو منٹ بعد ایک بس چلتی تھی جسے کنڈکٹرز بھائیوں نے اپنی اور عوامی سہولت کے لیے دومنٹ چورنگی کا نام دے دیا۔
جہاں سب سے زیادہ شور ہو سمجھ جائیں وہی خاموش کالونی ہوگی۔ ارے ہاں بھئی! یہ سچ ہے۔ لسبیلہ کے پاس واقع خاموش کالونی کے مکین اتنا ہی بولتے ہیں جتنا شہر کے دوسرے علاقوں کے باسی بلکہ اس سے کہیں زیادہ ٹرانسپورٹ اور چھوٹے چھوٹے کارخانوں کا شور البتہ جب یہاں چھوٹی سی آبادی تھی، زندگی کی گہما گہمی نہ ہونے کے برابر تھی۔ کنڈیکٹرز نے مشورہ کیا اور دے دیا نام خاموشی کالونی کا۔
پھر بھوت بنگلہ، ارے نہیں وہ یہاں کہاں اس کے لیے ملیر کے علاقہ کھوکھرا پار چلتے ہیں۔ ڈریں مت بھوت بنگلے پر بھی انسانوں کا قبضہ ہے۔ اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟ جنات سے زیادہ انسان قبضہ گیر ہیں۔ چلیں بھوت بنگلہ کی کہانی دیکھتے ہیں۔ یہاں ایک پولیس افسر نے اپنا وسیع مکان تعمیر کرایا جو کافی عرصہ خالی پڑا رہا اور کنڈیکٹر حضرات نے حسبِ عادت اس اسٹاپ کو بے رونق بنگلہ کی مناسبت سے بھوت بنگلہ اسٹاپ کا نام دے دیا۔
بیوہ کالونی میں اتنی بیوائیں نہ ہوں گی جتنی کنواری کالونی میں کنواریاں پائی جاتی ہیں لیکن یہ بات سو فیصد سچ ہے کہ لانڈھی بھینس کالونی میں اتنی بھینسیں ہیں کہ دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی نہیں کیا جاسکتا۔ آدھے کراچی کو یہاں سے ہی دودھ سپلائی کیا جاتا ہے۔ کچھ ڈبوں کے دودھ کے سہارے جیتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ڈبہ کالونی میں رہتے ہیں۔ بلدیہ کے علاقے، ڈبہ کالونی میں کسی زمانے ایک ہی سرکاری نلکا تھا جہاں صبح سویرے ہی ٹین کے کنستروں کی طویل قطار نظر آتی جسے کنڈیکٹر بھائیوں نے شرف نظر بخشا اور بنادی ڈبہ کالونی۔ جس طرح لانڈھی سے دودھ کی نہریں بہتی ہیں اسی طرح کراچی کی سیوریج مچھر کالونی میں جاکر پیچھے سمندر میں شامل ہوجاتی ہے۔ کچھ غریب غربا نے سر چھپانے کے لیے گندے نالے کے اطراف میں اپنی جھونپڑیاں ڈال لیں اور مچھروں کے ساتھ ساتھ اپنی بھی آبادی بڑھانا شروع کردی۔ اب یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ مچھر کالونی میں مچھر زیادہ ہیں یا انسان؟ ہنسئے مت بلکہ دیکھا جائے تو دنیا کی حقیقت بھی مچھر کے پَر کے برابر نہیں ہے، لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ پوری دنیا مچھر کالونی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
