شام کی صابن کی قدیم صنعت تباہی کے دہانے پر

130516085538_aleppo_soap_304x171_bbc_nocredit.jpg

حلب کا صابن ساری دنیا میں شہرت رکھتا ہے

خیال کیا جاتا ہے کہ دنیا میں صدیوں پہلے صابن کی تیاری شام کے شہر حلب سے شروع ہوئی۔ حلب کا صابن نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ دنیا بھر میں اپنی شہرت رکھتا ہے۔ زیتون اور لوریل کے تیل سےبننے والا صابن مشرق وسطیٰ اور دنیا میں انتہائی مقبول ہے اور شام کو اس سے کروڑوں ڈالر کی آمدن ہوتی ہے۔
لیکن شام میں گزشتہ دو برسوں سے جاری جنگ سے شام کی یہ قدیم صنعت بھی دم توڑ رہی ہے۔
نبیل ایندورا شام کے ایک صابن صعنت کار ہیں اور کچھ عرصے پہلے حلب میں ان کا کارخانے میں پچھہتر افراد کام کرتے تھے۔ ملک میں امن عامہ کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے انہیں نہ صرف اپنے کارخانے کو بند کرنا پڑا بلکہ خود ملک چھوڑا کر بیروت پہنچ گئے ہیں۔
نبیل ایندورا بتاتے ہیں کہ انہوں نے صابن بنانے کا ہنر اپنی دادی سےسیکھا۔ نبیل کی دادی کا تعلق صابن بنانے والے ایک مشہورگھرانے سے تھا۔ صابن بنانے کی ترکیب نسل در نسل ان کے خاندان کا ایک انتہائی اہم راز رہا ہے۔
حلب صابن میں کوئی کیمیائی اجزا شامل نہیں کیا جاتے اور اسے تیار کرنے کے لیے کم از کم ایک سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔
گیارہویں صدی میں صلیبی جنگجوؤں نے پہلی بار حلب کے اس صابن کو یورپ میں متعارف کروایا۔ گزشتہ ایک عشرے میں اس کی شہرت ساری دنیا میں پھیل چکی ہے۔
نبیل ایندورا کہتے ہیں کہ اپنا ملک چھوڑنا انتہائی مشکل فیصلہ تھا لیکن اب شام میں رہنا انتہائی خطرناک ہو چکا ہے۔
نیبل ایندورا نے سترہ سال پہلے نوبل سوپ کے نام سے ایک فیکٹری قائم کی اور صابن امریکہ، یورپ، جاپان اور چین تک برآمد کرتے تھے۔ دو سال پہلے جب شام میں لڑائی شروع ہوئی تو نبیل ایندورا کا کاروبار کی مالیت دس ملین ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔
اس صابن کے ایک ٹکرے کو بنانے کے لیےایک سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ نومبر، دسمبر میں زیتون کو اکھٹا کیا جاتا ہے اور پھر اس ابال کر دوسرا اجزا سے ملایا جاتا ہے ۔ اجزا کو ملانے کے بعد اسے سوئمنگ پول نما ایک فرش پرڈال کر اسے سات ماہ تک ٹھنڈا کیا جاتا ہے۔
سات ماہ بعد سبز رنگ کے اس صابن کو کاٹ کر اپنی مہر ثبت کرنے کے بعد بیچا جاتا ہے۔
نیبل ایندورا کا کہنا ہے کہ یہ صابن بیاسی فیصد زیتون کے تیل اور بارہ فیصد لوریل کے تیل پر مشتمل ہوتا ہے۔
نیبل ایندورا بتاتے ہیں کہ صدیوں سے صابن بنانے کی ترکیب میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی اور انہوں نے ابالنے کے لیے لکڑی کی بجائے سٹیم بوئلر کا استعمال شروع کیا تھا۔
نبیل ایندور نے دو ہزار دس میں پانچ سو ٹن صابن تیار کیا لیکن اب شام کے حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ نبیل اپنے کارخانے کو بند کر بیروت کو ہجرت کر گئے ہیں۔
نبیل ایندورا بتاتے ہیں کہ وہ شام کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ ایک بار وہ خود اغوا ہونے سےبال بال بچے۔ ان کے خاندان کے فرد ایک کار بم دھماکے ہلاک ہونے سے تو بچ گئے لیکن ان کی گاڑی کو نقصان پہنچا۔
نبیل ایندورا شام کو موجودہ صورتحال کا موازنہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان اور جرمنی کا شہروں سے کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے کہ شام کے لوگ اپنے ملک کو ایک بار پھر تعمیر کر سکتے ہیں لیکن پہلے انہیں ایک دوسرے سے لڑنا بند کرنا ہو گا۔

بہ شکریہ بی بی سی اردو
 

arifkarim

معطل
عرب مسلمان ممالک اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ تیل کی دولت سے مالا مال یہ عرب ممالک اگر چاہتے تو مغربی ٹکر کی صنعت یہاں لگا سکتے تھے۔ لیکن اس دولت کا کیسا برا استعمال ان ممالک نے کیا ہے، اسکی شاید ہی کوئی اور ملک مستحق ہو سکے گا۔ پورے مشرق وسطیٰ میں سوائے اسرائیل، ترکی اور ایران کے، کسی بھی دوسرے ملک میں کامیاب صنعت موجود نہیں جو کہ ہر ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔
http://en.wikipedia.org/wiki/Economy_of_the_Middle_East
 
Top