شام کے غم رات کی شہنائیوں میں بہہ گئے

سعد الیاس

محفلین
ساحلوں کی حسرتوں میں پانیوں میں بہہ گئے
منزلوں کی چاہتوں میں راستوں میں بہہ گئے

ہم چلے تھے اِن خلاؤں کے سفر میں ایک ساتھ
پھر نہ جانے کیا ہوا کہ دائروں میں بہہ گئے

کون رویا، چھید کس کے ضبط میں ہونے لگا
جھونپڑے چند آنسوؤں کے بارشوں میں بہہ گئے

زاویہ تھا ایک ہی، نقطہ نظر بس ایک تھا
دیکھتے ہی دیکھتے ہم زاویوں میں بہہ گئے

گونج اٹھّی رس بھری انجان سی آواز پھر
شام کے غم رات کی شہنائیوں میں بہہ گئے
 
آخری تدوین:
Top