اسکین دستیاب شاہد رعنا

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 101
انھوں نے نواب کو آمادہ کر کے اسے بلایا ہو۔
اماں: اور رات کو وہ آئے بھی تو نہیں۔ (پھر استاد جی سے) جانا خانصاحب ذرا نواب کے پاس اور کہنا کہ تمہیں کھڑے کھڑے ان کی اماں نے بلایا ہے، ایسا ہی ضروری کام ہے، مگر خبردار ایک حرف نہ بتانا۔
اماں نے میری تسلی و تشفی کی اور کہا کہ " نواب کو ایسے آڑے ہاتھوں لوں گی کہ یاد رکھے گا، ابھی پرسوں کی بات ہے کہ جوہری کے لڑکے نے تین سو روپے اور فرمائشوں کا پیغام بھیجا تھا" میں چپکی تو ہو رہی، مگر اس کا کھٹکا ضرور تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو یہ اپنے غصّہ میں مجھے نواب سے بالکل جدا کر دیں۔ میں نے چاہا بھی کہ ابھی وہ اس معاملہ میں دخل نہ دیں مگر وہ کب مانتی تھیں۔ اُلٹی مجھ پر بگڑنے لگیں اور اسی بدمزگی کی حالت میں مرزا صاحب بھی رخصت ہوئے۔
اماں اور نواب کی دو دو چونچیں
نواب صاحب: سرکار کہاں ہیں۔ خیر صلاح تو ہے، اس وقت مجھے کیوں یاد کیا۔؟
اماں؟ (اماں دالان میں آ کر بڑی برہمی کی آواز سے) نواب صاحب میں نے آپ کو اس وجہ سے تکلیف دی ہے کہ اب ہم آپ کے لائق نہیں رہے، آپ کی اجازت ہو جائے تو اس شہر سے کالا منہ کریں۔
نواب صاحب: بات تو کہو ہوا کیا؟ اور ننھی جان کہاں ہیں؟
اماں: اندر سر لپیٹے پڑی ہے۔ اسی مردار نے تو یہ ڈھیلی ڈوری چھوڑی تھی، اب آپ بھگتے گی۔ ہم تو یہاں کل کھڑے پانی بھی نہ پئیں گے۔ ۔۔۔۔۔ (گالی دے کر) سے بھنیلا کیا تھا اور اس سے ۔۔۔۔۔۔۔ اسے ملوایا، ابھی تو کیا ہے، آگے آگے اور سر پر ہاتھ دھر کر روئے گی۔

ریختہ صفحہ 102
گالیوں اور لعنت ملامت کی اس بوچھاڑ سے ادھر تو میں سہم گئی ادھر نواب ششدر رہ گئے وہ اب بھی نہ سمجھے اور سادگی سے پوچھنے لگے۔
نواب: سرکار خدا کے واسطے اس قدر اپنی زبان کیوں خراب کرتی ہو، مجھے بتاؤ تو کیا ہوا ہے۔
اماں: نواب صاحب اصل یہ ہے کہ ہم میں ان باتوں کی تاب نہیں ہے۔ بھلا رات کو خورشید آپ کے ہاں کیوں آئی تھی؟
نواب اول تو سٹپٹائے، پھر لڑکھڑاتی ہوئی آواز اور رُکتی ہوئی زبان سے کہا
نواب: پھر اس میں میرا کیا قصور ہے، کسی دوست کی خاطر کرنی بھی گناہ ہے؟
اماں: اگر ہم بھی اسی طرح لوگوں کی خاطر کرتے، تو آج ہمیں بھی یوں پچھتانا نہ پڑتا۔ اور وہ آپ کے کون سے دوست ہیں جن کی خاطر یہ گلچھرے اڑے۔ اللہ و غنی۔ ہم تو صرف آپ کے سبب ننھی کو ڈپٹی صاحب سے نہ ملنے دیا۔۔۔۔ جوہری کے لڑکے سے اپنے ہزاروں روپے کا نقصان گوارہ کیا، اور آپ کو لوگوں کی یہ خاطر منظور تھی کہ اس مالزادی کو بلایا، اور مجرا سُنا۔ خبر نہیں کیا کیا ہوا اور یہ خطا وار یونہی رہ گئی۔ بس نواب صاحب آپ کی ہماری نبھ چکی۔
سرکار میں ایمان سے کہتا ہوں بالکل مجبور ہو گیا تھا، رات کو میر صاحب ان تھانہ دار کو یہیں لے آئےجو خورشید کو چاہتے ہیں۔ انھوں نے مجھے ایسا دبایا کہ اسے بلانا ہی پڑا۔
بھلا نواب صاحب آپ خدا نخواستہ ان کے نوکر نہیں، ۔۔۔۔۔ نہیں۔ پھر تو انھوں نےیہ تو منع نہ کر دیا ہو گا کہ ننھی کو نہ بلانا۔
جوں ہی اماں کا یہ فقرہ میرے کان میں پہنچا، مجھ سے ضبط نہ ہو سکا چیخیں مار کر

ریختہ صفحہ 103
رونے لگی۔ اماں، نواب صاحب، استاد جی غرض سب لوگ وہیں آ گئے جہاں میں تھی۔ نواب نے میرے آگے ہاتھ جوڑے اور قسمیں کھائیں کہ اب پھر کبھی ایسا نہ ہو گا۔ اور اپنی قیمتی ہیرے کی انگوٹھی میری انگلی میں پہنائی کہ لو گہنا گاڑی لے لو۔ اماں تو اس سے ملائم ہو گئیں۔ مگر میں نے اتنا اور کہا کہ آپ میر صاحب کو کبھی اپنے ہاں نہ گھسنے دیجئیے گا، انھوں نے یہ بھی مان لیا اور قرآن درمیان ہو کر ملاپ ہو گیا۔
جب اماں اور لوگ اٹھ کر چلے گئے تو نواب نے مجھ سے پوچھا کہ یہ تمہاری اماں کن ڈپٹی صاحب کو کہتی تھیں کہ ہم نے آپ کی خاطر اسے ان سے ملنے نہ دیا۔ کہیں ہمارے وہی دوست تو نہیں۔ کیا تم سے بھی رجوع کی تھی؟ آج کل درگیا کے ساتھ امرتسر میں چین اڑاتے ہیں۔ اب مجھے کاٹو تو بدن میں خون نہیں، دم بخود ہو گئی۔ کہتی تو کیا کہتی، آخر یہ سمجھ میں آئی کہ انھیں فریب سے ٹالو، مڑک کر بولی، توبہ آپ میرے سر کیوں ہوتے ہیں۔ جنھوں نے کہا ہے انھیں سے پوچھو۔ انھیں بلاؤں۔ نواب بیچارے میرے خفا ہونے سے ڈر گئے۔ اور کہا خدا کے واسطے انھیں نہ بلاؤ۔ اچھا جانے دو۔ میں اس سے در گذرا۔ اس شکر رنجی کے بعد نواب مجھ سے بہت زیادہ محبت سے ملنے لگے۔ میر صاحب نے ہمارے ہاں آنا تو چھوڑ ہی دیا تھا۔ نواب کے ہاں سے بھی ان کی جڑ کٹ گئی۔ اور پھر سنا کہ وہ دہلی سے گئے۔ مرزا صاحب آٹھویں دسویں ہو جاتے تھے۔اور ڈپٹی صاحب کا تھوڑا بہت حال سنا جاتے تھے۔ ان کی آمدورفت کا حال ہمارے نواب صاحب کو بھی معلوم تھا۔ مگر وہ انھیں اچھی طرح جانتے تھے اور کبھی اعتراض نہ کرتے تھے۔
اور کئی برس کا مختصر حال
اب تک جو کچھ فن و فریب نواب یا کسی اور کے ساتھ ہوتا تھا، وہ اماں کی طرف

ریختہ صفحہ 104
ہوتا تھا۔ مگر اس لڑائی کے بعد میرا دل بھی باوجود ایسی گہری محبت کے کچھ ایسا ہو گیا کہ یہ سمجھنے لگی کہ جو کچھ نواب سے مل جائے وہ اپنا ہے۔ میر صاحب کے برتاؤ نے مجھے بدظن کر دیا کہ میرا دل کسی کے ساتھ سچائی سے ملنے کو نہ چاہتا تھا۔ نواب کے برتاؤ میں حالانکہ وہ بہت محبت کا تھا ٌپھر بھی ایک بات ایسی تھی کہ خورشید کا دھڑکا میرے دل پر سے کبھی نہ ہٹتا تھا اور یہی معلوم ہوتا رہتا تھا کہ ایک نہ ایک دن مجھے چھوڑ کر خورشید سے تعلق پیدا کر لیں گے۔ اس نے ( خورشید نے) ہمارے ہاں آنا تو چھوڑ ہی دیا تھا مگر کہیں اتفاق سے برات مجرا میں ملتی تھی تو مجھے اس کی صورت زہر لگتی تھی۔ ڈپٹی صاحب کا خیال کرتی تھی تو بڑا تعجب آتا تھا کہ عین ان دنوں میں وہ دُرگیا پر اس قدر مائل تھے اور جس کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ امرتسر چلی گئی۔ میرے حال پر انھوں نے اس طرح ٹوٹ کر عنایت کی۔ ان سب باتوں نے مجھے اچھی طرح یقین دلا دیا کہ مردوں کو سچی محبت نہیں ہوتی۔ اور جو کسبیاں اپنے ملنے والوں سے سچی محبت سے ملتی ہوں گی، وہ ضرور نقصان اٹھاتی ہوں گی۔ رفتہ رفتہ میرا یقین اس بات پر بالکل جم گیا اور میں نے گویا اس قماش کی ایک نئی زندگی شروع کی کہ جو لوگ میرے مکان پر آتے تھے، ان سے بالکل جھوٹ اور بے اصل کی باتیں کرتی تھی، دل سے بنا بنا کر ایسے فقرے کہتی تھی کہ جن سے ان کا دل لوٹ پوٹ ہو جائے۔فرمائش کرنے کی ہزاروں تدبیریں سوچا کرتی تھی۔ اور جوں جوں مجھے ان باتوں میں کامیابی ہوتی تھی میرا دل بڑھتا تھا اور نئی نئی تدبیریں سوجھتی تھیں۔ برس ڈیڑھ برس میں سب باتوں میں مشاق ہو گئی۔ ایک کمال میں نے یہ حاصل کر لیا کہ جتنے آدمی ہنسنے بولنے اٹھنے بیٹھنے یا گانا وانا سننے میرے پاس آتے تھے، ان سب سے جدا جدا میں ایسی ترکیب ڈال لیتی تھی کہ ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ مجھ سے ہی محبت ہے اور میں اس کا رازدار ہوں۔ ٹوٹا

ریختہ صفحہ105
پھوٹا لکھنا پڑھنا تو آتا ہی تھا، خط پرچے بھی ضرورت اور موقع کے وقت چلتے تھے لیکن پہلی شرط یہ ہوتی تھی کہ کبھی کسی سے ذکر نہ کیجئے گا، میری فرمائشیں ایسی چوری چھپے پوری ہوتی تھیں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی تھی۔ اسی عرصہ میں مرزا صاحب کے توسل سے میری خط و کتابت ڈپٹی صاحب سے شروع ہو گئی۔ ایک چال دے کر میں نے ان سے پچاس ساٹھ روپے کی چیزیں منگوا لیں اور وہ دہلی آئے تو پھر میں ان سے مل لی۔ مگر نواب صاحب کو مطلق خبر نہ ہوئی۔ عین جس بات کا مجھے اتنا رنج ہوا تھا اب اس کا فخر بلکہ غرور ہو گیا۔ اصل یہ ہے کہ نواب کی طرف سے خورشید کا کھٹکا لگ جانے کے بعد سے مجھے نواب کی وہ دلی پابندی نہ رہی تھی۔ ڈپٹی صاحب کا قصّہ اس طرح پر ہے کہ میرے ان خطوں میں چھیڑ چھاڑ تو جاری تھی ہی۔ وہ مجھے نواب کی نسبت اور میں انھیں درگیا کی نسبت فقرے لکھا کرتی تھی۔ ایک دفعہ ان کا خط آیا کہ میں ہفتہ عشرہ میں دو دن کے لئے تنہا دہلی آنے والا ہوں، دُرگیا یہیں رہے گی۔ اگر ممکن ہو تو ملاقات کر لینا۔ اب تک اکثر اوقات میں انھیں مرزا صاحب سے ہی خط لکھوا کر بھیجتی تھی مگر اس کا جواب میں نے خود لکھا اور سب چھیڑ چھاڑ چھوڑ کر صاف صاف لکھا کہ " مجھے وہاں سے فلاں فلاں چیزوں کی ضرورت ہے آپ ضرور لیتے آئیے گا، اور دہلی میں رات کی گاڑی سے اترئیے گا اور وہ بھی ذرا نا وقت ہو۔ اتنے اشارے میں وہ سمجھ گئے اور مجھے جواب دیا کہ میں فلاں روز فلاں وقت اور سیدھا تمہارے ہی گھر آؤں گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ نواب سے مجرے کا بہانہ کر کے چھٹی لے لی تھی۔ ان کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہوئی۔ میرے ان ہتھکنڈوں سے اماں بھی خوش رہنے لگیں۔ اور استاد جی بھی جب کبھی میرا ذکر کرتے تو بڑی خوشی سے کہتے تھے کہ ما شا اللہ ننھی جان کو سمجھ آ گئی ہے۔ سوائے مرزا صاحب کی جن کی واقعی میں پاک منشی کے سبب ذرا عزت کرتی تھی اور کسی کو میں نے بے فرمائش کے نہ چھوڑا
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 106
وہ کارخانہ دار جن کے ہاں میں مجرے میں گئی تھی اور اکثر جاتی تھی ان سے بڑے بڑے کام نکلتے تھے۔ میں نے بھی انھیں ہر طرح خوش کر دیا۔ مزاج پہچان لینا، باتوں باتوں میں میں دل نرم کر دینا، بے انتہا شرم و حیا کے پردے میں چدّر (چادر) چھپول کر کے لٹا دینا میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہو گیا۔ اور خود مجھے ان باتوں میں مزہ آنے لگا۔ چٹک مٹک اور فن فریب دن بدن مجھ میں بڑھنے لگے۔ اور نواب پر بھی میں وار کرنے لگی۔ مجھے بڑی جیت یہ تھی کہ نواب کے سامنے رونا بڑی جلدی آ جاتا تھا اور وہ بے چارہ اس سبب سے میری ہر بات کا یقین کر لیتا تھا۔ یہ زمانہ میری انتہا درجہ کی شہرت کا تھا اور شہر میں سب سے پہلے میرا نام لیا جاتا تھا، ناچنے گانے، اخلاق، لباس، زیور، مکان کی ٹیپ ٹاپ، غرض ہر بات میں اوّل سمجھی جاتی تھی۔ باہر شہروں میں بھی بلائی جاتی تھی اور میرا نام دور دور پھیل گیا۔
ان ہی دنوں کشمیر میں جشن کی تیاریاں ہو رہی تھیں اور ریاست کے کارندے دہلی میں بھی سائی(ساعی) دینے آئے ہوئے تھے، امیر جان، پانی پت والی، گلاب۔۔۔۔۔ بانسوں والی اور میں یہاں سے منتخب ہوئے۔ اور وقتِ مقررہ پر جھول پہنچے۔ ریاست سے جو کچھ ہمیں ملا ، وہ ملا ہی مگر ایک سردار صاحب کو میری ملاحت ایسی بھا گئی کہ انھوں نے ہزاروں روپے کا سلوک میرے ساتھ کیا۔ اور مجھے وہاں رکنا پڑا۔ نواب نے خط پر خط بھیجے مگر میں کہاں آ سکتی تھی۔ اس سے انھیں خورشید کے ساتھ دل کھول کر لطف اٹھانے کا موقعہ ملا۔ اور مجھے کشمیر ہی میں یہ خبر معلوم ہو گئی کہ خورشید نواب کے ہاں کھلم کھلا آتی ہے۔ اس کا صدمہ ہوا تو، مگر زیادہ نہیں۔ کیونکہ مجھے یقین تھا کہ جاتے ہی نواب کو ٹھیک کر لوں گی۔ اماں کو اب نواب کی پرواہ بھی نہ رہی۔ انھوں نے اس لئے اس کا زیادہ خیال بھی نہ کیا۔ جب ہم دوشالوں، زیور، کپڑے اور نقدی لئے ہوئے دو ڈھائی مہینے

ریختہ صفحہ 107
میں دہلی آئے تو اپنے تئیں کچھ اور ہی سمجھتے ہوئے آئے۔ نواب کو اطلاع بھی نہ کروائی۔ وہ خود آئے تو بھی اماں نے ناک بھوں چڑھائی کہ آپ کے خطوں نے ہمیں چین نہ لینے دیا۔ہمارے سامان کو دیکھ کر نواب صاحب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اور خود ان کا دل کہنے لگا ہو گا کہ اب ان کو میرے دوسو روپوں کی زیادہ پرواہ نہ ہو گی۔ ہم میں سے کسی نے اب کی مرتبہ نواب سے خورشید کے معاملہ میں باز پرس نہ کی۔ اور وہ بھی اپنی آزادی سے کسی قدر خوش تھے۔ جب ہم کشمیر سے آئے تو چاند کی تیرہویں چودہویں تھی۔ دوسرا چاند دکھائی دیا تو نواب نے اپنے نوکر کے ہاتھ سو روپے بھیجے۔ اماں کے حساب سے پانچ سو چاہئیے تھے، کیونکہ وہ ہمارے کشمیر میں رہنے کے دنوں کا بھی مانگتی تھیں۔ آگ بگولا ہو گئیں۔ اور روپے الٹے ان کے منہ پر مارے۔ نوکر چلنے لگا تو یہ بھی کہہ دیا کہ نواب صاحب سے کہہ دینا کہ ہم نے آپ کی لیاقت دیکھ لی۔ آج سے یہ نہ آئے گی۔ آج کے واقعہ سے میرے پہلے خیالات پھر لوٹ آئے۔ اور نواب کی پرانی محبت میرے دل میں چٹکیاں لینے لگی۔ مجھے اداس اور پژمردہ دیکھ کر اماں نے پہلے تو دس بیس باتیں سنائیں، پھر کہا اللہ کا شکر ہے کہ اس ٹٹ پونجئیے کے پھندے سے نکل گئیں، یہی عمرتیری کی کمائی ہے۔اسے اس طرح گنوا دے گی تو بڑھاپے میں کیا کرے گی۔ میں سن کر چپکی ہو رہی مگر دل میں کریدنی لگی ہوئی تھی کہ دیکھئے نواب کیا کرتے ہیں۔ کوئی گھنٹہ بھر کے بعد نواب کا آدمی پھر آیا اور پورے پانچ سو لا کر اماں کو گنوا دئیے۔ ساتھ میں ایک رقعہ دیا جسے میں نے پڑھا تو یہ سطریں لکھی تھیں۔
لیجئیے یہ آپ کی ڈھائی مہینے کی تنخواہ۔ میں نے بھی آپ کو اچھی طرح دیکھ لیا۔ پہلے آپ نے کہلا بھیجا تھا کہ یہ نہ آئیں گی، اب میں کہتا ہوں کہ نہ میں کبھی آپ کی طرف کا رُخ کروں گا اور نہ کبھی آپ ہی میرا پیچھا کیجئیے گا۔

ریختہ صفحہ 108
اس رقعہ کو پڑھتے پڑھتے میرے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے، اس وقت اماں بھی چپ ہو رہیں۔ اور نوکر کو یہ کہہ کر رخصت کیا کہ بہت اچھا وہ اپنے گھر خوش ہم اپنے گھر خوش۔ وہ رات جس طرح میں نے گزاری، خدا پر خوب روشن ہے۔ خورشید سے ملنے کی نواب کی ساری برائیاں میرے دل پر سے ہٹ گئیں اور اول دن سے ان کا مجھ پر جان چھڑکنا، ہمیشہ میرے آگے بھیگی بلی بنے رہنا، کسی بات سے عذر نہ کرنا، سینکڑوں بد مزاجیاں اماں کی اور میری سہنا، مجھے رہ رہ کر یاد آےا تھا۔ کبھی کہتی کہ نواب کے ساتھ جو میں نے پے در پے دغا کی اس کی سزا یپ مجھے مل رہی ہے۔ کبھی معلوم ہوتا تھا کہ اللہ کا فرشتہ کان میں کہہ رہا ہے کہ اب بھی تو آئیندہ کے لئے پکی وفادار بنی رہے تو نواب کو بالکل تیرا ہی کر دیں اور انھیں خورشید سے نفرت ہو جائے۔ کبھی سوچتی تھی کہ چپکے سے گھر کے کواڑ کھول کر نواب کے مکان پر پہنچ جاؤں اور منا لاؤں۔ پھر اس خیال سے سہم جاتی تھی کہ وہاں تو خورشید مجود ہو گی۔ میرے کمرے کی کیا۔ گھر بھر کی ایک ایک چیز گویا نواب کا روز نامچہ معلوم ہوتی تھی۔ اور کاٹنے کو دوڑتی تھی۔ الغرض اسی ادھیڑ بن میں صبح ہو گئی، منہ ہاتھ دھو کر فارغ ہوئی تھی کہ مرزا صاحب آ گئے۔ اور میں انھیں دیکھ کر ذرا چیت گئی ، اس امید میں کہ ان سے غم غلط ہو گا۔ بیٹھتے ہی مرزا صاحب نے بڑی محبت سے میری چڑھی ہوئی آنکھوں اور اترے ہوئے چہرے کا سبب پوچھا اور مجھے سارا قصّہ کہتے ہی بنی۔ انھوں نے بہت افسوس ظاہر کیا اور کہا میں تو پہلے ہی جانتا تھا کہ ایک نہ ایک دن یہ ہونا ہے۔ تمہارے پیچھے جو دیکھتے دیکھتے نواب کا خورشید سے ربط ضبط بڑھ گیا اس کا لازمی نتیجہ یہی تھا جو پیش آیا۔
جتنی دیر بیٹھے مرزا صاحب نے مجھ سے انتہا درجہ کی ہمدردی کی باتیں کرتے رہے اور بیسیوں فراقیہ قصے سنائے جس سے مجھے ذرا تسکین ہوئی، آج میں نے

ریختہ صفحہ 109
ان سے بڑی منت سے کہا کہ آپ روز ہو جایا کیجئیے اور وہ بھی مان گئے۔ بیچارے روز آتے اور دو دو تین تین گھنٹے بیٹھ جاتے تھے، تیسے ہی دن ہمیں خبر لگ گئی کہ خورشید سو روپے ماہوار پر نواب کی نوکر ہو گئی۔ اس بات نے رہی سہی آس توڑ دی مرزا صاحب کی باتوں میں ان دنوں میں بے انتہا میرا جی لگنے لگا ، ان کا باریک ستھرا مذاق، تمیزداری، ادب اور قاعدے سے نزست و برخاست اور سب سے بڑھ کر پاک دلی سے ملنا میرے دل میں گھر کر گیا۔اور یہی جی چاہنے لگا کہ اسی طرح کی بے جھگڑے کی زندگیگزرے تو کیا اچھی بات ہو۔ ان دس پندرہ دن میں مرزا صاحب کے فیضِ صحبت سے میں ایک آدھ وقت کی نماز بھی پڑھنے لگی۔اور گھر پر گانے بیٹھتی تو زیادہ تر قوالی ہی گاتی۔ میرے اصرار سے تعلیم کے وقت میں بھی کبھی آ جاتے تھےاور دو تین فارسی کی غزلیں بھی یاد کروا دی تھیں۔ اماں نے نواب کی راہ دیکھ کر جوہری کے لڑکے کو ٹٹولا ، مگر وہاں اس کے ماں باپوں نے ایسی لے دے کر رکھی تھی کہ اس نے ہاتھ ہی نہ رکھنے دیا۔ اور اماں اور استاد جی دونوں ۔۔۔۔۔۔ رہنے لگے۔ بڑا اللہ کا شکریہ تھا کہ اس معاملہ میں میرا رتی برابر قصور نہ تھا۔ نہیں تو یہ لوگ طعنے تشنوں کے مارے میرا ناک میں دم کر دیتے۔ ایک دن اماں پہاڑی والے پیر جی کے پاس گئیں ۔ انھوں نے میرے قد کے برابر نیلا ڈورا مانگا اور اس کا گنڈا بنا کر میرے لئے دیا۔ ڈھائی روپے ان کی نظر ہوئے۔ فال کہلوائی تو معلوم ہوا کہ کوئی مہینہ ڈیڑھ مہینہ میں ایسا نصیبہ جاگے گا کہ مجھے کسی بات کی پرواہ نہ رہے گی۔ اس سے اماں کو ایسی ڈھارس بندھی کہ ہر جمعرات کو پیر جی کے ہاں کچھ لے کر جاتی تھیں۔
رحیم پور کے رئیس سے میرا تعلق
خدا کی شان تھوڑے ہی دنوں بعد رحیم پور کا نوجوان رئیس کسی ضرورت سے

ریختہ صفحہ 110
دہلی آیا۔ ایک دن حکیم جی کے ہاں آیا ہوا تھا کہ میں بھی پہنچ گئی۔ دیکھتے ہی لٹو ہو گیا اور مکان وکان کا پتہ پوچھا۔ صورت شکل ہاتھ پاؤں میں خاصا اچھا تھا۔ مگر لباس ذرا گنوارو تھا۔ باتیں ایسی بھولی تھیں کہ سب اسی کو بناتے تھے۔ تیسرے پہر کو ہمارے مکان پر معہ چند دوستوں کے آیا، ہم نے بھی خاطر تواضع میں کوئی دقیقہ باقی نہ چھوڑا۔ اور اس بہانہ سے کہ آپ پردیسی ہیں ، دوسرے دن بڑے تکلف سے دعوت کی، اس بیچارے نے یہ باتیں پہلے کہاں دیکھی تھیں۔ جال میں پھنس گیا۔ اور پانچ سو روپے ماہوار پر نوکر رکھ لیا۔ کوئی دس بارہ دن میں ان کا کام بھی پورا ہو گیا ادھر ہم نے بھی تیاری کر لی۔ اور اچھا سا دن دیکھ کر ہم سب رحیم پور روانہ ہوئے۔ مکان پر اماں نے دو معتبر آدمی چھوڑ دئیے۔ اور مجھ سے کہا کہ مہینہ دو مہینہ رہ کر چلی آؤں گی اور استاد جی کو چھوڑ آؤں گی۔ پھر وہ آ جائیں گے، میں چلی جاؤں گی۔ غرض اس طرح بدلی ہوتی رہے گی۔
ہمارے پہنچنے کی ریاست بھر میں دھوم مچ گئی۔ نہایت تکلف کی آراستہ کوٹھی ہمارے رہنے کو ملی۔ چوکی، پہرا ، نوکر چاکر، سواری شکاری سب مقرر ہو گئے۔ دونوں وقت خاصہ مہریوں کے سر پر الگ آ جاتا تھا۔ اور ہم لوگ گویا حکومت کرنے لگے۔ غرض مند آدمی اکثر اماں کے پاس آتے تھے کہ ننھی جان اگر حضور سے سفارش کر دیں تو ہمارا کام بن جائے۔ مگر اماں کے وہ دماغ آسمان پر تھے کہ سیدھے منہ بات بھی نہ کرتی تھیں۔ کوئی دس میں سے ایک کی رسائی ہزار منت سماجت اور اماں اور استاد جی کی مٹھی گرم کرنے سے مجھ تک بھی ہو جاتی تھی۔ اور میرا کہنا رئیس مان بھی لیتا تھا۔ رفتہ رفتہ اماں اور استاد جی ، بلکہ ہمارے سب سازندوں اور اہالی موالیوں میں سے چوہے چوہے کی تنخواہ مقرر ہو گئی اور رئیس کو گانٹھ کا پورا اور عقل کا اندھا دیکھ کر ہم لوگوں نے ہر طرح اسے لوٹنا شروع کیا۔ ڈیڑھ
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 111
دو برس میں ہم نے تیس چالیس ہزار روپیہ کھینچ لیا اور کھاری باؤلی میں دکانیں بہرام خاں کے ترامے میں مکان اور سرکیوالوں میں کئی کوٹھے خرید لئے۔ تیسرے چوتھے مہینہ میں دس پندرہ دن کو دہلی آتی تھی تو میرے ساتھ ریاست کے اہلکار بھیجے جاتے تھے، اور لینے کو پھر بھی اکثر رئیس خود کسی نہ کسی بہانہ آتا تھا،۔ اس عیش و عشرت میں مجھے نواب کا خیال بھی نہ رہا۔ اور دن رات یا آرام طلبی سے کام تھا یا اس جوڑ توڑ میں لگی رہتی تھی کہ اس چال سے فلاں زیور بنواؤں اور اس فریب سے وہ کپڑے تیار کراؤں فلاں ترکیب سے زاید نقد روپیہ حاصل کروں۔ رئیس کی دو بیویاں بھی تھیں اور ایک سے اسے تھوڑی بہت الفت بھی تھی۔ مجھے اس کی طرف سے ہر وقت کھٹکا لگا رہتا تھا اور ہمیشہ ایسی تجویزیں سوچا کرتی تھی جن سے اسے اپنی بیوی سے نفرت بڑھے۔ اکثر میں بیویوں کے سامنے بھی بلائی جاتی تھی اور رئیس صاحب ان نیک بختوں کے روبرو میری تعریف کرتے تو وہ میرا منہ تکتیں۔ وہ ٹہریں سیدھی سادھی ، میں گھاٹ گھاٹ کا پانی پئے ہوئے۔ ایک نہ ایک بات ایسی کرتی تھی کہ وہ بیچاریاں شرمندہ ہو جاتی تھیں اور میں اپنے دل میں فخر کرتی تھی۔ جب تک میں نے ان کی اس بیوی کو نظر سے گرا نہیں دیا، مجھے کل نہ پڑی۔ اور جب یہ خلش مٹ گئی تو بے غل و غژ چین کرنے لگی۔ میرا دل ایسا سخت ہو گیا تھا کہ پندرہ پندرہ دن رئیس کو ان کے پاس نہ جانے دیتی تھی، مست و مخمور آٹھ پہر ہماری کوٹھی پر پڑے رہتے تھے۔ اور میں دن کہوں تو دن، رات کہوں تو رات کہتے۔ رفتہ رفتہ ریاست کے کام میں خوب ابتری پڑ گئی،لائق اور کار گذار آدمی جو ہمارے استاد جی اور میراسیوں کے مقابلہ میں اپنے تئیں کچھ سمجھتے تھے، ہمارے اشارے پر چن چن کر نکال دئیے گئے۔ مگر جو لوگ ہمارے ۔۔۔۔۔ کر رہے ان کی چاندی رہی۔ڈھائی برس میں ہم نے وہاں یہی کروفر کی اور پچاس ہزار سے زیادہ کا جوتا تو اکیلی میں نے لگایا۔ اور استاد جی

ریختہ صفحہ 112
اور لوگوں کی ٹھیک نہیں۔ آخر کاغذ کی ناؤ کب تک چلتی۔ یہ چمار چودس ایک نہ ایک دن ختم ہونی تھی۔ سرکار میں خبر ہو گئی کہ رئیس مقروض ہے۔ اور عیش و عشرت میں ایسا پڑا ہے کہ کام بالکل نہیں دیکھتا۔ بے کہے انگریز دورے پر آ گیا تو دیکھا خبردار نے خبر دی تھی، رتی رتی ٹھیک پایا۔ فوراً علاقہ کو کورٹ کرنے کا حکم دے کر رئیس کی تنخواہ مقرر کر دی اور ہم لوگ کھڑے کھڑے نکالے گئے۔ یہ باد شاہی تخت چھننا بھلا ایسا آسان کہاں تھا، برسوں اس عیش کو روئے۔ جو اسباب ہم سے لیا گیا، لے آئے۔ باقی چار وناچار وہیں چھوڑا۔ افتاد ایسی پڑی کہ چلتے وقت رئیس ہم سے مل بھی نہ سکا۔ایک تو اس پریشانی کا سفر دوسرے میں عارضہ ۔۔۔۔۔ (حاملہ) ا س مصیبت سے دہلی پہنچےکہ بیان سے باہر۔ اور میں آتے ہی بیمار پڑ گئی۔ علاج بہت غور سے ہوا اور پرہیز بھی حتی المقدور بہت کیا مگر رحیم پور سے آنے کا رنج ایسا غالب تھا کہ طبیعت بالکل درست نہ ہونے پائی اور اسی میں بال بچہ ہونے کے دن نزدیک آ گئے۔ میں پورے دنوں تھی اور اس سال زچائیں بہت مر رہی تھیں کہ ایک فقیر یہ صدا کہتا ہوا گلی میں سے گیا
نیکی کا بدلہ نیک ہے، بد سے بدی کی بات لے۔ میوہ کھلا میوہ ملے۔ پھول دے پھل پات لے۔ کل جگ نہیں کرجگ ہے یاں، اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے۔
میں اس سے تھرا اٹھی اور وہم آنے لگا کہ رئیس کی بیویوں پر جو میں نے اتنا ظلم کیا ہے، اس کی سزا مجھے ضرور ملے گی۔
اب کی مرتبہ بھی میرے مونس و غمخوار مرزا صاحب ہی تھے اور بلاناغہ ایک پھیرا کر جاتے تھے، اور دوا پلا جاتے۔ ہمارے پیچھے انھوں نے لوگوں کے کہنے سننے سے نوکری کر لی، کچھ اپنے گھر کے کاموں میں مدد دینے لگے تھے۔

