شجر کاری از ریاض احمد سید

الف نظامی

لائبریرین
شجر کاری از ریاض احمد سید
ایک چلتے پرزے پاکستانی کی حریص نظر پنجاب کے نہری علاقے کی 300 ایکڑ سرکاری اراضی پر پڑی تو اسے ہتھیانے کے درپے ہو گیا۔ شجرکاری میں حکومت کی دلچسپی سے ایک زرخیز دماغ میں ایک ترکیب آئی حکومت کو چکمہ دیا کہ اگر مذکورہ زمین اسے لمبی لیز پر دے دی جائے تو وہ چند ہی برسوں میں لاکھ سے زیادہ درختوں کا جنگل اگا دے گا سسٹم کو سمجھنے والا یہ شخص سیاہ کوسفید اور رات کو دن بنانے کی شہرت رکھتا تھا چنانچہ اس منصوبے میں بھی کچھ زیادہ ہی کامیاب رہا وہ یوں کہ تین صد روپے سالانہ فی ایکڑ کے حساب سے 300 ایکڑ اراضی ہی 33 برس کیلئے نہیں ملی بلکہ ایک خطیر رقم بھی شجر کاری کی خوصلہ افزائی کے طور پر سرکار سے ہتھیالی مگر پہلے ہی دن سے جنگل اگانے کے بجائے موصوف سونا اگلتی زمین کو زرعی مقاصد کے لئے استعمال کرتے رہے اور پندرہ برسوں میں کروڑوں کمائے متعلقہ اہلکاروں کو ان کا حصہ رسدی برابر پہنچتا رہا دس برس بعد کوئی سنکی قسم کا افسر مذکورہ ”جنگل“ کا معائنہ کرنے پہنچا تو عقدہ کھلا کہ وہاں تو ایک درخت بھی نہیں لگا۔ معاملہ بے حد سنجیدہ تھا لیکن موصوف بھی کوئی کچی گولیاں نہیں کھیلے تھے معاملہ کچھ اس انداز میں سلجھایا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی اور رقبہ بعد میں بھی برسوں ان کی تحویل میں رہا اور لمبی عدالتی کارروائی کے بعد اس وقت واگزار ہوا جب لیز ختم ہونے میں فقط سات برس باقی تھے اور موصوف آج بھی پاکستان کے باعزت شہری ہیں۔
مجھے جب میرے ایک دوست نے یہ قصہ سنایا تو ذہن ایک ہی جست میں پانچ صدیوں کا فاصلہ طے کر کے شیر شاہ سوری کے عہد میں پہنچ گیا وہ شیر شاہ جس نے پشاور سے ڈھاکہ (سنار گاؤں) تک شاہراہ بنوائی ہزاروں میل طویل اس شاہراہ پر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر سرائیں، کنوئیں اور ڈاک چوکیاں تعمیر کرائیں۔ سائے کیلئے سڑک کے دونوں جانب شجر کاری کا ڈول ڈالا شجرکاری کا منصوبہ بنا تو ایک اہم سوال اٹھا۔ جوآج بھی اتنا ہی اہم ہے کہ درخت تو لگ جائیں گے مگر ان کی نگہداشت کیونکر ہو گی؟ شیر شاہ اس وقت تک کافی اصلاحات کر چکا تھاصوبوں پر گرفت اور جاگیروں کی نشاندہی ہو چکی تھی متعلقہ اہلکاروں اور مالکان کے حقوق و فرائض متعین ہو چکے تھے شیر شاہ سوری نے اپنے وزیر جنگلات کو متذبذب پایا تو بولا اس کا بندوبست تو ہم پہلے ہی کر چکے ہیں وزیر صاحب سمجھ نہ پائے توبادشاہ بولا پشاور سے لیکر ڈھاکہ تک سڑک کے دونوں جانب کسی نہ کسی زمیندار کا رقبہ ہے اپنی حدود میں درخت اگانے اور پالنے کی ذمہ اسی کی ہو گی باقاعدہ شجر شماری ہوا کرے گی اور اس سلسلے میں کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔
مورخ لکھتا ہے کہ یہ حکمت عملی اس قدر کامیاب تھی کہ تین برس کے اندر ہی مذکورہ شاہراہ ہری بھری نظر آنے لگی تھی آب پرگنہ وزیر آباد کے ایک زمیندار کی بدقسمتی ملاحظہ ہو کہ سالانہ شجرشماری میں اس کے حصے کے دو درخت کم نکلے ملزم کی پیشی ہوئی تو بادشاہ بولا ”جرم بے حد سنگین ہے سزا تو یہ بنتی ہے کہ تمہاری دونوں ٹانگیں قلم کردی جائیں لیکن تم اب دس درخت لگاؤ گے اور پالوگے“۔ چنانچہ اسی فرمان کی بنیاد پر بعد میں قانون بنا جسے ” ایک کے پانچ کہا جاتا ہے“ اور شیر شاہ کے بعد اکبر اعظم کے عہد میں بھی رائج رہا اور جی ٹی روڈ پر لگے درخت اسی روایت کا تسلسل ہیں۔
سخت پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ عمال اور زمیندار لوگ درختوں کی پرورش اور نگہداشت اولاد کی مانند کرنے لگے اور جیسا کہ مشہور کہانی ہے کہ جب کسی گاؤں کے مکھیا نے اپنے علاقے میں ہونے والے قتل کے ملزمان کو پکڑنے میں سستی کا مظاہرہ کیا تو شیر شاہ بھیس بدل کر وہاں پہنچا اور جاتے ہی ایک درخت کو کاٹنا شروع کر دیا۔ مکھیا کو پتہ چلا تو دوڑا آیا۔ مبادہ درخت کے ضیاع پر عتاب شاہی کا شکار ہو جائے۔ گویا درختوں کی حفاظت جیتے جاگتے انسانوں بلکہ ان سے بھی زیادہ ہوتی تھی۔مغل شہنشاہ جہانگیر کا کشمیر جانا ہوا تو وادی کے حسن پر اس قدر فریفتہ ہوا کہ بے اختیار پکار اٹھا۔

