شٹر ڈاؤن ہڑتال کی افادیت

محمداحمد

لائبریرین
مملکتِ خداداد پاکستان میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کوئی اجنبی شے نہیں ہے۔ ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب ہڑتال اور کام کے دنوں میں مقابلہ ہوا کرتا تھا کہ دیکھیں کون آگے نکلتا ہے۔ الحمدللہ! اب وہ بات نہیں رہی ہے۔

رواج کے مطابق ہمارےہاں اکثر سیاسی اور کبھی کبھار مذہبی جماعتیں سرکار سے اپنے مطالبات منوانے کے لئے شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان کرتی ہیں اور پھر ہر ممکن کوشش کرتی ہیں کہ اُس روز کاروبار اور ٹرانسپورٹ وغیرہ بند رہے تاکہ سرکار کو یہ اندازہ ہو کہ لوگ ان جماعتوں کے ساتھ ہیں اور سرکار اُن کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرے۔ ہڑتال کے باعث کاروبار کے ساتھ ساتھ زندگی کے دیگر معاملات بھی متاثر ہوتے ہیں ۔ بالخصوص تعلیمی ادارے ہڑتال کی وجہ سے بند رہتے ہیں اور بچوں کی تعلیم کا حرج ہوتا ہے۔ یہی ہڑتالیں کبھی کبھی پر تشدد بھی ہو جاتی ہیں کہ کچھ لوگ زبردستی کاروبار بند کروانے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی ایک سے زائد جماعتوں کا آپس میں تصادم بھی ہو جاتا ہے۔

ہڑتال کی ایک شکل پہیہ جام ہڑتال بھی ہے جس میں کوشش کی جاتی ہے کہ کسی بھی قسم کی کوئی گاڑی بالخصوص عوامی گاڑیاں بالکل نہ چلیں۔ اسی طرح کچھ لوگ بھوک ہڑتال بھی کرتے ہیں اور مطالبات پورے ہونے سے پہلے تک کچھ نہ کھانے کا اعلان کرتے ہیں اور صرف جوس وغیرہ پر گزارا کرکے سرکار پر احسان کرتے ہیں۔

بہر کیف، ہم بات کررہے تھے شٹر ڈاؤن ہڑتا ل کی۔ بظاہر تو شٹر ڈاؤن ہڑتا ل ٹھیک معلوم ہوتی کہ اگر سرکار کسی جماعت کے مطالبات پر کان نہیں دھر رہی تو اُسے ان مطالبات کی اہمیت کا اندازہ کروانے کے لئے کچھ تو کیا جائے ۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر شٹر ڈاؤن ہڑتال کی افادیت ہے کتنی؟ یا یہ کہ اس کی افادیت ہے بھی یا نہیں؟

جیسا کہ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ شٹر ڈاؤن ہڑتال سے کاروبار بُری طرح متاثر ہوتا ہے اور ملک یا شہر معاشی طور پر ایک دن پیچھے چلا جاتا ہے۔ روز کمانے والے سمجھ سکتے ہیں کہ اگر وہ ایک دیہاڑی نہ لگائیں تو اُن کے معاشی معاملات پر کیا اثر پڑتا ہے۔ اسی طرح بچوں کی پڑھائی کا تسلسل بھی ٹوٹ جاتا ہے جو بہر صورت ایک بڑا نقصان ہے۔

ہمارے ہاں کم عمر نوجوان جو اسکول کالجوں میں پڑھتے ہیں یا کہیں نوکری کرتے ہیں، ہڑتال کے اعلان سے خوش ہوتے ہیں کہ اُنہیں ایک چھٹی مل جاتی ہے، تاہم اُن میں سے اکثرکو اندازہ نہیں ہوتا کہ ہڑتال کا فائدہ بہت کم اور نقصانات بہت زیادہ ہیں اور اس کے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

