شام بھی تھی دھواں دھواں

الف عین

لائبریرین
نام کتاب: شام بھی تھی دھواں دھواں
مصنّف/مترجم: رفیق انجم
ناشر: گلستاں پبلی کیشنز، 16، زکریا سٹریٹ، کولکاتا 700073
تبصرہ: اعجاز عبید

ڈرامہ اپنی ذات میں دو پہلو رکھتا ہے، ایک ادب کی صنف کے طور پر اور دوسرے تھئیٹر کے ذریعے عوامی پیش کش کی شکل میں۔ اور یہ دونوں پہلو بڑی حد تک ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اور جہاں تک سوال کسی مخصوص زبان کے ڈرامے کا ہے تو مجھے یہ کہنے میں کوئ عار نہیں کہ اگر کسی زبان میں اسٹیج کی اچھّی روایت رہی ہے تو اس زبان میں بطور صنفِ ادب بھی ڈرامہ کافی اہمیت اختیار کر لیتا ہے۔ ہندوستان کے تناظر میں ہی دیکھا جائے تو یہ صورتِ حال صرف بنگالی اور مراٹھی ڈراموں کے ساتھ ہے کہ مغربی بنگال اور مہاراشٹر دونوں ریاستوں میں عوامی تھئیٹر کی روایت شاندار رہی ہے، عوام اور حکومتوں سے اس کے فروغ میں زیادہ تعاون بھی ملتا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان دونوں صوبوں کی زبانوں میں بھی اسے بطور صنفِ ادب کے اہمیت حاصل ہے۔ اردو کا معاملہ کچھ مختلف ہے، ایک تو یہ کہ عوام کی حد تک اس کی زبان ہندی سے زیادہ مختلف نہیں ہے، (آگرہ بازار جیسے ڈرامے کو بھی ہندی ڈرامہ کہہ کر پیش کیا جا چکا ہے) اور نہ اردو کا اپنا کوئ صوبہ ہے۔ آٖغا حشر سے اردو تھئیٹر کی روایت ضرور شروع ہوئ لیکن یہ وہ زمانہ تھا جب ہندی کا چلن بھی نہیں کے برابر تھا۔ آزادی کے بعد جب ہندی کو قومی زبان کے روپ میں حکومتِ ہند نے قبول کیا تو "ہندوستانی" ڈرامے نے ہندی ڈرامے کا روپ اختیار کر لیا۔ اردو میں جو ڈرامے لکھے بھی گئے، وہ کچھ محض کاغذی زینت بنے رہے، کچھ ریڈٖیائ ڈراموں کی شکل میں ریڈیو سے نشر ہوئے اور بہت کم سٹیج پر پیش کئے گئے۔ کم از کم ہندوستان میں (پاکستان میں ڈرامے کے ارتقاء سے میں کماحقّہٗ واقف نہیں اس لئےاس سلسلے میں خاموش رہنے میں ہی میری خلاصی ہے) بنگلہ اور مراٹھی ڈراموں نے تھئیٹر اور ادب دونوں جگہ اپنی اہمیت منوا رکھی ہے۔ اس مقبولیت کی وجہ سے بھی اردو میں ان دونوں زبانوں کے ڈرامے بھی اکثر ترجمہ کئے گئے ہیں۔
پیشِ نظر کتاب بھی ایسی ہی ایک کتاب ہے جس میں کولکاتا کے ایک تھئیٹر گروپ ’چُپ کتھا‘ کے پیش کردہ دو ڈراموں کا اردو میں ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔ مترجم رفیق انجم نے خود اپنے پیش لفظ (جس کاانھوں نے’ ایسا لگتا ہے کہیں تہہ میں سمندر ہے یہاں‘ کا نام دیا ہے) میں اعتراف کیا ہے کہ ’چپ کتھا اس اعتبار سے منفرد ہے کہ یہ گروپ بیک وقت بنگلہ اور ہندی دونوں زبانوں میں ڈرامے پیش کرتا ہے۔ اب تک اس گروپ کے لئے میں نے چھہ ڈرامے ترجمہ کئے ہیں، یہ سبھی ڈرامے سٹیج ہو چکے ہیں۔‘ اس سے پتہ چلتا ہے کہ پیشکش کے طور پر ان کو بھی ہندی ڈراموں کا نام دیا گیا تھا لیکن کیوں کہ یہ کتاب اب اردو میں چھپی ہے، اس لئے اب انھیں اردو ڈراموں کی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔
’چپ کتھا‘ کے پیش کردہ اور رفیق انجم کے ترجمہ شدہ ڈراموں میں سے دو ڈرامے اس کتاب میں شامل کئے گئے ہیں۔ پہلا ڈرامہ الیکسی آربوژوف کے روسی ڈرامے (جس کے انگریزی ترجمے کا نام Old Times دیا گیا ہے) کا ترجمہ ہے جو در اصل موہت چٹوپادھیائے کے بنگلہ ترجمے ’تکھن بِکیل‘ کی اردو شکل ہے۔ اردو میں اسے ’شام بھی تھی دھواں دھواں۔۔‘ کا عنوان دیا گیا ہے جو کتاب کا نام بھی ہے۔
دوسرا ڈرامہ ’جنم دن‘ ول گبسن کے انگریزی ڈرامے The Miracle Worker کا ترجمہ ہے اور یہ بھی براہ بنگلہ موہت چٹوپادھیائے کے ہی اسی نام کے ترجمے سے کیا گیا ہے۔ یہ ڈرامہ مشہور نا بینا خاتون ہیلن کیلر کی زندگی کے ایک پہلو کا احاطہ کرتا ہے۔
یہ دونوں تراجم رفیق انجم نے بنگلہ کے توسّط سے کئے ہیں اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ان کو ہندوستانی ماحول اور محاورے میں ڈھالنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئ ہوگی۔ بنگلہ ڈرامے کا ماحول اور محاورہ اردو ہندی سے زیادہ مختلف نہیں لیکن انگریزی ڈرامے میں بھی کرداروں کے انگریزی ناموں کے علاوہ زبان میں زیادہ اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا۔ اور اس کے لئے رفیق انجم ہی نہیں، موہت چٹوپادھیائے بھی تعریف کے مستحق ہیں۔
ڈرامہ اگرچہ پڑھنے کی چیز نہیں ہے لیکن اس کتاب کا مطالعہ بھی کیا جائے تو ترجمے سے یہ کم ہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ ترجمہ ہے۔ ’شام بھی تھی دھواں دھواں‘ میں اگرچہ اجنبیت کے در آنے کے زیادہ مواقع تھے لیکن اسے پڑھ کر اوریجنیلٹی کا احساس ہی ہوتا ہے جو ترجمے کی بڑی کامیابی ہے۔
اور جیسا کہ میں نے لکھا ہے کہ ڈرامے کی اصل کامیابی عوامی پیشکش ہوتی ہے، اور یہ دونوں ڈرامے کامیابی سے تھئیٹر میں پیش کئے جا چکے ہیں جن سے ان ترجموں کی قوّت کا پتہ چلتا ہے۔ اندرونی فلیپ پر ڈرامے سے جڑے ظہیر انور کا بیان ہے، ’میں نے ان ڈراموں کا بڑا تاثّر سٹیج ہپر دیکھا ہے‘، اور صدیق عالم رقم طراز ہیں،’میں سٹیج پر اس (شام بھی تھی۔۔) ڈرامے کو دیکھ کر مبہوت رہ گیا تھا‘ ۔ ان مقولات کی اس لئے ضرورت پڑی کہ یہ ڈرامے میں نے دیکھے نہیں، صرف پڑھےہیں۔ اس کامیابی کے لئے رفیق انجم مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ان سے یہ امید رکھنا بعید از کار نہیں ہوگا کہ وہ اردو میں اوریجنل ڈرامہ تصنیف کریں اور سٹیج پر پیش کریں۔
کتاب گلستاں پبلی کیشنز نے بہت خوبصورتی سے چھاپی ہے۔ قیمت ہے دو سو روپئے۔
 
Top