شام میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال اور ایرانی صدر حسن روحانی

یوسف-2

محفلین
ایرانی صدر حسن روحانی نے شام میں کیمیائی ہتھیاروں سے حملوں کی تصدیق کی ہے اور ان حملوں میں ہونے والی ہلاکتوں پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کیمیائی حملے روکے۔
ایرانی صدر نے یہ نہیں بتایا کہ یہ حملہ کس نے کیا۔ بتا بھی نہیں سکتے۔لیکن جتنا بتایا، اتنا ہی کافی ہے۔ وہ بے شک ’’صدر ‘‘ ہیں لیکن طاقت کا مرجع تو کوئی اور ہے چنانچہ ’’حکمت ‘‘ کا تقاضا تھا کہ بس اتنا ہی بیان دیا جائے جتنا انہوں نے دیا۔
عالمی برادری سے حملے رکوانے کا مطالبہ البتہ خطرناک ہو سکتا ہے۔ ان کے دائیں بائیں موجود لوگ اس کا معنی یہ لے سکتے ہیں کہ شام پر حملے کی دعوت دی گئی ہے اس لئے کہ کیمیائی ہتھیار چلانے والا اس دور میں شام کے سوا کوئی اور نہیں ہے۔ اصل میں تو انہیں یہ مطالبہ اپنے ملک کی حکومت ہی سے کرنا چاہئے تھا کہ وہ آئندہ کوئی کیمیائی حملہ نہ ہونے دے۔ روحانی سے زیادہ کون جانتا ہے کہ شام کو یہ کیمیائی ہتھیار کس ملک نے جہاز بھر بھر کر دیئے۔
ان کیمیائی حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد اب18سو سے بڑھ چکی ہے جن میں ایک ہزار سے زیادہ بچے تھے۔ میڈیا پر حملے کی مزید تصویریں اور کلپ آئے ہیں جن کو سہوِ نظر سے تو دیکھا جا سکتا ہے لیکن قصد نظر سے دیکھنا بہت مشکل۔ ایک مکان کی فلم دکھائی گئی، اس گھر کے تمام افراد مارے گئے تھے۔صاحب خانہ اندر کمرے کی دہلیز پر الٹا پڑا ہوا تھا تو اس کی بیوی برآمدے میں گری ہوئی تھی۔ کوئی بچہ یہاں گرا ہوا ہے توکوئی وہاں۔ ایک چھ ماہ کا بچّہ سیڑھیوں پر سجدے کی حالت میں مردہ پڑا تھا۔ اس عمر کے بچے اکثر ایسا پوز بناتے ہیں۔سر زمین پر رکھ کر ٹانگوں کے بیچ سے جھانکتے ہیں۔ یہ بچہ بھی کچھ یہی کھیل کھیل رہا تھاکہ کیمیائی حملے نے اس کی آنکھ مچولی وہیں ختم کر دی۔ نہ جھانکنے والا رہا نہ وہ جسے وہ جھانک رہا تھا۔
لاشرقیہ لا غریبہ کا غلغلہ بہت سنا تھا۔ اب پتہ چلا اس کے معنی بعض لوگوں کے خیال میں کیا ہیں۔ بہرحال، نسلی صفائی کا عمل جاری ہے۔ شام کی سوا دو کروڑ کی آبادی میں ایک چوتھائی کا اب دنیا میں کوئی گھر نہیں۔30لاکھ تو بچے ہی بے وطن ہوگئے۔ دس لاکھ کو ملک چھوڑنا پڑا اور20لاکھ وہ ہیں جو اندرون ملک صحراؤں میں بھٹک رہے ہیں۔روٹی ملتی ہے تو کھا لیتے ہیں، ورنہ فاقوں کی دھوپ میں چلتے چلے جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ نے بیان دیا ہے کہ ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ وہ انہیں کھانا نہیں دے سکتی۔یہبچے اپنے ماں باپ سے بچھڑ گئے ہیں۔ انہیں کچھ پتہ نہیں ہے کہ ان کے ماں باپ زندہ ہیں یا نہیں اوراسی طرح ان کے ماں باپ کوبھی ان کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ہے ۔ یہ بے گھر بچے صحراؤں اور ویرانوں اوربمباری سے بنے کھنڈروں میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔ شاید کہیں ماں باپ مل جائیں۔ کون جانے، ان کی قسمت میں کیا لکھا ہے۔ ماں باپ سے دوبارہ ملاقات یا بشار الاسد کی طرف سے داغا جانے والا کوئی بم ، کوئی میزائل، کوئی کیمیائی ہتھیاروں والا راکٹ۔
________________________
ایک ٹی وی پر بحث چل رہی تھی، سیکولرزم کے ٹھیک معنے کیا ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے یہ بحث اخبارات میں بھی الگ الگ مضامین کی شکل میں چلتی رہی ہے۔ ہاتھ کنگن کو آر سی کیا، دنیا میں جہاں جہاں بھی سیکولرزم لاگو ہے، وہاں وہاں دیکھ لیجئے، صاف معلوم ہو جائے گا کہ سیکولرزم کسے کہتے ہیں۔
