شہدائے پشاور کی یاد میں - نصراللہ خان عزیز

حسان خان

لائبریرین
اے شہیدانِ پشاور، جان و دل تم پر نثار
تم سے قائم ہے جہادِ حریت کا اعتبار

تم نے رکھ لی لاج قومِ مسلمِ آوارہ کی!
رہنماؤں نے کیا جس کو ہلاکِ انتشار

قصہ خوانی! ان شہیدوں کا ہمیں قصہ سنا
جو وطن کی شمع پر جل کر مرے پروانہ وار

آسماں سے بم برستے تھے زمیں سے گولیاں
تھی پشاور میں رواں ظلم و ستم کی جوئبار

وہ سفید اندام گورے جن کا دل یکسر سیاہ
یا جہنم سے نکل آئے تھے دیوِ خونخوار

ریفلیں ہاتھوں میں لے اور ان پہ سنگینیں چڑھا
ایستادہ تھے صف اندر صف قطار اندر قطار

ایک جانب اسلحہ بندی کا یہ انداز تھا
دوسری جانب کھڑے تھے کچھ نہتے جاں نثار

عزم میں کوہِ گراں اور خاکساری میں زمیں
روئے روشن سے تجلی حریت کی آشکار

جوشِ حریت دلوں میں مثلِ دریا موجزن
سینوں میں شوقِ شہادت کا سمندر بے قرار

اِس طرح بے تاب تھے جامِ شہادت کے لیے
جس طرح مدت کا پیاسا ہو کوئی بادہ گسار

یہ غلط ہے بلکہ وہ کچھ اِس طرح مدہوش تھے
خُم کے خُم جیسے چڑھا کر آئے کوئی بادہ خوار

کر رہی تھیں آگ کی بارش مسلح موٹریں
گرم تھا بازارِ مرگِ ناگہانِ طرفہ کار

گولیاں کھا کھا کے گرتے تھے زمیں پر نوجوان
یا سحر کو لٹ رہی تھی باغِ انجم کی بہار

میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا ہے وہ منظر عزیز!
اک طرف باطل صف آرا اک طرف حق آشکار
(نصراللہ خان عزیز)
 
Top