ریختہ صفحہ 113
اس لئے صرف صبح کو فرست ہوتی تھی۔میرے ہاں لڑکی ہوئی۔ اس کی تو سب کو ایسی خوشی ہوئی کہ بیان سے باہر ہے۔مگر ایک چھ مہینے میں نے ایسی ہینگ ہگی کہ چھٹی کا کھایا سب نکل گیا۔ سینکڑوں منتوں مرادوں سے میری جان بچی۔ اور اس بیماری میں مَیں نے اس بات کا عہد کر لیا کہ کبھی کسی کے بیوی بچوں پر ظلم نہ کروں گی۔
اب ایسے ویسوں کی تو ہمیں پرواہ نہ رہی تھی۔ رئیس اور بڑھیا لوگ بھلا بال بچے داروں سے کب توجہ کرتے ہیں۔ ان سببوں سے ہمیں ایک سال ڈیڑھ سال کسی قدر تنہائی کی زندگی بسر کرنی پڑی۔ مرزا صاحب کے علاوہ دو چار اور شریف آدمی آن بیٹھتے تھے اور ہنسی مذاق میں وقت گزر جاتا ، سار ےشہر مین بدنام ہو گئی کہ بیچ کے درجہ کے لوگوں کو منہ نہیں لگاتی اور رئیس ڈھونڈتی ہے۔ اس سے میں بھی چڑ گئی اور کھلم کھلا متوسط درجہ کے لوگوں سے تعلق پیدا نہ کیا، نواب نے اب کی دفعہ بھی ہماری خبر نہ لی۔ جن دنوں میں مَیں بہت بیمار تھی، مجھے اکثر ان کا خیال آتا تھا، مگر انھوں نے کروٹ ہی نہ بدلی۔ بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ بہت کچھ بگڑ چکے تھے اور روٹیوں کے لائق رہ گئے تھے۔ چنے خاں نے انھیں شراب پر بھی لگا لیا تھا۔ اور میں نے ایسا ایسا بھی سنا کہ خورشید، نواب اور گھر بھر دن دن بھر مدہوش پڑا رہتا تھا۔ میں نواب کا ذکر کسی سے نہ کرتی تھی مگر کوئی شخص فراق کا شعر پڑھتا تھا تو مجھے ان ہی کی یاد میں درد انگیز لطف آتا تھا۔
ریختہ صفحہ 114

شباب کا شباب
ان فرصت کے دنوں میں مَیں نے ایک تو گانے میں خاطر خواہ ترقی کر لی دوسرے اپنا خط اچھی طرح سنوار لیا اور ہر قسم کی تحریر بھی پڑھ لیتی تھی، الفرڈ کمپنی آئی ہوئی تھی۔ تیسرے چوتھے دن بڑے ٹھسّے سے اول درجہ کا ٹکٹ لے کر وہاں چلی جاتی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جوڑ توڑ کر کے کسی کو لوٹنے یا خوامخواہ ستانے کا خیال مجھے بہت کم ہو گیا تھا۔ مگر طبیعت کچھ ایسی امارت پسند ہو گئی تھی کہ یہی جی چاہتا تھا کہ میرے فرصت کے وقتوں میں دو چار بھلے مانس اس قماش کے موجود ہوں کہ درپردہ وہ مجھے اچھا سمجھتے ہوں، بات بات میں میری تعریف کرتے ہوںاور میں کسر نفسی کی باتیں کروں۔ ایک آدھ آدمی تمسخر بھی کرتا ہو، کوئی مجھے حضور کہے کوئی سرکار کہے، چونکہ میں ایسے آدمیوں کا آنا اپنے ہاں دل سے چاہتی تھی ، اس لئے جیسا ابھی کہہ چکی ہوں علاوہ مرزا صاحب کے اور دو چار آدمی آنے لگے۔ ایک شخص ان میں ایسے بھی تھے کہ مجھے میرے پوشیدہ معاملات میں بھی مدد دیتے تھے اور تھیٹر میں بھی میرے ساتھ جایا کرتے تھے۔تھیٹر میں اکثر جانے، مرزا صاحب کے عاشقانہ اشعار اور قصّے کی کتابوںکے مطالعہ نے رفتہ رفتہ پھر میری طبیعت کو گدگدایااور میرا دل کسی سے محبت کرنے کو ڈھونڈنے لگا۔مگر یہ چاہتی تھی کہ جو کچھ ہو، پوشیدہ ہو، جویندہ یا بندہ۔ ایک رات تھیٹر کے دروازے پر ایک نوجوان گورے چٹے قد وقامت نہایت موزوں لباس شریفانہ اور دو چار دوست ساتھ مجھے ملے۔ ہم لوگوں کے ٹکٹ بھی انھوں نے ہی لے دئیے۔ اور مجھے اپنی برابر والی کرسی پر بٹھایا،باتوں باتوں

ریختہ صفحہ115
میری جسمانی خوبصورتی کی تعریف انھوں نےایسی تاک تاک کے کی کہ مجھ پر اثر ہو گیا اور بے خیالی میں ان کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا جس گرمجوشی سے انھوں نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں دبایا میرا ہی دل جانتا ہے۔ اس وقت میں پھر اپنے تئیں چودہ برس کا سمجھنے لگی اور وہی مزہ آنے لگا جیسا کہ اوّل اوّل نواب کے ملنے میں آتا تھا۔
دوسر دن وہ میرے مکان پر آئے اور بہت سلیقہ سے بیٹھے ، کوئی ایسی بات نہ کی جس سے میرا دل اکھڑتا۔ آٹھ دس دن میں انھوں نے اچھی طرح میرے مزاج کو پہچان لیا اور اپنی دلکش باتوں اور محتاط عادتوں سے مجھے بالک اپنا کر لیا۔ آج کل جیسے لوگ کھود کھود کر اگلے پچھلے حال پوچھا کرتے ہیں مجھے اس سے ہمیشہ چڑ تھی۔ اور چاہے کسی شخص میں لاکھ ہنر ہوں، یہ ایک عیب ہوتا تھا تو میرے آگے سب ہنر گرد ہو جاتے تھے۔ امین الرحمٰن میں لاکھ روپے کی ایک بات یہ تھی کہ کسی بات سے کچھ واسطہ ہی نہ تھا۔ وہ خود پوشیدہ ملنا چاہتے تھے اورادھر میری بھی یہی خواہش تھی۔پندرہ بیس روز کی نشست کے بعد میرا ان کا من سمجھوتہ ہو گیا۔ایک اور خوبی ان میں یہ تھی کہ میرے ہاں کے آنے والوں کی انتہا درجہ کی خاطر کرتے تھے۔ مزاج بالکل میرا سا پایا تھا۔ گھنٹوں اشعار اور مذاق میں گذار دیتے تھے۔ ان دنوں میں شام کی نشست جیسی پر لطف ہماری ہوتی تھی، شاید ہی کسی کو نصیب ہوتی ہو۔جاڑے کا موسم تھا۔ مرزا صاحب بھی شام کو آنے لگےتھے۔ ان کے پر لطف اشعار امین الرحمٰن کا پاکیزہ مذاق ۔ فقیر اللہ کا مسخرا پن۔ کسی کا ستار بجانا۔ کسی کا گنگنانا۔ کسی دن چوسر کسی دن پچیسی۔ غضب عجب مزے سے یہ دن کٹتے تھے۔ اماں امین الرحمٰن سے بھی ذرا کھورو لائی تھیں۔ مگر میرا دل ان سے بالکل مل گیا تھا۔ میں نے اب کے خوب مطلق العنانی برتی۔ اور دو ایک چھوٹی موٹی لڑائیوں کے بعد سب گھر والوں کو اچھی طرح یقین ہو گیا کہ جو اس کا جی چاہے گا وہ ہ کر کے رہے گی۔ میں نے مہینوں
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 116
امین الرحمٰن سے ایک حبّہ طلب نہ کیا بلکہ اور اپنی طرف سے ان کی خاطر تواضع میں اٹھا دیتی تھی۔ گھر والے جلتے تھے مگر میرے آگے دم نہ مار سکتے تھے۔ امین الرحمٰن میری لڑکی سے جو اب ڈیڑھ برس کی ہو گئی تھی، محبت کرتے تھے اور اسے بھی ان کی ایسی آہٹ ہو گئی تھی کہ شام سے ماں ماں کہہ کر گھر سر پر اٹھا لیتی تھی اور جب تک وہ آ کر گود میں نہ کلیتے تھے اور اچھال اچھال کر پیار نہ کرتے تھے چپ نہ ہوتی تھی۔ میں نے امین الرحمٰن کے ساتھ خوب دل کھول کر اپنی مرضی کے موافق عیش کیا۔ انھوں نے بھی مجھ سے قسم کھائی تھی کہ کبھی تمہاری مرضی کے خلاف نہ کروں گا اور اس کا تجربہ مجھے چھ سات مہینے میں اچھی طرح ہو گیا تھا۔ اپنی تعریف اکیلے میں بھی جیسی ان کے منہ سے مجھے اچھی معلوم ہوتی تھی میرا ہی دل جانتا ہے۔ ان سے ملنے کے اور اماں اور استاد جی کو قابو میں کرنے کے بعد مجھے بالکل یہ معلوم ہونے لگا کہ اب دنیا میں میری کوئی خواہش ایسی نہیں ہے جو پوری نہیں ہو سکتی۔ ان کی صحبت سے لیاقت اور صلاحیت مجھ میں دن بدن بڑھتی گئی اور اپنے تئیں کسبیوں کی سطح سے اونچا پا کر مجھے نشہ سا رہنے لگا۔ دو برس کے قریب دن عید اور رات شب برات میں گزرے۔ نصیبن چار برس کی ہو گئی اور ایسی پٹر پٹر باتیں کرتی تھی کہان ہوئے آدمی کا دل پیار کرنے کو چاہنے لگتا تھا۔ میں گانے بیٹھتی تھی تو وہ بھی طبلہ والےکے برابر آ بیٹھتی تھی۔ اب خوب الٹی سیدھی گردن ہلاتی تھی۔ مرزا صاحب کو بھی اس سے محبت ہو گئی تھی اور فقیر اللہ اور رحمانی تو ہر وقت گود ہی میں چڑھائے رہتے تھے۔
ہاں تو ہماری خود مختاری کی زندگی کی ریل گاڑی خوب زوروں میں چل رہی تھی کہ دفعتاً اماں پر فالج گرا اور مجھے اور امین الرحمٰن کو پہروں ان کے پاس بیٹھنا پڑا۔ کئی مہینے کی پیر دوڑی اورروپیہ کو کنکری کرنے سے جان تو بچ گئی مگر

ریختہ صفحہ 117
اٹھنے بیٹھنے سے عاری ہو گئی تھیں۔ دن رات اپنی مجبوری پر رویا کرتی تھیں اور مجھے بھی اپنے ساتھ رلایا کرتی تھیں۔ اب وہ اس قابل بھی نہ رہیں کہ چار بھلے مانس میرے پاس بیٹھے ہوں تو وہ بھی آ بیٹھیں۔ آنکھ کا نقص تو تھا ہی اب یہ ایسی پڑی کہ خدا کی پناہ۔ چھ سات مہینے میں خوب اچھی طرح دیکھ لیا کہ اب اس سے زیادہ آرام نہ ہو گا۔ تو بیچاری اپنے مرنے کی دعائیں خود مانگنے لگیں۔ مجھے اول تو ماں ہونے کے سبب سے دلی صدمہ تھا دوسرے کبھی کبھی یہ خیال کرتی تھی کہ آخر میری طرح ایک دن یہ بھی تو جوان ہوں گی آٹھ پہر لوگ گھیرے رہتے ہوں گے چاہنے والوں کا ہجوم رہتا ہو گا۔ اب جو اکیلی اپنے دالان میں رہتی ہیں تو ان کا دل اپنا اگلا وقت یاد کر کے کیا کہتا ہو گا۔ مجھ سے اور امین الرحمٰن سے جہاں تک ہو سکتا تھا ان کی خدمت کرتے تھے۔ ہمیں دیکھ کر نوکر چاکر بھی کچھ سٹ پٹ کرنے لگتے تھے۔ مگر اماں کے دل کا کنول روز بروز بجھتا جاتا تھا۔ استاد جی جو اماں کے بڑے رفیق اور پرانے مدد گار تھےبہت دنوں ان کی خدمت کرتے رہے ۔ پھر وہ بھی پہلو تہی کرنے لگے۔ گرمی اور برسات تو لشتم پشتم گزر گئی مگر جاڑے کے آتے ہی پھر ان پر زور شروع ہوا۔ ایک رات تو ایسی زیادتی ہوئی کہ وہ بالکل بیہوش ہو گئیں اور لگیں بہکنے۔ کبھی کہتی تھیں کہ ارے نواب سے چوہے دتیاں بنوا لے پھر سونا مہنگا ہو جائے گا تو وہ حیل و حجت کرے گا۔ کبھی بڑبڑاتی تھیں کہ خاں صاحب امین الرحمٰن کو۔۔۔۔۔۔ کرو تو جانوں۔ کبھی چونک چونک پڑتی تھیں کہ ہائے کون انگارے مارتا ہے۔ امین الرحمٰن دونوں ان کی پٹی کے برابر بیٹھے تھے۔ وہ بیچارہ بھی مسکرا کر چپ ہو رہا اور میں ازحد خفیف تھی۔ ہم دونوں بار بار کہتے تھے کہ کلمہ پڑھو۔ مگر وہ جب بولتی تھیں ایک نہ ایک بات ایسی بولتی تھیں کہ ہم تھرّا اٹھتے تھے۔ رات بھر یونہی آنکھوں میں کٹی۔ بارے صبح ہوتے ہی اللہ نے انھیں افاقہ دیا اور ہم ذرا مطمئن ہوئے۔ ڈاکٹری

ریختہ صفحہ 118
علاج شروع کیا اور جمعہ مسجد کےاسپتال میں ایک جوان سے مسلمان ڈاکٹر تھے انھیں بلا کر دکھایا۔ تھے وہ بھی رنگین مزاج۔ ہم سے فیس بھی نہ لی۔ پندرہ بیس دن تک ایک پھیرا انھوں نے روز کیا۔ اور ایسی محنت سے انھوں نے علاج کیا کہ وہ زور جاتا رہا۔ اور اچھوں میں کہلانے لگیں۔اب ڈاکٹر صاحب کا احسان کیونکر اترے۔ روپیہ کی انھیں پرواہ نہیں۔ جس چیز کے وہ طالب اس میں مجھے عذر۔ مگر اماں کا معاملہ بیچ میں تھا۔ان مکی خوشی کرتے ہی بنی۔ ڈاکٹر نے ایسا گجھا اثر مجھ پر ڈالا کہ میں اس کے نشہ میں رہنے لگی اور امین الرحمٰن کی خوبیاں میرے دل سے اس قدر ضرور ہلکی ہو گئیں کہ باطنی تفریح کے لئے ڈاکٹر ہی کو موزوں سمجھتی تھی۔ یہ بات امین الرحمٰن پر بھی آپو آپ ظاہر ہو گئی۔ مگر چونکہ ظاہری برتاؤ میں مَیں نے ان سے کسی قسم کا فرق نہیں کیا تھا انھیں مجھ سے کوئی خاص شکایت نہ تھی۔ دل میں اداس بے شک رہنے لگے مگر منہ سے کچھ نہ کہتے تھے۔ اماں کی بیماری نے ڈاکٹر کا سلسلہ جاری رکھا۔ اور میں نے ان کی صحبت میں یہ نئی زندگی شروع کی ۔ اب میری عمر چوبیس کے قریب ہو گئی اور جوانی کا زور تھا۔ ڈاکٹر اسے اور دو آتشہ کرتا رہتا تھا اور میں ان باتوں کے لازمی نتیجوں میں ایسی محو ہوئی کہ پاکیزہ مذاق اور پُر لطف صحبت جس کی پہلے ازحد قدر کرتی تھی دل سے کافور ہر گئی۔ امین الرحمٰن اور مرزا صاحب بھی خوبصورتی سے کنارہ کشی اختیار کرنے لگے میں خود اسے غنیمت سمجھنے لگی۔ اور خوب دل کھول کر ڈاکٹر سے ملی۔ اور یہاں تک ملی کہ جوانی کا زور فرو ہونے لگا اور قوت پیدا کرنے اور دل کو بحال رکھنے کے لئے شیمپئین شروع کی۔ اب میں کچھ اور ہی ہو گئی۔ رنڈی پنے کی رگ پھر ابھر آئی۔ اور ڈاکٹر کو خوب لوٹا ۔ تین چار سو روپے جو وہ کماتا تھا سب ہمارے ہی گھر آتا تھا۔ فرمائشوں میں دو چار ہزار کا مقروض بھی ہو گیا۔ مگر اسے مطلق پرواہ نہ تھی۔ میرے ساتھ وہ بھی شراب پیتا تھا بلکہ پلاتا تھا۔ اصل میں اسی نے

ریختہ صفحہ 119
یہ شوق بھی لگایا تھا۔ یہ دن بھی عجب بے اصولی پن سے گزرے۔ اور بیچ کے دنوں میں جو خوبیاں آ گئی تھیں وہ کھسکنے لگیں۔برس دو برس اور یہی حال رہتا تو قطعی دو کوڑی کی ہو جاتی۔ مگر اللہ نے فضل کیا اور ڈاکٹر کا تبادلہ ڈیرہ غازی خاں کا ہو گیا۔ قرضداروں نے چلتے وقت اسے تنگ کیا ، بے عزتی تک نوبت آ گئی مگر وہ تو اس نے تار دے کر اور بیوی کا زیور گروی رکھوا کر روپیہ وطن سے منگوا لیا اور خیر ہو گئی۔ اس کی روانگی اور تکلیف کے دنوں میں ہم نے اس سے ایسی رکھائی برتی کہ اس کا دل ٹوٹ گیا۔ وہی اماں جو اس کے پاؤں دھو دھو کر پیتی تھیں اس کے آنے کی بھی روادار نہ رہیں۔ اور چلتے وقت اس نے رہ کر یہ فقرہ کہا ہی کہ دیکھو ننھی میں نے تمہاری اماں کے علاج میںدن کو دن نہ سمجھا نہ رات کو رات۔تمہارے پیچھے یہ کچھ برباد ہوا مگر تم نے آخر وقت یوں طرح دی، آخر رنڈی ہو نا۔
ڈاکٹر کا نشہ اترتے ہی پھر مجھے امین الرحمٰن سوجھے، انھیں تو عذر ہی کیا تھا۔پھر اسی طرح آنے لگے۔ مرزا صاحب کی آمد و رفت بھی جاری ہو گئی۔ مگر انھوں نے مجھے ایک دو دفعہ جو نشے میں دیکھ لیا تھا،تو اب کے مجھ سے ذرا رکے رکے تھے۔ ڈاکٹر تو چلے ہی گئے تھے اب شراب کا خرچ کون اٹھاتا۔ میں نے باوجود اس کے کہ اچھی طرح جانتی تھی کہ امیر الرحمٰن کے پاس اتنا ہی ہے کہ شریفانہ زندگی سلامت روی سے گزار دے۔ پھر بھی اس غریب کو اس ڈوری پر لگایا ۔ شیمپئین تو روز کہاں، ہوتے ہوتے وہسکی پر اتر آئی اور مرزا صاحب وغیرہ کے جانے کے بعد رات کو ہم دونوں میں اس کا دور ضرور ہوتا تھا۔ دو تین مہینے میں اسے اچھی طرح لت لگ گئی اور قرضہ داری شروع ہونے لگی۔ایک برس دن کے ایر پھیر میں رہنے کا مکان گروی ہو گیا اور ہماری عنایت سے بیچارہ روٹیوں تک کو محتاج ہو گیا۔ ان دنوں میں یہ بہت گایا کرتی تھی اور خوب مٹک مٹک کر گایا کرتی تھی۔

ریختہ صفحہ 120
چار دنن کی ہے یہ جوانی، پھر پاچھے پچھتانی، مزے نہ کیوں لے دیوانی، چار دنن کی۔
امین الرحمٰن کے بگڑ جانے کے بعد میرا ربط ضبط مرزا صاحب سے بڑھ گیا۔ اور ان کی سچی ہمدردی کی باتوں سے مجھے یقین ہو گیا کہ یہ مجھے دل سے چاہتے ہیں۔ مگر وہ ٹہرے فقیر منش آدمی۔ الگ تھلگ ہی کی ملاقات تھی۔ اول اول تو میں بہت جذ بذ رہتی تھی مگر رفتہ رفتہ عادت ہو گئی۔ شراب پلانے والا تو کوئی رہا نہیں تھا گاہے ماہے جب دل بہت مجبور کرتا تھا تو چھپ چھپا کر پی لیتی تھی۔ مگر ان پر بھی یہی ظاہر تھا کہ موقوف کر دی گئی۔ ناچ مجروں میں پھر میں کثرت سے جانے لگی۔ اور پر پُرزے جھاڑ کر آدمیوں میں مل گئی۔
جن دنوں میں کشمیر گئی ہوئی تھی اور نواب کا تعلق خورشید سے ہو گیا تھا ان دنوں میں خورشید کے تھانہ دار صاحب پر ایک ناگہانی آفت ایسی آ پڑی تھی کہ ان بیچاروں کا درجہ ٹوٹ کر کہیں دور کی بدلی ہو گئی کوئی مہینہ سوا مہینے وہ معطل رہے اور اس زمانہ میں نتھن، چنے خاں اور وہ تو وہ خود خورشید نے ان کے ساتھ اوپر تلے وہ بد سلوکیاں کیں کہ ان کا دل ٹوٹ گیا۔ مگر اپنی مجبوری سے چپ تھے۔ شاید اس امید پر کہ بحال ہو جاؤں گا تو ان سے سمجھوں گا۔ مگر خدا کی قدرت کہ بحال ہوئے تو دہلی سے دیس نکالا ملا۔ ان کے سامنے ہی چنے خان نے خورشید کا تعلق نواب سے کرا دیا تھا۔ اور ان کی چھاتی پر مونگ دلے جانے لگے۔ مگر ذرا پردے میں ان کے دل پر ان باتوں کا کیا خار نہ ہو گا۔ اللہ کی قدرت کئی برس کی الٹ پھیر میں وہ پھر دہلی بدل کر آئے اور جب کا میں یہ حال لکھ رہی ہوں وہ کپتان کی پیشی میں بڑے دھڑلے سے کام کرتے تھے اور ان کی ناک کا بال بنے ہوئے تھے۔
اپنے اس کروفر کے زمانہ میں انھوں نے مجھ پر عنایت فرمانی شروع کی۔ ان کی عنایتوں کی وجہ سے میرا دل بہت ہی جلد ان سے مانوس ہو گیا۔ اب ان میں یہ تبدیلی
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 121
ہو گئی تھی کہ ہر وقت ہنستے ہنساتے رہتے تھے۔اور پولیس کی ڈانٹ ڈپٹ اور حکومت وکومت کچھ نہ جتاتے تھے۔
ایک روز مجھ سے فرمانے لگے کہ اگر سچ سچ بتا دو تو ایک بات پوچھوں۔ میں نے اقرار کیا ۔ مگر انھوں نے پھر بھی بڑے اصرار سے قسمیں لیں۔جب مجھے اچھی طرح اطمینان ہو گیا تو پوچھا "ایمان سے بتا دو تمہیں نواب سے کتنی محبت ہے"
میں چونک پڑی اور وحشت سے ان کے منہ کو تکنے لگی۔ حیرت میں تھی کہ یہ سوال انھوں نے کیوں کیا۔ مجھ سے ملتے ہوئے کئی مہینے ہو گئے تھے مگر کیا مجال جو جو نواب یا کسی اور کا نام تک زباں پر آیا ہو۔
میں: (اپنے تئیں ذرا سنبھال کے) آپ کیوں پوچھتے ہیں۔
تھانہ دار صاحب: (نہایت متانت سے) محض خیر خواہی کے لئے۔
میں : (نواب پر کوئی آفت آنے کے خیال سے بے تاب ہو کر) کیوں خیر تو ہے؟
تھانہ دار صاحب: ( نہایت صلاحیت اور محبت سے) پہلے آپ میری بات کا جواب دے دیں پھر میں سب کچھ بتا دوں گا۔ اس بات کی قسم لے لو کہ کسی اور سے تو کیا کبھی تم سے بھی پھر اس کا تذکرہ نہ کروں گا۔ایسی بات آ پڑی ہے۔
میں نے تھوڑی دہیر کے سکوت کے بعد سوچا تو دل نے یہی کہا کہ کسی معاملہ میں نواب پھنستے ہیں ۔ میرا ان کا جو پہلے تعلق تھا وہ انھیں معلوم ہی ہے۔ انھیں خیال ہے کہ اگر وہ بے آبرو ہوئے تو اسے رنج ہو گا اور مجھ سے بد دل ہو جائے گی۔ اس لئے پوچھتے ہیں۔ ان خیالات کے ساتھ نواب کی پہلی محبت مجھےکچھ ایسی بے طرح یاد آئی کہ میرا دل بھر آیا۔ اور قریب تھا کہ رونے لگوں مگر ضبط کیا اور لڑکھڑاتی ہوئی آواز سے نظر نیچی کر کے کہا کہ اگر ان کی عزت و آبرو پر آن بنی ہے اور آپ انھیں بچا لیں تو میں تمام عمر آپ کا احسان نہ بھولوں گی۔

ریختہ صفحہ 122
تھانہ دار صاحب: میں صرف اتنا ہی پوچھنا چاہتا تھا۔ مجھے آج تمہاری شرافت کا یقین ہو گیا۔ باوجودیکہ نواب نے تمہیں جلانے میں کائی دقیقہ باقی نہ چھوڑا پھر بھی تمہیں اس کے ساتھ اتنی ہمدردی ہے کہ اس کا بال بیکا ہونا نہیں چاہتیں۔ ایک خورشید ہے کہ ان دنوں میں ہمارے ساتھ کیا کیا کیا تمہیں تو سب کچھ معلوم ہے۔
میں: اب تو بتا دیجئیے کہ کیا معاملہ ہے۔
تھانہ دار صاحب: ہر طرح خیریت ہے۔ آپ خاطر جمع رکھیں۔ مجبور ہوں کہ کچھ ابھی بتا نہیں سکتا مگر ایماناً یقین دلاتا ہوں کہ نواب صاحب بالکل محفوظ رہیں گے۔
میں: کیا میں کسی پر ظاہر کر دوں گیَ
تھانہ دار صاحب: آج میں نواب کو بلا کر کہہ دوں گا کہ خورشید سے بالکل تعلق ترک کر دو اور اس کے بعد ایک تماشہ دکھاؤں گا۔ بس اس سے زیادہ نہیں بتا سکتا۔ تمہں قسم ہے جو مطلق کسی سے اس کا ذکر کرو۔
تھانہ دار صاحب اس دن کے بعد سے میرے ساتھ اور زیادہ محبت کرنے لگے۔ مگر ان باتوں کا ذکر مطلق نہ کیا۔ کوئی پندرہ ہی دن میں یہ خبر مجھ کو پہنچ گئی کہ نواب کی اور خورشید کی لڑائی ہو گئی۔
تھانہ دار صاحب کے تعلق کے زمانہ میں مرزا صاحب دو تین ہی دفعہ آئے ہوں گے کہ ان کی بدلی باہر ہو گیہ۔ وہ بیچارے مجھ سے بے ملے ہی چلے گئے۔ وہاں سے انھوں نے مجھے خط بھیجا اور میں نے فوراً جواب دیا۔ اس پر میری ان کی عجب دلچسپ خط و کتابت شروع ہو گئی اور ہر چند تھانہ دار صاحب مجھ پر حد سے زیادہ عنایت کرتے تھے پھر بھی میرا دل مرزا صاحب کو ڈھونڈتا تھا اور ان کے خط کی انتظاری اور پھر جوب کی تیاری بڑے دلی شوق سے کیا کرتی تھی ایک دن میں نے انھیں القاب میں لکھا میرے پاک منش مرزا صاحب ۔ اس کا جواب انھوں نے ایسا پاکیزہ دیا کہ میں

ریختہ صفحہ 123
باغ باغ ہو گئی۔ خط کو بیسیوں دفعہ پڑھا اور بار بار مزا لیا۔ لفظ میرے پر انھوں نے یہ گہر فشانی کی ۔ یہ لفظ کتنا سادہ اور مختصر ہے مگر معنی کس قدر حاوی اور کس قدر دور کے ہو سکتے ہیں۔ ہرچند یہ لفظ تحریر میں نہایت معمولی معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور میں تو اس کے معمولی معنوں سے بھی کم کا مستحق ہوں۔مگر میرے دل میں اس پاک لفظ کی کچھ اور ہی وقعت ہے اور اگر آپ تھوڑی دیر کے لئے یہ بات بھول جائیں کہ یہ لفظ آپ نے میرے القاب میں لکھا ہے تو میں اپنے خیالات کا اظہار کروں۔ مگر عرض کرتا ہوں کہ میری اس تشریح کو خاص میرے القاب سے کچھ تعلق نہیں ہے۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ میری صداقت کا یقین کریں گی۔ ہاں یہ قصہ طلب لفظ دو معنی رکھتا ہے۔ ایک اس کے لئے جو کہتا ہے اور ایک اس کے لئے جو سنتا ہے۔ اب یہ خیال کرنا ہے کہ جب کہنے والا کسی کو دل سے میرا کہے تو کیا وہ یہ سمجھ کر یہ کہے گا اور اگر اسی معنوں میں استعمال کرتا ہے جس سے آپ بھی واقف ہیں تو وہ کیا کیا باتیں ہیں جن سے اسے دوسرے پر اس قدر اختیار حاصل ہو جاتا ہے۔ ہائے اس نا لیاقتی کا برا ہو، کوئی بات ٹھیک ٹھیک ادا نہیں ہو سکتی۔ اب جس نے یہ نجات دینے والا لفظ سنا ہے اس کے دل سے پوچھنا چاہئیے کہ وہ کیا سمجھا۔ مجھے کوئی اپنا سمجھتا ہے کیا یہ خیال سارے غموں سے سبکدوش نہیں کر دیتا۔ زیادہ تفصیل کیا کروں۔ کاش میرا دل میری قلم بن جاتا اور جو کچھ کہنا چاہتا ہوں، ادا ہو جاتا۔ مگر آپ تو ماشا ء اللہ خود مجھ سے بہتر سمجھتی ہیں، میں ناحق متردد ہوں۔
مضمون کی اس الٹ پھیر نے مجھ پر بے ڈھب اثر کیا۔ معلوم ہونے لگا کہ مرزا صاحب کی محبت معہ اپنی پاک منشی کی چاشنی کے میرے دل میں چوری چوری گھسی آتی ہے اور میں اسے کسی طرح پرے نہیں کر سکتی۔ دل میں ان کا تصّور

ریختہ صفحہ 124
کرنے لگی۔ اور جی کہنے لگا کہ ایسا پاک منش آدمی ملنا کتنی بڑی نعمت ہے۔ مگر مصلحتِوقت ہر بات کی مانع تھی۔ میں نے اس خط کا جواب کچھ بہت دور کا نہ دیا اور غالباً اس سبب سے انھوں نے بھی دوسرے خط میں محبت وغیرہ پر کچھ اور نہ لکھا۔ خط و کتابت برابر جاری رہی مگر پھیکی پھیکی۔ مجھے یہ بات شاق گزرتی تھی اور جانتی تھی کہ میری رکاوٹ سے وہ بھی اس قدر محتاط ہیں، مگر مصلحت کی وجہ سے خاموش تھی۔
تھانہ دار صاحب کی ان باتوں کو کوئی ایک مہنہ ہوا ہو گا کہ صبح ایک اجنبی لڑکا دوڑا ہوا آیا کہ خورشید کے ہاں دوڑ آ گئی اور سب گرفتار ہو گئے۔ رونا پیٹنا پڑ رہا ہے۔ استاد جی کون سے ہیں ، انھیں چنے خاں نےابھی بلایا ہے۔ہمارے استاد جی ہمیشہ کے ڈرپقک دوسرے ڈوم کی ذات، بھلا دوسرے کی آگ میں پڑنا یہ کیا جانیں۔ الٹیہ ان ہی لوگوں کو دس بیس سنائیں۔اور کہا میں جا کر کیا کروں گا، جو جیسا کرے گا ویسا ہی بھرے گا۔ وہ لڑکا تو چلا گیا اور مجھے گتھانہ دار صاحب کی باتیں یاد آ کر دل ڈرنے لگا۔ خورشید سے جو عداوت نواب صاحب کے چھٹانے کی وجہ سے ہو گئی تھی وہ اس وقت بالکل جاتئی رہی اور میں پھڑکنے لگی۔ کہ ہائے خورشید قید میں جائے گی۔ میں نے رو رو کر استاد جی کو جانے پر پکا کیا مگر اماں نے مجھے برا بھلا کہنا شروع کیا اور ان کو روکا کہ " نا خاں صاحب خدا جانے وہاں کیا بھاڑ بھن رہا ہے تم کیا گھر سے بڑھتی ہو۔" دو گھنٹہ کے اندر ہمیں خبر مل گئی کہ چشوری کا مال بہت سا خورشید کے مکان میں سے نکلا ہے اور سب کی مشکیں بندھ کر کوتولی گئے۔تھانہ دار صاحب چند روز تک بالکل نہ آئے اور کہلا بھیجا کہ میں ایک ضروری کام میں لگا ہوا ہوں ۔ میرے پاس کسی کو بھیجنا بھی نہیں ہے۔ چُنّے خاں ، نتھن اور خورشید کئی دن حوالات میں رہے اور پھر تینوں کا چالان ہو گیا۔

