فارسی شاعری شحنہ دہر بر ملا ہر چی گرفت پس نداد مرزا غالب

شحنہ دہر بر ملا ہر چی گرفت پس نداد
کاتبِبخت در خفاہرچہ نوشت حک نخواست

زمانے کے کوتوال نے علی اعلان ہم سے جو چھینا یعنی ہم سے لے لیا واپس نہ کیا ..اور کاتبِتقدیر نے جو کچھ بھی پوشیدہ یعنی خفی طور پہ ہمارے مقدر میں لکھ دیا اس سے اس کو مٹایا نہیں...(اس کی زد سے ہم نہ نہیں بچ سکے )

غرق بوجہ تاب خورد ،تشنہ ز دجلہ آب خورد
زحمت ہیچ ،یک نداد راحتِہیچ یک نخواست

کوئ تو اپنی کم ہمتی سے غرق ہو جاتا ہے اور پیاسے کو دجلہ پانی عطا کرتا ہے ..یہ کسی کو زحمت نہیں دیتا..اور نہ کسی کو آرام دیتا ہے

ہر چہ فلک نخواست، ہیچ کس از فلک نخواست
ظرفِفقیہہ می نجست،بادہ ما گزک نخواست

اگر جو آسمان نہ چاہتا ہو .کوئ بھی آسمان سے نہیں طلب کر سکتا..فقیہہ کا ظرف .(کبھی ) شراب طلب نہیں کرتا اور *ہمارے بادہ کا ذوق گزک کی چاہ نہیں کرتا

جاہ ز علم بے خبرعلم ز جاہ بے نیاز
ہم محک تو زر ندید ،ہم زر ما محک نخواست

زر و دولت علم سے بے خبر ہے یعنی مال و جاہ والے علم کو کچھ نہیں سمجھتے اور علم مرتبہ سے بے نیاز ہوتا ہے ..تیری کسوٹی نے کبھی زر( دولت ) نہ دیکھا اور ہمارے زر نے کسوٹی نہ چاہی
مرزا غالب​
 

Ali Baba

محفلین
جناب سید شہزاد ناصر صاحب بہت ہی عمدہ ترجمہ کیا ہے آپ نے، بہت خوب۔ ہمارے جیسے فارسی کے نہ جاننے والوں کے لیے یہ ترجمہ تو ایک بہت بڑھی نعمت ہے، اللہ کریم اجر دے۔
 
Top