مچھر کالونی میں تو مچھروں کی بہتات ہے اور بھینس کالونی میں بھینسوں کی تو کیا گیدڑ کالونی میں گیڈر ہوتے ہیں؟ یہی جاننے کے لیے مَلک صاحب کی ہمراہی میں بڑے شوق سے گیڈر کالونی پہنچے تو معلوم ہوا لانڈھی کی گیدڑ کالونی کا سرکاری نام نیو مظفرآباد ہے مگر آج بھی اسے برسوں قبل ملنے والے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ایک زمانہ میں اس علاقے میں گیدڑوں کی ایک بہت بڑی تعداد تھی۔ جن کی آوازوں سے یہ علاقہ گونجتا تھا، یوں اس کا نام گیدڑ کالونی پڑگیا۔ جی نہیں! کنڈیکٹروں کی دال یہاں نہیں گلی، دا ل تو صحافیوں نے ناگن چورنگی کے حوالے سے بھی نہیں گلنے دی۔ شہر کی مشہور ومعروف ناگن چورنگی آج جس جگہ پر ہے وہاں کبھی کچا راستہ تھا جہاں سے ٹرک ریتی، بجری لینے کے لیے کراچی کے ایک سرے گڈاپ تک جاتے تھے۔ تیز رفتار ٹرک ڈرائیور کچی سڑک پر راہ گیروں کو دیکھ کر بھی بریک لگانے کی زحمت گوارا نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ ہر دوسرے، تیسرے روز ایکسیڈنٹ سے کوئی نہ کوئی راہ گیر ہلاک ہوجاتا تھا۔ اخبارات کے کرائم رپوٹرز کو جنہیں ان ہلاکتوں کی خبریں بنانا ہوتی تھیں یہ مسئلہ درپیش رہا کہ جائے حادثہ کو کیا نام دیا جائے اور کسی شاعرانہ مزاج کے حامل اخبار نویس نے اس مقام کو ناگن سے موسوم کیا جو انسانوں کو مسلسل ڈستی رہتی ہے۔
کریلا اور اَوپر سے نیم چڑھا۔ اس محاورے سے پھر ذہن کنڈکٹر کی طرف جارہا ہے لیکن اب جان چھوڑو دو کنڈیکٹر کی انہیں کرایہ بھی لینے دو۔ نارتھ کراچی کا کریلا موڑ ایک سبزی فروش کی یادگار ہے۔ اس مقام پر ایک سبزی فروش اپنا ٹھیلا لگاتا تھا، جسے لوگ کریلا کہہ کر چھیڑتے تھے۔ اس سبزی فروش کے انتقال کے بعد اس جگہ کو اسی سبزی فروش سے منسوب کردیا گیا اور یہ کریلا اسٹاپ موڑ ہوگیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پہلے لوگ طبعی موت مرتے تھے، گولیوں سے تو اب مرنے لگے ہیں۔ مَلک صاحب ایک عرصے تک گولی مار کے علاقے اس لیے نہ جاتے تھے کہ کہیں کوئی گولی نہ داغ دے مگر اب تو شہر کا شہر گولی مار سٹی بنا ہوا ہے۔ پاک کالونی کے قریب واقع علاقہ گولی مار کے نام سے شہری خوب واقف ہیں۔ شہر میں اس نام سے دو علاقے تھے، ایک پرانا گولی مار اور دوسرا صرف گولی مار، پرانا گولی مار شہر کے قدیم ترین آبادیوں میں سے ایک ہے۔ جب کراچی کے کنڈیکٹرز اس دنیا سے واقف بھی نہ تھے۔ یہ علاقہ انگریزوں کے دورِ حکومت میں فوج کی چاند ماری کے لیے مختص تھا، جہاں فوجی نشانے بازی کی مشق کرتے تھے۔ انہی گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے یہ علاقہ گولی مار بن گیا۔ اب بھی انگریز اپنے بزرگوں کی یاد کرتے ہوئے یہاں چاند ماری کرنے آتے ہیں لیکن جان ماری نہیں کرتے اور پورے ملک کو گولیمار سمجھ کر جسے چاہیں نشانے پر رکھ لیں۔ مَلک صاحب بھی اپنے زمانے کے اچھے نشانے باز رَہے ہیں۔ گاﺅں میں گوریوں کے مٹکوں پر غلیل سے خوب نشانے بازی کی ہے۔ جب گاﺅں سے کراچی ہجرت کرکے آئے تو یہاں نشانے بازی کا شوق انہیں تنگ کرتا لیکن نہ یہاں گوریاں نظر آتیں نہ مٹکے لیکن کسی طرح پتا چلا کہ یہاں کہیں کورنگی ڈیڑھ نمبر کے پاس مٹکے والی پُلیا ہے تو اپنی غلیل لے کر پہنچ گئے اور تین چار مٹکے پھوڑنے کے بعد ہی اپنی غلیل ضمانتاً رکھواکر واپس آئے اور آج تک وہاں جانے سے ڈرتے ہیں کیونکہ گندے نالے کی پُلیا پر بڑے میاں آج بھی مٹکوں اور مٹی کے برتنوں کی دکان سجائے مَلک صاحب کے منتظر ہیں اور دروغ بر گردن راوی مَلک صاحب کی غلیل بھی سجارکھی ہے۔
گذری کو لوگ گیا گزرا نہیں سمجھتے ہیں لیکن اگر میں سچ بتادوں تو آپ پھر بھی کیا اسے عزت کی نگاہ سے دیکھیں گے؟ چلیں آپ کو اس پوش علاقے کی کہانی بتاتے ہیں، پھر فیصلہ کیجےے گا۔ متمول ترین علاقہ ڈیفنس سوسائٹی کے پاس واقع اس علاقہ کا نام بظاہر بھلا معلوم ہوتا ہے مگریہ لفظ بلوچی زبان کے دو الفاظ ”گذ“ اور ”ری“ سے مل کر بنا ہے۔ گذ کا مطلب کیکر اور رِی کا رفع حاجت ہے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے یہاں کیکر کے بے شمار درخت تھے جہاں ارد گرد کے دیہاتوں کے باشندے رواج کے مطابق رفع حاجت کے لیے آیا کرتے تھے۔ اس وجہ سے یہ علاقہ گذری بن گیا۔ ناک بھوں نہ چڑھائیں آپ کی پریشانی کا حل ہے ہمارے پاس، چلیں ”پرفیوم چوک“ چلتے ہیں۔ گلستان جوہر میں قائم ایک چھوٹے چوک میں چھوٹے سے کھوکے میں پرفیوم فروخت کرنے والے نے دس سالوں کی محنت کے بعد اس نام کو شہریوں کے دماغ میں بسایا ہے۔ اس کے لیے اس نے مخالفین کی مار بھی کھائی، کھوکھا کی توڑ پھوڑ کا نقصان بھی اٹھایا اور پھر ایک اسپرے گن لے کر رات میں شہر کی دیواروں پر چوک کا نام لکھتا اور صبح اسپرے خریدنے کے لیے پھر کھوکھا پر پرفیوم بیچتا اب تو وہ صاحب ایک بڑی دکان کے مالک ہیں لیکن کچھ منچلے ان جگہوںکو بھی پرفیوم چوک کا نام دے چکے ہیں جہاں لوگ دیوار کی طرف منہ کرکے اس کی بنیادوں کو پانی دیتے ہیں۔ جیسے صدر نعمان شاپنگ اسکوائر کے سامنے چھوٹا سا پرفیوم چوک۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ کچھ لوگ مجبوری میں یہاں اپنی دکانداری کرتے ہیں اور شام میں پرانے جوتے زمین پر سجاکر روزی روٹی کماتے ہیں اور ان کے پیچھے…. ان کے پیچھے چلنے سے پہلے پاﺅں میں نئے جوتے ہونے چاہئیں تو اس کے لیے جانا ہوگا ناظم آباد کی بستی پاپوش نگر جہاں جوتے بنانے کا کاروبار ہوتا تھا اب بھی کئی دکانیں ہیں۔ شہر میں نام رکھنے کے مجموعی رجحان کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس علاقہ کا نام جوتا کالونی ہونا چاہےے تھا مگر باذوق اہلِ محلہ نے اسے پاپوش نگر کا نام دیا۔ واضح رہے کہ پاپوش فارسی زبان میں جوتے کو ہی کہتے ہیں۔ کان یہاں سے پکڑوں یا وہاں سے بات ایک ہی ہے۔ کان تو لالو کھیت والوں نے بھی کسی زمانے میں پکڑوائے تھے۔ خوب پتھر بازی اور لٹھ بازی کے مظاہرے ہوتے تھے۔ ہم نے تو جب سے ہوش سنبھالا ہے نہ لالو کو دیکھا ہے نہ یہاں کوئی کھیت نظر آئے سنا ہے کہ کسی زمانے میں لالو کے کھیت یہاں لہلہاتے رہے ہیں۔ اب یہ لیاقت آباد کے نام سے جانا جاتا ہے مگر اکثریت اب بھی اسی نام سے پکارتی ہے۔
تنگ آگئے نا علاقے ناپتے چلیں کچھ ونڈو شاپنگ کے لیے بازاروں کا رُخ کرتے ہیں۔ ارے! جب چلنا ہی ٹھہرا تو اچھی اچھی گلیوں سے لے کر جائیں تو آپ کا سفر اچھا کٹ جائے گا تو چلتے ہیںبوتل گلی، صرافہ گلی، موچی گلی، دوپٹہ گلی، قوال گلی اور فنکار گلی۔ اب آپ کنڈیکٹرز سے تو گئے گزرے نہیں کہ ان کی تفصیلات بھی سے آگاہ کیا جائے۔ جو نام ہیں وہی کچھ نظر بھی آتا ہے۔ یہ الگ بات کہ کالی مارکیٹ میں کالے اور لال مارکیٹ لال نہ ہوں البتہ گھانس منڈی، پان منڈی، کباڑی بازار، شومارکیٹ، کاغذی بازار، کپڑا مارکیٹ، جامع کلاتھ میں جو نام وہی کام والا حساب کتاب ملے گا مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب آپ جیکسن مارکیٹ میں مائیکل جیکسن، کھڈا مارکیٹ میں کھڈے اور سولجر بازار سولجرز کی خریداری کی ضد کرنے لگیں۔ اگر ایسی حرکت کی تو آپ کو کٹی پہاڑی پر لے جاکر دھکا دینے کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ وہاں حالات کٹے پھٹے رہتے ہیں۔ شہری حکومت نے تو پہاڑ کاٹ کر یہ راستہ اس لیے بنایا تھا کہ لوگ یہاں سے با آسانی گزرا کریں گے مگر کیا خبر تھی کہ یہاں سے گزرنے والا دنیا سے گزر جاتا ہے۔ دعا کریں حالات ٹھیک ہوجائیں تو ایک چکر ضرور لگائیے گا۔ بڑا خوبصورت راستہ ہے۔ ایک خوبصورت راستہ نیٹی جیٹی پُل کی طرف بھی جاتا ہے جہاں لوگ مچھلیوں کو آٹا ڈالنے جاتے ہیں اور کچھ پُل سے کود کر خود ہی مچھلیوں کی خوراک بن جاتے ہیں۔
چلیں بہت ہوگئی آوارگی اب نیٹی جیٹی سے اترتے ہیں کہ سامنے ہی انگریزوں کی یادگار ٹاور ہے جس سے کچھ ہی فاصلے پر آرام باغ چلیں تاکہ آرام کیا جاسکے اور ہاں اس کا پرانا نام ”رام باغ“ ہے کیونکہ قیام پاکستان سے قبل اس کے اطراف میں بہت سے ہندو آباد تھے جو اپنا گھر بار اسی طرح چھوڑ کر رَفو چکر ہوگئے۔ کیا کہا مَلک صاحب نے جنگل اسکول بلایا تھا تو میں بتانا ہی بھول گیا کہ انہوں نے ایس ایم ایس کرکے بتایا ہے کہ وہ کبوتر چورنگی پر کبوتروں کو دانہ ڈال رہے ہیں جو آرام باغ سے قریب ہی ہے کیونکہ اُن کا اِرادہ ہمیں برنس روڈ پر تکے کھلانے کا ہے۔ کیا کریں بھئی! کراچی کی یہی تو سب سے مشہور فوڈ اسٹریٹ ہے۔ ویسے بھی مَلک صاحب اگر خاموشی کے بائیکاٹ پر ہیں تو میں مفتا لگارہا ہوں!!
ربط
http://pak.net/?p=5303