ریختہ صفحہ 125
حاکم نے چُنے خاں کو چھوڑ دیا ، مگر نتھن جو پہلے کا بھی داغی تھا دو برس کی قید کی۔ نتھن کی گھٹڑی میں سے چوری کے کپڑے نکلے تھے۔ خورشید بھی کوری نہ بچی اور ہاتھ گلا برباد کرنے اور خوب گھسٹنے کے بعد پچاس روپے جرمانہ پر خیر گزری۔ اب اس کے پاس تار نہ رہا۔ اور بڈھے چنے خاں اور وہ غریبی کی زندگی بسر کرنے لگے۔ ان کی اس پریشانی کے زمانہ میں ہمارے استاد جی نے انھیں بالکل مدد نہ دی اور مجھے ان کے اس کٹر پنے پر تعجب آتا تھا۔
خورشید کے چھٹ آنے کے دوسرے دن سے تھانہ دار صاحب پھر برابر آنے لگے اور میں نے پوچھا تو مختصراً صورت واقعہ بیان کر کے کہا کہ خورشید کو میں نے صرف تمہارے سبب بچا لیا۔ اس نے تمہارے سر کی قسم دلائی تھی۔ میں نے شکریہ ادا کیا مگر دل میں یہ بات کھٹکنے لگی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھ سےناراض ہو کر مجھ پر بھی آفت ڈال دیں۔
اس واقعہ کے بعد سےجو دل میں تھانہ دار صاحب سے ذرا ڈری ڈری رہنے لگی تھی تو مرزا صاحب کی طرف سے جی اندر ہی اندر اور بڑھنے لگا اور میں نے خط و کتابت ان سے ذرا بے تکلفی سے شروع کر دی تھی۔ میں نے ان کو القاب طرح طرح کے لکھنے شروع کر دئیے اور وہ بھی خوب خوب جواب دینے لگے۔ ایک دفعہ " مجسمِ عقل" کے القاب پر نکتہ چینی کی تو میں نے پوچھا کہ پھر آپ کو کیا لکھوں، عاشقِ دل گداز کہوں؟ اور اگر یہ بھی ناگوار ہو تو بتا دیجئیے جو آپ فرمائیں وہی لکھوں۔ بشرطیکہ آپ اس کے مشتاق ہوں۔ اس کا جواب انھوں نے ایسا پیارا لکھا کہ میں اسے بجنسہ نقل کرتی ہوں۔ " عاشق بذاتِ خود تو کوئی چیز ہی نہیں۔صرف معشوق کے جلوے سے قائم بلکہ پیدا ہے بس اگر کوئی معشوق جاں نواز ہے تو شاید مجھےبھی عاشق دلگداز کہنا بے جا نہ ہو۔ مجھ سے پوچھئیے تو صرف مرزا کافی تھا۔ بہرحال
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 126
جو آپ کا دل چاہے لکھیں۔ میں صرف اس بات کا مشتاق ہوں کہ جو کچھ آپ لکھیں دل سے لکھیں۔" میں اس تحریر پر لوٹ گئی اور خود میں نے ان کی لیاقت کی بہت تعریف کی اور نہایت بے تکلفی سے ان کے اگلے پچھلے حالات دریافت کئےاس طرح پر کہ وہ سمجھ جائیں کہ یہ مجھ سے استقلال سے ملنا چاہتی ہے اور اپنی خاطر جمع کرنے کو پوچھتی ہےبیچارے ایسے سچے اور سادے تھے کہ حرف بحرف لکھ بھیجا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ حسن و عشق کی بدولت سینکڑوں تکلیفیں اٹھائی ہیں۔اور اب پاک منشی سے بڑھ کر دنیا میں کوئی نعمت نہیں معلوم ہوتی۔ ساتھ ہی اس کے لکھا ان باتوں کے لکھنے سے بیٹھے بٹھائے آپ کے سامنے میری پردہ دری ہو گئی، اس سے پہلے میں ایک معما تھا۔ اپنے اندازہ ء فہم کے مطابق جو جس کی سمجھ میں آتا تھا میری نسبت گمان کرتا تھا۔آپ نے اصرار سے اس عقدہ کو کھولا۔ خیر اس کو تو جانے دیجئے کیونکہ کیا میں اور کیا میرا راز مگر مشکل یہ آ پڑی ہے کہ اب آپ اور کچھ ہی معلوم ہونے لگی ہیں۔ جب آپ کو میرا حال معلوم ہو گیا تو آپ سے رازداری کی باتیں کرنے کو جی چاہتا ہے۔ان میں یہ بھی شامل ہے کہ کچھ آپ کا خیال سنوں۔ نہ یہ بات آپ سے کہنے کی ہمت پڑتی ہے نہ آپ غالباً اسے منظور ہی کریں گی۔مگر سچ عرض کرتا ہوں اگر آپ مہربانی فرما کر اپنے قلب کی کیفیت، خیالات کا رُخ اور گزشتہ واقعات کا ایک شمہ بھی فرما دیں تو میرے دل کو نہایت راحت ہو اور سچا وعدہ کرتا ہوں کہ ان باتوں کو دل میں ایمان کی طرح اعزاز و اکرام اور رازداری کے ساتھ رکھوں گا۔ اس خط کا جواب میں نے بہت بڑھا چڑھا کر لکھااپنا حال بتا دینے کا بہت شکریہ تحریر کئے اور یہ چند فقرے جان کر درج کر دئیے" آپ فرماتے ہیں کیا میں اور کیا میرا راز۔ مرزا صاحب آپ وہ ہیں کہ میرا ہی جی جانتا ہےاور آپ کے پاک راز وہ ہیں کہ دل ہی ان کی خوب عزت کرتا ہے۔ کیا آپ میرا حال سننا چاہتےہیں یعنی قلب کی کیفیت خیالات کا رُخ گذشتہ

ریختہ صفحہ 127
واقعات ، جناب مجھ پر کوئی واقعہ ایسا دلچسپ یا رنج دینے والا نہیں گزرا جو قابلِ بیان ہو۔ یا ایسا پُر اثر ہو جیسا آپ کا حال مجھ پر یہ آفت محبت کبھی پڑی نہ خدا کرے پڑے۔ بس اب تو آپ نے اچھی طرح سن لیا۔ اس کے جواب میں مرزا صاحب نے طعناً لکھا کہ جی ہاں میں نے آپ کا حال سُن لیا۔ اپنی بے محل جرات پر نادم ہوں اور یہ شعر پڑھتا ہوں؎
کیا ہوا عرض مدعا کر کے
بات بھی کھوئی التجا کر کے
میں نے تین باتیں پوچھی تھیں قلب کی کیفیت ، خیالات کا رُخ، گذشتہ واقعات آپ نے اول دو باتوں کا جواب تو دیا ہی نہیں۔ البتہ گزشتہ واقعات کس خوبصورتی سے بتائے ہیں کہ مجھ پر وجد کی سی حالت طاری ہو گئی۔ جزاک اللہ سچ پوچھئیے تو واقعات سننے کا میں اس قدر مشتاق نہ تھا جس قدر قلب کی کیفیت اور خیالات کا رُخ معلوم کرنے کا ، اگر تھوڑے عرصہ اور آپ کی خدمت میں رہنے کا اتفاق ہوا ہوتا تو شاید یہ تکلیف آپ کو نہ دیتا اور قیافہ سے معلوم کرنے کی کوشش کرتا مگر اب تو خیر جو کچھ ہوا سو ہوا۔ آپ کچھ نہ بتائیے میں معافی چاہتا ہوں۔ آپ نے لکھا ہے کہ قابلِ بیان بات وہ ہوتی ہے جو پُر اثر ہو جیسے تیرا قصّہ۔ اور مجھ پر تو یہ آفت کبھی نہ پڑی نہ خدا کرے کبھی پڑے۔ آپ اطمینان رکھیں کہ اگر اب تک ایسا نہیں ہوا تو ان شاء اللہ آئیندہ بھی ایسا نہیں ہو گا۔ تعجب اس بات کا ہے کہ آپ اس قدر عقیل اور خود دار ہو کر اسے آفت سمجھتی ہیں مگر یہ تو بتائیے کہ اپنے پاس سے تو اس آفت کو اتنا دور دور رکھنا چاہتی ہیں اور پھر اوروں کی آفت کے قصّے سننے کا کیوں شوق ہے۔ اور آپ کو ان میں لطف ہی کیا آتا ہو گا۔ ستانے والا کس امید پر سنائے۔
مرزا صاحب کی اس تقریر سے میں کھٹکی کہ یہ ہتھے ہی سے اکھڑ گئے۔ مگر توڑا تھا

ریختہ صفحہ 128
تو جوڑنا کیا مشکل تھا۔ پلٹ کر جواب میں لکھا " کسی کے عاشق دل گداز ، یہ پہلے خط میں آپ نے کیا لکھا تھا کہ اگر کوئی معشوق جاں نواز ہے تو مجھے بھی عاشق دل گداز کہنا بے جا نہ ہو گا۔ میں اس کا مطلب نہیں سمجھی۔ آج یہ القاب آپ کو بے ساختہ لکھ دیا ہے۔ اب آپ جانیں ااور آپ کا معشوق جان نواز۔ اگر یہ فقرہ نا گوار گزرے تو معاف فرمائیے گا۔ بعض لوگ معافی مانگنا خلافِ شان سمجھتے ہیں مگر میری تو کوئی شان ہی نہیں۔ اس لئے پیشگی معافی چاہتی ہوں، قلب کی کیفیت اور خیالات کا رُخ میں اس وقت تک بیان نہیں کر سکتی جب تک آپ کا پورا پورا منشا نہ معلوم ہو جائے۔ دوسرے آپ کے سوالات ایسے مشکل ہیں کہ ان کا پورا پورا جواب شاید ہی بن پڑےمگر ہاں اپنے خیالات کے موافق اتنا عرض کر سکتی ہوں کہ قلب کی کیفیت وہ لوگ بیان کر سکتے ہیں جو عشقِ الٰہی ممیں ہمہ تن مشغول ہوں یا کم سے کم عشقِ مجازی کے لطف میں اپنے کو مٹا چکے ہوں، مجھ پر نہ تو یہ کیفیت گزری نہ وہ حالت۔ ابھی تو یہ سوالات میرے کرنے کے ہیں نہ آپ کے۔ آپ کے قیافہ شناس ہونے میں مطلق کوئی شک نہین اور جانتی ہوں کہ آپ ہر شخص کے مزاج ایک حال ایک ہی ملاقات میں معلوم کر لیتے ہیں مگر میرے معاملہ میں جو اتنی جستجو آپ کو کرنی پڑی اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے ایسی ٹھوس طبیعت نہ دیکھی ہو گی۔ ہائے اگر کوئی رنگ یا مذاق ہوتا تو آپ کب کے پہچان گئے ہوتے۔ یہ آپ کا فرمانا بے شک درست ہے کہ تُو تو اس آفت کو دور دور رکھنا چاہتی ہے اور اس قدر ڈر معلوم ہوتا ہے کہ خدا نہ کرے جو یہ آفت پڑے۔ پھر ایسے قصوں میں کیا لطف آتا ہو گا۔ یہ سچ ہے مگر قصوں کا شوق مجھے یوں ہو گیا ہے کہ ان کے پڑھنے سے دل پر چوٹ لگتی ہے۔ اور ایسی کیفیت آتی ہے جیسے کوئی بات خود اپنے اوپر گزری ہو۔ اسی سے جو جی چاہے سمجھ لیجئیے۔ تیسرے ہی دن نہایت بہار دار کاغذ پر لکھا ہوا مرزا صاحب کا یہ خط آیا۔

ریختہ صفحہ 129
کسی خوش نصیب کی محبوب جاں نواز ، بہت دل کڑا کر کے یہ القاب آپ کو لکھا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ برا مان جائیں اور مجھے معافی بھی مانگنی پڑے۔ میری رائے میں معافی مانگنا اس وقت تک ٹھیک ہوتا ہے جب تک ظاہرداری قائم رہے۔ اور جب ظاہر اور باطن یکساں ہیں تو معافی مانگنا بیسود۔ آپ لکھتی ہیں کہ میری تو کوئی شان ہی نہیں۔ آپ اور یہ بات فرمائیں خدا کی شان۔ اپنی شان ان لوگوں کو معلوم ہوتی ہے جو خود پرست ہوتے ہیں۔ خدا پرستوں کی شان اوروں کو معلوم ہوتی ہے۔ کبھی مجھ سے پوچھئیے گا۔ اب میں آپ کو اپنا منشا بتاؤں کہ آپ کے حالات کیوں پوچھتا ہوں۔ جو کچھ میرا منشا ہے وہ دل میں ہے۔ اور دل کی بات دل ہی سنے تو اچھا ہوتا ہے۔ تحریر میں اول تو آ ہی نہیں سکتی، اگر میں نے کچھ لکھا بھی اور آپ نے پھر بھی نہ بتایا تو رنج ہو گا۔ اس سے یہی بہتر ہے کہ یہ ذکر یہیں ختم کر دیا جائے۔ اس قیافہ شناسی ہی کا تو رونا ہے جو جو خیالات اپ کی نسبت قائم کئے تھے ان کی صحت درکار تھی اور اسی لئے آپ سے مجملاً پوچھا مگر آپ تو ہاتھ ہی نہیں رکھنے دیتیں۔ ٹھوس طبیعت کے فقرے نے بڑا مزہ دیا۔ خوب لکھا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ بہت دور ہیں۔ اور ہونا بھی ایسا ہی چاہئیے۔ قصے سن کر دل پر چوٹ اسی کے لگتی ہے جس پر خود گزری ہو۔ آپ کچھ بتائیں یا نہ بتائیں اتنا تو معلوم ہو ہی گیا؎
جادو وہ جو سر پر چڑھ کر بولے
جاں نواز محبوب کے مشتاق صاحب، آپ نے وہ القاب مجھے کیوں لکھا، میں تو اس قابل نہیں ہوں۔ جو اس قابل ہو، اسے لکھئیے۔مگر اپ فرمائیں گے کہ تجھ کو اس قابل سمجھا تو لکھا۔ بے شک اس سوال کا جواب مشکل ہے مگر چونکہ میں اپنے میں وہ صفت نہیں پاتی اس لئے سوائے شکریہ کے اور

ریختہ صفحہ 130
کیا کہہ سکتی ہوں۔ میں "خدا پرست" ہوں ہاں کچھ ہوں تو سہی۔ خیر یہ بھی خدا کا شکر ہے کہ میں بت پرستوں میں شمار نہیں کی گئی ۔ اچھا تو وہ شان جو آپ سمجھے بیٹھے ہیں، اسے دل میں رہنے دیجئیے۔ توبہ توبہ میں نے یہ کیا کہہ دیا۔ ایک دل میں دو شانیں کیونکر رہ سکتی ہیں۔ اچھا تو بتا ہی دیجئیے۔ آپ کہتے ہیں کہ اگر میں نے کچھ پوچھا بھی اور تُو نے نہ بتایا تو مجھے رنج ہو گا۔ کیا میں آپ کو رنجیدہ کرنا چاہتی ہوں۔ آپ کچھ لکھیں تو سہی۔ میں سچا وعدہ کرتی ہوں۔بتا دوں گی بتا دوں گی، اب بھی اعتبار آیا یا نہیں / کیا میں بڑی دور ہوں۔ نہیں بخدا آپ سے بہت صاف دل سے ملتی ہوں۔ خواہ آپ اعتبار کریں نہ کریں۔
اس خط کا جواب میں جیسا چاہتی تھی ویسا ہی آیا اور اس کا خلاصہ یہ ہے " انیس مشتاقان تسلیم۔ آداب ، القاب کے معاملہ میں تو ہمیشہ سے محتاط تھا مگر اس مرتبہ معلوم نہیں کیا ہو گیاتھا اب پھر ذرا سنبھل کر لکھا ہے۔ دیکھئے یہ بھی پسند آتا ہے یا نہیں۔ اور اگر جو القاب سچ مچ میرا دل لکھنے کو چاہتا ہے وہ لکھ دوں تو ضرور لڑائی ہو جائے۔ سکار پھر آپ نے مجھ سے چھیڑ چھاڑ شروع کی۔ دیکھئیے مان جائیے۔
فقیروں سے اچھی نہیں دل لگی
ایک جگہ بت پرستی کا اشارہ کیا ہے، پھر لکھا ہے کہ دل میں دو شانیں کیسے رہ سکتی ہیں۔ اب میں ان باتوں کا جواب لکھوں تو مشکل، نہ لکھوں تو مشکل۔ آپ کو ایک دل میں دو شانوں کا یقین نہیں آتا، ہم نے اس سے بھی زیادہ شانیں دیکھی ہیں۔ بلکہ نشانیاں دیکھی ہیں۔ ( یہ اشارہ میری لڑکی کی طرف تھا) اپنا راز بتانے کا جو وعدہ آپ نے فرمایا ہے اس کا شکریہ دل سے عرض کرتا ہوں
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 131( کتاب صفحہ129)
آپ نے لکھا ہے بتا دوں گی، بتا دوں گی۔ اس تکرار نے مجھے بڑا مزا دیا۔ اچھا آپ دور نہیں ہیں، مجھ سے غلطی ہوئی۔ مگر یہ تو بتا دیجئے کس قدر پاس ہیں۔ آپ نے لکھا ہے بخدا میں آپ سے صاف طور سے ملتی ہوں، میرا دل آپ کی اس عنایت کا اس قدر شکر گزار ہے کہ میرا قلم اپنے رتبہ سے بڑھ کر خصوصیت کے الفاظ اس کے جواب میں آپ کو لکھنا چاہتا ہے، گو دل کو مسوس کر قدم حد سے آگے نہیں نکلتا۔
اب میں اپ کو آپ کی شان بتا دوں۔ مجھے اس سے تو بحث ہی نلہیں کہ لوگ آپ کو کیا سمجھتے ہیں، وہی بتاؤں جو میرے دل میں ہے۔ بات یہ ہے کہ ظاہر بینی تو اللہ نے مجھ سے بہت کچھ چھٹا دی ہے، اسی سبب سے مجھے آپ کا ظاہری خیال نہیں رہا۔ آپ کا باطن اس کی نسبت میرا خیال ہے کہ آپ میں لطافت طبع اور جوہر محبت کے علاوہ راست بازی اور پاک منشی کا اعلٰی مادہ ہے اور مذاق تصّوف بھی بڑی رنگینی کا ہے۔ خدا آپ کی ان صفات کو تکمیل کا موقع دے اور مجھے بھی فیضیاب کرے، آپ کی کیفیت قلب کی نسبت میرا خیال ہے کہ ڈاکٹر کی محبت اب بھی آپ کے دل میں ہے، مگر اپنے استقلال کی وجہ سے اس کا اظہار نہیں کرتیں، اگر آپ یہ بتا دیں کہ میرا خیال کہاں تک صحیح ہے تو بڑی مہربانی ہو۔ ساتھ ہی اگر یہ بھی معلوم ہو جائے کہ آپ آیندہ کی نسبت کیا سوچتی ہیں تو مجھے اس بات کے بیان کرنے کی جراءت ہو کہ آیندہ حالت کی نسبت میرا جی کیا چاہتا ہے۔
مجھے اس خط کی بے انتہا خوشی ہوئی تھی اور اسی دن نہایت معقول جواب لکھتی، مگر دفعتاًچُنے خاں کے روتے پیٹتے آنے اور یہ جگر خراش خبر سنانے کہ دن دیہاڑے کوئی آدمی خورشید کی ناک کاٹ کر لے گیا۔ اور وہ بےہوش پڑی ہے۔ میں کوتوالی جاتا ہوں۔ مجھے سخت پریشان کر دیا، لرز گئی اور اماں کے ہاتھ پاؤں جوڑ کر مع استاد جی کے انھیں وہاں روانہ کیا۔

ریختہ صفحہ 136 (کتاب صفحہ 130)
انجام
اماں اور استاد جی جب خورشید کے ہاں روانہ ہوئے تو کوئی آٹھ بجے صبح کا وقت تھا۔ دوپہر تک میں نے بیقراری سے اماں اور استاد جی کا انتظار کیا ، کہ اب کوئی آتا ہو گا اور خورشید کا حال بتائے گا۔ مگر ان کا کہیں پتہ نہ تھا۔ جو لڑکا میری لڑکی پر نوکر تھا، اسے بھیجا تو وہ بھی الٹا چلا آیا۔کہ نہ اسپتال میں کسی کو جانے دیتے ہیں۔ اور نہ گھر، گھر پر پولیس والے بیٹھے ہیں۔ آج دن بھر کیسا کھانا ، کیسا پینا۔ اماں اور استاد جی کے نہ آنے سے اور انتشار تھا مگر بے بس تھی کیا کرتی۔
بارے دونوں وقت ملتے اور یہ لخ لخ کرتے ہوئے آئے اور اماں نے گھر میں قدم رکھتے ہی مجھے بیسیوں باتیں سنائیں ، تو ورغلان کر ہمیں بھیجتی نہ ہم پر یہ مصیبت آتی۔ میں خاموشی سے سنتی رہی اور جب وہ کچھ کھا کر اور زردہ منہ میں ڈال کر اوسانوں میں آئیں تو دن بھر کی کیفیت اس طرح بیان کی۔
تھوڑے دنوں سے میر صاحب پھر دہلی میں موجود ہیں اور برابر خورشید کے ہاں آتے جاتے تھے بلکہ اس کا خرچ بھی وہی اٹھاتے تھے۔ رات کو وہ وہیں موجود تھے۔مگر کوئی دس گیارہ بجے کسی بات پر لڑ کر چلے گئے۔ یہ چنے خان کا بیان ہے کیونکہ خورشید تو اب تک بولی ہی نہیں۔ صبح کو آٹھ نو بجے کے قریب ایک لڑکا آیا کہ چنے خاں کو میر صاحب نے بلایا ہے۔ وہ اس کے ساتھ ہو لئے۔ لڑکا آگے چل کر غائب ہو گیا۔ اور چنے خاں کو یہی کرتے بن پڑی کہ میر صاحب کے مکان پر گئے، انھوں نے صاف جواب دیا کہ میں نے نہیں بلایا۔ یہ گھر لوٹے تو دروازے میں ایک کالا بھجنگ

ریختہ صفحہ 135 (کتاب صفحہ 131)
ہیبت ناک آدمی نکلتا ہوا ملا۔ اس کی آنکھوں سے خون ٹپکتا تھا۔ چنے خاں رعب میں آ گئے اور کچھ نہ پوچھ سکے۔ وہ شخص باہر نکلتے ہی یہ جا وہ جا۔ چنے خاں نے جو اندر آ کر دیکھا تو خورشید ندارد۔ دالان میں اس کی جوتیاں اتری ہوئی ہیں۔ پاندان کھلا ہوا موجود مگر اس کا پتہ نہیں۔ دالان کے پہلو میں کوٹھڑی تھی۔ اس کے کواڑ کچھ بند کچھ کھلے ، دروازے کے آگے فرش سمٹا ہوا۔ اور میلے کچیلے جوتیوں کے نشان۔ چنے خاں نے آواز دی خورشید خورشید مگر وہ نہ بولی۔ یہ کوٹھڑی کے پاس آئے، کواڑ کھولے تو دیکھا ناک کٹی ہوئی بے ہوش پڑی ہے۔ اور لہو کا تھانولہ بندھا ہوا ہے۔ بیچارے نے سر پیٹ لیا، پاس پڑوسی جمع ہو گئے۔ اس بد حواسی میں وہ آن کر ہمیں لے گیا۔ اتنے میں پولیس آ گئی اور خورشید کو ڈولی میں ڈال کر اسپتال لے گئی۔ وہاں بڑا ڈاکٹر آیا اور پولیس کا کپتان۔ ہم سب لوگ دوپہر تک وہیں رہے پھر گھر آئے۔ تو کوتوال صاحب خود آ گئے تھے، انھوں نے لکھت پڑہت شروع کی۔
کوتوال صاحب: چنے خاں تمہارے ہاں کون کون آتا ہے؟
چنے خان: (کانپ کانپ کر) حضور وہ تو بڑے بھلے مانس آدمی ہیں، ان پر توکسی طرح میرا شبہ نہیں ہے۔
کوتوال صاحب : ( ڈانٹ کر) دیکھو جی جو ہم پوچھتے ہیں وہ بتاؤ۔ کیا نام ہے کہاں رہتے ہیں۔ اور تم نے اس معاملہ میں کیا کیا دیکھا۔
چنے خاں: حضور میر صاحب تو رات کو لڑ کر چلے گئے تھے، صبح کو۔۔۔۔
کوتوال صاحب: (اور غصہ سے) ابے حرامزادے نام بتا اور پتہ۔
چنے خاں: حضور سید علی، تیبر خاں کی محجت( مسجد تہور خاں) رہتے ہیں۔
کوتوال نے فوراً سپاہی ان کے پاس دوڑایا اور کہا، ابھی انھیں لاؤ۔ اور پھر چنے خاں سے پوچھا کہ صبح کو کیا ہوا۔ چنے خاں نے کانپ کانپ کر لڑکے کا بلانے

ریختہ صفحہ 132 (کتاب صفحہ 132)
آنا، میر صاحب کے مکان پر جانا، پھر آ کر دروازہ میں اس کالے دیو سے ملنا کوٹھڑی مین خورشید کو اس کے حال میں پڑا ہوا سب بیان کیا۔
پھر کوتوال صاحب نے برسوں پہلے کے پرانے قصے پوچھنے شروع کئے، کس کس سے ملاقات رہی کب چھوٹی۔ کیا کیا معاملہ پیش ہوا۔ اور بیسیوں ادھر اُدھر کی باتیں پوچھنی شروع کیں۔ اور چُنے خاں کو بھی جو جو کچھ معلوم تھا سب بیان کیا۔ اس میں مکیر صاحب کی ابتدا تھانے دار کا تعلق نواب سے ملاقات اس کے سبب سے تھانہ دار سے بگاڑ، تھانہ دار کا چلتے وقت کہنا کہ ان شاءاللہ سمجھوں گا۔ تھوڑے ہی دن ہوئےنواب صاحب کا بلا سبب آنا جانا چھوڑ دینا، چوری کا مال نکلنا، نتھن کو قید خورشید پر جرمانہ اب کوئی بیس دن سے میر صاحب کا آنا ایک ایک کر کے سب بتایا، اور کوتوال صاحب نے رتی رتی لکھا، پھر بڑی دیر تک سوچتے رہے۔
اول اول معلوم ہوتا تھا کہ کوتوال صاحب بڑی فکر میں ہیں۔ مگر کوئی گھڑی بھر سوچ ساچ کر انھوں نھے ذرا گردن ہلائی اور مسکرائے۔ جس سے معلوم ہوتا تھا کہ انھیں اطمینان ہے کہ مجرم کا پتہ لگ جائے گا۔
میر صاحب آئے تو بیچارے ادھ موئے اور خوف سے کانپتے ہوئے۔ مگر کوتوال نے انھیں عزت سے بٹھایا۔ اور کہا میں نے قیاس سے اس واقعہ کی اسلیت دریافت کر لی ہے۔ اگر آپ سرے سے آخر تک یعنی جب سے آپ کی آمدورفت شروع ہوئیہے، ٹھیک ٹھیک بتا دیں تو مجھے بڑی مدد ملے گی، ورنہ جیہ آپ جانتے ہی ہیں کہ آپ کی آج کل آمدورفت ثابت ہی ہے۔ بہت کچھ الزام آپ پر آ سکتا ہے۔
میر صاحب نے حرف بحرف جو معلوم تھا سُنا دیا۔ اور ان کے چنے خاں کے بیان میں ذرا فرق نہ نکلا۔ میر صاحب نے اتنا اور کہا کہ جب میں کوئی گیارہ ساڑھے گیارہ بجے یہاں سے اپنے گھر جاتا ہوں تو قاضی کے حوض کے قریب تھانہ دار

ریختہ صفحہ 137 (کتاب صفحہ 133)
صاحب ملے۔ ان کے ساتھ پولیس کے دو تین آدمی اور تھے۔ میں کترا کر چلا جاتا مگر انہوں نے پہچان لیا، اور کہا کہ کیوں میر صاحب یہ مسلمانی اور آنا کانی، پھر پوچھا کب سے آئے ہو، خورشید کا کیا حال ہے۔ میں نے کہا کہ مقدمہ کا ایر پھیر اب تک نہیں نکلا۔ بہت تکلیف میں ہے۔ اس پر تھانہ دار صاحب نے غرور سے چبا چبا کر افسوس ظاہر کیا اور کہا کہ اصل میں اب تک اس کا بگڑا ہی کیا ہے۔ یہ کہہ کر وہ بھی آگے بڑھ گئے اور میں اپنے گھر چلا آیا۔
اس کے بعد کوتوال صاحب نے میر صاحب کو الگ لے جا کر کچھ کہا، پھر کرایہ کی گاڑٰ منگائی اور میر صاحب، وہ اور چنے خاں اس میں بیٹھ کر کپتان کے بنگلہ کو روانہ ہوئے۔ان کے جانے کے بعد ہم لوگ ادھر چلے آئے۔
اماں اپنی لاچاری کی وجہ سے دن بھر ڈولی ہی میں پھرتی رہیں۔ مگر پھر بھی ایسی تھک گئی تھیں کہ شام ہی سے پڑ رہیں۔ اور ادھر استاد جی سویرے ہی ایسے گھوڑے بیچ کر سوئے کہ کروٹ تک نہ لی۔ تھانہ دار صاحب آئے نہیں۔ اب رات بھر میں تھی اور یہ اکیل۔ آنکھوں میں نیل کی سلائیاں پھر گئی تھیں۔ خورشید کی ناک کٹنے کا ہول ایسا دل پر بیٹھ گیا تھا کہ ذرا کھٹکا ہوا اور مجھے یہ معلوم ہوا کہ کوئی آدمی میری ناک کاٹنے آیا۔ آج رات بھر میں نے بیسیوں مرتبہ سے سوچا کہ رنڈی پنے کی زندگی میں کیا کیا خطرے ہیں۔ اگر ایک یہ نفع پایا کہ جوانی اور خوبصورت کے دنوں میں لوگ آنکھوں پر رکھتے ہیں اور طرح طرح کی خاطر کرتے ہیں تو یہ نقصان بھی معلوم ہوا کہ بڑھاپے میں اماں کا سا حال ہو جانا کچھ دور نہیں۔ بڑھاپا تو دور رہا، خورشید پر نوجوانی میں ہی یہ مصیبت آ گئی۔ کوٹھے پر سے گر کر نذیر کی جوان جان کا جانا، آبادی کا عین اٹھتی جوانی میں بیمار ہو کر برسوں مکّھیاں بھنک بھنک کر مرنا، چندا کا پیٹ گرانے کے جرم میں قید ہونا، لالن کا جواریوں سے ملنے کے سبب کچہری میں گھسٹنا

ریختہ صفحہ134
اور بے آبرو ہونا۔ یہ سب باتیں مجھے ایسی ڈراؤنی معلوم ہوئیں کہ میرا دل لرزنے لگا اور یہ سمجھ میں آیا کہ اب بھی کوئی موقعہ ایسا ہو جائے کہ کسی کے گھر میں بیٹھ جاؤں تو بہت ہی اچھا ہو۔ معاً مرزا صاحب کا خیال آیا اور یہ کہ ان کے خط کا جواب دے دینا چاہئیے۔ دل میں ٹھانی کہ مرزا صاحب سے اب حجاب نہ رکھنا چاہئیے اور انبھیں ڈوری پر اچھی طرح لگا لینا چاہئیے۔ فوراً اٹھ کر قلم دوات لائی اور سووے سنسار جاگے پروردگار کے سناٹے میں یہ خط انھیں لکھا۔
کسی کے مرزا صاحب، آپ کا لکھا ہوا القاب اور پسند نہ آئے کہیں یہ ممکن ہے۔ میں سچے دل سے کہتی ہوں کہ مجھے آپ کی تحریر نہایت پسند آتی ہے۔ جو القاب لکھنے کو جی چاہتا ہے، ، وہ شوق سے لکھئیے۔ لڑائی کی بھی ایک ہی کہی۔ میں تو سر آنکھوں پر رکھوں گی۔ اجی حضور میں نے آپ سے کیا چھیڑ چھاڑ شروع کی۔ وہ بتائیے تو سہی، معلوم تو ہو ، وہ بہتان ہے یا سچ۔ مگر میں تو جہاں تک خیال کرتی ہوں کوئی بات ایسی نہیں کی جو چھیڑ چھاڑ سمجھی جائے۔ اچھا تو اب معاف کر دیجئے ، پھر ایسا قصور نہ ہو گا۔اور اگر چھیڑ چھاڑ ہی مان لیجئے تو آپ نے کون سی کسر چھوڑی۔ آپ تو نشانی تک بتانے لگے۔ اب میں آپ کو بتا دوں کہ دو شانیں میں نے کیوں لکھی تھیں ، اور اب کے القاب میں کسی کے مرزا صاحب کیوں لکھا ہے۔ میں صاف عرض کئے دیتی ہوں کہ ان دونوں سے اشارہ میرا ڈپٹی صاحب کی بائی جی کی طرف ہے۔ میرا گمان اب تک یہ ہے کہ آپ کو بائی جی سے دلی مگر پوشیدہ انس ہے۔ اپنی متانت کے سبب سے ظاہر نہیں کرتے ۔ اگر آپ اس معاملہ میں میرا شبہ رفع کر دیں تو بڑا احسان ہو۔ کیونکہ اب مجھے آپ سے محبت ( ان آخر کے لفظوں کو یعنی "کیونکہ اب مجھے آپ سے محبت" میں نےکاٹ دیا، مگر اس طرح سے کہ روشنی کے سامنے پڑیں تو اچھی طرح پڑھ لیا جائے) اور آپ مجھ سے یہ پوچھتے ہیں کہ کس قدر پاس ہوں۔ اپنے دل سے پوچھئیے، میں کیا عرض کروں۔یہ

