شاہ نعیم الدین نعیمی :::: سبھی ذی ہوش قوموں کا ہے قرنوں سے یہ اندازہ ۔ Shah Naeem ud deen Naeemi

طارق شاہ

محفلین


غزلِ
شاہ نعیم الدین نعیمی

سبھی ذی ہوش قوموں کا ہے قرنوں سے یہ اندازہ
کلیدِ آگہی کرتی ہے پیدا فکر و فن تازہ

مفادِ ذات غالب ہو اگر طرزِ حکومت میں
بکھر جاتا ہے ایسے عہد کا پھر جلد شِیرازہ

نہ کُھل پایا درِ ایجاب اب تک ان دُعاؤ ں پر
گو میں نے کھٹکٹایا خُوب اُس کے گھر کا دروازہ

سزاوارِ سزا ہے صاف گوئی شہر میں تیرے
کہ سچ کہنے کا بُھگتا ہے بہت کچھ ہم نے خمیازہ

نہیں تخصیص کوئی بھی، مکاں ہر ایک ہے یکساں
جہاں زنجیر لرزاں ہے وہی ہے اُس کا دروازہ

ہو دریا کی روانی یا سمندر کی ہو گہرائی
شناور ہو بھی تو کرلو ہنر کا پہلے اندازہ

مکیں کب ہیں زمیں کے ہم بصد مجبوری ٹھہرے ہیں
خطائے آسمانی کا ہمیں ہیں اپنا خمیازہ

مقیّد ہُوں میں جبرِ زیست کی سنگیں دیواروں میں
بجُز اِک موت اور کوئی نہیں ہے اِس کا دروازہ

کبھی ایسے تبسّم پر نہ جاؤ یوں نعیمی تم
ملے گا اصل چہرہ تم کو گر دیکھو تہہِ غازہ

سید شاہ نعیم الدین نعیمی
 
Top