سرکار کے نقطہء نظر سے دیکھا جائے تو اُسے شٹر ڈاؤن ہڑتال سے کوئی خاص نقصان نہیں ہوتا (بالخصوص جب ہڑتال ایک یا دو روز کی ہو) ۔ سرکار کے معاملات چلتے رہتے ہیں ۔ عوام کی تکلیف سے اُنہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا ۔ بلکہ عوام کو تکلیف پہنچانا تو یوں سمجھیے کہ سرکار کا ہی ہاتھ بٹانا ہوا۔

ہاں البتہ ہڑتال کامیاب ہوجائے (یعنی حسبِ منشاء پورا دن کاروبارِ زندگی مفلوج رہے) تو ہڑتا ل کرنے والی جماعت کو اس سے فائدہ پہنچتا ہے ۔ اس سے وہ لوگ بھی جماعت کے نام اور کام سے واقف ہو جاتے ہیں جو پہلے اس سے واقف نہیں ہوتے، یعنی ہڑتال عوام میں شہرت کے حصول کے لئے معاون ثابت ہوتی ہے۔ اگر ہڑتال پر تشدد ہو تو پھر اس جماعت کا دبدبہ قائم ہو جاتا ہے اور لوگ اگلی بار نام سن کر ہی ہڑتال والے دن اپنے کاروبار بند کر دیتے ہیں۔ چونکہ ہڑتال کسی نہ کسی ایسے معاملے میں کی جاتی ہے جس سے ( بہ ظاہر) یہ تاثر جاتا ہے کہ یہ جماعت عوام کی فلاح چاہتی ہے تو کامیاب ہڑتا ل کے ردِ عمل کے طور پر عوام اُنہیں ووٹ دینے پر بھی مائل ہوتی ہے۔

اگر ہم ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے سیاسی نعروں کو بغور دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ یہ سب جماعتیں عوام کے مسائل سے بخوبی واقف ہیں اور اپنے نعروں میں انہی کا اعلان بارہا کرتی ہیں۔ تاہم یہ جماعتیں حکومت میں ہوں یا حزبِ مخالف میں، عوام کے مسائل پھر بھی حل نہیں ہوتے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دراصل ان نعروں کا اصل مقصد عوامی حمایت حاصل کرنا ہوتا ہے اور ان جماعتوں کو عوام کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔

کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہڑتال کے پیچھے خود حکومت ملوث ہوتی ہے۔ جب کبھی سرکار کوئی ایسا فیصلہ کرنا چاہتی ہے کہ جسے خود سے کرتے ہوئے اُس کے پر جلتے ہوں (یا وہ کوئی دور از کار معاملہ ہوتا ہے لیکن اس میں حکومتی جماعت یا جماعتوں کا ذاتی فائدہ ہوتا ہے)۔ تب سرکار اپنی حلیف (یا بظاہر حریف) جماعتوں سے ان معاملات پر احتجاج، مظاہرے اور ہڑتالیں کرواتی ہے اور پھر نتیجےمیں "عوامی دباؤ" سے مجبور ہو کر وہ فیصلہ کرتی ہے۔

الغرض دیکھا جائے تو ان ہڑتالوں کا عوام کو بالواسطہ یا بلا واسطہ کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ۔ اور یہ ہڑتالیں اُن کے معاشی اور سماجی معاملات میں نقصان دہ ہی ثابت ہوتی ہیں ، چاہے اُنہیں اس بات کا ادراک ہو یا نہ ہو۔

مخلص حکومت یا عوام دوست حکومت ( اگر کہیں وجود رکھتی ہو ) تو شٹر ڈاؤن ہڑتال کے معاشی اور سماجی نقصانات کو ذہن میں رکھتے ہوئے قانون سازی کر سکتی ہے کہ مختلف طبقات اپنے مطالبات سرکار تک کس طرح پہنچائیں اور سرکار کس طرح عوامی رائے کو اپنی پالیسیوں میں شامل کرنے کی سعی کرے۔