ریختہ صفحہ 133(کتاب صفحہ 135)
آپ کی قدردانی ہے کہ لفظ بتا دوں گی کی تکرار کو اچھا سمجھ لیا۔اور اس قدر تعریف کی۔
اچھا تو آؤ ادھر بیٹھ جاؤ، میں عرض کرتی ہوں۔ بندہ نواز مجھ کو جیسی نواب سے محبت تھی اور ہوئی ایسی آج تک کسی سے نہیں ہوئی ،مگر بعد تعلق قطع ہونے کے کچھ ایسے رنج اور صدمے ہوئے کہ جی چھوٹ گیا اور دل سے کہا کہ اب بھی دیکھ اگر تو نے عقل کے خلاف کیا تو اچھا نہ ہو گا۔ اللہ کا شکر ہے کہ یہ اب تک بہت کچھ میرے کہنے میں ہے۔ آیندہ حال خدا کو معلوم ہے۔ ڈاکٹر سے مجھے محبت تھی نہ ہے۔ اور نہ کسی اور سے ہوئی۔ آیندہ کے لئے میں اپنا منشا بتانا نہیں چاہتی تھیمگر آپ کے سوال نے سخت مجبور کر دیا ہے۔ خود کردہ را علا جے نیست، میں خود اقرار کر چکی ہوں کہ بتا دوں گی۔ افسوس مجھےیہ راز نہایت ہی پوشیدہ رکھنا منظور تھا، اور رہا مگر اب ظاہر ہوتا ہے کسی کے مجبور کرنے سے ، خیر اس کو دل سے سننا اور دل ہی میں رکھنا، جی تو اب چاہتا ہے کہ کوئی ایسی صورت ہو جائے کہ آپ اس کے پوچھنے سے درگزر کریں۔ مگر یہ ممکن نہیں معلوم ہوتا۔ خیر سنئے ، میرا ارادہ جس قدر جلد ہو سکے گا گوشہ نشینی کا ہے۔ اور آپ فرمائیے، وہ کیا کہنے کو جی چاہتا ہے، وہ بھی کہہ لیجئیے، والسلام
اس خط کو لکھ کر میری خاطر جمع سی ہو گئی کہ ان شاءاللہ مرزا صاحب بالکل میرے قابو ہو جائیں گے۔ اٹھی تو نصیبن کی سالگرہ کا دن تھا۔ تھوڑی بہت سٹر پٹر کرنی ضرور تھی، اس پاس کی پانچ چھ عورتوں کو بلا لیا اور شگون کر دیا۔ جب ہم سب لوگ جمع ہوئے تو خورشید کی مصیبت کا ذکر نکلا۔
حمیدن: دیکھو! بوا ننھی! بیچاری خورشید کیسی ناگہانی آفت میں آ گئی۔
میں: ہم سب اسی دن سے پریشان ہیں۔ اب اللہ جلدی سے اسے اچھا کر دے۔
منگو جان: نگوڑی اچھی بھی ہوئی تو کس کام کی۔ اس کی تو جوانی برباد ہو گئی۔کوئی کوڑی کو بھی نہ پوچھے گا۔


ریختہ صفحہ 131 تا 137 میں کتاب کے حساب سے فرق ہے۔ کہانی کا سلسلہ صفحات کے آگے پیچھے ہونے کی وجہ سے درست نہیں تھا، )
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 138
مسیتی جان: اس سے تو کمبخت کسی سے نکاح کر لیتی تو یہ مصیبت پیش نہ اتی۔
الٰہی جان: (مڑک کر کیونکہ وہ نکاح کر چکی تھیں اور کئی برس تک رہ کر نکلی) بنو ابھی تمہارے گالوں میں چاول ہیں، نکاح کرو تو جانو، یہاں تو ناک ہی پر خیر گزری۔ مگر وہاں تو جان کلے لیوا پیدا ہو جاتے ہیں۔
مسیتی جان: بوا الٰہی جان میں بھول گئی۔ ہاں دیکھو تم نہ نکل آتیں تو جان جانے میں کسر ہی کیا رکھی تھی۔
الٰہی جان: ان کی بیاہتا بیوی نے مجھے زہر دے ہی دیا تھا۔ وہ تو اللہ نے خیر کر دی ورنہ گھر کا گھر دشمن ہو گیا تھا۔
میں: خبر نہیں یہ مردوے رنڈیوں کو گھر میں کیوں ڈال لیتے ہیں۔
الٰہی جان: اے ان کا بگڑتا ہی کیا ہے۔ صرف روٹی کپڑے پر گھر بیٹھے معشوق ہاتھ لگتا ہے۔بھلا یہ بات پوچھتیں کہ رنڈیوں پر کیا بری بنتی ہے کہ گھر میں پڑ جاتی ہیں۔
منگو: اچھا تم نے یہ بھی دیکھا ہے، وہ بھی برتا ہے۔ تم ہی بتاؤ۔
الٰہی جان: بات یہ ہے کہ ایسی پھلاسے بھری رنڈیوں کو جو بڑوں کے کہنے میں نہیں ہوتیں، تماش بین بڑا آسان شکار سمجھتے ہیں۔ یہ چٹک مٹک، پہننا، اوڑھنا، ہنسی مذاق، گانا ناچنا، گھر کی بیٹھنے والیوں میں تو ہوتا نہیں۔ وہ ٹہرے اول ہی سے بگڑے ہوئے، بیویوں سے سرے ہی سے نفرت ہوتی ہے۔ اسی تلاش میں رہتے ہیں کہ کوئی سجل مال بن داموں مل جائے تو دوزخ جنت کی تڑی دے کر اسے انٹی کر لیں، پہلے پہلے ہزاروں قسمیں دے کر یقین دلاتے ہیں کہ ہم عمر بھر تجھے نہیں چھوڑنے کے۔ نکاح کر لے تو دونوں گناہ سے بچ جائیں۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس پیشہ کا انجام بوڑھے بڑھاپے میں نائکہ بننا پڑتا ہے۔کوئی منہ نہیں لگاتا، رنڈی دم میں آ جاتی ہے۔

ریختہ صفحہ 139
کچھ تو وہاں کے عذاب کا ڈر، کچھ یہ شیخی کہ ہم نیک ہوکر رنڈیوں سے کچھ اونچے ہو جائیں گے۔ بڑوں سے بے کہے سنے یا ان سے بگاڑ کر گھر میں جا بیٹھتی ہیں۔
میں: (بیچ میں بول کر) اچھی بوا الٰہی جان! یہ تو سچ ہے کہ اس پیشہ میں بڑھاپا برا ہوتا ہے۔
الٰہی جان: بنو پوری بات سنو تو معلوم ہو کہ گھر میں پڑ جانے کی مصیبت سے اس پیشہ کا بڑھاپا ہزار درجہ بہتر ہے۔
مسیتی جان: ہاں بوا تم کہو، ننھی جان کو تو یونہی بات کاٹنے کا شوق ہے۔
الٰہی جان: اب جیسے رنڈی نے نکاح کرلیا اور گھر میں بیٹھ گئی تو پھر وہی حضرت جو ہر بات کی تعریف کرتے تھے، کھلے ڈھکے پر لوٹ پوٹ جاتے تھے۔ تنگ چست کپڑے اور ہر وقت بنے ٹھنے رہنے کو سر انکھوں پر رکھتے تھےانھیں یہ تورا لگ جاتا ہے کہ کہتے ہیں کہ بہو بیٹیوں کی طرح مٹی بن جاؤ، نہیں تو کنبے والے نام دھریں گے۔ رنڈی بھی لاج میں آ جاتی ہے، بہتیرا چاہتی ہے کہ اپنی عادتیں بدلوں مگر بچپن سے جو کوٹھے پر بیٹھنے سے دیدہ پھٹ جاتا ہے، اور ہر بات میں چٹاخ پٹاخ آ جاتی ہے وہ بھلا بڑے پن میں کہاں چھٹتی ہے۔ بہو بیٹیوں کو دیکھتی ہے کہ نمازیں پڑھتی ہیں، روزے رکھتی ہیں، مصیبت پڑے تو موٹا جھوٹا پھٹا پرانا سب کچھ پہن لیتی ہیں۔روکھی سوکھی جو نصیب ہو ، ہزار ہزار شکر کر کے صبر سے کھا لیتی ہیں، مردوں کے بیسیوں کے نخرے اور بد مزاجیاں سہتی ہیں، بچے پالتی ہیں، غیر مرد کو آنکھ بھر کر نہیں دیکھتیں، زبان کا چٹخارہ نام کو نہیں ہوتا، بھلا تم ہی بتاؤ کہ رنڈی سو سر کی بھی ہو جائے تو کہیں ایسی بن سکتی ہے۔ تعجب تو مجھے اس بات کا آتا ہے کہ نہ تو اُن گھر میں ڈالنے والوں کو اتنی عقل ہوتی ہے کہ گھر کی بیٹھنے والیوں اور رنڈیوں میں ہر بات میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ یہ کیونکر ان جیسی بن جائیں گی۔ اور نہ ان بی صاحبہ ہی

ریختہ صفحہ 140
کو اتنی سمجھ ہوتی ہے کہ کوٹھا چھٹوا کر جو یہ گھر میں ڈالتے ہیں تو اگر یہ پھر ویسی ہی باتیں کرنے لگیں جیسی تماش بین کرتے ہیں تو انھیں گھر میں ڈالنے کا فائدہ ہی کیا ہوا۔
منگو: الٰہی جان تم سچ کہتی ہو۔ تمہاری ایک ایک بات گرہ میں باندھنے کے قابل ہے۔
الٰہی جان: مجھ پر تو سب کچھ گزرا ہے۔ صرف یہی نہیں جیسے ضرورت کے وقت وہ نیک بختیں اپنا ہاتھ گلا اتار دیتی ہیں ، وہ حضرت چاہتے ہیں کہ رنڈی بھی اسی طرح تار تار سامنے رکھ دے۔بھلا اس سے یہ کیونکر ہو سکتا ہے۔ بیوی کی تو یہ بات ہے کہ کہ ماں باپ کا دیا ہوا ہے، یا میاں کی کمائی کا۔ مگر یہاں تو کس کس جتن اور مصیبت سے پیدا ہوتا ہے۔ ایک ایک چیز دل پر لکھی ہوئی ہوتی ہے کہ کس کس چال سے بنوائی ہے۔ اور کیسا کیسا کسالا جھیلا ہے۔ بھلا رنڈی کیونکر صبر سے اپنی چیز دے دے۔ ان باتوں پر لڑائیاں ہوتی ہیں۔ بات بات پر یہ طعنہ ملتا ہے کہ تماش بین یاد آتے ہوں گے، دونوں کا مزہ ابھی نہیں چھوٹا۔ اور ہزاروں حرافات سننی پڑتی ہیں۔ جب میں نے نکاح کیا تھا تو ان کی تنخوا سو روپیہ تھی، خدا کی قدرت برس ڈیڑھ برس میں پچاس اور پچاس سے تیس رہ گئے۔ ان کے گھر والوں کے دن رات مجھ پر طعن و تشنیع تھے کہ ایسی نحس قدم آئی ہے کہ گھر کا گھر وا ہو گیا ہے۔ بیاہ شادیوں میں مجھ پر انگلیاں اٹھتی ہیں، میں پھر بھی اپنی لاج کو دب کر رہی کہ کہیں وہی مثل سچ نہ ہو کہ چیچک اور کسبی بے نکلے نہیں رہتی۔ جب ان میں ماما نوکر رکھنے کا مقدور نہ رہا ، تو گھر کے سب دھندے بھی عورتوں ہی کو کرنے پڑے۔ میں بہتیرا چاہتی تھی کہ ان کی بیاہتا بیوی کی طرح پتّا مار کر میں بھی برابر کا کام کاج کروں مگر یہاں عادت یہ تھی کہ مرد نوکر پاؤں دباتا تھا، پاخانہ میں لوٹا کوئی اور دھرتا تھا۔ ہزاروں نخروں سے لاکھوں عیب نکال کر کھانا کھایا جاتا تھا۔ بات بات پر ملنے والے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 141
مٹھائیاں اور سودے منگا دینے کو موجود ہوتے تھے، بھلا گھر کی وہ مصیبت کہاں اٹھ سکتی تھی، یہ بات انھیں بھی ناگوار گزری، دوسرے ان کی بیوی نے صاف کہہ دیا، کہ مجھ سے یہ نہیں ہو گا کہ ان کو پکی پکائی کھلاؤں ۔ ان بن رہنے لگی، میں نے نکلنے کی تدبیریں سوچیں، انھوں نے بندش کی ، اس پر مجھے غصہ آیا اور میں نے دل میں ٹھانی کہ اب تک تو صرف یہ تھا کہ خود نکل جاؤں گی مگر اب ان کے ہاں سے بھی ایک پرزا اڑا کر لے جاؤں گی۔ اور سچ بھی تھا کیونکہ تیس سے اوپر کی تو میں خود وہیں ہو گئی تھی، بڑھاپے کا بھی فکر کرتی، ان کے ایک کنبہ کی لڑکی کو جس کے ماں باپ مر گئے تھے، اور ہمارے ہاں رہتی تھی۔ ڈور پر لگانا شروع کیا۔ اور نیم راضی کر لیا۔لونڈیا کا صرف میری باتوں ہی باتوں میں دیدہ ہوائی ہونا شروع ہو گیا۔ مگر یہ سب پر کُھل گیا، ڈانٹا تو سب کچھ قبول دی۔ اس پر سارے گھر والے میرے دشمن ہو گئے۔اور زہر دلوا دیا۔ وہ تو اللہ کو جان بچانی تھی کہ یہ سوجھی کہ جب قے ہوئی تو میں نے کہا کہ میری اماں کو بلاؤ نہیں تو میں تھانہ میں جاتی ہوں۔ بڑی مشکل سے اماں کو بلا کر دیا، وہ گھر لائیں اور میری جان بچی۔
ان باتوں کو سن کر میرا دل نکاح سے اکھڑ گیا اور میں نے افسوس کرنا شروع کیا کہ ناحق میں نے مرزا صاحب کو وہ خط لکھا۔ جب مہمان وداع ہو گئے تو میں نے پھر فرصت میں اچھی طرح سوچا اور نتیجہ نکالا کہ اگر مجھے نکاح کرنا ہے تو ان باتوں کو دل پر لکھ لوں،
ایک تو یہ کہ مرزا صاحب کی تعریفیں اور خوشامد کی باتیں بدل جائیں گی اور ہر طرح کی بدمزاجی سہنا پڑے گی ، دوسرے جو کچھ مال متاع ہے وہ بالکل میرا نہیں رہنے کا۔ تیسرے اگر سر پر آن پڑی تو کھانے پینے، اوڑھنے پہننے کی

ریختہ صفحہ 142
سب تکلیف اٹھانی پڑے گی۔
میرے دل نے کہا کہ کہ نکاح کرنے کے یہ معنی ہیں کہ بس بالکل مردہ بن جاؤں۔ کبھی کہتی تھی کہ بیٹھے بٹھائے یوں جان گنوانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ مگر جب ان باتوں کے ساتھ ہی رنڈیوں کی بری حالت جیسے خورشید اور لالن وغیرہ کی ہوئی وہ یاد آتی تھی، یا خدا کے ہاں کے عذاب کا خیال ہوتا تھا۔ تو دل لرز جاتا تھا اور کہتی تھی بدنامی اور بے عزتی سے تو مرنا بہتر ہے اور آخر نکاح مرنے سے بدتر تو نہیں ہے۔ الٰہی جان کے بیان سے صاف ظاہر تھا کہ اس سے تکلیف نہ سہی گئی۔ دوسرے مردار نے اس لڑکی کو بھگانے کا ارادہ کیا۔ اور اس سے سب تکلیف اٹھائی۔ مجھے اللہ پر بھروسہ اتنا ضرور تھا کہ اگر گھر میں بیٹھ گئی تو جیسی پڑے گی، جھیلوں گی۔ اس لئے اپنی موجودہ حالت پر نکاح کو ترجیح دی اور دل میں آخری فیصلہ کر لیاکہ اب یہ کر کے رہوں گی۔ میں شاید اپنے ارادہ میں لڑکھڑا جاتی کیونکہ اب تک جو کچھ میرے خیال میں آیا تھا ، وہ میری ہی عقل کا نتیجہ تھا، مگر خدا نے ایسا فضل کیا کہ اس کے دو تین دن بعد ایک روز شام کو جو میں ہوا کھانے نکلی تو عہی شخص جو طالبعلمی کی حالت میں مجھے گاؤں کی سرا میں ملے تھے اور جنھیں استاد جی نے برا بھلا کہا تھا ، اتفاق سے مل گئے، اب ماشاء اللہ ان کی صورت پر اور بھی نور برستا تھا ۔ میں نے انھیں پہچان لیا، مگر وہ نہ پہچان سکے۔ دوسرے وہ ہو گئے اب پورے مولوی، بازار میں کسی کو گھور کر دیکھنے کیوں لگے۔ میں نے گاڑی کو ایک جگہ ٹہرا کر نوکر بھیجا کہ ان مولوی صاحب سے جا کر کہو کہ ایک گناہگار عورت کو اتنے برس ہوئے فلاں مسجد کے پاس آپ کی نظر پڑی تھی اور جس کے پاس آپ رات کو آئے تھے، اس وقت موجود ہے۔ اور آپ سے مسئلہ مسائل کی دو تین باتیں پوچھنا چاہتی ہے۔اگر تکلیف نہ ہو تو فلاں جگہ کسی وقت تشریف لائیے۔

ریختہ صفحہ 143
نہیں تو اپنا پتہ بتائیے وہ خود حاضر ہوں۔ مولوی صاحب نے خود آنے کا وعدہ فرمایا۔ اور بہت رات گئے جب ہمارے ہاں سب سونے کے لئے لیٹ گئے تھے، تشریف لائے۔ یہ جاڑوں کا موسم تھا، مولوی صاحب کی داڑھی تو اب پہلے سے دگنی ہو گئی تھی ۔ ایک لمبا گھیر دار فرغل اوڑھے پنجابی لنگی سر پر رومال کندھے پر ڈالے ہوئے موٹی کان تک پہنچتی ہوئی لٹودار لکڑی ہاتھ میں لئے ہوئے تشریف فرما ہوئے۔ مجھے یہ بہت ہی غنیمت ہوا کہ اماں اور استاد جی دونوں لیٹ رہے تھے۔بڑی سرگرمی سے مولوی صاحب کا استقبال کیا۔صدر میں بٹھایا۔ اور ان کے تکلیف کرنے کا شکریہ عرض کیا۔
مولوی صاحب: کہو صاحب ہمیں کیوں بلایا ہے۔
میں: میں نے آپ کو نہیں بلایا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ آپ مجھے خدا اور رسول کی دو چار باتیں بتائیں۔
مولوی صاحب: ہمارا تو کام یہی ہے۔ اب دیکھو سارے پنجاب میں وعظ کہتا پھرتا ہوں۔ وہاں کے آدمی بھی بڑے علم دوست ہیں۔ خوب خدمت کرتے ہیں۔ دعوتوں کے مارے وار نہیں آتا۔
میں: اگر مجھے نصیحت فرمائیں گے تو میں بھی آپ کی خدمت کرنے میں دریغ نہ کروں گی۔
مولوی صاحب: نہیں میرا یہ مطلب نہیں ہے۔ یہ تو آمد سخن ایک بات کہہ دی تھی۔ اچھا تم چاہتی کیا ہو؟
میں: مولوی صاحب میں چاہتی ہوں کہ نماز روزے اور مسئلے مسائل کی ضروری باتیں آپ مجھے بتا دیں۔
مولوی صاحب: مگر جب تک تم ناچنا گانا اور یہ دھندا نہ چھوڑو گی سب بے سود

ریختہ صفحہ 144
ہے ۔ یہ کہہ کر مولوی صاحب نے قران شریف کی یہ آیت پڑھی وَ لَا تَقرَبُوا الزَّنا انّہٗ کَانَ فَا حشَۃ مقتا وساء سبیلا اور اس کے معنی بہت اچھی طرح سمجھائے۔ اور کہا کہ یہ سب سے زیادہ کھوٹا راستہ ہے۔ اس کی سزا سنگساری اور موت ہے۔ اور مسلمان کے لئے اس سے بدتر اور کوئی حالت نہیں کہ اس میں مبتلا رہے۔ پھر فرمایا کہ جو مرد یا عورت اس میں مبتلا ہو اس کی کوئی عبادت یا خیرات قبول نہیں۔ اور دن قیامت کے اس کا منہ کالا ہو گا۔ اور حرام کی کمائی سے جو کپڑا زیور بنتا ہے اس کے بدلے آتش دوزخ کا شعلہ اور سانپ بچو نصیب ہوں گے۔ اور جو اس سے توبہ کر کے نیک زندگی بسر کرے گا اس کے لئے جنت کے دروازے کھل جائیں گے۔ اور اللہ اور اللہ کا رسول اس سے راضی ہو گا۔ میں نے پوچھا کہ مولوی صاحب اگر میں توبہ کر کے کسی سے نکاح کر لوں تو یہ جو ہاتھ گلے میں یا ایک آدھ جھونپڑا ہے، اسے اپنے پاس رکھ سکتی ہوں۔ مولوی صاحب نے کہا ہر گز نہیں۔ یہ سب اسی حرام کی کمائی کا ہے۔ بلکہ اس کے لالچ نے سب کچھ کروایا ہے۔ اگر اسی کو دشمن سمجھ کر اس سے نفرت نہ کی اور اس پر لات نہ ماری تو توبہ ہی کیا ہوئی۔
میں: مولوی صاحب مسجد بنوا دوں؟
مولوی صاحب: شرعاً اس میں نماز جائز نہ ہو گی۔
میں: پھر کیا کروں
مولوی صاحب: حرام کا مال اللہ کی چڑ ہے اللہ کے واسطے کسی طور پر یہ خرچ نہیں ہو سکتا۔
میں چپکی ہو رہی اور دل ہی دل میں ان بڈھے بڑھیا کے لائق ان کے پاس چھوڑ کر باقی کو جس طرح مرزا صاحب کہیں گے خرچ کر دوں گی۔ مگر یہ اسی وقت عہد

ریختہ صفحہ 145
کر لیا کہ اگر توبہ کر لی تو اس مال میں سے ایک حبّہ نہ لوں گی۔میں نے مولوی ساحب کا شکریہ ادا کیا اور وہ رخصت ہوئے۔
اب تک تو صرف نکاح کا ہی پس و پیش تھا کہ کیسے بنے گی کیا ہو گا۔ ایسا نہ ہو کہ مرزا صاحب میرا مال لوٹ کھائیں۔ مگر مولوی صاحب کی اس تقریر سے یہ اور مصیبت آئی کہ نکاح کرو تو اس مال و اسباب کو بھی کنویں میں ڈال دو۔ اب ہر وقت یہ ادھیڑ بن رہنے لگی کہ نکاح کیا تو یہ سب کچھ گیا۔ کیونکہ کسی کام کو ادھورا کرنے کی میری عادت نہیں۔ یا ادھر یا ادھر۔ کبھی کہتی تھی کہ چور لے گئے تھے تو میں نے کیا کر لیا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اب جاتا رہے گا تو کیا کر لوں گی۔ بڑا افسوس اس بات کا ہے کہ کسی طرح خدا کی راہ میں خرچ نہیں ہو سکتا۔ کبھی یہ بھی خیال کرتی کہ ایسا نہ ہو بے مال و اسباب کے مرزا صاحب نکاح نہ کریں۔ مگر ان کی پاک منشی سے یقین ہوتا تھا کہ کر لیں گے۔ قصّہ کوتاہ بہت پس و پیش اور غور و فکر کے بعد میں اپنی طرف سے ان دونوں باتوں پر آمادہ ہو گئی کہ نکاح بھی کروں گی اور مال و اسباب پر بھی لات ماروں گی۔ میں نے سوچا کہ جو اللہ نیکی کی توفیق دیتا ہے وہ آیندہ روٹی نہ دے گا۔ اور اس پر جم گئی۔
اب ادہر کی سنئیے۔ کئی دن تک پولیس خورشید کے گھر بیٹھی رہی اور آدمیوں کی پکڑا دھکڑی رہی۔ آخر پتہ چلا کہ ابّن لوہار کا یہ کام تھا۔ بہادر گڑھ سے وہ گرفتار ہو کر آیا۔ اور مار پیٹ میں اس نے قبول دیا تھا کہ تھانہ دار کے اشارے سے اس نے یہ کام کیا ہے۔ مقدمہ چالان ہو گیا۔ ابّن لوہار کو قید ہوئی اور تھانہ دار صاحب بھی چکر میں آ جاتے مگر بالشتر ( بیرسٹر) کھڑا کیا، بہت سا روپیہ خرچ کیا ۔ اس پر بھی بڑے انگریز کے پاس حاکم نے رپورٹ بھیج دی اور نتیجہ یہ ہوا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ برخاست کر دئیے گئے۔ ان سب باتوں میں کوئی ایک مہینہ لگا۔ خورشید بھی اچھی ہو کر گھر
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 146
آ گئی۔ اپنی بیکسی پر رویا کرتی تھی اور موت کی دعائیں مانگتی تھی۔ خدا کی قدرت وہی خورشید جس کا میدا شہاب رنگ لوگوں کی آنکھوں میں کُھبا جاتا تھا اور جو کتنی جلدی نواب کی نظر چڑھ گئی تھی اب نکٹی خورشید، خن خنی، جھنجی کوڑی اور خبر نہیں کن کن ناموں سے مشہور ہو گئی۔ خورشید کے مقدمہ میں جب تھانہ دار پر آنچ آئی تو انھوں نے نواب کو بھی لپیٹا۔ بیچارہ خوب گھسٹا مگر آبرو بچ گئی اور میں نے سنا کہ انھوں نے حلف اٹھا لیا کہ اب کبھی کسی کسبی سے نہ ملوں گا۔ اور دینداری کی زندگی بسر کرنے لگے۔تھانہ دار صاحب نے ہمارے ہاں آنا اسی دن سے چھوڑ دیا تھا جس دن خورشید کی ناک کٹی تھی۔ نواب کو پھنسانے اور موقوف ہو جانے پر وہ اور ذلیل ہوئے۔ بالکل اس طرف کا رُخ نہ کیااور دہلی سے چلتے بنے۔ جب کبھی میں ان کا خیال کرتی تھی تو میرا دل لرز جاتا تھا کہ اللہ اکبر انھوں نے عمر بھر کے واسطے خورشید کو نکما کر دیا۔ خورشید کا یہی قصور تھا نا کہ جب ان کی بگڑی تھی تو اس نے بھی آنکھ بدل لی تھی۔ مگر یہ سب کسبیاں کرتی ہیں۔ ہم ہی کو دیکھو ڈاکٹر سے کیا کیا نہ کیا۔
تھانہ دار کی آمد ورفت بند ہونے کے بعد حاضر و غائب میرا کوئی ملنے والا نہ رہا۔ اور میں نے بھی دل میں ٹھان لی کہ اب کسی کو منہ نہ لگاؤں گی۔ ناچ مجروں میں بھی کچھ شوق سے نہ جاتی تھی۔ اور ہر وقت دل اداس رہتا تھا۔ اس عرصہ میں مرزا صاحب سے جو خط و کتابت ہوئی وہ یہ ہے، میرے اس خط کا انھوں نے یہ جواب دیا۔
جو القاب لکھنے کو دل چاہتا ہے وہ بے شک میں لکھتا مگر جب تک آپ کی بدگمانی رفع نہ ہو گی ہر گز نہ لکھوں گا۔ اس میں چاہے میرے دل پر کچھ ہی بن جائے۔ افسوس آپ کو کسی طرح میرے کہنے کا یقین نہیں آتا۔ میرے اب کے القاب میں

ریختہ صفحہ 147
جو آپ نے لفظ "کسی" لکھا اس پر میں خوشی کے مارے جامہ میں نہ سماتا تھا۔ اور کچھ ور سمجھ رہا تھا۔ مگر اچھا ہوا کہ آگے چل کر خود آپ نے اس معمّہ کو حل کر دیا۔ خیر اور جو جی چاہے کہہ لیجئیے اس مسکنت کا برا ہو سب کچھ سنواتی ہے۔ میں قسمیہ عرض کرتا ہوں کہ نہ مجھے بائی جی سے محبت ہے اور نہ انھیں مجھ سے۔ ان کی عنایتوں کا بے شک شکر گزار ہوں۔اور ہمیشہ ان کے حسن و خلق وغیرہ کی تعریف کرتا ہوں۔ اگر آپ بائی جی کی طرف اشارہ نہ کرتیں اور اٹکل پثو لکھ دیتیں کہ تجھے اب بھی کسی سے محبت ہے تو ذرا میرا دل ٹھنڈا ہوتا۔ مگر بائی جی سے منسوب کرنا ظلم ہے۔ دیکھئیے اب بھی آپ کو یقین آتا ہے یا نہیں۔ جب سے آپ کا خط آیا ہے چار پانچ دفعہ پڑھ چکا ہوں اور واقعی خودرفتگی کی سی حالت ہے۔ آپ کو کیا معلوم کہ آپ کی کیفیت سن کر میرا کیا حال ہوا۔ اس درد ناک بیان نے کہ جیسی محبت مجھ کو نواب سے تھی اور ہوئی، آج تک کسی سے نہ ہوئی۔ میرے دل میں آپ کی جانب ایسی خاص قسم کی ہمدردی پیدا کر دی کہ بیان نہیں ہو سکتی۔ اس پُرسوز فقرے نے کہ "بعد تعلق قطع ہونے کے کچھ ایسے رنج و صدمات ہوئے کہ جی چھوٹ گیا" جو نقشہ میرے دل میں کھینچا ہے اُسے کیونکر بیان کروں۔ ہائے آپ اور یہ درد ؎ یہ جگر اور داغ کے قابل
اس عنایت کا شکریہ کس طرح ادا کروں کہ آپ نے اپنا راز مجھ سے فرما دیا۔ ان شاءاللہ مرتے دم تک دل ہی دل میں رکھوں گا۔ اپ کے نیک ارادے پر آپ کو دل سے مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا آپ کو آپ کے حسبِ منشا کامیاب کرے ، مکیرا بھی آپ سے یہی کہنے کو جی چاہتا تھا اور میں نے اس کی ضرورت ثابت کرنے کے لئے بڑی دلیلیں فراہم کی تھیں۔ تاہم ڈرتا تھا کہ کہیں آپ برا نہ مان جائیں۔ مگر آپ کے خط نے میرے دل کی بے چینی کو رفع کر دیا۔ اور میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ جو میرا جی چاہتا تھا وہی آپ کا ارادہ ہے۔ ایک دفعہ اور سچے دل سے آپ کی اس

ریختہ صفحہ 148
خصوصیت کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور تسلیم عرض کر کے رخصت ہوتا ہوں۔
میں اس خط کو خورشید کی پریشانی میں اچھی طرح پڑھنے بھی نہ پائی تھی اور یوں ہی رکھ دیا تھا کہ دوسرے دن مرزا صاحب کا یہ خط اور آیا
؎ طور محفل خود راندہ ہمچو منے را
افسردہ دل افسردہ کند انجمنے را
کل کا خط امید ہے پہنچا ہو گا گذشتہ باتوں کی یاد میں اس وقت دل کچھ اداس ہو رہا ہے۔ جی بہلانے کے لئے اس سے بہتر اور کون سا مشغلہ ہو سکتا ہےکہ آپ سے باتیں کرنے لگوں جیسی عنایت آپ نے شروع سے میرے حال پر کی، اس کو میرا ہی دل خوب جانتا ہے۔دن بدن آپ کا خیال بڑھتا جاتا ہے اور میں قسمیہ کہتا ہوں کہ جس قدر آپ کا خیال رہتا ہے کبھی کسی کا نہیں رہا۔ ادنٰی بات یہ ہے کہ جس دن آپ کا خط آتا ہے دن تو دن رات کا بہت سا حصہ آپ کی نذر ہو جاتا ہے۔ اور جب تک جواب نہیں لکھ لیتا صبر نہیں آتا۔ پھر یہ خیال رہنے لگتا ہے کہ آپ کا جواب آتا ہو گا۔ ہر وقت ڈاکیہ کا انتظار رہتا ہے۔ اول اول تو یہ کیفیت تھی کہ دل میں کہتا تھا کہ اگر انھوں نے ذرا بھی پہلو تہی کی تو میں بھی خاموش ہو جاؤں گا۔ مگر اب تو یہ حالت ہے کہ اگر ذرا نظر بدلی ہوئی دیکھوں تو لاکھ منتیں کروں اس پر بھی نہ مانوں تو ہاتھ جوڑوں۔ اس سے بھی کام نہ چلے تو قدموں پر سر رکھوں۔ اور نہیں معلوم کہ کیا کیا تدبیریں کروں۔ عقل اب بھی کبھی کبھی کہتی ہے کہ اول تو بے اجازت کسی کے خیال کو دل میں رکھنا ناجائز ہے دوسرے کہاں تو کہاں وہ۔ یہ سیاہی کہاں وہ نور کہاں۔ مگر دل کب مانتا ہے۔ آپ ہی بتائیے کیا کروں۔ ہاں آپ یہ تو پوچھئیے کہ تجھے میرا خیال آتا ہے تو جی کیا چاہتا ہے۔
جواب یہ ہے کہ کوئی مہینہ ڈیڑھ مہینہ سے تو اکثر یہ جی چاہتا تھا کہ آپ تشریف رکھتی ہوں اور اسی طرح ذرا ذرا سی دیر میں پان بنا کر دیتی جاتی ہوں اور تصوف اور محبت کی باتیں ہوں۔ پہلے تو آپ اک حیا سے مسکرانا دلکش طرز سے بات کرنا اور نفیس مذاق

