فارسی شاعری شور و هیجان


شور و هیجان را به جان و دل خرم
چرخِ نیلی فام را برهم زنم
موسمِ گل آمد و مجنون شدم
چاک دامان و گریبان می کنم
بویِ خوش آید ز آن گل دم به دم
خویش را از غم رهایی می دهم
رقصِ مور و سوزِ بلبل هم کنار
می شود مخلوط باهم در دلم
سبزه و گل را ببوسد این بهار
چار سو چون قلبِ عاشق می تپم
ماهِ نو هم آسمان را دید باز
گفت شبنم مثلِ ابری می چکم
ساقی از می خانه آرد آبِ سرخ
در سبو ریزد که تا مستی کنم
دلق و خرقه می فروشد آن فقیر
من سویِ میخانه گوید می روم
میخرم جاوید زین دنیا به جان
هر چه است کم یاب، دارم میخرم
(جاوید اقبال قزلباش)



ترجمه:
میں شور و ہیجان کو بدل و جاں خریدتا ہوں.نیلگوں آسمان کو درہم برہم کرتا ہوں
گلوں کا موسم آیا اور میں مجنوں ہوگیا. اپنے گریبان و داماں کو چاک کررہا ہوں
اس گل سے دم بہ دم خوشبو آرہی ہے. خود کو غم سے رہائی دے رہا ہوں.
چیونٹی کا رقص اور بلبل کا سوز ہم کنار ہو کر دل میں مخلوط اور یکجا ہورہے ہیں
یہ بہار سبزہ و گل کو بوسہ دے رہی ہے. میں قلبِ عاشق کی مانند چارسُو بےقرار ہورہا ہوں.
نئے چاند نے بھی پھر آسمان کو دیکھا. شبنم نے کہا کہ میں ابر کی مانند ٹپک رہی ہوں(کیونکہ شبنم بھی قطرہء آب ہوتا ہے، اور باران بھی مشتمل بر قطرہ ہائے آب ہوتا ہے، فلہذا شبنم خود کو باران سے تشبیہ دے رہی ہے) .
ساقی مےجانے سے شرابِ سرخ لارہا ہے(جس کو وہ) جام میں ڈالے گا تاکہ میں (اس کے نشے سے) مست ہوجاؤں.
دلق اور خرقہ وہ فقیر فروخت کررہا ہے جو کہہ رہا ہے کہ "میں مےخانہ کی طرف جارہا ہوں. "
اس دنیا سے میں "جاوید" کو جان سے خریدتا ہوں. جو کچھ بھی اس دنیا میں کمیاب ہے، میں خرید رہا ہوں.


کتاب:سرمستِ عشق
شاعر:جاوید اقبال قزلباش
ناشر: انجمن ادبی فارسی، اسلام آباد

*ابر=بادل
*آخری بیت میں "دارم میخرم" جدید ایرانی فارسی فعلِ حالِ جاری کے لئے کاربردہ ہوتی ہے. کسی بھی فعل کے مضارع کے ساتھ داشتن کا مضارع لگا کر فعلِ حالِ جاری بنایا جاتا ہے
 
Top