اگر فردوس بر روئے زمین است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است

یعنی ”اگر جنت زمین پر ہے تو بے شک یہی ہے“ سرینگر کے نواح میں ڈل جھیل کے کنارے آسمان کو چھوتے، چیڑ، چنار اور دیودار کے درختوں کا جھنڈ دیکھا تو گھنٹوں محو حیرت رہا پاس ہی قطعہ اراضی خالی تھا، وہاں شاندار مسجد کی تعمیر کا حکم دیا جو خوشبودار لکڑی سے بنی تھی بادشاہ دہلی لوٹ آیا تو کچھ عرصہ بعد کشمیر سے ہر کارہ آیا بادشاہ نے اور باتوں کے علاوہ مسجد کا بھی پوچھا ہرکارے نے سرد آہ بھری اور کہا ”جہان پناہ ! بری خبر ہے مسجد جل کر راکھ ہوگئی“ اور ”اس کے آنگن کے درخت“ بادشاہ بولا ”وہ تو سلامت ہیں“ ہر کارے نے جواب دیا۔ بادشاہ اطمینان کا سانس لیتے ہوئے گویا ہوا ”پروردگار کا لاکھ شکر ہے مسجد کا کیا ہے پھر سے بن جائے گی مگر میں وہ سیکڑوں برس پرانے درخت کہاں سے لاتا؟“
ترقی یافتہ ممالک میں حتی الامکان درخت کو ضائع نہیں کیا جاتا اگر اکھاڑنا ناگزیر ہو جائے تو بھی ری لوکیشن کو ترجیح دیتے ہیں۔ بڑے درختوں کو جدید مشینری کے ذریعے جڑوں سمیت نکال کر محفوظ جگہ پر پھر سے لگا دیا جاتا ہے ہمسایہ ملک بھارت میں بھی درختوں کو پالنے پوسنے کی روایت موجود ہے بعض جگہوں پر تو بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کے نام کا ایک عدد درخت بو دیا جاتا ہے جس کی پرورش بچے کی طرح کی جاتی ہے اور اس کی زندگی میں اسے کاٹنے یا ضائع کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جاتا البتہ اس کی موت کے بعد اس کے وارث استعمال میں لا سکتے ہیں اگر خدانخواستہ بچہ چھوٹی عمر میں مر جائے تو بھی لواحقین اس کے نام کا درخت نہیں کاٹتے بلکہ زیادہ جذباتی انداز میں اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔
واہگہ کا بارڈر پار کرتے ہی آپ کو وقفے وقفے سے میلوں میں اگے یوکلپٹس اور پاپلر کے مصنوعی جنگلات دکھائی دیں گے ہر گاؤں اور بستی میں پیپل اور برگد کے دو چار درخت ضرور ملیں گے بھارت کے وزیرجنگلات سے ایک ملاقات کے دوران اس موضوع پر بات چل نکلی تو کہنے لگے ہمارے ہاں یہ روایت بدھ مت سے آئی ہے بدھ مذہب کا بانی شہزادہ سدھارتھ ابھی تارک الدنیا نہیں ہوا تھا کہ اپنے