ریختہ صفحہ 149
کرنا یاد آتا تھا اور انھی باتوں کو جی چاہتا تھا مگر کوئی پندرہ بیس روز سے دل کی کیفیت ہی کچھ اور ہو گئی ہے اور ایک دن بیٹھے بیٹھے آپ یاد آئیں آپ کے ساتھ آپ کی لڑکی بھی، دل نے کہا کہ جس حالت میں سرکار اب ہیں اگر آیندہ بھی یہی رہی تو ممکن ہے کہ وہ اپنا ذاتی معاملہ خدا کے ساتھ سنوار لیں۔ مگر اس معصوم بچی کی کیا گت ہو گی۔ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اپنی اولاد کی تربیت اسلام کے قواعد کے موافق کرے۔ اور کسی ماں باپ کو اختیار نہیں ہے کہ شانِ اسلام کے خلاف اپنی اولاد کو اٹھائے۔میرے خیال نے نصیبن کی آیندہ حالت کا فوٹو کچھ ایسی ڈراؤنی صورت میں مجھے دکھایا کہ میں کانپ اٹھا اور سہمنے لگا کہ آخر خدا نخواستہ اس پیاری بچی نے اسی حالت میں پرورش پائی تو روح پاک جناب سرورِ کائنات اس مکان کو کس نگاہ سے دیکھے گی جس میں اللہ نے ایک معصوم جسے دنیا میں ہر طرح نیک ہونے کا حق حاصل ہے دیدہ و دانستہ اس غرض سے پالی جائے جس سے اسلام کے نورانی چہرے پر داغ لگے۔ مجھے کچھ ایسا محسوس ہونے لگا کہ وہ بچی اپنے پیارے پیارے ننھے ننھے ہاتھ جوڑ کر مجھ سے کہتی ہے کہ مرزا جی تم میری اماں کو سمجھاتے نہیں۔ میرا دل بھر آیا اور میں نے مصمم ارادہ کیا کہ آپ کو کچھ لکھوں اور اس لئے چھیڑ چھاڑ شروع کی۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے میرے عرض کرنے سے پہلے ہی آپ کے دل میں ان پاکیزہ خیالات کو پیدا کر دیا ہے۔
اس خط کا اثر مجھ پر جیسا ہونا چاہئیے تھا، ہوا اور کئی دن تک ایسا رہا کہ نصیبن کو دیکھ کر ہیبت سی معلوم ہوتی تھی اور خون خشک ہو جاتا تھا۔ ان دونوں خطوں کے جواب میں مَیں نے دل کھول کر مرزا صاحب کا شکریہ ادا کیا اور لکھ دیا کہ اب مجھے بائی نجی کی طرف کی مطلق بدگمانی نہیں مگر محض چھیڑنے کے لئے ایک فقرہ یہ بھی بڑھا دیا کہ آپ مجھ کمبخت کا اتنا خیال نہ رکھا کیجئیے اس کا انجام اچھا نہیں معلوم ہوتا ہے۔ لکھا کہ اگر آپ فرمائیں کہ کہ میرے دل سے تیرا خیال نہیں نکل سکتا تو میں آپ کو اس کے نکالنے کی

ریختہ صفحہ 150
ایک ترکیب بتاؤں۔ وہ یہ کہ میری رائے میں خط و کتابت نے یہ آگ لگائی ہے۔اگر آپ اجازت دیں تو اسے ہی بند کر دوں۔ آپ یہ نہ خیال فرمائیں کہ میرا جی یہ چاہتا ہو گا۔ توبہ توبہ کیہ تو کبھی ہو ہی نہیں سکتا کہ میں اور یہ ارادہ کروں مگر یہ تو نہ ہو گا کہ آپ کے بیش قیمت دن اور بے بہا راتیں ضائع ہون۔ اپ آرام سے تو سویا کریں گے۔ آور اگر یہ تکلف ہی آرام ہے تو ضیر۔ ہاتھ پاؤں جوڑنے کے معاملہ میں مَیں نے کچھ سوچ سمجھ کر یہ فقرہ لکھ دیا کہ " مجھے کیوں گناہگار کرتے ہو یہ بھی کوئی بات ہے، ہوش میں آؤ سنبھلو تو سہی۔ یہ مضطربانہ حرکتیں اچھی نہیں ہوتیں۔ دامنِ استقلال نہ چھوڑو۔ ایسے عقلمند ہو کر ایسی باتیں۔ ذرا ہوشیار ہو کر بیٹھو۔ گرے نہ جاؤ۔ جو کچھ میں نے عرض کیا ہے، اس پر عمل کرو۔
مرزا صاحب خبر نہیں کیا سوچ کر بالکل فرنٹ ہو گئے اور ایک مہینے تک خط نہ بھیجا۔ مجھے بھی زیادہ خیال نہ ہوا کیونکہ ان دنوں میں اماں کی بیماری میں ایسی گھری رہی کہ کسی طرف کی سدھ ہی نہ تھی۔ اب کے ان پر بیماری کا ایسا زور ہوا کہ کھانا پینا بالکل ترک ہو گیا۔ دوسری طرف بھی فالج گرا اور بڑی مصیبت سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر ان کی جان نکل ہی گئی۔ زبان بند ہی ہو گئی تھی اس سے توبہ نہ کر سکیں اور میں سچ کہتی ہوں کہ ان کے مرنے کا مجھے اتنا قلق نہ تھا جتنی اس بات کی ہیبت تھی کہ ہائے انھوں نے توبہ بھی نہ کی۔ رات کو ان کی بھیانک صورت مجھے ڈرانے لگی۔ اور گھر مجھے قبر سے بدتر معلوم ہونے لگا۔ دسویں کے دوسرے دن میں نے مرزا صاحب کو اپنے صدمہ کا حال لکھا اور ان کے خط نہ بھیجنے کی شکایت۔ یہ بھی لکھ دیا کہ دس پانچ روز کو آ کر غم غلط کر جاؤ تو بڑا احسان ہو ۔ بیچارے فوراً مہینہ بھر کی چھٹی لے کر آ گئے۔ اور جو جو کچھ کہا سُنا وہ آگے آئے گا۔ کئی دن کی تسلی تشفی اور دلدہی کی باتوں سے جب میرا دل بہل گیا اور ہنسی مذاق کی شروعات ہو گجئی تو کسی وقت میں نے مرزا صاحب سے پوچھا کہ آپ نے میرے خط کا جواب کیوں نہیں دیا۔ انھوں نے نہایت بے چینی کے ساتھ فرمایا کہ افسوس مجھ میں اتنی عقل نہیں ہے کہ مزاج پہچان لوں
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 151
میں نے آپ کو یہی لکھا تھا نا کہ مجھے آپ کا خیال رہتا ہے یہ گتو نلہیں کہا تھا کہ للہ آپ بھی میرا خیال رکھا کیجئیے ۔ پھر نہ معلوم کہ آپ کیوں دور کرنے لگیں۔ آپ مجھے یہی سزا دے سکتی تھیں کہ خط و کتابت بند کر دیں۔ اسی کی دھمکی بھی دی تھی ، مجھے بھی دیکھنا تھا کہ مر تو نہیں جاتا۔یہ کہہ کر مرزا صاحب کی عجیب حالت ہو گئی، رنگ متغیر ہو گیا اور معلوم ہوتا تھا کہ اب آنسو ٹپکے۔ مجھے ان کی محبت تو تھی دوسرے اس موقع پر آ جانے سے اور دل میں گھر ہو گیا تھا، یہ حالت نہ دیکھ سکی اور خود بھی رونکھی ہو کر بولی بس مرزا صاحب ہنسی ہنسی میں رو دئیے، میں نے جھوٹ موٹ کہا تھا۔ وہ سچ مچ رونے لگے۔ ان کا قرینہ سے آنکھوں پر رومال رکھنا، ذرا ترچھے ہو کر گاؤ تکیے پر جھک جانا پھر بے خیالی سے اپنے پاؤں پھیلا دینا مجھے اونگھتے کو ٹھیلتے کا بہانہ ہو گیا۔ بالکل بے حجاب ہو گئی اور پاس آ کر انھیں اپنی لڑکھڑاتی آواز سے جھنجھوڑا مرزا صاحب خدا کے لئے جانے دو۔ مرزا صاحب نے بے اختیار ہو کر مجھے گلے سے لگا لیا اور ہم دونوں دستِ بغل ہو کر رونے لگے۔ اس سے ذرا دل ہلکا ہوا تو ہنسی چھوٹی۔ ایک دوسرے کو دیکھتے تھے اور ہنستے تھے۔ مرزا صاحب کے رخساروں پر آنسوؤں کے نشان اور ان کی پُرنم آنکھیں بھلا مجھے کب بھولیں گی؟ غرض اس طرح بلا گفت و شنید کے ہمارا فیصلہ ہو گیا۔ یہ سہ پہر کا ذکر تھا۔ میں نے شام کو انھیں نہ جانے دیا۔ کھانا بھی با اصرار ساتھ کھلایا اور دس بجے کے بعد جب وہ اٹھنے لگے تو میں نے یہی چاہا کہ وہ نہ جائیں مرزا صاحب کو کچھ بدگمانی ہوئی اور لگے پتہ تڑانے۔ مگر میں نے ان سے صاف کہہ دیا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ آج رات بھر ہم اسی طرح باتیں کر کے گزار دیں۔ اس میں اھیں عذر ہی کیا تھا بیٹھ گئے ادھر اُدھر کی باتیں ہونی شروع ہوئیں۔
مرزا صاحب: آج کا سا تخلیہ پھر دیکھئیے کبھی نصیب ہو بھی یا نہیں۔ اس وقت کو غنیمت سمجھ کر دو چار کام ہی کی باتیں کر لیں۔

ریختہ صفحہ 152
میں: آپ نے میرے ہونٹوں سے بات چھین لی، میں خود بھی یہی کہنے کو تھی۔
مرزا صاحب: میں یہ چاہتا تھا کہ آپ کے ارادہ ء نکاح کے متعلق کوئی فیصل بات سن لوں۔
میں نے نظر نیچی کر لی اور کچھ جواب نہ دیا۔
مرزا صاحب: اس کی سند نہیں ہے جواب دو کچھ کہو۔
میں: جو بات آپ کے فصیل کرنے کی ہے وہ آپ مجھ سے پوچھتے ہیں۔
مرزا صاحب: الحمد للہ میں اور آپ کیا فصیل کر سکتے ہین معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے فیصلہ کر دیا مگر اس کے متعلق چند ضروری امر ایسے ہیں کہ ان کا تذکرہ آج ہی ہو جانا بہت ضروری ہے۔
میں: فرمائیے میں غور سے سنتی ہوں
مرزا صاحب: یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ میں اپنے وحشیانہ مزاج اور مجنونانہ خیالات کی وجہ سے آج تک خانہ برباد رہاورنہ شروع میں کنبے ہی میں ایک ایسی جگہ شادی ہوئی تھی کہ کیا بیان کروں۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ اب سے دس برس کی بات ہے کہ میں نے شادی سے صاف انکار کر دیا اور گھر میں سب لوگ کہتے کہتے تھک کر چپ ہو گئے ۔ میرے مرحوم بھائی کا نو دس برس کا ایک لے پالک لڑکا ہے۔ ہماری بھابی بانجھ تھیں۔ اور قحط میں اسے لے لیا تھا۔ مگر وہ بیچاری اسے گھٹنیوں چلتا ہوا چھوڑ کر مر گئیں۔ بھائی کو کیا خبر تھی کہ میرا سایہ بھی اس قدر جلد اس کے سر پر سے ہٹ جائے گا۔ چھ برس کا چھوڑ کر وہ بھی چل بسے۔میرے والد کی یہ دوسری شادی ہے اور وہ نیک بخت ہم دونوں بھائیوں سے ازحد جلتی تھی۔ اور اب تک مجھ سے جلتی ہے۔ میرے اب تک نکاح نہ کرنے کی بڑی وجہ یہی ہوئی اللہ بخشے بھائی جانتے تھے کہ بچہ اس نیک بخت کے ساتھ نہ رہ سکے گا۔ انھوں نے آخری وصیت مجھے یہ کی تھی کہ اسے اپنے پاس رکھنا اور کبھی تکلیف نہ ہونے دینا۔ اللہ کا شکر ہے کہ میں نے اب تک ایسا ہی کیا ہے۔ میری پہلی شرط یہ ہے کہ آپ کو بھی اسے آنکھوں پر رکھنا ہو گا۔

ریختہ صفحہ 153
جس وقت یہ بات میں نے سنی بے انتہا خوش ہوئی ، کسی نے میرے دل پہ نقش کر دیا کہ لے ننھی تو نصیبن کے بوجھ سے ہلکی ہو گئی۔ اصل میں مجھے اس کا زیادہ خیال تھا میں فوراً بولی" مجھے بدل و جاں منظور ہے"
مرزا صاحب: الحمد للہ سوائے اس کے اور کوئی شرط نہیں ہے۔ صرف یہ اور گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ میرے کنبے میں کوئی اس لائق نہیں ہے جو تمہاری قدر کرے گا۔ اس لئے تمہیں علیٰحدہ ہی رہنا پڑے گا۔
ؐیں: یہ میری قسمت
مرزا صاحب: تمہیں بھی کچھ کہنا ہو تو۔
میں: مرزا صاحب اگر مجھے آپ قبول کریں تو میں ہوں اور یہ معصوم بچی۔ اس مال و اسباب میں سے رتی بھر بھی اپنے ساتھ نہ لے جاؤں گی۔ کپڑا، گہنا اور برتن اسباب میں سے رتی بھر بھی اپنے ساتھ نہ لے جاؤں گی۔ سب فی الحال یوں کا یونہی رہے گا، چار ہانچ مکان ہیں ان سے بھی مجھے کچھ نفع اٹھانا نہیں ہے۔اگر مجھے بالکل مفلس سمجھ کر آپ راضی ہوں تو میں حاضر ہوں۔ اگر میں حرام سے توبہ کرتی ہوں تو اس کی کمائی کی چیزوں سے بھی کچھ واسطہ نہ رکھوں گی۔ رہا اپنا ذاتی معاملہ اس بارے میں صرف یہ ایک شرط ہے کچھ شرط نہیں کرتی۔ سب خدا پر چھوڑتی ہوں۔
میرے اس کہنے نے مرزا صاحب پر وجد کی سی کیفیت طاری کر دی اور فرمانے لگے کہ جزاک اللہ تمہاری ہمت نے مردوں کو بھی مات کر دیا۔ مجھے اللہ کی ذات سے امید ہے کہ باقیماندہ زندگی اچھی طرح کٹے گی۔اور جس کام کے لئے ہم پیدا ہوئے ہیں وہ انجام پا جائے گا۔ مجھے صرف تم سے کام ہے، اپنے مال کا جو چاہو کرنا۔ اس کے بعد مرزا صاحب بڑی دیر تک خدا کی محبت پر گہر افشانی کرتے رہے۔ اور خود بھی لوٹتے رہے اور مجھے بھی لٹایا، جب یہ نشہ کم ہوا تو کہا میری جان تم نے غور کیا ہے کہ نکاح کسے کہتے ہیں اور حرام میں کیا کیا عیب ہیں۔مجھے یہ سوال کچھ اچھا نہ معلوم ہوا۔ کیونکہ آخر میں نے کچھ تو سوچا ہی تھا جو کسبی پن چھوڑ کر نکاح

ریختہ صفحہ 154
کا ارادہ کیا تھا مگر میں نے کہا ذرا ان کے خیالات بھی معلوم ہو جائیں جواب دیا آپ کچھ فرمائیں مجھے نفع ہو گا۔
مرزا صاحب: مرد فطرتاً کسی قدر اکھڑ خشک کاروباری اور عقل کا پابند واقع ہوا ہے۔ برعکس اس کے عورت قدرت طور پرجھکنے والی نرم دل، چوں چرا سے پاک اور محبت والی پیدا کی گئی ہے۔ ان دونوں کو ایک جگہ اس غرض سے جمع کیا جاتا ہے کہ ہل مل کر دونوں معتدل ہو جائیں اور خدا کے راستہ میں جو عین اعتدال کا نام ہے بے تکان چلیں۔ اس طور کے قلبی اور جسمانی میل کا نام نکاح ہے۔ برعکس کہ حرامکاری میں چونکہ خواہشیں محدود نہیں کی جاتیں اور مرد بے شمار عورتوں سے اور عورتیں بے شمار مردوں سے ربط پیدا کرتی ہے۔ قلب چکنے گھڑے کی مانند ہو جاتا ہے اور اعتدال اور صلاحیت ٹہرنے نہیں پاتی۔ یہ تو اس کا اصول ہے۔ اب بقائے نسل بھی اللہ تعالٰی نے اسی تختہ بندیہ کا نتیجہ رکھی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ جو عورت مرد نکاح کی برکت سے آپس میں مل کر ایسے معتدل ہو گئے ہوں کہ اللہ کے راستہ میں چل سکتے ہیں ان سے اولاد اللہ کیسی صالح پیدا کرے گا۔
اب تک میں حلال و حرام کی موٹی موٹی باتوں پر غور کیا کرتی تھی ۔ نکاح کی یہ کہ پردہ کی بیٹھنے والیاں آفتوں سے کیسے محفوظ رہتی ہیں۔ نہ ان عیب دار بیماریوں میں مبتلا ہوتی ہیں نہ بڑھاپے میں نائیکاؤں کی طرح ذلیل ہوتی ہیں۔ بلکہ مائیں نانیاں دادیاں کہلاتی ہیں اور عزت سے زندگی کے آخری دن کاٹتی ہیں۔ برعکس اس کے کوٹھے والیاں طرح طرح کی مصیبتوں میں مبتلا ہوتی ہیں ناکیں کٹتی ہیں، تھانہ کچہری میں گھسٹتی ہیں اور جوانی ذرا کھسکی اور چاروں طرف سے جوتیاں پڑنے لگیں۔ اس سے پہلے میں اس قسم کی باتوں کو سوچا کرتی تھی مگر مرزا صاحب کی تقریر نے جو ہرچند بہت مختصر اور روکھی پھیکی تھی مجھے گویا ایک نئی دنیا دکھا دی اور میرے دل میں یہ بات جم گئی کہ میاں بیوی قاعدہ کے موافق سلوک اور محبت سے رہیں تو بیشک دونوں خدا کے ہاں مقبول

ریختہ صفحہ 155
ہوں گے اور کسبی لاکھ جتن کرے مگر پھر دوزخ کا کندہ ہی رہے گی۔ میں نے مرزا صاحب کی تقریر کی بہت تعریف کی اور عرض کیا کہ واقعی یہ بات میرے ذہن میں بھی اب تک نہ آئی تھی کہ نکاح بھی محض خدا سے ملنے کے لئے ہے۔
مرزا صاحب: تمہیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہئیے کہ اللہ نے ایسا ذہن رسا اور اور توفیق نیک دی۔ اب دیر نہ کرو۔ (گھنٹہ کی طرف دیکھ کر) دیکھو بارہ بجے کا عمل ہے کیا اچھا وقت ہے۔ کیا اچھا ہو کہ ہم اس وقت نہایت صدقِ دل سے اپنی بد اعمالیوں کی توبہ کریں اور صبح تک اللہ کی یاد میں گزار دیں۔ کل پرسوں میں مولوی عزیز احمد صاحب کہ جو میرے دوست ہیں اور دو ایک شخص کو پوشیدہ طور پر بلاؤں گا اور ان شا اللہ عقد ہو جائے گا۔
میری ان بے ربط سطروں کے پڑھنے والو تم اندازہ کر سکتے ہو کہ جب میں نے اٹھ کر ٹھنڈے پانی کا لوٹا بھرا اور دوسرا مرزا صاحب کے لئے بھر کر رکا اور اس وقت سب سے پہلی دفعہ اپنے تئیں بیوی سمجھا تو میرے دل کی کیا کیفیت ہوئی ہو گی۔ میں بیان کر سکتی ہوں اور نہ کوئی سمجھ سکتا ہے۔ مجھ سے پوچھو تو میرے دل کی توبہ اسی وقت قبول ہو گئی تھی جب میں جھانجھن اتار کر جھومتی ہوئی اٹھی تھی۔ جب ہم دونوں نے نفل پڑھے اور مرزا صاحب نے مجھ سے کہا کہ اب توبہ کرو تو میں دل میں ہنسی کہ ہیں یہ ایسی عورت سے توبہ کرواتے ہیں جس پر اللہ نے یہ فضل کیا اور جس کے لئے رحمت کے دروازے یوں بے تکان کھول دئیے۔ مگر جو دل میں تھا اس کا اثر مرزا صاحب پر کیوں ڈالتی۔ بولی کہ مرزا صاحب خدا کے لئے تم اتنی عنایت اور کرو کہ جو جو سمجھ میں آئے کہتے جاؤ۔ میں اسے اپنی زبان سے دہراتی جاؤں گی۔ انھوں نے برائیوں کیہ ایک لانگ ٹیر لگا دی اور کہتے کہتے میری زبان تھک گئی۔ مرزا صاحب نے خود بھی سچ یا کسر نفسی سے توبہ کی۔ اور پھر ہم دونوں نے مل کر دعا مانگی کہ اللہ ہمیں آیندہ نیکی دے اور اپنا راستہ دکھائے۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 156
تیسرے دن مرزا صاحب ان مولوی صاحب اور اپنے چند دوستوں کو لے آئے۔ اور مجھے پردہ میں بٹھا کر اور تار تار زیور اتروا کر اور مرزا صاحب کا لایا ہوا حلال کا جوڑا پہنا کر پہلے مجھ سے ایمان کی تصدیق اور توبہ کرائی اور پھر نکاح پڑھا کر مجھے حرام کی دلدل سے نکالا اور حلال کے زینے پر چڑھایا ، و ھوا رحم الرحمین
یہ کام میں نے اس طرح کیا کہ گھر والوں کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ بعد میں بڈھے استاد جی نے سر پیٹ لیا۔ ماما نوکر تو خیر غیر ہی تھے مگر وہ بھی منہ تکتے رہ گئے اور دوسرے دن تک سارے شہر میں خبر ُھیل گئی کہ ننھی نے مرزا سے نکاح کر لیا۔ تیس برس کے اندر یہ جو کچھ ہونا تھا، ہو گیا اور میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ اب بھی کچھ نہیں گیا۔ دن کا بھولا رات کو گھر آجائے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔ دو تین دن میں مرزا صاحب اپنا اسباب بھی میرے مکان پر لے آئے اور اپنے بھتیجے محمد مسعود کو بھی لا کر میرے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا۔ہمارے نکاح کے پانچویں چھٹے ہی دن مرزا صاحب کے پاس پروانہ آیا کہ ان کے اوپر جو سرشتہ دار تھے وہ ڈپٹی ہو گئے۔ اور یہ ایک سال کے لئے آزمائش کے بطور سرشتہ دار مقرر ہوئے اور تنخواہ سوا سو روپے ہوئی۔ اور یہ بھی حکم آیا کہ آج کے پندرھویں دن ڈپٹی کمشنر دورے ہر جائیں گے اس تاریخ سے پہلے پہلے آن کر کام سنبھال لو اس ترقی کی جیسی ہم سب کو خوشی ہوئی بیان میں نہیں آ سکتی۔ میں باغ باغ ہوئی جاتی تھی کہ اللہ کے فضل سے اب حلال کی کمائی کے سوا سو روپے ہمارے گھر میں آئیں گے۔ دو میاں بیوی ہم ہیں اور دو بچے سر آئیں گے پاؤں جائیں گے۔ میرے دل میں یہ بات بھی آئی کہ ضرور اللہ نے یہ سامان اسی لئے کیا ہے کہ میں اپنے حرام کے مال پر سے بالکل نیت اٹھا لوں۔ میں نے سوچا کہ جو کچھ مجھے کرنا ہو مرزا صاحب کے نوکری پر جانے سے پہلے پہلے کر ڈالوں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے جانے کے بعد مجھ پر کوئی ولبہ (بلوہ) کرے یا خدا نخواستہ پھر چوری ہو جائے۔ اب تو میں کسی کو اپنا بنا بھی نہیں سکتی۔ کئی دن کے سوچ اور

ریختہ صفحہ 157
فکر سے میں نے ایک بات دل میں ٹھان لی اور ایک دن صبح ہی اٹھ کر میں نے استاد جی سے کہا کہ جاؤ نواب اختر زمان کو مکیرا سلام کہو اور کہو کہ قسم دلا کر کہا ہے کہ جس طرح ہو سکے گھڑی بھر کو میرے پاس ہو جاؤ۔ مرزا صاحب میرا منہ دیکھنے لگے مگر میں مسکرا کر چپکی ہو رہی۔ ان کا انتشار کم نہ ہوا۔ مگر میں نے بھی ایک حرف نہ کہا اور اندر کوٹھڑی میں جا کر ایک صندوق میں کچھ ڈھونڈنے لگی۔ انھوں نے کہا بھی کہ میں آؤں۔ مگر میں ٹال گئی۔ وہاں سے نکلی تو کسی ور کام کاج میں لگ گئی اور جب تک نواب نہ آئے، یونہی ادھر ادھر پھرتی رہی۔ جب استاد جی نے آ کر کہا کہ نواب صاحب باہر کھڑے ہیں۔تو میں چلمن کے پیچھے ہو گئی اور انھیں اندر بلا لیا۔مرزا صاحب سے بھی کہہ دیا کہ آپ بھی اندر ہو جائیں ورنہ وہ شرمائیں گے۔
جب نواب نے دالان میں قدم رکھا تو میرے دل میں گھونسا سا لگا کہاللہ اکبر یہ وہی نواب جو کس کروفر سے مجھ سے پہلے پہل ملے تھےجن کی خوش پوشی، خوبصورت اور دلکش باتوں نے مجھے لونڈی بنا رکھا تھا آج گردن جھکائے میلی لیس کی ٹوپی سر پر، برے سے ابرےکی اگلے برس کی رضائی اوڑھےہوئے نیچے چھینٹ کا انگرکھا لٹھے کا پاجامہ سادی سلیم شاہی جوتی ایڑیاں پھٹی ہوئی جرابیں ، بال پریشان چہرہ غمگین، مفلسی برستی ہوئی اسی گھر میں چلے آتے ہیں جہاں کسی زمانہ میں ان کا استبال کس محبت اور سرگرمی سے ہوتا تھا جہاں نوکر چاکر ہزاروں طرح سےان کی خوشامد کرتے تھےجہاں میں بیسیوں طرح کی لگاوٹیں کر کے ان کا جی بہلاتی تھی ۔ یہ خیال میرے دل پر تیر ہو کر لگا جی تو یہ چاہتا تھا کہ پردہ سے باہر نکل آؤں اور نواب سے گلے مل کر خوب روؤں مگر اب یہ کب ممکن تھا ایک سناٹے میں نظر نیچی کر لی اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔استاد جی نے ان سے کہا کہ قالین پر چلمن کے پاس بیٹھئیے تو ایک دفعہ تو میرے منہ سے نکلا کہ "قریب آ جائیے" پھر میری ہچکی بندھ گئی نواب بھی انکھوں پر رومال رکھ کر چپکے چپکے رونے لگے۔ ہائے یہ محبت کمبخت بُری بلا ہوتی ہے۔ برسوں اس پر خاک

ریختہ صفحہ 158
ڈالو مگر اس کی چنگاری کبھی نہیں بجھتی۔ بڑی دیر تک میری اور ان کی دل ہی دل میں باتیں ہوتی رہیں۔ کچھ وہ سمجھے اور کچھ میں۔ آخر زبان نے اس مہرِ خاموشی کو توڑا ۔ اور نواب نے کہا " مجھ ناچیز کو کیوں یاد فرمایا ہے"
میں: (بہت دل سنبھال کر) آپ کے بال بچے اچھی طرح ہیں۔
نواب: ہاں اللہ کا شکر ہے۔ بال بچے کہاں۔ اب تو وہ ایک لڑکا ہی ہے۔
میں: ہاں وہ گود کی لڑکی تو کئی مہینے ہوئے، ہٹ گئی تھی۔ خبر نہیں کون کہتا تھا۔
نواب: گھر میں بہت تکلیف رہی، مر مر کر بچی ہیں۔
میں: میرا دل بہت کڑھا تھا۔ اب تو اچھی طرح ہیں۔
نواب: ہاں خدا کا فضل ہے۔ مگر کچھ نہ کچھ بیماری چلی جاتی ہے۔ اب بھی ان کی دوا لینے نکلا تھا کہ استاد جی پکڑ لائے۔ فرمائیے کیا حکم ہے۔
میں نے نسخہ لے کر پڑھا تو ۔۔۔۔۔ اور دو تین چیزوں سے معلوم ہوا کہ ورم ہے۔ نواب کی مصیبت اور لاچاری پر حد سے زیادہ ترس آیا اور میں نے اسی وقت دل سے دعا کی کہ اے غفور الرحیم تو اب اس کی خطا معاف کر دے اور اس پر اپنا رحم کر۔ استاد جی کو مجھے ٹالنا ضرور تھا میں نے کہا یہ نسخہ بھانا کے ہاں سے بندھوا کر نواب صاحب کے گھر پہنچا دو اور کہہ دینا کہ وہ کوئی گھنٹہ بھر میں آئیں گے اور آیتوں کو دکانوں کا کرایہ لیتے آنا۔ نواب نے جیب میں سے نکال کر استاد جی کو چونی دی۔ میں منع کرتی رہ گئی کہ استاد جی کے پاس پیسے ہیں۔ مگر وہ نہ مانے۔ جب استاد جی چلے گئے تو میں نے نوکر کو گوشت ترکاری کے لئے ٹال دیا اور ماما سے کہا کہ لڑکی کو لے جا کر پڑوسن کے ہاں بیٹھ جو میرے کپڑے سیتی ہیں میں آپ بلو لوں گی۔ وہ بھی رخصت ہوئی تو میں نے نواب صاحب سے کہا کہ تکلیف تو ہو گی مگر میں مجبور ہوں۔ مہربانی فرما کر کنڈی لگا دیجئیے۔ وہ بیچارے اٹھ کر کنڈی لگا آئے۔ مسعود پڑھنے جا ہی چکا تھا اب ایک حساب سے میں

ریختہ صفحہ 159
اور نواب بالکل اکیلے ہو گئے۔
مرزا صاحب اندر بیٹھے بیٹھے نواب کی نظر سے پوشیدہ اس سارے بھان متی کے تماشے کو دیکھ رہے ہیں اور حیرت میں ہیں اور میں بھی کچھ نہیں کہتی۔
یہ سب کچھ ہو چکا تو نواب کی اور میری دو دو باتیں ہوئیں۔
میں: نواب صاحب میں اس مکان میں ابھی دو تین مہینت اور رہوں گی۔ نہ بھی رہوں تو میرا اسباب تو ضرور رہے گا۔ مہربانی فرما کر بتا دیجئیے کہ کرایہ کیا ہو گا۔
نواب صاحب: (چونک کر) آپ کیا کہتی ہیں؟ کس کا مکان۔ کیسا کرایہ۔ خیر تو ہے! اب میں مذاق کے قابل نہیں رہا۔
میں (نہایت متانت سے) میں قسمیہ کہتی ہوں کہ مطلق مذاق نہیں ہے۔ میں نے آپ کو اس لئے بلایا ہے کہ اپنا مکان جس طرح آپ نے دیا تھا اسی کا اسی طرح موجود ہے۔ مجھے نہ اب اس میں رہنا ہے اور نہ اس سے کچھ سروکار ہے۔ ( پھر قبالہ چلمن میں سے باہر نکال کر) یہ کاغذات موجود ہیں جس طرح چاہے لکھت پڑہت کرا لیجئیے اور اپنی چیز سنبھالئیے۔
نواب صاحب: (قبالہ کو ہاتھ سے چلمن میں کر کے)" نہیں معلوم آپ کو کیا ہو گیا۔ میں نے کوئی مکان آپ کو قرض دیا تھا کہ آج پندرہ برس کے بعد دینے بیٹھی ہو۔ اور وہ تو تمہاری ملکیت ہو چکا۔ مجھے ذلیل کرتی ہو کہ اب تو جو بے گھر بے در ہو گیا ہے تو ہم تیرے ساتھ یہ سلوک کرتے ہیں۔ " اور یہ کہہ کر نواب آبدیدہ ہو گئے۔
میری بھی آواز بدل گئی اور ذرا سکوت کر کے میں نے کہا کہ نواب صاحب خدا کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ میں خدا نخواستہ تمہیں ذلیل نہیں کرتی۔ میں نے نکاح کرتے وقت یہ بھی عہد کیا تھا کہ اس مال و متاع میں سے جو میری ناچ گانے کی کمائی کا ہے ایک حبّہ بھی اپنے صرف میں نہ لاؤں گی۔ اب یا تو اسے لٹا دوں یا جہاں تک ہو سکے جس جس کا

