نذر حافی
محفلین
نذر حافی
غُلامی کیا ہے!؟ یہ صرف کشمیری ہی بتا سکتے ہیں۔ کشمیر کہ جہاں انسانوں کو انسان نہیں سمجھا جاتا۔ جہاں کے لوگ مجبور ہیں کہ وہ اپنے کاروبار، باغات، فصلیں، تجارت، تحفظ، عزت و ناموس سب کچھ پامال ہوتے دیکھیں۔ کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی ہم بھی کر رہے ہیں لیکن ہم کہاں اور کشمیریوں کے دکھ کہاں!۔ہماری مثال اس شخص جیسی ہے جو دور سے کسی کو آگ میں جلتے دیکھ کر اظہارِ ہمدردی کرتا ہے۔اُس کی ہمدردی بجا لیکن اُسے نہیں پتہ کہ آگ میں جلنے کا درد کیسا ہوتا ہے۔
غلامی کی اس آگ میں صرف کشمیری ہی نہیں جل رہے بلکہ ساری امّتِ مسلمہ جل رہی ہے۔ غیر مسلموں کا شکوہ چھوڑیے ، مسلمان ہی مسلمان کو کھا رہا ہے۔ مسلمان کو ہی مسلمان کے خون کی لت پڑ گئی ہے۔گزشتہ روز سعودی عرب میں اکیاسی انسانوں کے سر قلم کر دئیے گئے۔ مقتولین میں تیرہ سے بیس سال کے بچے بھی شامل تھے۔ قصور یہ تھا کہ سوشل میڈیا پر کسی نے حکمرانوں کے بارے میں کوئی جملہ لکھ دیا تھا ۔
خونِ انسان کی یوں ارزانی آپ کو کسی غیرمسلم ملک میں نہیں ملے گی۔ اپنی تجوریوں کو بھرنے کیلئے افغانستان کو مسلمان ممالک نے خودتباہ کیا۔عراق کو داعش کے ذریعے کئی سال پیچھے دھکیل دیا۔شام کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا۔ ابھی یمن میں ہر منٹ میں چند بچے بھوک سے مر رہے ہیں۔ فلسطین میں شہدا کے خون اور مہاجرین کے آنسووں سے خلیجی ریاستیں اپنے نوالے تر کر رہی ہیں ۔ ایک طرف یہ سب ہو رہا ہے اوردوسری طرف خلافتِ عثمانیہ کے احیا کے خواب دیکھے جا رہے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم خواب دیکھتے نہیں بلکہ ہمیں خواب دکھائے جاتے ہیں۔ خواب دکھانے والوں نے ہمیں طغرل کا ڈرامہ بھی دکھایا اور یوں ہم نے زمینی حقائق کو جانے بغیر ہی ترکی کے صدر رجب طیّب اردگان کو اپنے خوابوں کا شہزادہ بنالیا۔ زمینی حقائق کے مطابق ترکی نے سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا اور اب تک اس منطقے میں اسرائیل کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر اور پالیسی شراکت کار ترکی ہی ہے۔ تاہم ہمیں تو خوابوں کے شیش محل میں ہی رہنے کی عادت ہے۔ چند دن پہلے ۹ مارچ ۲۰۲۲کو ترکی میں رجب طیّب اردگان نے اسرائیل کے صدر آئزک ہرزوگ کا تاریخی استقبال کیا۔اس موقع پر خلافتِ عثمانیہ والی ترکی کی فوج نے گارڈ آف آنر پیش کیا اور پورے احترام کے ساتھ اسرائیلی ترانے کی دھن بھی بجائی ۔
یاد رکھئے یہ سب سعودی عرب میں نہیں ہوا۔ یہ سب کرنے والے وہ رجب طیّب اردگان ہیں جنہیں ہمارے ہاں مسلمانوں کے اگلے خلیفہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔اسرائیلی صدر کے اس دورہِ ترکی سے فلسطینیوں کو کیا پیغام ملا ہے وہ ہر باشعور انسان خود سے سمجھ سکتا ہے۔ ہمارے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ وہ سعودی عرب کے بادشاہ ہوں یا ترکی کے حکمران ، جنہیں ہمارے ہاں رول ماڈل اور ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے یہ سب کے سب استعمار کے احسانات کے تلے دبے ہوئے ہیں۔ جو خود اپنے ہاں ایک ایک دن میں اکیاسی ، اکیاسی افراد کے سرتن سے جدا کر دیتے ہیں، اور جو اسرائیل، امریکہ اور برطانیہ کے سارے جرائم میں دل و جان سے شریک ہوتے ہیں ، وہ ہندوستان اور اسرائیل سے کشمیریوں اور فلسطینیوں کے حقوق کی کیا بات کریں گے۔