سیکولرزم کے ٹھیک معنی اس مشاہدے کی روشنی میں یہ ہیں: ایسا حکومتی نظام جو ہر مسلک، ہر مذہب اور ہر نظرئیے کو خوش دلی سے جگہ دے اور برداشت کرے۔۔۔سوائے اسلام کے۔ اگرکہیں ایسا سیکولرزم ہے جو اسلام کو بھی برداشت کرتا ہو تو مان لیجئے، دھوکہ دیا جا رہا ہے، وہ سیکولرزم ہو ہی نہیں سکتا۔
امریکہ سے بھارت تک کی ساری ’’سیکولر‘‘ جمہوریتیں دیکھ لیجئے، یہ بات اتنی ہی صاف نظر آئے گی جتنی کہ بادل نہ ہونے کی صورت میں آسمان صاف نظر آتا ہے۔ بھارت کا حال تو معلوم ہے، اس کے پڑوسی، نئے نئے سیکولرزم کا بھوت چڑھے بنگلہ دیش میں ہندو مت سے لے کر بدھ ازم تک سب برداشت اور قبول ہے اور نہیں قبول تو بس اسلام۔ مسلمان ملکوں میں سب سے پہلا سیکولرملک ترکی تھا، وہاں یہودیت کو تو برداشت کیا گیا لیکن اسلام کو نہیں۔ تازہ تازہ سیکولر ملک مصر بنا ہے، اور سال بھر پہلے بھی تھا۔ چنانچہ سکّہ رائج الوقت پھر وہی ہوگیا ہے جو سال بھر پہلے تھا۔ سب قبول، بس اسلام ناقبول۔ ایسا ہی ماجرا الجزائر میں ہے اور ایسا ہی باقی سب سیکولر ملکوں میں اور آنجہانی کمیونزم بھی مذہبی طور پر اپنے انداز کا سیکولرزم اپنے اندر لئے ہوئے تھا۔ کمیونسٹ لٹریچر میں مذہب کو افیون اور عبادت گاہوں کو نشے اور استحصال کے اڈے کہا گیا اور وعدہ کیا گیا کہ ان سب سے نجات دلا دی جائے گی۔ سب سے پہلے کمیونزم روس میں آیا جہاں گرجے تھے، مسجدیں تھیں اور یہودیوں کے سناگاگ بھی۔ انقلاب کے بعد کسی گرجے کی اینٹ اکھاڑی گئی نہ سناگاگ کا پرنا لاتوڑا گیا لیکن مسجد جہاں جہاں نظر ائی ڈھا دی گئی۔ اور یہی کہانی باقی کمیونسٹ ممالک کی بھی رہی۔ معلوم ہوا کہ کمیونزم کے اندر موجود سیکولرزم بھی سیکولرزم کی تعریف پر ٹھیک ٹھیک پورا اترتا تھا۔
تو محترم حضرات، بحث کی ضرورت ہی کیا ہے۔ معنے تو صاف ہیں۔
________________________
لاہور کی ایک صوبائی سیٹ پر تحریک انصاف کا امیدوار کوئی دو سو ادو ہزار دونوں کی لیڈ سے جیت رہا تھا۔ لیکنادھر رات بھیگی، ادھر کرامات ہوگئی یعنی مسلم لیگ کے امیدوار نے یہ سیٹ تین سو ووٹوں سے جیت لی۔
تحریک انصاف کا یہ امیدوار جیت جاتا تو ایسی کیا آفت آجانی تھی جو مسلم لیگ پر بہت بھاری پڑتی؟ اس کے پاس صوبائی اسمبلی میں سوا تین سو سیٹیں ہیں۔ ایک چھوڑ، دس کم ہو جاتیں تو بھی کیا فرق پڑتا۔ راجن پور سے شہباز شریف کی جیتی سیٹ بھی تو مسلم لیگ کے ہاتھ سے نکل گئی تھی۔ اسے قبول کر لیا تھا تو اس لاہور والی سیٹ پر قبولیت کے راستے میں کیا رکاوٹ آگئی۔
چلئے، یہ تو ہوا جو ہوا، تحریک انصاف نے اس پر اگلے روز شہر میں دھرنا دیا۔ سو سے بھی کم لوگ تھے۔ دفعہ 144نافذ تھی۔ اس دفعہ کا احترام کرانے کے لئے پولیس نے اس دھرنے پر دھاوا بول دیا۔ جو خبر دو کالم لگنی تھی، اب شہ سرخیوں سے چھپی۔دفعہ 144کی سیاسی خلاف ورزی کو عام طور سے حکومتیں برداشت کر لیتی ہیں۔ بعد میں مقدمے درج کر لئے جاتے ہیں۔ خود مسلم لیگ نے عدلیہ کی بحالی کے لئے تاریخی لانگ مارچ اس دفعہ کو توڑ کر ہی کیا تھا۔ امن و امان کا مسئلہ بن جائے تو سختی کی جاتی ہے لیکن یہ چند درجن افراد کا علامتی دھرنا کون سا مسئلہ پید اکرنے والا تھا؟اور دھرنا آج پھر ہوگا۔ وزیراعظم نواز شریف نے ٹھیک کہا کہ ان کی حکومت کے خلاف کوئی سازش نہیں ہو رہی۔ لیکن ضرورت سے زیادہ محبت کرنے والے اکثر اوقات وہ کچھ کر جاتے ہیں جن کے بعد سازش کرنے والوں کو زحمت کرنے کی چنداں ضرورت نہیں رہتی۔ مسلم لیگ کی حکومت ایسی محبت کرنے والوں کو بے شک نوازے لیکن ان کی ’’محبت‘‘ کو حدود میں ضرور رکھے۔
اور ایک ضروری بات بھی نوٹ کرے۔ اسے اطلاع سمجھے یا کچھ اور وہ یہ ہے کہ سازش ہو رہی ہے یا نہیں ہو رہی ہے، ’’مہلت‘‘ شاید بہت زیادہ باقی نہیں رہی ہے۔کہ کچھ جہتیں اوجھل رہ جایا کرتی ہیں اور گھات وہیں لگی ہوتی ہے۔
عبداللہ طارق سہیل: نئی بات 26 اگست 2013
 
Top