ریختہ صفحہ 160
کا ہے اسے پہنچا دوں۔" مکان اور یہ زیور (ایک ڈبہ جس میں کوئی ڈیڑھ ہزار کا زیور تھا) آپ کا دیا ہوا ہے میں ہاتھ جوڑتی ہوں کہ آپ اپنا مال مجھ سے لے لیں۔ "
نواب: آپ نے جو کچھ کہا سچ ہے۔ مگر میں بھی تو اب نہیں لے سکتا۔ شرع میں کب جائز ہے۔ شائد آپ کو معلوم نہیں کہ میں بھی سب باتوں سے توبہ کر چکا ہوں بھلا یہ مال اب مجھے کیونکر جائز ہو سکتا ہے۔
میں: معاف کرنا۔ پہلی بے تکلفیوں کو یاد کر کے کہتی ہوں ۔ ہو ہمیشہ کے اوندھی مت کے۔ سیدھی بات کو اس قدر پیچ میں ڈالتے ہو۔ لو سنو۔ یہ مال تم نے مجھے کیوں دیا تھا بتاؤ؟
نواب: میں کیا بتاؤں ، ظاہر ہی ہے۔
میں: اچھا تو جس کام کے لئے دیا تھا، اس سے میں بھی تائب ہو گئی۔ اور تم بھی حلال حرام کے بانی مبانی۔ہم دونوں ہی تھے جب ہم الگ ہو گئے تو مال پہلے بھی حلال ہی کا تھا اب بھی حلال کا ہے۔ اب تمہیں لینے میں کیا عذر ہے۔
نواب: (پھر آواز بدل کر اور آبدیدہ ہو کر) آپ کی سب باتیں میری سمجھ میں آتی ہیں۔ مگر خدا کی قسم غیرت قبول نہیں کرتی۔ جو حال ہے دیکھ رہی ہو۔ مگر اب بھی دل یہی کہتا ہے کہ دو چار ہزار روپے ہوتے تو اور تمہیں دے دیتا۔
میں: مجھے اس بات کا بالکل یقین ہے اور میرے دل میں آپ کی ویسی ہی عزت و عظمت ہے جیسی پہلے تھی۔
نواب: تو مجھے تو اس سے معاف کرو۔ اور یہ کہہ کر اٹھنے لگے۔
میں: ( منت سے ذرا ٹہر کر) اچھا ایک بات بتاتے جاؤ۔ میں تمہیں کچھ نہیں دیتی(ڈبہ اور کاغذات اندر کر کے) شاید کل کلاں کو مجھے تم سے کام پڑے تو کیا سمجھ کر تمہیں تکلیف دوں اور دوں بھی یا نہیں۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 161
نواب: میں مرتے دم تک جس قابل ہوں تمہاری خدمت کو موجود ہوں۔
میں: یہ آپ کی عنایت ہے۔ مجھے ہمیشہ سے اس کا یقین ہے مگر میری بات کا جواب دو میں تمہیں کیا سمجھوں۔
نواب: سمجھو کیا ایک نوکر سمجھو۔
میں : اسی شخص کو نوکر سمجھوں جس کے لئے گھنٹوں روئی ہوں۔ جس کی محبت کی سزا میں اماں کی ماریں کھائی ہیں۔ نواب بیتاب ہو گئے اور بولے۔ کہ "اچھا تمہارا جو جی چاہے ، سمجھو۔ مجھے کوئی عذر نہیں ہے۔" میں نے یہ لفظ قسم کے ساتھ تین دفعہ ان سے کہلائے۔ پھر چلمن اٹھا کر باہر آ گئی۔ اور مرزا صاحب کو بھی باہر لے آئی۔ نواب ہک دھک رہ گئے اور نیچی نظر کر لی۔
میں : اچھا آج سے( مرزا صاحب کی طرف اشارہ کر کے) تمہارے بھائی ہیں اور میں بھابی۔ پھر مرزا صاحب کی طرف مخاطب ہو کر۔ لیجئیے یہ قبالہ اپنے بھتیجے کو دے آئیے اور یہ زیور بھاوج کو۔ نواب ہیں ہیں کرنے لگے مگر میں نے انھیں ڈانٹ بتائی کہ خبردار اب اس میں حیل و حجت کی تو مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا۔ وہ بھی خاموش ہو گئے اور دونوں چیزوں کو سنبھال کر مرزا صاحب چلنے کو بالکل تیار ہو گئے۔ نواب نیچی نظر کئے کھڑے تو ہو گئے مگر جاتے نہیں۔ ہائے شریف آدمی کی غیرت ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ مجھے یہی بن پڑا کہ اس وقت مسخرے پن میں بات ڈال دو میں بولی اب جاتے بھی ہو یا خود چل کر دروازے کے باہر کر دوں۔ اور کہو تو محلہ والوں کو اکٹھا کر لوں کہ دن دیہاڑے یہ میرے گھر میں گھس آئے۔ نواب صاحب اب یہ کسبی کا مکان نہیں ہے۔ انھوں نے بھی سوچ سمجھ کر ہنسی میں بات ڈال دی۔ اور یہ کہہ کر کہ اچھا صاحب گھر سے نکالتی ہو ہم خود چلے جاتے ہیں۔ دروازہ کا رُخ کیا۔ یہ دونوں باہر نکلے تو میں نے پھر کنڈی لگا لی اور اللہ کا شکر کیا کہ کام جیسا میں چاہتی تھی، ہو گیا ۔ تھوڑی دیر میں ماما لونڈیا کو لے کر آ گئی اور میں نے اس سے

ریختہ صفحہ 162
کہا کہ جا کر خورشید کو جس طرح بیٹھی ہو ابھی اپنے ساتھ لے آنا۔ ایک آدھ گھنٹے میں وہ آ موجود ہوئی اور میرے نکاح کر لینے پر تعجب کرنے لگی۔ جب وہ کئی فقرے کہہ چکی تو میں نے بھی زبان کھولی اور کہا کہ " دیورانی بیٹھو تو تمہارا بھی نکاح کروا دیں گے" دیورانی کے نام پر وہ چونکیں اور بولیں یہ کون سا رشتہ نکالا۔
میں: اے ہے بالکل ننھی بن گئیں۔ نواب تمہارے کون تھے،
خورشید: اور اپنی تو خبر لو۔ تمہارے کون تھے۔
میں: پہلے عاشق تھے، اب دیور ہیں۔ اور اس رشتہ سے تم دیورانی ہو۔ ایک اور طرح سے بھی دیورانی ہو جاؤ گی۔ اگر اللہ نے کر دیا تو۔
خورشید: اے ہے نکاح پڑھا کر بھی رنڈی پنا نہیں گیا۔اس مسخرے پن سے کیا فائدہ۔ بتاؤ کیوں بلایا ہے میر صاحب آتے ہوں گے، مجھے جلدی جانا ہے۔
میں: اللہ غنی۔ عہی میڑ صاحب جن کا ہم نے ملاپ کرایا تھا۔ اب انھیں کے سبب سے گھڑی بھر ہمارے پاس نہیں بیٹھتی۔
خورشید: اوئی باتیں نہ بناؤ ، کچھ کہو بھی۔
میں: دیکھ خورشید میں نے تجھے اس وقت بڑے ضروری کام کو بلایا ہے۔ اس لپ چخے پن کو تو چھوڑ دے اور میری بات کا جواب دے۔
خورشید: پوچھو گی بھی۔
میں:جب سے تو ہسپتال سے آئی ہے میر صاحب کا تیرے ساتھ کیا برتاؤ ہے۔
خورشید: بیچارے شریف آدمی ہیں۔ جس طرح ہوتا ہے، نبھائے جاتے ہیں۔ ان کے یار دوستوں نے انھیں چھیڑا بھی کہ نکٹی کو چاہتے ہو مگر انھوں نے کسی بات کا خیال نہیں کیا اور مجھ سے کئی دفعہ قسمیں کھا کر کہا کہ تجھے عمر بھر کو نہ چھوڑوں گا۔
میں: کہیں نوکر ہیں؟

ریختہ صفحہ 163
خورشید: ہاں دس روپے کی آبکاری میں جگہ مل گئی ہے۔ لشٹم پشٹم گزر ہوئے چلی جاتی ہے۔
میں: دیکھ خورشید اگر میر صاحب تجھ سے نکاح پڑھا لیں اور تم دونوں توبہ کر لو تو میں اپنی سرکی والوں کی دکانیں جس کا کرایہ آٹھ روپیہ مہینہ آتا ہے، تیرے نام کر دوں۔
خورشید: بوا ہوش کی بنو۔ پھر تم نے دل لگی شروع کر دی ہے۔
میںؒ اللی کی قسم سچ کہتی ہوں۔ پھر( نصیبن کے سر پر ہاتھ رکھ کر) اس سر کی قسم اب تو یقین آیا۔
خورشید : ہاں یقین آیا۔ مگر وہ نکاح تو کبھی نہ کریں گے۔ میری ان کی اس پر بہت جہت ہو چکی ہے۔ نکاح ہر گز نہ کریں گے۔ وہ مان بھی جائیں تو بھلا ان کے ماں باپ کب مانیں گے۔
میں: اگر وہ نکاح نہیں کرتے تو کیا اعتبار کل کو انھوں نے چھوڑ دیا تو کیا کرے گی۔
خورشید: بھیک مانگوں گی۔
میں: توبہ کر لے اور میرا کہا مانے تو یہ دکانیں موجود ہیں۔
خورشید: اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔
میں: لو بس اب سدھارو۔ پکی ہو تو تیسرے پہر کو یہاں آ جاؤ ، بس اب چل دو۔ ول ہم زیادہ بات نلہیں مانگتا۔ (انگریزوں کی سی آواز بنا کر)
خورشید کا جانا اور مرزا صاحب کا آنا میرا گمان تھا کہ شاید انھیں کوئی بات نا گوار گزری ہو۔ مگر انھوں نے آتے ہی مجھے کمرے میں لے جا کر گلے لگا لیا اور بہت پیار کیا۔ اللہ کا شکر کیا کہ اس نے ایسی فیاض بیوی دی اور کہا واقعی تم نے بڑا نیک کام کیا جو نواب کے ساتھ اس وقت میں یہ سلوک کیا اس کے بیوی بچوں پر بہت تنگی ہے۔ کسی مہاجن کے دو سو روپے چاہئیے تھے۔ہمارے سامنے ابھی قرنی آئی تھی۔ وہ تو میرے پاس کئی دن سے دو نوٹ لگے ہوئے تھے اسی وقت دے کر اُس آفت

ریختہ صفحہ 164
کو ٹالا۔ نواب نے اس نیک بخت کو میرے سامنے کر دیا۔ ہائے کس گھرانے کی لڑکی اور کس تکلیف میں۔ بیگم تمہیں اللہ اس کا بڑا اجر دے گا۔
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ تم بھی میری لہی سی طبیعت کی ہو۔ خدا تمہیں دہ در دنیا اور ستر در آخرت دے گا۔ نواب ہمیشہ کا بھولا اور بد نصیب ہے۔
مرزا صاحب: میں ان شاء اللہ ہمیشہ ان لوگوں کی مدد کرتا رہوں گا۔
اتنے میں گیارہ بجے کا عمل ہو گیا۔ مسعود بھی استاد جی کے ہاں سے آگیا اور سب نے کھانا کھایا۔ ماما نوکر اور استاد جی جب کھانے سے فارغ ہوئے تو میں نے انھیں کمرے میں بلایا اور پوچھا جو کچھ ہونا تھا وہ تو ہو چکا۔ اب بتاؤ تمہارا کیا ارادہ ہے۔ وہ رونے لگے کہ ارادہ کیا ہو گا۔ اس بڑھاپے میں اب کون پوچھے گا۔ میں تو یہی چاہتا تھا کہ مرزا صاحب کی جوتیوں میں پڑا رہوں۔
میں: مشکل تو یہ ہے کہ تمہارا ڈوم ڈھاریوں سے ملنا کیونکر چھوٹے گا۔
استاد جی: اب تو تم ان کے ساتھ جانے کو کہہ رہی ہو وہاں کون ہو گا۔ ایک کوٹھڑی دے دینا۔ وہیں پڑے پڑے اللہ اللہ کروں گا اور تمہاری جان و مال کو دعا دوں گا۔
میں: (تھوڑی دیر سکوت کرنےکے بعد)کچھ اللہ کا کام بھی کر سکتے ہو یا پڑے ہی رہنا چاہتے ہو۔
استاد جی: جو کہو حاضر ہوں۔ اب اس آخری وقت میں اگر خدا کے رستے کا کوئی کام بن پڑے تو اس سے کہا بہتر ہے۔
میں: پکّے ہو؟
استاد جی: بالکل پکّا ۔ مگر بتاؤ تو وہ کام کیا ہے۔
میں نے کہا جلدی کاہے کی ہے سب آگے آ جائے گا جاؤ ان منشی جی کو بلاؤ۔

ریختہ صفحہ 165
جو فتحپوری کے نیچے عرضیاں لکھا کرتے ہیں۔ اور رام پرشاد کو بھی جوہری بازار سے بلاتے لانا۔
استاد جی رخصت ہوئے تو میں نے مرزا صاحب سے اپنے ارادے کا حال بیان کیا اور ہم دونوں فوراً لباس بدل کر چلنے کو تیار ہو گئے۔ نوکر سے دو پالکی گاڑیاں منگائیں اتنے میں وہ لوگ بھی آ گئے اور میں مرزا صاحب ایک گاڑی میں اور استاد جی، منشی اور رام پرشاد ایک میں بیٹھے۔ انھوں نے پوچھا بھی کہ کیوں بلایا ہے۔ مگر ہم نے کچھ بھی نہ بتایا۔ اور کہا کہ ساتھ چلو۔ میری گاڑی کی جھلملیاں چڑھا دی گئیں۔ اور ہم سیدھے کشمیری دروازے روانہ ہوئے۔
سکندر صاحب کی کوٹھی کے سامنے جہاں اب بنگال بنک ہے ہماری گاڑیاں ٹہریں اور مرزا صاحب سیدھے اتر کر انگریز صاحب کے پاس گئے تھوڑی دیر بعد انگریز ، اس کا منیم (منیب) ایک بابو اور مرزا صاحب میری گاڑی کے پاس آئے اور انگریز نے مجھ سے کہا ول، ننھی جان عرف ننھی بیگم تمہارا ہی نام ہے یہ اصغر مرزا تمہارا شوہر ہے۔ ایک کاغذ دیکھ دیکھ کر۔
میں: حضور میرا ہی نام ہے اور یہ مرزا صاحب میری جان و مال کے مالک ہیں۔
انگریز: یہ بیس ہزار کا زیور اور اسباب اور دس ہزار کے بڑیوں کے کٹرے کے دو مکان تم بنک میں جمع کراتی ہو۔
میں:ہاں حضور میں جمع کراتی ہوں اور یہ رام پرشاد جوہری جن کی معرفت میری چیزیں بنا کرتی تھیں۔ اور یہ منشی جی جنھوں نے مکانوں کے قبالے لکھے، میرے گواہ ہیں۔
انگریز: ول، تم اس کل روپیہ کو خیراتی کام میں لگائے گا اور اپنے لئے کچھ نہیں مانگے گا۔
میں: حضور مجھے اپنے لئے کچھ درکار نہین۔
انگریز: ول۔ بتانا مانگتا ہے کہ کس خیراتی کام میں لگائے گا۔
میں: حضور یہ بات میں کچہری میں کہہ دوں گی۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 166
انگریز: نہیں یہاں بھی بتانا ہو گا۔
میں: حضور میں یہ چاہتی ہوں کہ اس روپے سے دو کام ہوں۔ ایک تو یہ کہ حرام کے بچے جو فاحشہ عورتیں بدنامی کے ڈر کے مارے دریا میں ڈال دیتی ہیں۔ یا کہیں ادھر ادھر پھینکوا دیتی ہیں۔ ان کا ایسا بندوبست ہو جائے کہ ان کی جان نہ جائے اور محتاج خانے میں ان کی پرورش کا خاص انتظام ہو جائے۔ شہر کے باہر ایک دو جگہ ایسا سامان ہو کہ جو بچہ وہاں آ جائے اس کی جان تلف نہ ہو۔ دوسری بات یہ چاہتی ہوں کی سرکاری شفا خانہ میہں ایک علیٰحدہ جگہ ایسی بن جائے جہاں مصیبت کی ماری بے نصیب غریب رنڈیاں جو گرمی کی بیماری میں مبتلا ہو کر بھنک بھنک کر جان دیتی ہیں۔ وہاں خاص طور پر ان کا علاج ہو جایا کرے۔ انگریز نے میری ہمت کی بہت تعریف کی اورب کہا کہ کمیٹی میں عرضی دو سب بندو بست ہو جائے گا۔ بنک کے آدمیوں نے فہرست تیار کی اور ہر چیز کا تخمینہ کر کے قیمت لگائی قبالہ دیکھ دیکھ کر مکانوں کے روپے اس میں جوڑے اور ہم یں رسید مل گئی۔ وہاں سکتّر نے بہت کچھ پوچھا ۔ کمیٹی میں ہماری باتوں پر خوب ہنسی ہوئی اور کوئی دو بجے ہم لوگ واپس آئے۔
منشی جی اور رام پرشاد کو شکریہ ادا کر کے رخصت کیا اور گھر میں قدم رکھا تو خورشید کو موجود پایا۔ میں نے اور مرزا صاحب نے ظہر کی نماز پڑھی اور پھر استاد جی اور خورشید کو سامنے بلا کر اس طرح گفتگو کی۔
میں: استاد جی یہ تم نے دیکھ ہی لیا کہ میں اپنے روپے کو کس طرح صرف کرنا چاہتی ہوں۔ اب اگر تم اور خورشید محتاج خانہ اور اسپتال کی خدمت اپنے ذمہ لو تو اللہ کے ہاں تو جو اجر ملے گا ملے ہی گا۔ عمر بھر کی روٹیوں کا بندوبست میں کئے دیتی ہوں۔ پندرہ روپے مہینہ کی جائداد اس کام کے لئے الگ کر دیتی ہوں۔ یہ منظور نہ ہو تو تم جانو تمہارا کام۔

ریختہ صفحہ 167
خورشید: کیسا اسپتال؟
میں: ذرا صبر کرو پہلے استاد جی کی بات سن لینے دو۔
استاد جی: اب میں محتاج خانہ میں حرام کے بچوں کو پالا کروں گا؟
میں: استاد جی شرم نہیں آتی۔ کیوں میری زبان کھلوات ہو ۔ رنڈی کو عمر بھر بیٹی بنانا اور پھر مشٹنڈوں سے اسے ملوانا تو اچھا کام ہے اور یہ بُرا۔
استاد جی: اس سے تو مجھے اسپتال میں چھوڑو تو بات چیت کا سہارا تو ہو گا۔
میں: ہائے استاد جی علت دھوئے دھائے جائے، عادت کبھی نہ جائے جانتے ہو وہاں جو عورتیں آئیں گی ان سے کچھ نہ کچھ تو دل بہلے گا۔
استاد جی: اچھا مجھے منظور ہے۔
پھر میں نے محتاج خانہ اور اسپتال کے معمہ کو اچھی طرح خورشید سے بیان کیا اور وہ بچوں کی خدمت پر بالکل راضی ہو گئی مگر کہا کہ چنے خاں میرے دم کے ساتھ رہیں گے۔ میں نے منظور کیا اور ان لوگوں کے لئے خاص خاص شرطوں پر جس سے ہر بات بعد میں بھی اپنے اختیار میں رہے روٹی کپڑے کا انتظام کر دیا۔ آیندہ پندرہ دن میں ہر بات کی لکھت پڑھت قاعدے کے موافق ہو گئی۔
پلنگ، مسہریاں میز کرسی لیمپ دریاں غرض ضروریات کی ہر چیز اسپتال میں اور محتاج خانہ میں بھیج دی گئی اور جس دن مرزا صاحب کے نوکری پر جانے کا دن آیا تو میں نصیبن کا ہاتھ پکڑ کر جس کا نام اب جمیلہ رکھا گیا تھا۔ اور اجڑے ہوئے مکان پر ایک اطمینان کی نظر ڈال کر کہ اللہ تیرا شکر ہے کہ سب خرخشوں سے تو نے پاک کیا ڈولی میں سوار ہو گئی۔ ماما اور نوکر کو میں نے اچھی طرح دے دلا کر رخصت کر دیا۔ وہ تو ساتھ رہنا چاہتے تھے مگر مرزا صاحب نے مناسب نہ سمجھا کیونکہ ان لوگوں کی عادتیں رنڈی کے ہاں رہنے کے سبب پھر بھی بہت قابلِ اعتراض تھیں۔

ریختہ صفحہ 168
جو دوسو روپے مرزا صاحب کے پاس تھے وہ تو نواب کی قرقی بچوانے میں دے دئیے تھے میں نے گھر سے تار تک نہ لیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم گڑگانوہ میں عجب شان سے پہنچے۔ ہاتھ گلا تو درکنار کپڑا لتّا بھی ٹھیک ٹھیک نہیں۔ مگر میں دل سے خدا کا شکر ادا کرتی تھی اور اس بے سروسامانی میں بھی ایک طرح کی کیفیت آتی تھی۔ مسعد اور جمیلہ کو اپنی جائداد کا عوض سمجھتی تھی۔ اور انھیں کھیلتا ہوا دیکھ کر دل باغ باغ ہوتا تھا۔ مرزا صاحب کت دوستوں کو پہلے ہیہ خبر ہو گئی تھی کہ رنڈی سے نکاح کر لیا ہے۔ مگر یہ بھی ساتھ ہی سن لیا تھا کہ اُس نے حرام کے مال میں سے ایک حبّہ ساتھ نہیںلیا۔ اس لئے ان سب کی ہمدردی ہمارے ساتھ انتہا درجہ کی بڑھی ہوئی تھی اور وہ لوگ درپردہ خواہش مند تھے کہ یہ کسی صورت سے ہمارے گھروں میں آئے۔ اور ایکم آدھ نے بلایا بھی۔ مگر میں نے اپنے نہتے پنے کو دیکھ کر طرح دے دی۔
باہر مرزا صاحب کا پرانا نوکر تھا اور اندر وہیں کی ایک ماما رکھ لی تھی۔ اور ہم سب انتہا درجہ کی پاکیزہ زندگی گزارنے لگے۔
ڈپٹی کمشنر کا دورہ پر جانا کوئی پندرہ بیس روز کو ملتوی ہو گیا اور مجھے اس سے یہ فائدہ ہوا کہ گھر کو درست کرنے کو موقع مل گیا۔ ہمیں اس نئے طرز کی زندگی بسر کرتے ہوئے کوئی آٹھ دن ہوئے ہوں گے۔ کہ ایک دن شام کو مرزا صاحب کچہری سے جو آئے تو نہایت مخموم نہ بات کرتے ہیں نہ چیت، منہ اوندھا کر کے پڑ رہے میں بھی پریشان ہو گئی۔ ان کے پاس آ کر بیٹھ گئی اور ہمدردی سے پوچھا تو بڑی مشکل سے انھوں نے بتایا کہ صاحب بہادر سے کسی نے خبر نہیں کیا لگا دیا ہے ۔ وہ آج کہتے تھے کہ اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ تم ایسا بدچکن آدمی ہے تو کبھی ترقّی نہ دیتا اور کل صبح کو کوٹھی پر حاضر ہونے کا حکم دیا ہے۔ یہ سُن کر میری جان نکل گئی کہ دیکھئیے اب کیا ہوتا ہے۔ مگر پھر اللہ پر بھروسہ کیا اور دل میں کہا کہ

ریختہ صفحہ 169
اس میں بھی وہ ضرور کچھ نہ کچھ بہتر ہی کرے گا۔ دوسرے ہی دن تنخواہ ملنے کا دن تھا۔اور میں پہلے سے خوشی منا رہی تھی کہ پہلے پہل بیوی بن کر تنخواہ ہاتھ میں لوں گی۔ اُس پر جو یہ پریشانی کی بات سنی دل اڑنے لگا۔ مگر میں نے مرزا صاحب کو تسلی دی اور کہا کہ گھبراؤ نہیں اللہ پر بھروسہ رکھو۔ ہمارے حق میں وہ ضرور بہتری کرے گا۔ ہم دونوں نے نہ شام کو اچھی طرح کھانا کھایا اور نہ رات کو نیند بھر سوئے۔ مجھے رات بھر دل میں دعا مانگتے گزری کہ یا اللہ عزت و آبرو تیرے ہاتھ ہے۔ کہیں وہی نہ ہو کہ الٰہی جان کے میاں کی طرح ان کا بھی تنزل ہو جائے ۔ مجھے خوب یاد ہے کہ بارہ بجے کے قریب جب میں ضرورتاً اٹھی تو مجھ سے رہا نہ گیا ۔ میں نے کُلّی کر کے انگنائی میں کھڑے ہو کر اور قبلہ کی طرف منہ کر کے خوب گڑگڑا دعا مانگی۔ آنسوؤں کی لڑی بندھ گئی اور جب میں دعا مانگ کر اندر دالان میں آئی تو سردی کے مارے کانپ رہی تھی۔ مرزا صاحب نے کروٹ بدلی اور پوچھا کیا کر رہی تھیں۔ تم تو بڑی دیر کی اٹھی ہوئی ہو۔،مگر میں نے ٹال دیا۔ صبح کو دھکڑ پکڑ کرتے ہوئے بہت مودب لباس پہن کر وہ صاحب کی کوٹھی پر گئے اور جتنی دیر نہ آئے جو میرے دل کا حال ہوا اللہ پر خوب روشن ہے۔ دس بجے کے قریب وہ آئے تو میری آنکھیں دروازے کو لگی ہوئی تھیں اور بیسیوں منتّیں مان رکھی تھیں۔ قدم دھرتے ہی میں نے ان کے منہ کو دیکھا اور شکر ہے خدا کا کہ انھیں بشاش پایا۔ اتنے میں انھوں نے چغہ اتارا اتنے میں ان کے پاس کھڑی رہی ۔ دل بیتاب تھا کہ ذرا دم لے لیں تو پوچھوں۔ بارے مجھے اس حالت میں دیکھ کر خود انھوں نے کہا کہ ان شاء اللہ فتح ہے۔ اس سے میری جان میں جان آئی اور پھر انھوں نے دم لیکر اس طرح مفصل بیان کیا۔
میں نے سلام کیا تو صاحب نے سلام نہ لیا اور کہا ، ول ہم نے تمہیں اس لئے بلایا ہے کہ تم یہ کس عورت کا لایا ہے ہم نے سُنا ہے کہ یہ رنڈی ہے

ریختہ صفحہ 170
میں: حضور میری جان و مال کے مالک ہیں۔ حضور سے ایک حرف نہیں چھپاؤں گا۔
صاحب: تو سچ بتلاؤ یہ عورت کون ہے۔ اور تمہارے ساتھ کیوں آئی ہے۔
میں : حضور یہ دراصل رنڈی تھی۔ اس نے برے کاموں سے توبہ کر لی ہے۔ اور اپنا سارا مال و متاع محتاج خانہ اور اسپتال میں دے دیا ہے۔ میں نے اس سے نکاح کر لیا ہے۔ اور اللہ کے بھروسے اور حضور کی پرورش کے سہارے یہاں لے آیا ہوں۔
اس پر صاحب نے بڑی دیر سکوت کیا پھر کہا ہم آج ہی صاحب ڈپٹی کمشنر دہلی کو چٹھی لکھتے ہیں اگر جیسا تم بولتے ہو صحیح ہوا تو ہم تم کو نہال کر دیں گے ورنہ بہت سزا دیں گے۔
اس قدر سنتے ہی میں نے بیتاب ہو کر ماما کو آواز دی اور نوکر سے حضرت بیوی کی پڑیا بابا فرید کی شکر بڑے پیر کی نیاز کی مٹھائی اور جو جو منتّیں مانی تھیں منگانے کو کہا۔ ہم دونوں نے اللہ کا شکر کیاا ور خوشی خوشی کھانا کھایا۔ شام کو تنخواہ آئی تو میں نے اول شکرانے کے نفل پڑھے پھر روپے گن کر صندوقچہ میں رکھے مرزا صاحب کی صلاح سے دس پندرہ ملانے کھلائے اور نذر و نیاز کا حساب کر کے ٹہرایا کہ کل ان شاء اللہ کر دیں گے۔ اور نہایت اطمینان سے کھانا وانا کھا کر بات بات میں خدا کا شکر کرتے ہوئے سو رہے۔
صبح سے میں پکوانے کے اہتمام میں لگی بلکہ خود بھی پکایا اور جس جس طرح سوچا تھا اللہ کے فضل سے پورا کیا۔
ان باتوں کو آٹھ دن گزرے ہوں گے کہ ایک روز کچہری سے مرزا صاحب کا جلدی میں لکھا ہوا یہ رقعہ آیا ٹھیک چار بجے میم صاحب تم سے ملنے آئیں گی۔ مکان میں اچھی طرح صفائی ہونی چاہئیے۔ مکان میں بے صفائی کی چیز ہی کیا تھی ۔ دوسرے مجھے ہر وقت اس بات کا خبط رہتا تھا کہ ہر چیز آئینہ بنی رہے۔ پھر بھی چاندنیاں بدلوائیں
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 171
میز کرسی وغیرہ صاف کروائی اور خود بھی صاف ستھرے کپڑے پہن کر بیٹھ گئی۔ دل دہکڑ دہکڑ کرتا تھا کہ یا اللہ یہ کوں آتی ہیں۔ دیکھئے کیا کیا پوچھیں۔ پھر صاحب سے کیا کای کہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو مجھ سے ناخوش ہو کر صاحب کو بھڑکا دیں اور وہ مرزا صاحب سے ناراض ہوں۔ کبھی دل ہی دل میں دعا مانگتی تھی کہ یا اللہ اس مشکل کو آسان کر۔ تجھ میں سب قدرت ہے۔ غرض میں ان خیالات میں غلطاں پیچاں تھی اور جمیلہ اور مسعود بھی کچھ ڈرے ہوئے کچھ خوش خوش الگ بیٹھے تھے کہ مرزا صاحب کے آنے کی آواز آئی۔ اور انھوں نے جلدی سے ایک قدم رکھ کر یہ کہا کہ میم صاحب تشریف لاتی ہیں۔ پردہ اٹھا اٹھا کر آگے آگے وہ پیچھے پیچھے مرزا صاحب مکان میں داخل ہوئے۔ میں نے صحن میں آکر استقبال کیا۔ میم ساحب نے ہاتھ ملایا مزاج پوچھا اور پھر ہم سب اندر ا کر کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ مرزا صاحب نے چاہا بھی کہ کھڑے رہیں مگر میم ساحب نے نہ مانا اور وہ بھی بیٹھ گئے۔ میم صاحب بے اولاد تھیں۔ اس لئے بیٹھتے ہی بچوں کو پوچھا
میم ساحب: یہ لڑکی آپ کا ہے؟ بوت اچھا والا ہے۔ مسعود کو تو ہم جانتا ہے یہ ناٹی ہے۔
میں: یہ حضور کی کنیز ہے۔
میم صاحب: ( مرزا صاحب سے) کنیز کسے بولتا ہے
مرزا صاحب: لونڈی کو کہتے ہیں۔ حضور ہمارے ہاں اس طرح بڑوں کے سامنے کہنے کا قاعدہ ہے۔
میم صاحب: نہین کنیز نہیں یہ تو ملکہ کا مافک معلوم ہوتا ہے۔
میں: حضور نے جتنے قدم رکھے میرے سر آنکھوں پر رکھے۔ میرے ایسے کہاں نصیب کہ اپ تشریف لائیں ، میم مصاحب کو ان فقروں کا لطف تو کیا خاک آتا مگر مرزا صاحب کے سمجھانے سے سمجھ گئیں بہت ہنسیں اور بولیں" ہم تمہارا شکر گزار ہے کہ تم نے ہم سے ملاقات کیا تم بوت بڑا عورت ہے"
اس آخری فقرہ کا مطلب میں نہ سمجھی مگر کسر نفسی کے الفاظ نہایت ادب سے عرض کئے
میم صاحب: آپ نے سارا روپیہ خیراتی کام میں دے دیا؟ ولایت میں ایسا عورت بوت