جو حال سعودی عرب اور ترکی کے حکمرانوں کا ہے وہی پاکستانی حکمرانوں کا بھی ہے۔ قیامِ پاکستان سے اب تک ہمارے ہاں بھی انسانی حقوق ، نظریات کی بالا دستی، جمہوریت اور عدل و انصاف کے بجائے پارٹی بازی، لوٹا کریسی، برادری ازم، موروثی سیاست، اقتدار پرستی، استحصال، دھونس، ٹارگٹ کلنگ، خودکُش دھماکوں، مسنگ پرسنز اور خوف و ہراس کا منظر ہے۔ یہ ایک زمینی حقیقت ہے کہ مسجدِ اقصی ٰسے لے کر بابری مسجد اور بابری مسجد سے لے کر پشاور کی مسجد تک ایک جیسا خوف و ہراس ہے۔ صرف جغرافیہ تبدیل ہو رہا ہے لیکن شدّت پسندی ایک جیسی ہے۔
اگر اسرائیل اور ہندوستان کے حکمران شہدا کے خون کا تمسخر اڑاتے ہیں تو ہمارے حکمران بھی شہدا کے وارثوں کو کبھی ٹشوپیپر کے ٹرک بھیجنے، کبھی شہدا کے ورثا کو بلیک میلر کہنے اور کبھی سانحہ اے پی ایس کے شہید بچوں کی ماوں سے احتجاج کرنے کے بجائے مزید بچے پیدا کرنے کی کہتے ہیں۔جو حکمران اپنے عوام کی عزّت و آبرو اور اُن کے احترام کے قائل نہیں ہیں وہ کسی دوسرے کے حقوق کی جنگ بھی نہیں لڑ سکتے۔ جہاں یہ سچ ہےکہ غُلامی کیا ہے!؟ یہ صرف کشمیری ہی بتا سکتے ہیں۔ وہاں یہ بھی سچ ہے کہ آزادی کیا ہے؟ یہ صرف آزاد لوگ ہی بتاسکتے ہیں۔ یہ صرف وہی لوگ بتا سکتے ہیں کہ جن کے حکمران اور ادارے اُن کی عزت اور احترام کے قائل ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارا شمار اُن معزز اور محترم اقوام میں نہیں ہوتا۔
غُلامی کیا ہے!؟ یہ صرف کشمیری ہی بتا سکتے ہیں۔ کشمیر کہ جہاں انسانوں کو انسان نہیں سمجھا جاتا۔ جہاں کے لوگ مجبور ہیں کہ وہ اپنے کاروبار، باغات، فصلیں، تجارت، تحفظ، عزت و ناموس سب کچھ پامال ہوتے دیکھیں۔ کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی ہم بھی کر رہے ہیں لیکن ہم کہاں اور کشمیریوں کے دکھ کہاں!۔ہماری مثال اس شخص جیسی ہے جو دور سے کسی کو آگ میں جلتے دیکھ کر اظہارِ ہمدردی کرتا ہے۔اُس کی ہمدردی بجا لیکن اُسے نہیں پتہ کہ آگ میں جلنے کا درد کیسا ہوتا ہے۔
غلامی کی اس آگ میں صرف کشمیری ہی نہیں جل رہے بلکہ ساری امّتِ مسلمہ جل رہی ہے۔ غیر مسلموں کا شکوہ چھوڑیے ، مسلمان ہی مسلمان کو کھا رہا ہے۔ مسلمان کو ہی مسلمان کے خون کی لت پڑ گئی ہے۔گزشتہ روز سعودی عرب میں اکیاسی انسانوں کے سر قلم کر دئیے گئے۔ مقتولین میں تیرہ سے بیس سال کے بچے بھی شامل تھے۔ قصور یہ تھا کہ سوشل میڈیا پر کسی نے حکمرانوں کے بارے میں کوئی جملہ لکھ دیا تھا ۔
خونِ انسان کی یوں ارزانی آپ کو کسی غیرمسلم ملک میں نہیں ملے گی۔ اپنی تجوریوں کو بھرنے کیلئے افغانستان کو مسلمان ممالک نے خودتباہ کیا۔عراق کو داعش کے ذریعے کئی سال پیچھے دھکیل دیا۔شام کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا۔ ابھی یمن میں ہر منٹ میں چند بچے بھوک سے مر رہے ہیں۔ فلسطین میں شہدا کے خون اور مہاجرین کے آنسووں سے خلیجی ریاستیں اپنے نوالے تر کر رہی ہیں ۔ ایک طرف یہ سب ہو رہا ہے اوردوسری طرف خلافتِ عثمانیہ کے احیا کے خواب دیکھے جا رہے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم خواب دیکھتے نہیں بلکہ ہمیں خواب دکھائے جاتے ہیں۔ خواب دکھانے والوں نے ہمیں طغرل کا ڈرامہ بھی دکھایا اور یوں ہم نے زمینی حقائق کو جانے بغیر ہی ترکی کے صدر رجب طیّب اردگان کو اپنے خوابوں کا شہزادہ بنالیا۔ زمینی حقائق کے مطابق ترکی نے سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا اور اب تک اس منطقے میں اسرائیل کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر اور پالیسی شراکت کار ترکی ہی ہے۔ تاہم ہمیں تو خوابوں کے شیش محل میں ہی رہنے کی عادت ہے۔ چند دن پہلے ۹ مارچ ۲۰۲۲کو ترکی میں رجب طیّب اردگان نے اسرائیل کے صدر آئزک ہرزوگ کا تاریخی استقبال کیا۔اس موقع پر خلافتِ عثمانیہ والی ترکی کی فوج نے گارڈ آف آنر پیش کیا اور پورے احترام کے ساتھ اسرائیلی ترانے کی دھن بھی بجائی ۔
یاد رکھئے یہ سب سعودی عرب میں نہیں ہوا۔ یہ سب کرنے والے وہ رجب طیّب اردگان ہیں جنہیں ہمارے ہاں مسلمانوں کے اگلے خلیفہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔اسرائیلی صدر کے اس دورہِ ترکی سے فلسطینیوں کو کیا پیغام ملا ہے وہ ہر باشعور انسان خود سے سمجھ سکتا ہے۔ ہمارے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ وہ سعودی عرب کے بادشاہ ہوں یا ترکی کے حکمران ، جنہیں ہمارے ہاں رول ماڈل اور ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے یہ سب کے سب استعمار کے احسانات کے تلے دبے ہوئے ہیں۔ جو خود اپنے ہاں ایک ایک دن میں اکیاسی ، اکیاسی افراد کے سرتن سے جدا کر دیتے ہیں، اور جو اسرائیل، امریکہ اور برطانیہ کے سارے جرائم میں دل و جان سے شریک ہوتے ہیں ، وہ ہندوستان اور اسرائیل سے کشمیریوں اور فلسطینیوں کے حقوق کی کیا بات کریں گے۔
جو حال سعودی عرب اور ترکی کے حکمرانوں کا ہے وہی پاکستانی حکمرانوں کا بھی ہے۔ قیامِ پاکستان سے اب تک ہمارے ہاں بھی انسانی حقوق ، نظریات کی بالا دستی، جمہوریت اور عدل و انصاف کے بجائے پارٹی بازی، لوٹا کریسی، برادری ازم، موروثی سیاست، اقتدار پرستی، استحصال، دھونس، ٹارگٹ کلنگ، خودکُش دھماکوں، مسنگ پرسنز اور خوف و ہراس کا منظر ہے۔ یہ ایک زمینی حقیقت ہے کہ مسجدِ اقصی ٰسے لے کر بابری مسجد اور بابری مسجد سے لے کر پشاور کی مسجد تک ایک جیسا خوف و ہراس ہے۔ صرف جغرافیہ تبدیل ہو رہا ہے لیکن شدّت پسندی ایک جیسی ہے۔
اگر اسرائیل اور ہندوستان کے حکمران شہدا کے خون کا تمسخر اڑاتے ہیں تو ہمارے حکمران بھی شہدا کے وارثوں کو کبھی ٹشوپیپر کے ٹرک بھیجنے، کبھی شہدا کے ورثا کو بلیک میلر کہنے اور کبھی سانحہ اے پی ایس کے شہید بچوں کی ماوں سے احتجاج کرنے کے بجائے مزید بچے پیدا کرنے کی کہتے ہیں۔جو حکمران اپنے عوام کی عزّت و آبرو اور اُن کے احترام کے قائل نہیں ہیں وہ کسی دوسرے کے حقوق کی جنگ بھی نہیں لڑ سکتے۔ جہاں یہ سچ ہےکہ غُلامی کیا ہے!؟ یہ صرف کشمیری ہی بتا سکتے ہیں۔ وہاں یہ بھی سچ ہے کہ آزادی کیا ہے؟ یہ صرف آزاد لوگ ہی بتاسکتے ہیں۔ یہ صرف وہی لوگ بتا سکتے ہیں کہ جن کے حکمران اور ادارے اُن کی عزت اور احترام کے قائل ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارا شمار اُن معزز اور محترم اقوام میں نہیں ہوتا۔
آخری تدوین: