شاہین و ماہی - پیام مشرق (حصہ افکار) سے علامہ اقبال کی ایک نظم

توصیف امین

محفلین
پیام مشرق سے ایک نظم جس میں علامہ صاحب نے ایک مچھلی کے بچے اور شاہین کے بچے کی گفتگو کا حال بیان کیا ہے۔ جو نہ صرف دو مختلف نظریہ حیات اور ان کے تحت زندگی بسر کرنے والوں کی ذہنی سطح پر روشنی ڈالتا ہے بلکہ ہمیں اس بات پر غور خوض کی دعوت بھی دیتا ہے کہ ہم بھی اپنی فکر کی سطح بلند کر کے اس دائرہ سے باہر آ جائیں جو ہمیں اپنی اصل سے دور لے گیا ہے۔
اس نظم کو پڑھ کر میرے ذہن میں مولانا روم کی حکایت "بط بچگان کی مرغ خانگی پروردشان" آتی ہے جس میں مولانا ان بطخ کے بچوں کی کہانی بیان کرتے ہیں جن کےانڈوں کو مرغی کے نیچے رکھ دیا گیا اور اس دنیا میں آ کر انہوں نے مرغی کو اپنی ماں کے طور پہ دیکھا۔ لیکن جب ان بچوں نے پانی دیکھا تو اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں، جس پر مرغی سٹپٹا اٹھتی ہے اور انہیں سمجھاتی ہے کہ یہ ان کے کے لیے نقصان دہ ہو گا۔
اس حکایت میں مولانا نے انسان کو ان بطخ کے بچوں سے تشبیہ دی ہے جو اس دنیا میں آ کر اپنی اصل پہچان کو بھول گئے ہیں اور اس دنیا کو اپنا حاصل سمجھ رہے ہیں ۔ اور دنیاوی رشتےمرغی کی طرح اسے اپنے مقصد سے دور لے جاتے ہیں اور وہ انسان ان رشتوں میں الجھ کر سمجھتا ہےکہ وہ اس دنیا کے شب و روز میں جکڑا ہوا ہے اور کسی طرح باہر نہیں آ سکتا۔
اسی طرح علامہ صاحب نے اس نظم میں مچھلی کے بچے کی زندگی اور اسکی سوچ کی حدود کاانتہائی خوبصورت نقشہ کھینچا ہے۔ اور جب شاہیں ان باتوں کو سنتا ہے تو اس کے نقطہ نظر کے فرق کی وجہ سے وہ ساری باتیں کسی اہمیت کی حامل نہیں رہتیں ۔ اور علامہ صاحب ہمیں دعوت دیتے ہیں کہ اپنے آپ کو مچھلی کے بچے کی طرح اس دنیا میں پھنسا ہوا نہ سمجھ بلکہ شاہیں کی طرح اس دنیا کو اپنے بال و پر کے نیچے سمجھ۔ جسکی تسخیر انسان کے لیے وجہ مسرت تو ہو سکتی ہے لیکن زندگی کا حاصل نہیں۔ زندگی کا حاصل تو اپنی پہچان ہے ۔ لیکن اس نقطے کو صرف بینا لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں۔

شاہین و ماہی

ماہی بچہ ئی شوخ بہ شاہین بچہ ئی گفت
این سلسلۂ موج کہ بینی ہمہ دریاست

ایک شوخ بچہء ماہی نے شاہین کےبچہ سے کہا
تو یہ جو سلسلہء موج دیکھتا ہے یہ سارا سمندر ہے

دارای نہنگان خروشندہ تر از میغ
در سینۂ او دیدہ و نادیدہ بلاہاست

اس میں ایسے مگر مچھ ہوتے ہیں جو بادلوں سے بڑھ کر گرج رکھتے ہیں
اور اس کے سینے میں کئی دیکھی ان دیکھی بلائیں ہیں

با سیل گران سنگ زمین گیر و سبک خیز
با گوہر تابندہ و با لولوی لالاست

اس کے اندر ایسے سیلاب ہیں جو بھاری پتھر ساتھ لاتے ہیں اور زمین پر پھیل جاتے ہیں،
اس کے اندر چمکدار گوہر اور موتی پائے جاتے ہیں

بیرون نتوان رفت ز سیل ہمہ گیرش
بالای سر ماست ، تہ پاست ، ہمہ جاست

اس کے سیل ہمہ گیر سے باہر نہیں نکلا جا سکتا،
یہ ہمارےاوپر، نیچے، ہر طرف موجود ہے

ہر لحظہ جوان است و روان است و دوان است
از گردش ایام نہ افزون شد و نی کاست

یہ ہر لحظہ جوان ہے، رواں ہےاور دواں ہے،
گردش ایام سے نہ اس میں کمی ہوتی ہے نہ زیادتی

ماہی بچہ را سوز سخن چہرہ برافروخت
شاہین بچہ خندید و ز ساحل بہ ہوا خاست

بچہء ماہی نے اتنے جوش سے بات کی کہ اس کا چہرہ سُرخ ہو گیا،
شاہین بچہ مُسکرایا، اس نے ساحل سے ہوا میں اُڑان بھری

زد بانگ کہ شاہینم و کارم بہ زمین چیست
صحراست کہ دریاست تہ بال و پر ماست

پھر اُس نے ہوا سے آواز دی کہ میں شاہیں ہوں، زمین سے میرا کیا کام،
صحرا ہو کہ دریا، سب ہمارے بال و پر کے نیچے ہیں

بگذر ز سر آب و بہ پہنای ہوا ساز
این نکتہ نبیند مگر آن دیدہ کہ بیناست

پانی سے نکل کر ہوا کی وسعت میں آ،
اس نکتہ کو وہی آنکھ دیکھ سکتی ہے جو بینا ہو
یعنی دُنیا میں پھنسے ہوئے لوگ یہ بات نہیں سمجھ سکتے
 
Top