ریختہ صفحہ 173
اچھا سمجھا جاتا ہے۔ ہم اپ اک تصویر اپنا بہن کے پاس ولایت بھیجنا مانگتا ہے۔
میں : حضور کی قدر دانی ہے۔ میں کس لائق ہوں۔
میم صاحب: آپ اپنا تصویر دینا سکتا ہے۔ مہربانی ہے۔
میں: یہ کہتی ہی تھی کہ حضور میرے پاس کوئی تصویر نہیں ہے میں نےسب علیٰحدہ کر دیں کہ مرزا صاحب فوراً اٹھے میز پر اپنا صندوقچہ کھولا اور میری کسی ٓزمانے کی تصویر جس میں مَیں پشواز پہنے ہوئے سر سے پاؤں تک زیور سے لدی ہوئی بالکل سبز پری بنی کھڑی تھی نکال لائے اور میم صاحب کے ہاتھ میں دے دی۔ مجھے خبر بھی نہیں تھی کہ مرزا صاحب نے یہ تصویر کب اور کس طرح حاصل کی۔
میم صاحب: (تصویر سے مجھے مقابلہ کر کے) آپ نواب اور طرح کا کپڑا پہنتا ہے اور زیور بھی نہیں پہنتا۔ میں نے تو نیچی نظر کر لی مگر مرزا صاھب نے نہایت خوبی کے ساتھ ادب سے عرض کیا کہ حضور یہ لباس خاص وقتوں کے پہننے کا ہے اور اسی وقت تک پہنا جاتا ہے۔جب تک انھوں نے (میری طرف اشارہ کر کے) اپنی زندگی میں یہ مبارک تبدیلی نہیں کی تھی ۔ اور حضور یہ کل زیور خیراتی کام میں دے دیا۔ ؐیم صاحب چونک کر بولیں کہ اچھا اب ہم سمجھا یہ کپڑا گھر میں نہیں پہنا جاتا۔ پھر مجھ سے مخاطب ہو کر" آپ اب زیور پہننا نہیں مانگتا"
میں: کوئی عورت بھی ایسی ہے جو زیور پر جان نہیہں دیتی ( مرزا صاحب کی طرف اشارہ کر کے) اللہ ان کے دم کو سلامت رکھےان کی کمائی کا اللہ دے گا تو بہتیرا پہنوں گی۔
میم صاحب: دیکھو آج ڈپٹی کمشنر کا چٹھی ہمارے صاحب کے پاس آیا ہےوہ تمہارا بوت تعریف لکھا ہمارا صاحب اصغر مرزا سے بوت خوش ہوا۔ وہ بولتا تھا کہ ہم اس کو جلدی ڈپٹی کرا دے گا۔ پھر ہم کو بولا کہ تم ان سے ملاقات کرو اور ہمیشہ یہ خیال رکھو کہ ان کو کسی طرح کی تکلیف نہ ہو۔ اس لئے ہم یہاں آیا ، اب ہمارا خوشی ہے کہ تم میریج پریزنٹ

ریختہ صفحہ 173
(شادی کا ہدیہ )سمجھو ہماری طرف سے اس کا (نوٹ نکال کر اور میرے سامنے پیش کر کے) زیور بنواؤ۔ آپ کو یہ ضرور منضور کرنا ہو گا۔ دیکھو ہم تمہارے گھر آیا ہے۔
میں نے بہتیرا کسر نفسی عجز اور انکار ظاہر کیا مگر وہ کب مانتی تھیں مرزا صاحب بھی مجبور ہو گئے اور میں نے کھڑے مئودب سلام کیا میم صاحب بھی کھڑی ہو گئیں اور پھر آنے کا وعدہ کر کے ہاتھ ملا کر رخصت ہوئیں۔ میں یہ سمجھی تھی کہ بہت سے بہت کوئی سو روپیہ کا نوٹ ہو گا مگر میم صاحب کے جاتے ہی جو کھولا تو پانچسو کا نکلا۔میں نے ان کی عالی ہمتی پر دل میں آفریں کہی اور اللہ کا شکر کیا ۔ گاڑی تک میم صاحب کو پہنچا کر مرزا صاحب آئے تو پہلی بات یہ پوچھی کی کتنے کا نوٹ ہے۔ میں نے دیکھنے کے لئے منہ بنا کر کہا بیس روپیہ کا ہے۔ وہ بھی ادا سہو گئے مگر کہنے لگے کہ یہ اللہ کا بڑا شکر ہے کہ صاحب بہادر کا دل صاف ہو گیا بلکہ میری ترقی کرنے کی نیت کر لی۔ میں نے جھٹ سے نوٹ کھول کر ان کے آگے رکھ دیا پانچسو روپیہ دیکھ کر تو وہ بھی اچھل پڑے ۔ پھر مجھے مبارکباد دی اور کہا کہ کل ہی اس کا کچھ بننے کو دے دینا چاہئیے۔
ڈیڑھ برس ہمیں یہاں خوب چین سے گزرا دہلی میں محتاج خانے اور اسپتال میں میرے نام سے وارڈ قائم ہو گئے۔ سرکار سے خوشنودی کا پروانہ آیا۔ خورشید اور چنے خاں بیچارے پیٹ کے مارے محتاج خانہ میں میری ہدایت کے موافق رہنے لگے۔ ادہر ہمارے استاد جی نے بھی مرتا کیا نہ کرتا اسپتال میں چھاؤنی چھائی۔ میں کئی دفعہ دہلی جا جا کر سب انتظام دیکھ دیکھ آئی اور جب ضرورت ہوئی منتظموں کو مشورہ دے دے آئی۔ گڑگانوہ میں رفتہ رفتہ معزز اہلکاروں اور رئیسوں کے گھر میں بھی آمد و رفت ہو گئی اور میں نہایت خوش و خرم رہنے لگی۔ گھر کا انتظام اس سلیقہ سے میں نے کیا کہ پچاس روپے ماہوار سارے خرچ اٹھا کر کورا بچنے لگا سال ڈیڑھ سال میں میرے پاس گہنا پاتا بھی تھوڑا بہت ہو گیا اور کپڑے لتّے بھی۔ ضروری ضروری چیزیں سب تیار ہو گئیں۔ سال بھر کے بعد مرزا صاحب بھی مستقل سرشتہ دار ہو گئے اور ہم لوگ دن رات اللہ کا شکر کیا کرتے تھے۔ اور آپس میں خوب محبت سے رہتے سہتے تھے۔

ریختہ صفحہ 174
جیسا میں نے ابھی کہا کہ یہ کیفیت ڈیڑھ سال رہی ہو گی کہ صاحب بہادر نے ولایت کی تیاری کی اور کچھ ایسی افتاد پڑی کہ ڈاکٹر کا سارٹیفکیٹ لے کر آٹھ ہی دن میں روانہ ہوئے۔ چلتے وقت میؐ صاحب مجھ سے ملنے آئیں سو سو روپے کے نوٹ دونوں بچوں کو دئیے اور بڑی محبت سے مل کر رخصت ہوئیں۔ چلنے سے پہلے صاحب بہادر نے مرزا صاحب کی رپورٹ ڈپٹہ گری کے لئے بہت زور کے ساتھ کر دی اور ہم لوگ دن رات اس انتظار میں رہنے لگے کہ اب حکم آیا اب حکم آیا۔
یہ لکھنا بھول گئی کہ میرے دہلی سے آنے کے دو تین مہینہ بعد خورشید کے میر صاحب کا میرے پاس خط آیا کہ آپ نے مجھے میرے قصور سے بڑی سزا دی میں بے شک آپ کا خطا وار ہوں کہ اپنے مطلب کے لئے نواب کو خورشید پر مائل کیا تھا مگر جہاں آپ نے توبہ کر کے یہ نیک زندگی شروع کی تھی وہاں اگر میرا قصور بھی معاف کر دیتیں اور خورشید کو مجھ سے اس طرح الگ نہ کر دیتیں تو خدا کے ہاں بڑا اجر ملتا۔ میر صاحب نے یہ بھی لکھا کہ خورشید نے آپ کے فرمانے کے مطابق نکاح کے بارہ میں مجھ سے کہا تھا مگر بہت سی وجوہ سے میں قبول نہ کر سکا بہرحال یہ کبھی ارادہ نہ تھا کہ اس کو اس تکلیف اور مصیبت میں دغا دوں گا۔ اب وہ مجھ سے ایسی جدا ہو گئی کہ ملنا ہی محال ہے۔ خبر نہیں کہ آپ کا کیا اثر پرا کہ میرا نام بھی نہیں لیتی اور دن رات بچوں کے کام میں لگی رہتی ہے۔ دو ایک دفعہ بہانہ سے وہاں گیا بھی اور اسے معلوم بھی ہو گیا مگر اس نے رُخ ہی نہ کیا۔ اب بتاؤ میں کیا کروں۔ اگر وہ اس حالت میں خوش ہے اور مجھ سے ملنے کی پرواہ نہیں تو میں اپنے دل پر جبر کر لوں گا اور کبھی اسے کسی قسم کی تکلیف نہ دوں گا۔ مگر اس مضمون کو ختم کرنے سے پہلے یہ دل چاہتا ہے کہ اپ میرے قصور کو دل سے معاف کر دیں ۔ خدا کا واسطہ دے کر آپ سے معافی مانگتا ہوں۔ فقط
اس کے جواب میں مَیں نے میر صاحب کو بہت معقول الفاظ میں یقین دلایا کہ میں نے اپنے دل میں سے رنجش نکال دی ہے۔ جب ان باتوں ہی پر لعنت بھیج دی ہے تو ان کی

ریختہ صفحہ 175
مسرتوں اور رنجشوں کو بھی سلام کیا۔ میں نے یہ بھی لکھا کہ اب للہ آپ خورشید کا پیچھا نہ کیجئیے۔ وہ جس حال میں ہے ان شاء اللہ خوش رہے گی، مگر آپ نکاح پر مائل ہوں گے تو میں تم دونوں کو خدا اور رسول کے حکم کے موافق ملانے میں ہر طرح کی کوشش کروں گی۔ اس خط کا کچھ جواب نہ آیا۔ ایک دفعہ میں دہلی گئی تو خورشید سے معلوم ہوا کہ میر صاحب ایک دو دفعہ کسی بہانے سے آئے تھے مگر پھر نہ آئے۔اس جملہ معترضہ کو تو جانے دیجئیے اور اصل بات سنئیے۔ ہمارے صاحب کی جگہ امرتسر سے انگریز آیا اس کی صادق علی سے جو وہاں تحصیلدار تھے بہت موافقت آ گئی تھی۔ کون صادق علی تحصیلدار وہی ڈپٹی صاحب جو ابتدا میں میرے کیسے بڑے صدمے کا باعث ہوئے تھے۔ وہی ڈپٹی صاحب جو درگیا کو چاہتے تھے اور جن کے ساتھ درگیا امرتسر میں تھی۔ہاں تو آتے ہی اس نے انگریز کو چٹھی چپاٹی بھیج کر صادق علی کو گڑگانوہ بدلوا دیا اور کوئی پندرہ بیس روز میں وہ آ گئے۔ انھیں اس بات کا خار تو تھا کہ میں نے مرزا صاحب سے نکاح کر لیا کیونکہ اول میں انھوں نے مرزا صاحب کو ایک خط بڑی جلی کٹی باتیں لکھی تھیں مگر جب سے یہ سنا تھا کہ مرزا صاحب کو کچھ مال نہیں ملا ذرا ٹھنڈے ہو گئے تھے۔ گڑگانوہ آئے تو بھلا سوائے ہمارے مکان کے اور کہاں ٹہر سکتے تھے۔ مرزا صاحب ان سے بڑے تپاک سے ملے اور پرانی ملاقات گویا از سر نو تازہ ہو گئی۔ یہ سرشتہ دار و تحصیلدار ماشاء اللہ دونوں معزز اہلکار ہر قسم کی آسائش ہر وقت موجود ، دن عید رات شب برات گذرنےلگی۔ میرا ان کا پردہ صرف نام کا تھا اندر کھانا کھانے آتے تھے میں چلمن کے اندر ہوتی تھی۔مرزا صاحب کی اور ان کی بیسیوں ہنسی مذاق کی باتیں میرے متعلق ہوتی تھیں۔ کہیں کہیں میں بھی بول اٹھتی تھی۔ اور عجب لطف رہتا تھا۔ جمیلہ کو وہ حد سے زیادہ پیار کرتے تھے۔ اس کا سبق بڑے شوق سے سنا کرتے تھے اور طرح بطرح کی مٹھائیاں اسے کھلاتے تھے۔ باوجود ان سب باتوں کے ڈپٹی صاحب کے مزاج کا اوچھا پن مجھے صاف کھٹک جاتا ۔ مرزا صاحب کی عدم موجودگی میں ایک آدھ دفعہ انھوں نے مجھ سے ایسا مذاق بھی کیا جس سے مجھے ثابت ہو گیا کہ جس دل سے میں نے توبہ کر کے نکاح کیا ہے۔ اور جو عہد دل میں کئے ہیں ان کا یقین اچھی طرح
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 176
ڈپٹی صاحب کو نہیں آیا۔ اور یہ اب بھی سمجھتے ہیں کہ کسی تدبیر سے مکیرے ارادہ میں لغزش آ سکتی ہے۔ مجھے یہ بات بہت ناگوار گزری۔ مگر جیسے بھی دل کڑا کر کے ان سے کہہ دیا کہ آپ ناحق مجھ سے اس قسم کا مذاق کرت ہیں ۔ میں تو آپ کو بنزلہ بھائی کے سمجھتی ہوں۔ وہ کٹ گئے اور پھر کبھی مجھ سے اس قسم کا مذاق نہیں کیا۔ قریب مہینہ بھر کے وہ ہمارے گھر میں رہے۔ پھر قریب ہی ایک مکان لے لیا اور رفتہ رفتہ درگیا کو بھی بلا لیا۔ اس میں مکیرا کیا حرج تھا۔ جو آگ کھائے گا آپ انگارے ہگے گا۔ مگر یہ بات واقعی مجھے ناگوار گزرنی شروع ہوئی کہ درگیا کے آنے کے بعد مرزا صاحب کی نشست غیر وقتوں میں ڈپٹی صاحب کے ہاں زیادہ ہونے لگی۔ رات کے بارہ بارہ بجے وہ آنے لگے۔ ایک آدھ بار پوچھا تو کہا کہ ڈپٹی صاحب باجا بجانے لگے تھے اور درگیا قوالی گانے لگی تھی۔ اس میں تہر گیا تھا۔ کئی دفعہ تو میں چپکی ہو رہی۔ مگر ایک دفعہ ذرا بے رخی سے میں نے کہا کہ قوالی کا شوق ہے تو خیر باجا منگا لیجئے میں ہی سنا دیا کروں گی۔ ہر چند میں نے سب چیز کا عہد کر لیا ہے مگر آپ کو سنا دیا کروں گی۔ اس سے پہلے میں کبھی شب کو ہلکے سروں میں بغیر مضامیر کے مرزا صاحب کو کچھ سنا دیا کرتی تھی اور وہ خش بھی ہو جایا کرتے تھے۔ مگر درگیا کے آنے کے بعد انھیں میری مطلق پرواہ نہ رہی اور مجھے گھر کی مرغی دال برابر سمجھ لیا۔ کیسا باجا منگانا اور کیسا میرا گانا سننا۔ مرزا صاحب نے میرے کہنے سننے منت سماجت اور پھر دھمکانے تک کو اس کان سنا اس کان نکال دیا۔ صحبت کا اثر برا ہوتا ہے رفتہ رفتہ مرزا صاحب میری طرف سے بالکل بے توجہ ہو گئے اور دن رات ڈپٹی صاحب کے ساتھ ان کے جلسوں میں رہنے لگے۔ اب میں ہوں کہ سلگتی ہوں جلتی ہوں مگر کچھ نہیں کر سکتی۔ یہاں تک نوبت آ گئی کہ مرزا صاحب ناچوں میں ڈپٹی صاحب کے ساتھ بغیر میری اطلاع کے غائب رہنے لگے۔ میں بھنتی تھی کہ یکدم ایسے پلٹ گئے۔ بیسیوں تدبیریں کرتی تھی گھر کو ہر طرح دل بستگی کے قابل بناتی تھی خود اطاعت کا کوئی دقیقہ باقی نہ چھوڑتی تھی مگر ان کی یہ کیفیت کہ کچہری سے آئے چغہ اور عمامہ اتارا اور چل ڈپٹی صاحب کے ہاں۔ ایسے ہی نیکی کے دموں میں ہوئے تو کھانا کھانے آ گئے ورنہ وہیں کھا لیا یا منگوا لیا۔ دو مہینہ کے قریب یہی حال رہا اور مجھے جلتے جلتے حرارت شروع ہو گئی۔ ایک دن میں اپنی بے بسی پر رونے لگی۔ اور

ریختہ صفحہ 177
اس دن مجھے خیال آیا کہ ابھی میں نکل جاؤں تو ان کی ساری شیخی کرکری ہو جائے۔ مکیرا کر ہی کیا سکتے ہیں۔ میں اگر برا کام نہ بھی کروں تو گا بجا کر ہی سب کچھ پیدا کر سکتی ہوں۔ نکلنے کی کئی تدبیریں سوچیں جس میں سب سے بڑی یہ تھی کہ ابھی نواب کو خط لکھ دوں وہ فوراً بندوبست کر دے خود چادر اوڑھ کر رات کو ریل پر چلی جاؤں اور خبر نہیں کیا کیا باتیں دل میں ائیں۔ مگر پھر دل نے کہا کہ واہ وہی رنڈی کی رنڈی رہی معلوم ہوا کہ کوئی دل کو سمجھاتا ہے کہ کیا صرف اس سہارے پر توبہ کی تھی کہ عمر بھر مرزا صاحب ٹھیک رہیں گے۔ تو تو کہتی تھی کہ میں سب طرح کی مصیبت جھیل لوں گی بس یہی توبہ تھی؟ میں اس خیال سے ڈر گئی لاحول بھیجی اور ڈری ڈری عشاء کی نماز پڑھنے اٹھی کہ مرزا صاحب آ گئے۔ میں نے دیکھا بھی نہیں اور وضو چوکی کی طرف بڑھنے لگی کہ انھوں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ دیکھو تو میں آج کیسے سویرے آ گیا۔ میں نے ہاتھ چھڑا کر کہا کہ اب نماز بھی پڑھنے دو گے! سویرے کیا آ گئے درگیا ہی نے نکال دیا ہو گا۔ مرزا صاحب کو یہ بات سخت ناگوار ہوئی خفگی کی آواز سے کہا کیا کہا۔ میں ڈر گئی مگر آخر مرتا کیا نہ کرتا لوٹ آئی اور کہا کہ سنو مرزا صاحب یہ ڈانٹ کسی اور کو بتانا ۔ آپ نے بہت سر پر رستہ لیا ہے۔ اگر کل سے آپ ڈپٹی صاحب کے مکان پر گئے تو میں اپنی جان کھو دوں گی۔
مرزا صاحب: تو کیا میں چوڑیاں پہن کر گھر میں بیٹھ جاؤں؟
میں: مجھ سے یہی وعدہ تھا خدا کے غضب سے ڈرو۔ کیوں ایسے بے آپے ہوئے جاتے ہو۔
مرزا صاحب: تم میری طرف سے بدگمان ہو گئی ہو۔
میں: (بات کاٹ کر) مطلق نہیں۔ مگر ان باتوں کا انجام کیا ہو گا۔ میں تو اس امید میں تھی کہ تم ڈپٹی صاحب کو بھی سنبھال لو گے مگر دیکھتی ہوں کہ ان ہی کا رنگ تم پر چڑھا جاتا ہے۔ اتنا کہہ کر میرے دل میں مصیبت اور مایوسی کے خیالات ایسے بے طرح آئے کہ میری آواز بدل گئی۔ ایک دفعہ تو میرے منہ سے نکلا کہ یا اللہ میں کس مصیبت میں پھنس گئی۔ مگر پھر ایک طرف منہ کر کے زاروقطار رونے لگی۔ مرزا صاحب میرے پاس سرک آئے اور سمجھانے لگے تو میں نے ان کا ہاتھ جھٹک دیا کہ یہ میری قسمت ہے کہ ہمیشہ کے اچھے اور پاک منش آدمی ہو کر اب تم میرے

ریختہ صفحہ 178
نصیب سے ایسے جلدی بدل گئے۔
مرزا صاحب: (مجھے گلے لگا کر) نہیں بیگم للہ مجھے معاف کر دو۔ اب میں اتنی دہیر باہر نہ رہا کروں گا۔
میں: نہیں مجھے معاف کرو مجھے اپ کی بات کا یقین نہیں ہے۔
نواب ساحب: (میرے سر کی قسم کھا کر) ایندہ کبھی ایسا نہ ہو گا۔(پھر میری پیشانی پر بوسہ دے کر اور میرے آنسو اپنے رومال سے پونچھ کر) میری پیاری اتنی سی بات کا تم نے اتنا رنج کیا۔
میں: ( رُک رُک کر) تمہیں اتنی سی بات معلوم ہوتی ہو گی میرے دل سے پوچھو کہ مجھے تو دنیا اندھیر معلوم ہوتی ہے۔ سوائے خدا کے میرا اور کون ہے۔ تم مجھے تنگ کرتے ہو کہ نکل جائے۔ اور ہم کہیں کہ آخر رنڈی تھی نا نکل گئی۔ مگر میں ان شاء اللہ جان دے دوں گی مگر یہ ہر گز نہ کروں گی۔ مجھے حرارت رہنے لگی ہے اب کوئی دن میں کام تمام ہو جائے گا تو تمہارے کلیجے میں ٹھنڈک پڑے گی۔
مرزا صاحب پر اس کا کچھ اثر ہوا کہ رونے لگے اور میرے آگے ہاتھ جوڑنے لگے۔ کہ للہ معاف کر دو۔ اب کبھی عمر بھر ایسا نہ ہو گا۔
میں:( ان کے ہاتھ علیٰحدہ کر کے) مجھے کیوں گناہگار کرتے ہو۔
مرزا صاحب: تو للہ میرا قصور معاف کر دو۔ اب میں ہر گز درگیا کی شکل نہ دیکھوں گا۔
میں: دیکھو میں بتاؤں بڑے ثواب کی بات ہے اس سے کام نہیں چلنے کا کہ ڈپٹی ساحب سے ملنا چھوڑ دو یا درگیا کی شکل نہ دیکھو۔ ایسا بندوبست کرو کہ درگیا مسلمان ہو جائے اور ڈپٹی صاحب سے نکاح پڑھا لے۔
مرزا صاحب: درگیا کا ہندو پن ہی کیا ہے اور ڈپٹی صاحب تو اس سے نکاح پڑھا لیں مگر وہ ہی راضی نہیں ہوتی۔ اور اسی لئے تم سے بھی بیزار ہے۔ ورنہ کئی دفعہ ہم دونوں نے چاہا کہ وہ اور تم ایک جگہ ہو اور لطف رہے مگر وہ نہ مانی۔
اچھا ان شاء اللہ اسے راضی کرنے کی میں تدبیر کر دوں گی۔ اللہ میں سب قدرت ہے

ریختہ صفحہ 179
الغرض اس طرح میرا اور مرزا صاحب کا ملاپ ہو گیا اور نمازیں پڑھ کر ہم خوش خوش اللہ کا شکریہ کر کے سو رہے۔
ان باتوں کو کئی ہفتے گزر گئے ۔ مرزا صاحب میرے کہنے سے ڈپٹی صاحب کے ہاں جاتے تو رہے مگر وہ آدھی آدھی رات تک بیٹھنا اور کبھی راتوں کو غائب ہونا موقوف کر دیا۔ ڈپٹی ساحب نے نکتہ چینی تو ضرور کی ہو گی مگر کبھی مرزا صاحب نے مجھ سے تذکرہ نہ کیا اس عرصہ میں مَیں نے بہتیری تدبیریں سوچیں کہ درگیا مان جائے مگر کوئی تدبیر چلتی ہوئی سمجھ میں نہ آئی اور میں بھی صبر کر بیٹھی کہ اللہ کو منظور ہو گا تو خود کوئی سامان ہو جائے گا۔
خدا کی قدرت کہ ان ہی دنوں آبکاری کا داروغہ جو کسی نیچی ذات کا آدمی تھا اور کسی کی پرواہ نہ کرتا تھا مر گیا اور مرزا صاحب اور ڈپٹی ساحب میں صلاح ہوئی کہ جہاں تک ممکن ہو کوئی اپنا آدمی اس عہدہ پر رکھوایا جائے اتفاق سے اس کا ذکر میرے سامنے بھی آیا مجھے فوراً میر صاحب یاد آئےاور میں نے بہت منت سے ان کی سفارش کی گو ان کی تنخواہ بہت کم تھی مگرکام سے تو واقف ہو ہی گجئے ہوں گے ان لوگوں کی سمجھ میں آ گیا۔ دوسر دن صاحب سے جا کر کہا وہ بھی مان گیا ۔ جھٹ دہلی تار دیا گیا اور تیسرے چوتھے دن میر صاحب آ موجود ہوئے۔ مرزا صاحب ان سے بہت تپاک سے ملے اور اپنے ہی گھر ٹہرایا باتوں باتوں میں یہ بھی کہہ دیا کہ مسعود کی چچی نے سفارش کی تھی۔ میر صاحب بہت ہی خوش ہوئے اور ان کا دل اس بات کو لوٹنے لگا کہ کسی طرح مجھ سے دو دو باتیں ہو جائیں۔مرزا صاحب تاڑ گئے اور مجھ سے ذکر کیا۔ میں خود خدا سے چاہتی تھی کہ ان سے بات چیت ہو جائے جھٹ راضی ہو گئی اور شام ہوئی تو کھانا کھانے اندر بلا لیا۔ میر صاحب کھانا وانا سب بھول گئے۔ اور سچے دل سے جو ان کی بات بات سے ظاہر تھا میرا شکریہ دیر تک ادا کرتے رہے۔
میں: میر صاحب یہ جو کچھ آپ فرماتے ہیں محض اپ کی عنایت ہے۔ مگر میں نے آپ کو مطلب سر بلوایا ہے۔
میر صاحب: آپ کا مطلب اور مجھ سے۔ بخدا میری کھال کی جوتیاں بھی بنا کر پہنو تو حاضر ہوں

ریختہ صفحہ 180
جلد فرمائیے۔
میں: اس دو برس میں خورشید نے جیسا پتّہ مار کر محتاج خانہ کا کام کیا ہے میں اس کی قدر ومنزلت کو خوب جانتی ہوں۔ اب میرا جی چاہتا ہے کہ اسے اپنے پاس رکھوں۔ یہ اسی صورت م یں ممکن ہے کہ آپ اس سے نکاح کر لیں۔ میر صاحب اللہ کے ایسے ایسے بندے بھی تو ہیں جو اندھے لنگڑے لولوں کو نبھاتے ہیں۔ اور آپ کو تو اس سے محبت تھی۔ وہی خورشید تو ہے جس سے ملنے کے لئے میری کیسی کیسی خوشامد کی جاتی تھی۔ آج وہی خورشید ہے کہ میں اس کی سفارش کرتی ہوں کہ اپ نکاح کر لیں۔
میر صاحب: بخدا میرا خود جی چاہتا ہے مگر صرف یہ ڈر ہے کہ لوگ کیا کمگر پھر میں اپنے کنبہ میں ملنے کے قابل نہیں رہنے کا۔
میں: ہم لوگوں کو اپنا کنبہ سمجھئیے گا۔ میر صاحب اگر اللہ کو منظور ہے تو ہمیں کسی کی بھی پرواہ نہیں رہے گی۔ہم سب کا خود ایک بڑا کنبہ ہو جائے گا۔ تم دیکھنا خدا کیا کرتا ہے۔ ڈپٹی صاحب سے بھی ملے؟
میر صاحب: بھلا ان سے کیوں نہ ملتا۔ سنا ہے ان کا ۔۔۔۔۔ بھی ساتھ ہے۔
میں: میں اس فکر میں ہوں کہ دُرگیا مسلمان ہو جائے ۔ ڈپٹی صاحب نکاح پر تو راضی ہیں۔ دیکھو اللہ کیا کرتا ہے۔
میر صاحب: اچھا، انشا اللہ اس میں مَیں بھی کوشش کروں گا ۔ میں نے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 181
اس دو برس میں بیسیوں ایسے رسالے پڑھے ہیں کہ ایسے ویسے کو تو باتوں باتوں میں آڑے ہاتھوں لیتا ہوں۔ڈپٹی صاحب مجھ پر اتنا اعتماد کریں گے کہ میں تخلیہ میں بھی ان کے پاس جانے لگوں گا۔
مرزا صاحب: اس کا بندوبست میں کر دوں گا۔
یہ کہہ کر انھوں نے ڈپٹی صاحب کو رقعہ لکھا اور وہ فوراً آ گئے۔ دیکھا تو یہاں جمگھٹا ہی اور ہے بہت ہیر پھیر کے ساتھ ہم لوگوں نے انھیں راضی کر لیا۔ اور کھانا وانا کھا کر وہ خود میر صاحب کو لے گئے۔
ہماری ان باتوں کو چھ مہینے گذر گئے۔ میر صاحب علیٰحدہ مکان میں رہنے لگے۔ خورشید کو میں نے دہلی سے بلا کر اپنے ہاں ٹہرایا اور میر صاحب سے نکاح پڑھوا دیا۔چنے خاں اور اپنے بڈھے استاد جی کو بھی یہاں بلوا لیا۔ اور دہلی کا کام ہر طرح سے مطمئن ہو کر سرکاری آدمیوں ہی پر چھوڑ دیا۔ خورشید اپنے گھر میں خوش و خرم رہنے لگی۔ اور مرزا صاحب کو دن رات دعائیں دیتی تھی۔ میر صاحب دوسرے تیسرے میرے پاس ضرور پھیرا کرتے تھے۔ اور خورشید تو آٹھ آٹھ دن آ کر رہا کرتی تھی۔
یہ نکلتے جاڑوں کا ذکر ہے ایک دن چاندنی خوب چٹکی ہوئی تھی مرزا صاحب دالان میں کرسیاں بچھائے ہوئے چاندنی کی بہار دیکھتے جاتے تھے۔ اور باتیں کرتے جاتے تھے کہ ڈیوڑھی میں کھسر پھسر کی آواز آئی۔ میں نے ماما کو آواز دی کہ کیا کواڑ کھلے ہوئے ہیں کہ کسی کے ڈیوڑھی میں سے ہنس کر دھکا دینے کی آواز آئی۔ اور چھم دے سے ایک عورت لپٹی لپٹائی انگنائی میں گرتے گرتے بچی۔ میں ڈر کر کھڑی ہو گئی ۔ آواز سے پوچھا کون ہے؟ مگر مرزا صاحب پہچان گئے، دوڑ کر پاس گئے اور کہا" دُرگیا تم کہاں۔ اس پر ڈیوڑھی ہی میں سے دو مردوں کے کھل کھلا کر ہنسنے کی آواز آئی۔ اور صاف معلوم ہو گیا کہ

ریختہ صفحہ 182
ڈپٹی صاحب اور میر صاحب ہیں۔ مرزا صاحب دُرگیا کو سنبھال کر اند لائے۔ میں نے اپنی کرسی چھوڑ دی اور بڑے تپاک سے بٹھایا۔ اس میں کوئی منٹ بھر ہی لگا ہو گا کہ ڈپٹی صاحب کی آواز آئی " ؒلو صاحب انھیں مسلمان کر لو، یہ راضی ہو گئیں۔
اس بات کے سننے سے جو میری حالت ہوئی خدا کو خوب روشن ہے۔ معلوم ہوتا تھا کہ ہفت اقلیم کی دولت مل گئی۔
میری بہن کہہ کر دُرگیا سے لپٹ گئی۔اور رونے لگی۔
مرزا صاحب: ( ڈپٹی صاحب کو آواز دے کر) ارے میاں جب انھوں نے دُرگیا کو بہن بنا ہی لیا تو اب تم سے کیا پردہ ہے۔ آؤ تم بھی چلے آؤ،
میر صاحب: ہاں جی قصوروار تو صرف میں ہوں۔ خورشید تو آپ کی چلمیں تک بھر جائے اور میں کسی کا پرچھاوں تک نہ دیکھوں۔
میں(درگیا سے علیٰحدہ ہو کر)آؤ میر صاحب تم بھی آ جاؤ۔ میر صاحب کیا تمہیں تو مولوی صاحب کہنا چاہئیے۔
میر صاحب : (ڈپٹی صاحب کے ساتھ اندر آ کر) چھ مہینے کی محنت میں آج اللہ کے فضل سے یہ تیر نشانے پر لگا ورنہ یہ تو ہاتھ ہی نہ رکھنے دیتی تھیں۔
ڈپٹی صاحب درگیا کے پاس کرسی لے کر بیٹھنے لگے مگر میں خبر نہیں کس طرح جس سے سب پھڑک گئے بولی " چہ خوش اب ذرا ان کے پاس بیٹھنے کے لئے منہ بنوا کر لائیے۔ "
ڈپٹی صاحب: اب کیا ان میں لعل لگ گئے۔
میں: یہ میری بہن ہیں۔ جب تک آپ عمر بھر کے واسطے توبہ نہیں کریں گے اور ہمیشہ کے لئے ان سے وفاداری کرنے پر بڑی روٹی ( عورتیں بخیال

ریختہ صفحہ 183
آداب قران شریف کو اسی نام سے یاد کرتی ہیں) نہیں اٹھانے کے انھیں ہاتھ لگانا نہیں ملے گا۔
میر صاحب : تو پہلے درگیا بائی کو مسلمان تو کر لو۔ آخر ڈپٹی صاحب کے مسلمان ہونے میں تو کوئی شک نہیں ہے۔ توبہ کرتے ہوئے کیا دیر لگنی ہے۔ ہم نے اسی وقت مولوی رفعت اللہ صاحب کو بلوایا۔ مٹھائی منگوائی اور درگیا کو مسلمان کر کے حمیدہ بیگم نام رکھا۔
مولوی صاحب نے ہی ڈپٹی صاحب سے توبہ استغفار کرائی اور شرع شریف کے قاعدہ کے موافق ان دونوں کا نکاح پڑھایا۔ ؎
تجھے فضل کرتے نہیں لگتی بار
نہ ہو تجھ سے مایوس امیدوار
دو تین مہینے ہم سب کو نئی باتوں کے چاؤ اور چہل پہل میں ایسے گذرے کہ بادشاہوں کو بھی نصیب نہ ہوتے ہوں گے۔آئے دن دعوتیں ایک جگہ جمع ہو جانا ہنسی مذاق اور ہزار طرح کی خوش مذاقی اور دل لگی کی باتیں ۔ میں ان سب موقعوں پر اللہ کا شکریہ ادا کیا کرتی تھی کہ سب کچھ تیرے فضل سے ہوا ہے۔ درگیا نے اپنی بڑھیا ماں کو بھی دہلی سے بلوا لیا تھا اور وہ بھی بیچاری جبراً قہراً مسلمان ہو گئی۔ مگر نہ تو گوشت کھاتی اور نہ باورچی خانہ میں جوتی پہن کر قدم رکھتی تھی۔درگیا توبہ توبہ حمیدہ بیگم مسعود سے ایسی محبت کرنے لگی جیسے سچ مچ مائیں کرتی ہیں۔ اور وہ بھی اس سے ایسا پرچ گیا کہ اکثر وہیں سو رہتا تھا۔ ہوتے ہوتے یہاں تک نوبت پہنچی کہ اس کا اوڑھنا بچھونا اور کتابیں بھی وہیں چلی گئیں اور ڈپٹی صاحب نے اسے بیٹا بنا لیا۔
کئی مہینے اسی طرح گذر گئے اور وہ پہلا انگریز جو مرزا صاحب کی عمدہ رپورٹ

ریختہ صفحہ 184
اور سفارش کر گیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ برس دن کے لئے قائم مقام ڈپٹی ہو کر جالندھر جانے کا حکم ان کے پاس آ گیا۔ اس کی تو سب کو خوشی ہوئی مگر یہ اندر کا اکھاڑا ٹوٹا جاتا تھا۔ ہزاروں جوڑ توڑ سے لاہور آدمی بھیج کر اور وہ جو بڑے صاحب کے تلے بابو تھا اسے اچھی طرح منہ بھرائی دے کر ایسا انتظام کیا کہ اسی ضلع میں رہ جائیں۔ اور یہاں سے ایک ڈپٹی وہاں چلا جائے۔ الغرض ایسا ہی ہوا۔ اور اللہ نے مجھے اپنے حبیب کے صدقے سے یہ عروج نصیب کیا کہ میرے میاں سچ مچ کے ڈپٹی ہو گئے۔ برس کے اندر مستقل جگہ خالی ہوئی۔ حاکم ان سے خوش تھا ہی۔ ہلدی لگی نہ پھٹکری مستقل ڈپٹی ہو گئے۔
اوہو! ان قصوں میں نواب کا حال بالکل رہ گیا۔ ہمارے دہلی سے چلے آنے کے بعد جب ان پر مصیبت اور زیادہ ہوئی اور کھانے پینے کی بہت تنگی ہونے لگی تو انھوں نے بیوی کو اس کے میکے بھیج دیا ۔ جس مکان میں میں رہتی تھی اس کا کرایہ اس نیک بخت کو بتا گئے اور اپنے کسی دور پرے کے رشتہ دار کے پاس جو بیکا نیر کی ریاست میں معزز عہدہ پر ممتاز تھا دن کاٹنے چلے گئے۔ دہلی سے رخصت ہوتے وقت انھوں نے اپنی مصیبت کا ایک خط ہمیں لکھا تھا اور کہا تھا کہ اگر اللہ نے پھیر دی تو انشا اللہ ملوں گا ورنہ خیر۔ ڈھائی برس اس بات کو ہو گئے مگر ان کا کہیں پتہ نہیں۔ میں نے مرزا صاحب سے ایک آدھ خط اول اول لکھوایا بھی مگر کچھ جواب نہ آیا۔ ناچار ہم بھی خاموش ہو رہے مگر ایمان سے کہےی ہوں کہ اپنے ان عین خوشی اور عیش کے دنوں میں بھی اکثر یاد کیا کرتی تھی ۔ ایک روز مرزا صاحب کچہری سے آئے ہی تھے کہ آواز آئی کہ حضور کے نام کا ایک تار آیا ہے۔ کوئی عورت جلدی سے جا کر

ریختہ صفحہ 185
لائی۔ مرزا صاحب نے کھولا تو دیکھا کہ بیکا نیر سے اختر زمان بھیجنے والا ہے۔ مضمون یہ تھا کہ کل صبح گوڑ گانوہ پہنچوں گا اور دن بھر رہ کر شام کو دہلی جاؤں گا۔
مرزا صاحب نے کہا اوہو! نواب اب تک ہمیں بھولا نہیں۔ خبر نہیں کیا حال ہے۔اگر اب بھی پریشان ہے تو ضرور اس کے ساتھ کچھ اور سلوک کرنا چاہئیے۔ (پھر میری طرف مخاطب ہو کر) بیگم کچھ روپے ہیں؟ میں نے صندوقچہ منگا کر دیکھا تو کوئی ڈیڑھ سو روپے تھے اور جمیلہ کے زیور کے لئے جو کئی مہینے سے پانچسو کے نوٹ علیٰحدہ کر رکھے تھے۔ وہ تھے بس۔ اور کچھ نہ تھا۔ میں نے صرف روپوں ہی کا نام لے دیا۔ اس پر مرزا صاحب نے کہا کہ تم ان سے چھپتی ہو ہی نہیں ۔ جس وقت میں نہ ہوں تو سو روپے انھیں کسی نہ کسی طرح دے دینا۔ افسوس ہے کہ صبح ہی مجھے صاحب ڈپٹی کمشنر سے ملنے جانا ہے۔ اسٹیشن پر بھی نہیں جا سکتا۔ خیر میر صاحب کو بھیج دوں گا۔ یہ سب باتیں میں نے خوب دل سے سنیں۔ دل میں دھکڑ پکڑ تھی کہ دیکھئیے نواب کس حال میں آتا ہے۔ رات کو میر صاحب کو بلا کر سمجھا دیا کہ ریل سے لے آنا ، یہ بھی کہہ دیا کہ اگر پھٹے حالوں ہو تو دل ہاتھ میں لینا اور کوئی بات ایسی نہ کرنا جس سے اسے اپنی غریبی کا افسوس ہو۔
صبح اٹھ کر مرزا صاحب انگریز کے پاس چلے گئے اور میر صاحب مجھے اطلاع کرا کے آٹھ بجے کی گاڑی پر اسٹیشن گئے ان کے جانے کے بعد میں نے خورشید کو بلا بھیجا اور اس سے باتیں کرتی رہی کہ اتنے میں میر صاحب کی آواز آئی کہ نواب صاحب آ گئے ہیں۔ میں نے خورشید کو اندر کر کے انھیں بلا لیا۔ اب تک مکیرا خیال تھا کہ خبر نہیں کیسی مصیبت کی حالت میں ہوں گے۔ مگر اللہ کا شکر ہے کہ صحن میں قدم رکھا تو گھر بھر میں رونق ہو گئی۔رجواڑوں کی زرق برق پوشاک کوئی سو سوا سو کی مندیل سر سے باندھے بڑی آب و تاب سے پٹکا اور تلوار کمر میں السلام علیکم کر کے دالان میں آئے اور پوچھا " بھائی کہاں ہیں کہو بھابی مزاج اچھے ہیں" میں نے ان کا مزاج پوچھا ، خود پان بنا کر دیا۔ دل میں باغ باغ ہو گئی۔
نواب: الحمدللہ اس نے ایسا فضل کیا کہ میں شکر نہیں کر سکتا نواب اسی قدر کہنے پائے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 186
تھے کہ نواب صاحب آ گئے اور میر صاحب کو بھی ساتھ لے آئے۔ نواب سے بغلگیر ہو کر ملے۔ اور مزاج پرسی کی۔ میں نے دیکھا کہ نواب کو میر صاحب کے یہاں ہونے پر تعجب ہے اور ان کا جی چاہتا ہے کہ یہ معمہ حل ہو جائے۔ اس لئے میں نے پیش قدمی کر کے کہا " نواب صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ سمجھے"
نواب: بہت دل خوش ہوا کہ سب پرانے دوست ایک جگہ جمع ہیں۔ میر صاحب کا کیا شغل ہے
میں: داروغہ آبکاری ہیں۔ اور نواب صاحب آپ کو ان کی یا آپ کی خورشید بھی یاد ہیں۔
نواب: انھیں تو پوچھنا ہی بھول گیا کہاں اور کس طرح ہیں۔
میں: ماشاء اللہ داروغہ صاحب کی بیوی ہیں۔ اور اس وقت اسی گھر میں موجود ہیں۔ اگر میر صاحب
میر صاحب: (بات کاٹ کر) میں سمجھ گیا، جب تم سامنے ہو گئیں تو خورشید میں کون سے لال جڑے ہوئے ہیں ۔ پھر آواز دے کر آ جاؤ نا ۔ نواب صاحب تمہیں یاد کر رہے ہیں۔
خورشید شرمائے شرمائے باہر آئی اور سلام کر کے بیٹھ گئی۔ اس کی ناک کا عیب ربڑ کی مصنوعی ناک سے جو ولایت سے میر صاحب نے بہت سا روپیہ خرچ کر کے منگوا دی تھی ہرچند بہت کچھ چھپ گیا تھا۔ مگر پھر بھی کچھ کچھ معلوم ہوتا تھا۔ اور وہ اسی لئے آدمیوں کے سامنے شرماتی تھی۔ نواب ہم سب کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے مجھے مبارکباد دی کہ یہ سب گل بوٹے تمہارے لگائے ہوئے ہیں۔ اللہ تمہیں دین اور دنیا دونوں میں اس کا اجر دے۔
میر صاحب: بھلا نواب صاحب وہ ڈپٹی صاحب بھی یاد ہیں
نواب صاحب: ہاں عہی مرزا صاحب کے دوست وہ کہاں ہیں
میر صاحب: (مرزا صاحب کی طرف مخاطب ہو کر) حضرت انھیں بھی بلائیے۔
نواب صاحب: ماشاء اللہ وہ بھی یہیں ہیں؟
مرزا صاحب: اللہ کے فضل سے یہاں تحصیلدار ہیں۔
نواب صاحب: ان کے ساتھ ایک پاتر بھی تھی اسے چھوڑ دیا ہے یا ہے
میں: ہمارے میر صاحب نے سمجھا ڈرا کر اسے مسلمان کیا۔ اب تو ڈپٹی صاحب کے نکاح میں ہے۔

ریختہ صفحہ 187
نواب: الحمد للہ بھابی ایک تمہاری نیکی کے اثر نے اللہ کے فضل سے یہ سب کچھ کر دیا۔
ان باتوں میں کوئی دس بج گئے۔ غنیمت یہ تھا کہ آج چھٹی کا دن تھا اور کسی کو کچہری نہ جانا تھا بے فکر بیٹھے رہےنواب صاحب کے مفصل حالات پوچھے تو انھوں نے فرمایا کہ برس ڈیڑھ برس تک میں ماموں کے ٹکڑوں پر پڑا رہا اور خدا ہی خوب جانتا ہے جیسا اس بے غیرتی یا بے بسی پر دل میں کٹتا تھا۔ایک شب کو اپنی مصیبت پر روتے روتے آنکھ لگ گئی کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بزرگ خواب میں آئے اور فرمانے لگے اختر زمان اللہ نے تیری بد اعمالیوں کی سزا تجھے دنیا ہی میں دے دی اور عذابِ آکرت سے نجات دی۔ اٹھ اور اللہ کو شکرانہ ادا کر اب تجھے مرتے دم تک انشا اللہ دنیا میں بھی تکلیف نہ ہوگی۔ مگر دیکھ ہمیشہ اپنی نیک بخت صبر والی بیوی کے حقوق کا خیال رکھیو اور اس کی خوشی کو اور سب باتوں پر مقدم رکھیو۔ میں خوشی میں آبدیدہ ہو کر اٹھا فوراً وضو کیا اور دو نفل شکرانہ کے ادا کئے پھر اللہ سے عمر بھر کے لئے عہد کیا کہ کبھی بیوی کے خلاف طبع کوئی بات نہ کروں گا۔ کوئی آٹھ ہی دن کے اندر راجہ صاحب نے ماموں جان سے کہہ کر مجھے طلب فرمایااور تنخواہ اور پیٹا مقرر کر دیا۔ رفتہ رفتہ میں ان کے مصاحبوں میں ہو گیا۔اب اللہ کے فضل سے ڈیڑھ سو روپے ماہوار اور چار پیٹے ملتے ہیں۔ سواری نوکر مکان سب ریاست کا۔ اس عرصہ میں مَیں نے دہلی کا سب قرض ادا کر دیا۔ بیوی کا ہاتھ گلا جو گرو تھا وہ بھی چُھٹا دیا اور اب انھیں لینے کے لئے مہینہ بھر کی رخصت لے کر آیا ہوں۔ نواب صاحب اسی قدر کہنے پائے تھے کہ کہاروں نے آواز دی ڈولی اتروا لو۔ میں نے ماما سے کہا کہ جاؤ جمیلہ استانی کے ہاں سے آ گئی ہے۔
نواب صاحب: (چونک کر) کون جمیلہ
میں: وہی نصیبن
جمیلہ اتری تو اپنے چھوٹے سے برقعہ میں چھپی چھپائی۔ ایک غیر مرد کو دیکھ کر

ریختہ صفحہ 188
کوٹھے پر جانے لگی۔ ماشاء اللہ اب دس برس کی ہو گئی تھی اور وہ پردہ کرنے لگی تھی۔ مگر نواب نے جھٹ اٹھ کر کولی میں بھر لیا۔ بڑی محبت سے پیار کیا اور کہا اللہ غنی تمہیں یہ تورا لگا ہے کہ تمہاری اماں تو پردہ کرتی نہیں اور تم منہ چھپائے چھپائے ہی چلی تھیں۔
نواب جمیلہ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ کسی کو آواز دے کر اپنا صندوقچہ جو باہر ان کے نوکر کے پاس تھا منگوایا اور اسے کھولتے کھولتے پوچھا کہ وہ لڑکا کہاں ہے۔ مسعود نام ہے نا؟ جمیلہ مسعود کے نام سے شرما گئی کیونکہ ابھی چار پانچ روز ہوئے ڈپٹی صاحب سے اس کے بارے میں گفتگو آ چکی تھی۔
میں: مسعود کو ڈپٹی صاحب نے بیٹا بنا لیا ہے۔ وہ وہیں رہتا ہے۔ ماشاء اللہ اب چودہویں میں ہے۔ابھی مڈل کا امتحان دیا ہے۔ اب وہ یہاں ہر وقت اس طرح نہیں رہتا۔ بلکہ آتا بھی نہیں۔ اتا بھی ہے تو پردہ پکار کر۔
نواب: اچھا میں سمجھا۔ مبارک ہو۔ پھر صندوقچہ میں سے نکال کر پانچ اشرفیاں جمیلہ کو دیں۔ اور سچے موتیوں کی کنٹھی نکال کر دکھائی کہ یہ ذرا گتھی ہوئی خراب ہے۔ بھابی کوئی ہوشیار پٹوا ہو تو اسے یہاں ٹھیک کروا لو نہیں تو میں دہلی سے درست کروا کر بھیج دوں، جمیلہ نے کھڑے ہو کر ادب سے سلام کیا ، میں نےاور مرزا صاحب نے مناسب لفظوں میں شکریہ ادا کیا۔ تھوڑی دیر بعد کھانا کھایا اور پھر مرزا صاحب نواب صاحب کو لے کر ڈپٹی صاحب کے ہاں لے گئے۔ میر صاحب بھی ان کے ساتھ چلے گئے اور گھر میں ہم عورتیں ہی عورتیں رہ گئیں۔ تیسرے پہر کے اور رات کے کھانے کے اہتمام اور ادھر اُدھر کی باتوں میں ظہر کا وقت ہو گیا۔ جمیلہ تختی لکھ کر اور جھٹ پٹ نماز پڑھ کر استانی کے ہاں سدھاری اور میں نفلوں کے قاعدے میں تھی کہ قافلہ کا قافلہ گھر میں گھس آیا۔ سلام پھیر کر دیکھتی ہوں تو مرزا صاحب، نواب صاحب، ڈپٹی صاحب ، میر صاحب اور حمیدہ بیگم پیچھے پیچھے مسعود روانہ چلے اتے ہیں۔

ریختہ صفحہ 189
میں: اے لوگو یہ کوئی سرا ہے کہ جس کا جی چاہے منہ اٹاھ کر چلا آیا۔ مسعود نے بڑھ کر مجھے سلام کیا۔ اور میں نے گلے لگایا اور دعا دی۔ حمیدہ بیگم شرمائی شرمائی آ کر گلے ملیں۔
میں: ہیں تم بھی نواب صاحب کے سامنے آ گئیں۔
حمیدہ: سانے کر دینے والوں سے پوچھو۔
الغرض ہم سب بیٹھ گئے میوے ترکاریاں اور مختصر کھانے پینے کا سامان کیا گیا تھا۔ سامنے لایا گیا اور سب نے نہایت لطف سے کھایا اور بڑے مزے مزے کی بزتیں ہوتی رہیں۔ مسعود کے لئے جو سونے کا انگریزی قلم اور کلائی پر باندھنے کی گھڑی جو نواب صاحب لائے تھے وہ انھوں نے اسے دی ۔ گھڑی کو کلائی پر باندھ کر مسعود بہت خوش ہوا اور سلام کیا۔ اثناء گفتگو میں نواب صاحب نے کہا کہ تھانہ دار صاحب کا حال کسی نے نہیں بتایا۔
میں: اے نوج کوئی ان کا ذکر کرے۔ خورشید کو تو ان کے نام سے ہول آنے لگتا ہے۔
نواب صاحب: میں خود جانتا تھا مگر مجبور ہوں۔ انھوں نے لاکھوں قسمیں دے دی تھیں۔
مرزا صاحب: کیا وہ بھی وہیں ہیں؟
نواب صاحب: ان کا قصّہ بہت دردناک ہے۔ بہت خستہ حالی مین کوئی برس روز ہوا بیکا نیر پہنچے تھے۔ میں نے ترس کھا کر توشہ خانہ میں ایک جگہ دلوا دی تھی۔ وہاں انھوں نے غبن کیا ڈیڑھ سال کی قید سخت کا حکم ہوا۔ سات آٹھ مہینے کاٹ چکے ہیں۔ دن رات اپنی مصیبت پر روتے ہیں۔ اور کہتے ہیں مجھ پر خورشید کا صبر پڑا ہے۔ میرے یہاں آنے کا حال کسی سے سن کر مجھے بلوایا تھا میں گیا تو بیچارے چکی پیس رہے تھے لاکھوں قسمیں دے کر کہا کہ میری طرف سے خورشید کے ہاتھ جوڑنا اور پاؤں پڑنا کہ للہ میری خطا کو معاف کر ۔ وہ کہتے ہیں کہ جب تک خورشید نہ معاف کرے گی مجھے کبھی فلاح نہ ہو گی۔

ریختہ صفحہ 190
میر صاحب: (خورشید کی طرف مخاطب ہو کر) اب تمہیں ان سے کیا پرخاش ہے۔ بیچارہ اپنے کردار کو پہنچ چکا۔ تم بھی معاف کر دو۔ اللہ اس کا بڑا اجر دے گا۔
خورشید: دل نہیں چاہتا۔ جیسا ظلم انھوں نے مجھ پر کیا ہے۔ ظاہر ہے۔
میں: خورشید آخر وہ مسلمان ہیں اور بال بچے دار آدمی ہیں۔ واقعی تیرا صبر انھیں کبھی نہ پنپنے دے گا۔ بڑا ثواب کمائے جو انھیں معاف کر دے۔
مرزا صاحب: اس دن مولوی صاحب کہہ رہے تھے کہ جو شخص کسی شخص کی خطا معاف کردے اللہ اس کے ستر گناہ بخش دیتا ہے۔ اور موتی کا محل اس کے لئے جنت میں تیار ہوتا ہے۔
ڈپٹی صاحب: بھابی معاف بھی کر دو۔ اللہ تمہیں اس کا پھل دے گا۔
خورشید: میں نے معاف کیا میرے اللہ نے معاف کیا۔
نواب صاحب نے اسی وقت قلم دوات منگوا کر اپنے کسی دوست کو بیکا نیر خط لکھا کہ جا کر ان سے کہہ آئیں کہ خورشید نے تمہارا قصور مواف کر دیا۔ شب کو کھانے پر جو لطف رہا بیان میں آنے کے قابل نہیں ہے۔ کھانے کے بعد مرزا صاحب نے خورشید سے کہا کہ اج تو قوالی کی کوئی چیز سنا دو۔ اس نے مجھ پر ٹالا۔ میں نے حمیدہ بیگم پر۔ آخر مردوں نے یہ فیصلہ کیا کہ تینوں مل کر گائیں اور ہم نے خوب سنبھال سنبھال کر حضرت شاہ نیاز رحمۃاللہ علیہ کی یہ غزل گائی۔
معمور ہو رہو ہے عالم میں نور تیرا
از ماہ تا ماہی سب ظہور تیرا
اسراراحمدیؐ سے آگاہ ہو تو جانے
تو نور ہر شرر ہے ہر سنگ طور تیرا
ہر آنکھ تک رہی ہے تیرے ہی منہ کو پیارے
ہر کان میں ہوں پاتا معمور نور تیرا
جن جی میں یہ سمائی جو کچھ کہ ہے سو تو ہے
پھر دل سے دور کب ہو قرب و حضور تیرا
گر حرفِ بے نیازی سرزد نیازؔ سے ہو
پتلے میں خاک کے ہے پیارے غرور تیرا
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 191
مرزا صاحب چوتھے شعر پر لوٹ پوٹ گئے اور سب مردوں کو خوب لطف آیا۔ نواب صاحب نے شام ہی کو جانا چاہا تھا مگر کون جانے دیتا تھا۔ رات کے بارہ بجے تک یہ لطف رہا۔ اور صبح کو نواب صاحب بخیر و خوبی دہلی سدھارے۔ ہم نے چلتے وقت اصرار کیا کہ واپسی میں دو چار دن ٹہرئیے گا، انھوں نے ہاں کر لی۔
پندرہ بیس روز میں مسعود کے امتحان میں پاس ہونے کی خبر آئی۔ دوستوں کو دعوت دینی تھی ہی۔ ڈپٹی ساحب اور ان کی بیوی نے سوچا کہ ایک پنتھ دو کاج۔ لگتے ہاتھ منہ میٹھا بھی کر دینا چاہئیے۔ ہم کو کیا عذر تھا تاریخ مقرر کر دی اور نواب صاحب کو خط لکھ دیا کہ فلاں روز ضرور بالضرور معہ بیوی بچوں کے آ جائیں۔ ان کی رخصت کے دن پورے ہونے کو آ ہی گئے تھے۔ جو دن اس کام کے لئے مقرر ہوا تھا اس دن وہ لوگ بھی آ گئے۔ ان کی بیوی مجھ سے بہت محبت سے ملیں۔ بیچاری مردوں کے سامنے ہونے پر بالکل راضی ہو گئی تھیں۔ مگر خود میں نے اسے مناسب نہ سمجھا آخر وہ بیوی زن تھیں۔ اور میں نے مرزا ساحب کو بلا کر کہا کہ میں انھیں کسی کے سامنے نہ کروں گی۔ اس میں کسی کے برا ماننے کی بات نہہں ہے ہمارا اور معاملہ تھا وہ بیچاری غیر مردوں کے سامنے ہونا یا ان سے بات چیت کرنا کیا جانیں۔ مردوں نے بھی اسے عین مناسب سمجھا اور کسی نے اصرار نہ کیا۔ دس بیس عورت مرد اور اکٹھے کر لئے اور اللہ کے فضل و کرم سے بہت خیر و خوبی کے ساتھ منگنی کر دی۔ دو روز ٹہر کر نواب ساحب بھی بیکانیر سدھارے۔
دو برس اور اسی دن عید اور رات شب برات میں گزر گئے۔ حمیدہ بیگم کے تو ہمیشہ کی بانجھ گانٹھ لگی ہوئی تھی اور اسی لئے انھوں نے اس قدر گر کر مسعود کو بیٹا بنا لیا تھجا کہ اسی کی بہار دیکھوں گی۔ خورشید کو اللہ نے بیٹا دیا اور جب کا ذکر کر رہی ہوں وہ سارے دالان میں کھیلتا پھرتا تھا۔ مجھے بھی کچھ امید ہوئی تھی مگر کچھ ایسا بگاڑ

ریختہ صفحہ 192
پڑا کہ اپنی ہی جان کے لالے پڑ گئے۔ اور آیندہ کو بالکل مایوسی ہو گئی۔ میں اس پر بھی اللہ کا شکر کرتی تھی کہ بس اپنت ہی پیٹ میں کیا لال لگے ہیں ۔ اللہ جمیلہ کو اولاد دے گا تو سب ارمان نکل جائیں گے۔ نواب ساحب سے برابر خط و کتابت جاری تھی ۔ تھانہ دار صاحب رہا ہو کر پھر اپنے کام پر بحال ہو گئے تھے۔ انھوں نے یہاں کے سارے حالات سن کر میر صاحب کے نام شکریے کا لمبا چوڑا خط بھیجا اور خورشید کے لئے ایک مرتبہ کچھ تحفہ تحائف بھی روانہ کئے۔
ہاں تو دو برس میں مسعود انٹر پاس ہو گیا اور نائب تحصیلداری میں اس کا نام منظور ہو گیا۔ اب ماشاء اللہ وہ سولہوں میں تھا اور ہامری جمیلہ بارہواں بھر کر تیرہویں میں لگی تھی۔ حمیدہ بیگم کو ننھی سی دلہن بیاہ کر لانے کا بڑا ارمان تھا۔ انھوں نے میری جان کھانی شروع کی یہ کام اول کرنا تھاآخر کرنا تھا۔ میں بھی راضی ہو گئی۔ تھوڑا بہت تو سامان میں نے پہلے سے کر ہی رکھا تھا دو چار مہینہ میں اور ٹھیک ٹھاک کر لیا۔ اور شبھ گھڑی دیکھ کر خوب دھوم دھام سے شادی کر دی۔ نواب کو بھی بلوایا تھا مگر وہ نہ آ سکے۔ بیچاروں نے وہیں سے ہزار ڈیڑھ ہزار کا زیور اور کپڑا بھیجا اور مبارکبادی کا خط لکھا۔
جمیلہ بیگم کے فرض سے ادا ہو کر میں گویا بالک چھڑی چھٹانک ہو گئی ۔ پھوپھی چوتھی چالوں اور پھر ان کے بلانے چلانے میں چھ سات مہینے لگ گئے اور میں نے دیکھا کہ اگر اب میں یونہی پھنسی رہی تو کل کو اللہ اسے اولاد دے گا پھر میرا نکلنا دشوار ہو گا اس لئے میں نے ایک دن حمیدہ بیگم کو بلوایا اور کہا " سمدھن تم مجھے دو تین مہینے کی چھٹی دے دو تو میں حج کر آؤں۔ پھر اللہ تمہاری بہو کو بال بچہ دے گا تو میرا نکلنا مشکل ہو گا"
حمیدہ: بہن نیک صلاح کا پوچھنا کیا۔ مگر میرا تو جی چاہتا تھا کہ میں بھی چلوں۔
میں: بوا تم ابھی کہاں جا سکتی ہو۔ نیت رکھو اللہ پوری کرے گا۔
مرزا صاحب نے سب انتظام کر لیا۔ انھوں نے رخصت لے لی اور خورشید

ریختہ صفحہ 193
میر صاحب کو اپنے گھر میں بسا کر ہم دونوں اور تیسرے استاد جی حج کو روانہ ہوئے۔ چلتے وقت جمیلہ نے رو رو کر برا حال کیا۔ مگر حمیدہ بیگم نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور ہم دونوں نے تسلی تشفی دی ۔ میر صاحب اور مسعود ہمیں بمبئی تک پہنچانے آئے۔
اللہ کا فضل شاملِ حال چاہئیے۔ وہ سب مشکلیں آسان کر دیتا ہے۔ جب جہاز نے لنگر اٹھایا تو میں نے اللہ کا شکر کیا کہ مجھ گناہگار پر تو نے یہ فضل کیا کہ آج حج کو جا رہی ہوں۔ بھلا جب میں ناچتی گاتی تھی تو کون کہہ سکتا تھا کہ اللہ مجھ پر ایسا فضل کرے گا اور یوں ایک دم میں پچھوا سے پروا ہو جائے گی۔ اے میری بہنو! جو ابھی تک شیطان کے جال میں پھنسی ہوئی ہو میری زندگی کے حالات پڑھ کر خدا سے دعا مانگو کہ وہ تمہیں بھی اس گناہگاری سے بچائے اور اپنے فضل سے نیکی کا راستہ دکھائے۔ دیکھو اب میں چالیس کے پیٹے میں ہوں نہ کوئی مجھے۔۔۔۔۔ کہہ سکتا ہے اور نہ یہ طعنے مجھے سننے پڑتے ہیں کہ بڈھے غمزے ہیں۔ بڑھاپے میں نائکہ بننے کا ڈر نہیں۔ اللہ کے فضل سے کوئی شرمناک بیماری نہیں۔ گھر میں حلال کی کمائی کے چار سو روپے ماہوار آتے ہیں اور نہ جعلسازی نہ فریب۔ اللہ اپنے حبیب کے صدقے سے ہر طرح آرام و آسائش سے گزروا رہا ہے۔
قصّہ مختصر حج سے فارغ ہو کر ہم مدینہ شریف گئے اور زیارتوں سے فارغ ہو کر قافلہ کے ساتھ واپس آئے۔ واپسی میں مرزا صاحب کو بخار آنے لگا اور میں دن رات ان کی خدمت کرتی تھی۔ اور جب وہ اچھے ہو گئے تو میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ تو نے یہ مشکل بھی آسان کر دی۔ میں نے میاں کی خدمت بیوی کی طرح انجام دی۔ چار پانچ مہینہ کے بعد ہم ہندوستان واپس آئے۔ بمبئی سے تار دیا لوگ اجمیر شریف ہمیں لینے آئے۔ ہم وہاں ٹہرے اور زیارت سےفارغ ہو کر دوسرے دن گوڑگانوہ ائے۔ خبر تو اجمیر ہی میں مل گئی تھی۔ مگر گڑگانوہ پہنچ کر جمیلہ کی گود میں ڈیڑھ مہینہ کا لڑکا دیکھا اور خدا کا شکر ادا کیا۔ اللہ کا لاکھ

ریختہ صفحہ 194
لاکھ احسان ہےکہ اس نے یہ دن دکھایا کہ میں نانی کہلائی۔ جمیلہ کی نیچی سوڑ تھی چار پانچ برس میں ایک لڑکی اور پھر اس کے اوپر ایک لڑکا اور ہو گیا۔ ادھر خورشید کے بھی دو بچے اور ہو گئے۔ اور میرا گھر بچوں سے گھرا رہنے لگا۔ نماز روزہ سے فرصت ہوتی تھی تو دن رات ان میں لگی رہتی تھی اور خدا کی قدرت کی بہار دیکھتی تھی۔ مسعود بندوبست کر کے کام کی سند حاصل کر کے ریواڑی میں نائب تحصیلدار ہو گیا تھا۔ اور چوتھے پانچویں آتا رہتا تھا۔ کچھ عرصہ کے بعد اس نے اپنے بیوی بچوں کو لے جانا چاہا ہم نے بھی خوشی خوشی رخصت کیا۔ میں اور حمیدہ بیگم مہینوں وہاں جا کر رہا کرتی تھیں یا انھیں بلا لیا کرتی تھیں۔
الغرض زندگی کے یہ دن جو خدانخواستہ کوٹھے پر ہوتی تو کس کس تلخی سے گزرتے اب ان پاک مشغلوں میں گزرنے لگے اور اللہ سے دعا ہے کہ موت کے دن تک اپنے فضل سے وہ اسی طرح گذار دے۔ آمین۔ اے صاحبو! میں نے آپ کی بہت سمع خراشی کی۔ اب میں معافی چاہتی ہوں میرے حق میں آپ دعا کیجئے کہ اللہ عاقبت بخیر کرے اور براہ مہربانی اس دعا میں میرے ساتھشریک ہو کر آمین کہئے۔ ااے اللہ العالمین تیرے خزانہ ء رحمت میں کچھ کمی نہیں۔ جس طرح تو نے مجھ پر فضل کیا اسی طرح میری بہنوں پر بھی اپنا رحم کر جو شیطانی وسوسوں میں مبتلا ہیں ان کی گناہگاری کی بیڑیاں توڑ دے اور نیک توفیق عطا کر۔ اے الرحم الراحمین اپنے پیارے حبیب کے صدقے ان کے دلوں پر سے غفلت کے پردے اٹھا دے اور انھیں حلال اور حرام میں تمیز کرنے کی عقل عطا کر۔ یا اللہ ان مردوں پر بھی رحم کر جو بُرے کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔ انھیں ایسی توفیق دے کہ وہ خود بھی بچیں اور ان کوٹھے والیوں کو بھی جن سے ان کی جان پہچان ہے نیک ہدایت دیں۔ اے غفور الرحیم مجھ گناہگار پر بھی اپنی رخمت دن دونی رات چوگنی کر اور خاتمہ بخیر کر کے قیامت کے دن اپنا دیدار اور اپنے پیارے حبیب کی شفاعت نصیب کر آمین
تمت بالخیر
 
Top