ایک تازہ غزل پیش خدمت ہے
شعر و سخن سے باز نہیں آنے والا
میں اُس در سے دور نہیں جانے والا
وہی مجھے اس دشت سے لے کر جائے گا
وہی جو تھا اس سمت مجھے لانے والا
دور ہی رہ مجھ سے دنیا کی رنگینی
میں یہ حسیں دھوکا تو نہیں کھانے والا
یہاں تو اس کو دیکھ کے ہی ہم خوش ہیں بہت
کیا کرتا ہو گا وہ اسے پانے والا
ہوش میں ہوں لیکن میں ابھی یہ سوچتا ہوں
ہوش مجھے تا عمر نہیں آنے والا
کیا کیا جرم کیے لیکن وہ چپ ہی رہا
کیسا ہے رحمٰن مرا تھانے والا
شعر و سخن سے باز نہیں آنے والا
میں اُس در سے دور نہیں جانے والا
وہی مجھے اس دشت سے لے کر جائے گا
وہی جو تھا اس سمت مجھے لانے والا
دور ہی رہ مجھ سے دنیا کی رنگینی
میں یہ حسیں دھوکا تو نہیں کھانے والا
یہاں تو اس کو دیکھ کے ہی ہم خوش ہیں بہت
کیا کرتا ہو گا وہ اسے پانے والا
ہوش میں ہوں لیکن میں ابھی یہ سوچتا ہوں
ہوش مجھے تا عمر نہیں آنے والا
کیا کیا جرم کیے لیکن وہ چپ ہی رہا
کیسا ہے رحمٰن مرا تھانے والا