ریختہ صفحہ 46
قریب ہم سب نواب صاحب کے دیوان خانہ میں جو چپلی قبر کے آگے بائیں ہاتھ کی گلی میں ہے پہنچ گئے۔ جس کمرے میں ہمیں انہوں نے بٹھایا خوب آراستہ تھا۔ جب میں پہنچی تو نواب اکیلے ہی تھے۔ نوکر چاکر نیچے چبوترے پر لمپ ومپ صاف کرنے اور روشنی کا اور سامان درست کرنے میں مصروف تھے، نواب نے بہت شوق کے ساتھ میرا استقبال کیا۔مجھے کمرہ میں آنے کو اور میراسیوں وغیرہ کو چبوترے کے نیچے والے کمرے میں بیٹھنے کو کہا میں اس وقت تک اس خیال میں تھی کہ اس کمرے میں نواب صاحب کے ساتھ مجھے اکیلا چھوڑ کر شاید استاد جی بھی اور میراسیوں کے ساتھ چلے جائیں گے مگر میری توقع کے خلاف وہ بھی میرے ساتھ اندر چلے آئے۔نواب کو دو چار باتیں انتظام کے متعلق نوکروں سے کرنی تھیں جب تک وہ اس میں لگےرہے کبھی اندر آتے تھےکبھی باہر چلے جاتے تھے مگر جب ان باتوں سے فارغ ہوئے تو میرے پاس آ کر بیٹھے اور کہا کہ ننھی جان اب کھانا کھا لینا چاہئیے۔ نو بجے میں نے اپنے دوستوں کو بلایا ہے۔ ٹھیک ساڑھے نو بجے گانا شروع ہو جانا چاہئیے۔
استاد جی: حضور اکیلی یہی ہے یا کسی اور کو بھی حضور نے بلایا ہے؟
نواب صاحب: مجھے خیال نہ رہا ہاں آکر یہ کب تک گائیں گی، دو ہوں تو اچھا ہے
میں

یکلخت خورشید کا خیال آ جانے سے چونک کر)سیتا رام کے بازار والی خورشید کو بلا لیجئیے اچھا گاتی ہے۔
استاد جی: اور صورت شکل میں کیا بُری ہے۔
نواب صاحب: تو خاں صاحب آپ ہی اس کا بندوبست کیجئیے۔ ٹھیک نو بجے پہونچ جائے۔
استاد جی نے اسی وقت نتھن کو بلا کر کہا جاؤ چنے خاں کو میرا سلام کہنا
ریختہ صفحہ47
اور کہنا کہ ننھی بھی ہے خورشید کو بھی مجرے کے لئے بھیج دیں۔ وہ خود تو واڑہ کے درد کے مارے کیا آ سکیں گے، عذر کریں تو کہنا ہم کام چلا لیں گے مگر خورشید نو بجے یہاں پہونچ جائے۔یہ ہو گیا تو نواب تھوڑی دیر کے لئے مجھ سے معافی مانگ کر چلے گئے۔ کوئی پندرہ منٹ میں آئے اور کہا چلئیے کھانا کھا لیجئیے۔ استاد جی نے اب بھی میرا ہیچھا نہ چھوڑا اور یہ بات مجھے اور خاں صاحب دونوں کو ناگوار معلوم ہوئی۔چبوترے کے نیچے آمنے سامنے دو کمرے تھے ایک میں میراسیوں کو بٹھایا تھا تو اس کے سامنے والے کمرہ میں نواب صاحب ہمیں لے گئے، چِک اٹھا کر اندر گئے تو دماغ کھانوں کی خوشبو سے معطر ہو گیا ۔ صاف ستھرے دسترخوان پر ہر قسم کا کھانا نہایت سلیقے سے چنا ہوا تھا ، دو نوعمر نوکر اُجلے کپڑے پہنے ہوئے پانی پلانےوغیرہ کو موجود تھےاس کمرے میں ایک طرف ایک میز لگی ہوئی تھی اور اس پر کتابیں اور لکھنے پڑھنے کا سامان بھی رکھا ہوا تھا۔ سامنے دیوار میں نواب کے لڑکپن کی ایک تصویر لگی ہوئی تھی، میں تصویر کو دیکھ کر کھانا وانا سب بھول گئی اور اس کاذکر کرنے اور نواب کی صورت کی تعریف کرنے کو بہت جی چاہتا تھا مگر استاد جی کی وجہ سے کچھ نہ کہہ سکی، نواب صاحب خود بولے یہ میرا لڑکپن کا کمرہ ہے ابا جیتے تھے تو میں اسی میں بیٹھتا تھا۔