تاہم چونکہ فی الحال ایسا ہوتا نظر نہیں آتا تو با شعور آدمی کو چاہیے کہ ان ہڑتالوں سے لا تعلق رہے اور اپنے آنے والی نسلوں کو ان کے نقصانات سے آگاہ کرتا رہے۔

*****
 

سیما علی

لائبریرین
رواج کے مطابق ہمارےہاں اکثر سیاسی اور کبھی کبھار مذہبی جماعتیں سرکار سے اپنے مطالبات منوانے کے لئے شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان کرتی ہیں اور پھر ہر ممکن کوشش کرتی ہیں کہ اُس روز کاروبار اور ٹرانسپورٹ وغیرہ بند رہے تاکہ سرکار کو یہ اندازہ ہو کہ لوگ ان جماعتوں کے ساتھ ہیں اور سرکار اُن کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرے۔ ہڑتال کے باعث کاروبار کے ساتھ ساتھ زندگی کے دیگر معاملات بھی متاثر ہوتے ہیں ۔ بالخصوص تعلیمی ادارے ہڑتال کی وجہ سے بند رہتے ہیں اور بچوں کی تعلیم کا حرج ہوتا ہے۔ یہی ہڑتالیں کبھی کبھی پر تشدد بھی ہو جاتی ہیں کہ کچھ لوگ زبردستی کاروبار بند کروانے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی ایک سے زائد جماعتوں کا آپس میں تصادم بھی ہو جاتا ہے۔
افسوس صد افسوس ہم بڑی بے حس قوم بنتے جارہے جس مظاہرے نام نہاد ڈگری یافتہ طبقہ ہر فورم پر کرتا نظر آتا ہے ۔اجتماعی طور پر تو دور بات ہے ہم انفرادی طور پر بھی غلط کو غلط نہیں کہنا چاہیے۔۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
افسوس صد افسوس ہم بڑی بے حس قوم بنتے جارہے جس مظاہرے نام نہاد ڈگری یافتہ طبقہ ہر فورم پر کرتا نظر آتا ہے ۔اجتماعی طور پر تو دور بات ہے ہم انفرادی طور پر بھی غلط کو غلط نہیں کہنا چاہیے۔۔۔

بالکل کہنا چاہیے۔

لیکن ہمارے سیاسی لوگ یہ بات اس لئے نہیں کہتے کہ اس سے انہیں سیاسی نقصان ہوتا ہے۔ ملک کے نقصان کی عموماً کسی کو فکر نہیں ہوتی۔
 

سیما علی

لائبریرین
لیکن کتنے لوگ ہیں ۔۔معمولی سی بات ہے کل ہمارے میکائیل نیچے پارکنگ ائیر یا میں کھیل رہے تھے ۔تھوڑے شور سے گراؤنڈ فلور پر رہنے والی خاتون نے شور شرابہ کیا ۔بچہ ڈر کر واپس آگیا۔۔۔اور گھر آکر کچھ نہ بتایا ۔جب ہم نے اُن سے پوچھا کہ نیچے کیوں نہیں جا رہے تو کہنے لگے ۔۔Nova I can’t go downstairs because the lady there was screaming at me.
اب یہ بچہ سات سال ایک ایسے ملک سے آیا جہاں ایسا سلوک خاص طور چھوٹے بچوں سے روا نہیں رکھا جاتا وہ اسقدر ڈر گیا اُنکی چیخ پکار سے باہر جانے سے ڈرنے لگا ۔۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر اُنھیں چھ سات کے بچے سے ایسی کوئی threat تھی تو پہلے اُسکے بڑوں کو بتاتیں پھر غصہ کرتیں تو سمجھ میں بھی آتا تھا پر کیا کریں سوائے افسوس کے کچھ نہیں کرسکتے !بات کریں تو بڑے بڑے فتوے سننے کو ملیں آغا خان حاضر امام کے اقوالِ زریں سنائیں گی اسلئے خاموشی اختیار کی۔۔۔🥲🥲🥲🥲🥲🥲
 

محمداحمد

لائبریرین
اس قسم کے مسائل تو ہمارے ہاں بہت زیادہ ہیں۔

لوگ نہ تو کچھ سمجھتے ہیں نہ سننا سمجھنا چاہتے ہیں۔ بس خود کو عقلِ کل سمجھتے ہیں نتیجتاً سامنے والا ہی قصور وار ٹھہرتا ہے۔

آپ بچوں کی تربیت میں اس چیز کو بھی شامل کریں کہ اس قسم کے لوگوں سے کیسے نمٹا جائے۔ چونکہ ایسے لوگ ایک نہیں، کئی ایک ہیں ہمارے ہاں۔
 

سیما علی

لائبریرین
آپ بچوں کی تربیت میں اس چیز کو بھی شامل کریں کہ اس قسم کے لوگوں سے کیسے نمٹا جائے۔ چونکہ ایسے لوگ ایک نہیں، کئی ایک ہیں ہمارے ہاں۔
افسوس اتنا ہوتا ہے کہ یہ بچہ سات سال تک سنگاپور رہا وہاں کے پرائیویٹ بریٹش اسکول میں پڑھا اور اردگرد تمام لوگ نہ تو پاکستانی تھے نا مسلمان اور کبھی کوئی ایسی بات نا ہوئی جس سے اُسکو اسطر ح ڈر لگتا ۔۔اب آپ ہی بتائیے کہ بارہا بتایا کہ پاکستان ایسا نہیں ۔شروع میں فقیروں کو بھی دیکھ کر ڈر جایا کرتے ۔۔اب آہستہ آہستہ بتانا پڑتا ہے کہ یہ پیشہ ور گداگر ہیں ۔۔درست کہا کہ اب تربیت میں یہ بھی شامل کرنا پڑے گا کہ ایسے لوگوں سے کس طرح نپٹنا ہے۔۔۔
ویسے ہمیں اس بڑھاپے میں نہ آیا تو اس معصوم بچے کو کیسے سکھائیں۔۔
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
افسوس اتنا ہوتا ہے کہ یہ بچہ سات سال تک سنگاپور رہا وہاں کے پرائیویٹ بریٹش اسکول میں پڑھا اور اردگرد تمام لوگ نہ تو پاکستانی تھے نا مسلمان اور کبھی کوئی ایسی بات نا ہوئی جس سے اُسکو اسطر ح ڈر لگتا ۔۔
واقعی! افسوس کی بات ہے۔

پاکستان میں رہنا دل جگرے کا کام ہے۔ :)

شروع میں فقیروں کو بھی دیکھ کر ڈر جایا کرتے ۔۔اب آہستہ آہستہ بتانا پڑتا ہے کہ یہ پیشہ ور گداگر ہیں ۔
سیکھ جائے گا آہستہ آہستہ!
درست کہا کہ اب تربیت میں یہ بھی شامل کرنا پڑے گا
جی!
ایسے لوگوں کیسے ویسے ہمیں اس بڑھاپے میں نہ آیا تو اس معصوم بچے کو کیسے سکھائیں۔۔
کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
کل شام چار بجے جماعتِ اسلامی نے گیس کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف سوئی سدرن گیس کے صدر دفتر کے سامنے دھرنا دیا۔ جس سے سر شاہ سلیمان روڈ پر ٹریفک بہت بری طرح جام رہا اور لوگ کافی دیر ٹریفک میں پھنسے رہے۔

اس طرح کے سڑک روک دھرنے پاکستان میں عام ہیں جس سے صرف عوام پریشان ہوتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ احتجاج کے بہتر متبادل تلاش کریں جس میں عوام کے بجائے اربابِ اختیار کو دقت کا سامنا ہو۔
 
Top