اہالی موالی کے ہمراہ کہیں جا رہا تھا برگد کے ایک درخت کے پاس سے گزرہوا جس کی ایک ٹہنی تازہ کٹی ہوئی تھی اور اس میں سے سفید رنگ کی رطوبت ٹپک رہی تھی شہزادے نے پیرہن شاہی کا ایک ٹکڑا پھاڑا اور کٹاؤ کی جگہ باندھ دیا ہمراہی متحیر ہوئے تو بولا ”زخمی درخت کا بہتا ہوا خون دیکھا نہیں جاتا تھا۔“ اس حوالے سے برگد بدھوں کے ہاں مقدس ٹھہرا۔
اسلام آباد کے پوش علاقے E/7 میں چند برس قبل سیکڑوں سال پرانا برگد کا درخت ہوا کرتا تھا جس کا تعلق گوتم بدھ سے جوڑا جاتا تھا اسلام آباد میں مقیم بدھ کمیونٹی کے لوگ احتراماً وہاں جانے لگے تو مذہب کے ٹھیکیداروں نے یہ کہہ کر جلا دیا کہ شرک ہو رہا ہے یہی نہیں بعض ظالم تو معمولی فائدے کیلئے ہرے بھرے جنگلات کو آگ لگا دیتے ہیں ہم پاکستانی چرچا زیادہ کرتے ہیں اور کام کم، یہی حال شجرکاری کا بھی ہے قیام پاکستان سے آج تک کروڑوں درخت لگائے جا چکے ہیں مگر وہ ہیں کہاں؟ کوئی نہیں جانتا ایوب خان کے زمانے میں جب یہ کام نیا نیا شروع ہواتھا اور شجرکاری بے نتیجہ ثابت ہو رہی تھی تو موصوف نے جھلا کر کہا نئی مہم کا افتتاح کروانے سے پہلے یہ بتاؤ کہ پچھلے برس کے لگائے گئے پودے کدھر ہیں؟ جواب ملا ”بکریاں کھا گئیں“ اور یہ لطیفہ نہیں حقیقت ہے کہ بکریوں پر باقاعدہ پابندی لگا دی گئی تھی۔
ہمارے شجر کشی قومی کردار کے علی الرغم کہیں کہیں روشنی کے مینار بھی دکھائی دے جاتے ہیں۔ مثلاً میں ایک ایسے بزرگ کو جانتا ہوں جو کٹتا ہوا درخت دیکھ لیں تو ہفتوں سوگوار رہتے ہیں گویا کسی قریبی عزیز کی رحلت ہو گئی ہو۔ کہیں درخت کے کٹنے کا مشورہ ہو تو درخت زمین سمیت خرید لیتے ہیں اور لمبی چوڑی آبائی جائیداد اس مشن کیلئے وقف کر رکھی ہے۔ کسی نے اچنبے کا اظہار کیا تو بولے ”تمہیں حضور سرور عالمﷺ کا قول یاد نہیں کہ درخت جاندار ہوتے ہیں اور انسانوں کی طرح اللہ رب العزت کی تسبیح کرتے ہیں اور کس طرح حضور نے ایک قبر پر درخت کی تازہ ٹہنیاں رکھی تھیں اور فرمایا تھا کہ ان سبز شاخوں کی تسبیح و تحلیل سے اللہ رب العزت نے صاحب قبر پر سے عذاب دور کردیا ہے“۔ تو گویا درخت دنیا میں ہی ہمیں راحت و آرام نہیں پہنچاتے بلکہ مرنے کے بعد بھی نجات کا ذریعہ بنتے ہیں۔
 
Top