میں: اور یہ تصویر بھی آپ کے لڑکپن کی ہے کیسی ا چھی کھینچی ہے۔
استاد جی: ہمارے نواب صاحب کو ما شا اللہ ہر بات کا شوق ہےدیکھو ننھی چھت گیری کیسی اچھی ہے۔ تم اپنی چھت گیری بھی اسی وضع کی بنواؤ۔
نواب صاحب:
ہاں استاد جی مجھے بھی آپ کے ہاں کی پرانی وضع کی چھتگیری نا پسند ہے۔صبح کو میں امامی کے ساتھ اپنے درزی کو بھیجوں گا، دو تین دن میں بنا دے گا۔
استاد جی: اللہ حضور کو سلامت رکھے سرکار ،(ننھی جان کی اماں) بہت خوش
ریختہ صفحہ 48
ہوں گی۔
نواب صاحب نے دسترخوان پر بیٹھ کر ایک نوکر سے کہا کہ دیکھو استاد جی کے ساتھ وہاں جتنے بھی آدمی ہیں ان سب کو اچھی طرح کھانا کھلا دو۔ میں خوش ہوئی کہ اب ہم دونوں اکیلے ہونگے، مگر استاد جی ایسے سریش کی طرح چپکے تھے کہ ٹلنا ہی نہیں جانتے تھے، فوراً بولے۔
حضور میں تو آپ کی جوتیوں میں اچھا ہوں، وہاں چار آدمی ہیں، نتھن، کیمو، علیا اور غٖوری، نتھن آ جائے تو چار آدمیوں کا کھانا وہاں بھجوا دیجئیے۔ نواب صاحب کو استاد جی کا ہمارے ساتھ کھانا ناگوار تو ضرور گزرا ہو گا مگر بیچارے کیا کر سکتے تھے، فرمانے لگے کہ استاد جی میں یہ کب کہتا ہوں کہ آپ بھی ان کے ساتھ کھانا کھائیے۔ الغرض ہم تینوں دسترخوان پر بیٹھ گئے۔ اور بسم اللہ کی۔ ہم لوگوں نے دو چار ہی نوالے کھائے ہونگے کہ استاد جی میری طرف مخاطب ہو کر بولے کہ آج تمہاری اماں کو اکیلی ہی کھانا پڑے گا۔ اس فقرہ پر نواب نے چونک کر اپنے نوکر سے کہا کہ دیکھو امامی ان کا گھر جانتے ہو ابھی دو تین آدمیوں کا کھانا وہاں پہنچا دو۔ پھر استاد جی سے کہا کہ نہ آپ یہ بات کہتے نہ مجھے خیال آتا۔ توبہ کیسی چوک ہوئی۔ استاد جی نے ایک آدھ دعا دی۔ اور پھر ہم تینوں نے کھانا شروع کیا آج کے کھانے میں نواب نے بہت تکلف کیا تھا۔ رنگترا پلاؤ، مزعفر، انگریزی مٹھائیاں، یہ وہ غرض معمولی دعوتوں کے سامان سے بہت زیادہ چیزیں تھیں۔ مجھے شام کی اماں کی دھتکار اور اس وقت کی استاد جی کی جکڑ بندش نے ایسا اداس کر رکھا تھا کہ بالکل بھوک نہ تھی۔ نواب بار بار مجھ سے اصرار کرتے تھے مگر میں بے بھوک کہاں تک کھاتی۔ اور عذر تو وہ کب سننے والے تھےمگر میں نے استاد جی کو بالائے طاق رکھ کر آخر اتنا کہا ہی کہ آپ کے ساتھ کھانے کی خوشی
ریختہ صفحہ 49
سے میری بھوک بھاگ گئی۔ نواب صاحب ہنس پڑے اور سموسوں کی طشتری آگے سرکا کر کہا ان میں سے دو تین آپ کو ضرور کھانے ہونگے، ورنہ میں خود کھلاؤں گا، میرا سچ مچ دل چاہتا تھا کہ نواب کوئی چیز مجھے اپنے ہاتھ سے کھلائیں، بلکہ میں انھیں کھلاؤں۔ مگر استاد جی نے کہا کہ حضور اب ہمیں اجازت دیجئیے اپنے دالان میں جا کر بیٹھیں خورشید بھی آتی ہو نگی۔ ننھی جان حضور کے لئے وہیں سے پان بنا کر بھیجیں گی۔ نواب صاحب نے چار و ناچار اجازت دی مگر کہا کہ پان تو یہیں موجود ہیں، کھاتے جائیے۔ اتنے میں چاندی کے خاصدان میں نوکر پان لایا، پان۔۔۔۔۔ الائچیاں، سب پر چاندی کے ورق لپٹے ہوئے تھے ہم نے پان کھا کر اپنے دالان کا راستہ لیا اور نواب پژمردہ دلی سے اوپر کمرے میں چلے گئے۔ اس دالان میں پہنچ کر میں نے خیال دوڑانا شروع کیا کہ آج خلافِ عادت استاد جی اس قدر میری چوکسی کیوں کر رہے ہیں۔ سوچتے سوچتے سمجھ میں آیا کہ ہو نہ ہو اماں نے تیسرے پہر کو میرا اور نواب کا گلے ملنا دیکھ لیا ہے۔ اور استاد جی کو سمجھا دیا ہے کہ اب انہیں ایسا موقعہ ہی نہ دینا کہ ملیں، میرا جی اس سے اور بھی بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر میں اورط لوگ بھی کھانا کھا چکے۔ خورشید بھی آ گئی اور ان کے کمرے میں بھی لوگوں کی آمد ورفت شروع ہوئی۔ کوئی آدھ گھنٹے میں نوکر پیغام لایا کہ پہلے ننھی جان ہی گائیں گی۔اور ہم سے تیار ہونے کو کہا، پھر خورشید سے کہا کہ نواب صاحب فرماتے ہیں کہ تکلیف نہ ہو تو آپ بھی وہیں آن بیٹھئے۔
میں اور میرے میراسی تو لیس ہو کر پہنچے مگر خورشید یونہی اپنے سادہ لباس میں آ کر بیٹھ گئی۔ کمرہ میں مَیں نے نظر ڈالکر دیکھا تو ڈپٹی صاحب اور مرزا صاحب کو تو پہچانا مگر چار پانچ اور جو تھے، انہیں میں نہیں جانتی تھی۔ میرے پہنچتے ہی نواب
ریختہ صفحہ50
صاحب نے ڈپٹی صاحب کی طرف اشارہ کر کے چپکے سے کہا کہ "آپ ہی ہیں" انہوں نے ویسے ہی دبی آواز میں جواب دیا "مبارک" مگر میری طرف اچھی طرح نہ دیکھا۔ نتھن ڈپٹی صاحب کو پہچانتا تھا ۔ اس نے جھک کر سلام کیا اور کہا حضور کئی دن سے کہاں ہیں۔ بائی جی بہت یاد کرتی ہیں۔ ڈپٹی صاحب بالکل کھوئے گئے۔ اور مجھے اس وقت وہ بات یاد آئی کہ استاد جی نے اماں سے کہا تھا کہ یہ درگیا پاتر کے ہاں جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی جو مجھے ان کے شام کے رقعہ کا خیال آیا تو میرے دل نے کہا کہ ضرور یہ پیچدار آدمی ہیں ادہر چپکے چپکے درگیا کے ہاں جاتے ہیں ادہر نواب کی چوری سے مجھ سے ملت رکھنی چاہتے ہیں۔ مجھے ان کی صورت سے نفرت ہونے معلوم ہونے لگی اور جی چاہتا تھا کہ گانے میں ان کی طرف خیال بھی نہ کروں۔ مگر اماں کا خوف غالب تھا اتنے جھگڑوں قصوں کے بعد کیونکر ان کے خلاف کر سکتی تھی، مرزا صاحب بیچارے سرنگوں بیٹھے رہے، اور مجھے انہیں دیکھ دیکھ کر ان کا دن کا رونا اور گھڑی دینا یاد آتا تھا۔
گانا شروع ہوا اور " کملا باری نیناں ادے" کا ٹپہ میں نے خوب سنبھال کر کہا، پھر ایک ٹھمری خوب ڈپٹی صاحب کو بتا کر گائی۔ وہ بچارے بچھے جاتے تھے۔ اور نواب صاحب حیرت میں تھے کہ ننھی کو ہو کیا گیا ہے۔ آخر بولے کہ صاحب ہم لوگوں نے کیا قصور کیا ہے کہ ہماری طرف بالکل توجہ نہیں کرتیں۔ پھر مرزا صاحب سے کہاکہ کیوں پیر و مرشد آپ نے کوئی افسوں تو نہیں کر دیا۔۔ میں شرما گئی ، اور نواب کی طرف متوجہ ہو کر ثاقبؔ کی یہ غزل شروع کی ؎
منہ اس نے اس ادا سے چھپایا نقاب میں
بوسہ حیا نے لے لیا بڑھ کر حجاب میں
اس شعر کا ایک ایک لفظ میں نے خوب بتا بتا کر گایا اور نواب بہت محظوظ ہوئے۔