شارجہ کتب میلہ

یوسف-2

محفلین
06_09.gif
 
میں بھی ہر سال شارجہ بک فئیر میں شرکت کرتا ہوں۔۔۔اس مرتبہ پاکستانی سٹالز بھی تھے لیکن ان سٹالز پر کتابوں کی تعداد نسبتاّ کم تھی۔۔۔بہرحال زبردست ایونٹ تھا۔
 

یوسف-2

محفلین
میں 31 ویں شارجہ انٹرنیشنل بک فیئر میں شرکت کے لیے منتظمین کی خصوصی دعوت پر دبئی پہنچا اور ایئرپورٹ سے باہر آیا تو اس صحرائی شہر کو شام کی لالی اپنی آغوش میں لے رہی تھی۔ ماحول میں وہ روایتی حدت نہیں تھی جو اس صحرائی شہر کا خاصہ ہے۔ ایئرپورٹ پر استقبال سے لے کر شاندار ہوٹل میں قیام تک تمام انتظامات اس بات کی غمازی کر رہے تھے کہ آنے والے تمام بین الاقوامی ادیب لکھاری دانشور اور شعراء واقعی شارجہ کے شیخ کے خصوصی مہمان ہیں اور محترم شیخ سلطان محمد القاسمی رولر آف شارجہ کیلئے ان علمی وادبی شخصیات کی کیا اہمیت ہے۔۔۔ علم کی کیا اہمیت ہے۔۔۔​
شارجہ انٹرنیشنل بک فیئر مسلسل پچھلے 31 برسوں سے کامیابی سے منعقد کیا جا رہا ہے۔ جس میں کتب بینی کو فروغ دینے کی خاطر ہر سال پوری دنیا سے سینکڑوں پبلشرز کو مدعو کیا جاتا ہے اور ان کو اپنی کتابوں کے ڈسپلے کیلئے ان کے ممالک کے نام سے مختلف پویلین اور ان پویلنیز میں سٹالزالاٹ کیے جاتے ہیں۔ اس سال 76ممالک کے پبلشرز نے اپنی اشاعتی کتب کے ساتھ اس رنگا رنگ علمی ادبی میلے میں بھرپور شرکت کی۔ میلے میں بلا شبہ روزانہ لاکھوں افراد نے بے پناہ ذوق وشوق سے شرکت کی۔ دنیا میں ہونے والے مختلف کتاب میلوں میں فرینکفرٹ بک فیئر دنیا کا نمبرون بک فیئر مانا جاتا ہے جب کہ اس سال ایک چھوٹا ملک ہونے کے باوجود شارجہ کے اس بک فیئر نے دنیا میں ہونے والے کتب میلوں میں چھٹی پوزیشن حاصل کی۔​
شارجہ بک فیئر کی ایک خاص بات ہر سال اس میلے میں کسی ایک ملک کو ’’فوکس کنٹری‘‘ قرار دینا بھی ہے۔ پچھلے سال یہ اعزاز بھارت کو حاصل تھا۔ جب شیخ سلطان محمد القاسمی رولرآف شارجہ پچھلے سال میلے کے افتتاح پر آئے تو انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اگلے سال یعنی موجودہ سال 2012 میں ’’فوکس کنٹری‘‘ پاکستان کو رکھا جائے۔​
یہ یقیناًرولر آف شارجہ کی پاکستان سے بے پناہ محبت کا ثبوت ہے۔ اس خواہش کے پیچھے شیخ کے فائینینشنل ایڈوائزر عزیر الرحمن صاحب کی قربت کا بھی بہت دخل تھا کہ عزیز الرحمن صاحب ایک انتہائی سچے اور محب وطن پاکستانی ہیں اور شیخ سلطان محمد القاسمی کے پسندیدہ فائینینشنل ایڈوائزر ہیں۔ عزیز الرحمن صاحب پاکستان کی بھلائی اور پاکستان کو نمایاں کرنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے بلکہ ایسے مواقع پیدا کرنے کی تگ ودو میں لگے رہتے ہیں۔ اس سال شارجہ میلے میں پاکستان کو فوکس کنٹری قرار دیے جانے کے بعدعزیز الرحمن صاحب کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی انہوں نے میلے میں پاکستانی کتب پاکستانی پبلشر زکی شرکت کو مزید نمایاں ،کامیاب اور یقینی بنانے کیلئے متعلقہ پاکستانی ڈپارٹمنٹ کو ایک نہیں کئی خطوط ارسال کیے مگر بیورو کریسی کے بابوؤں نے اس کا جواب تک دینا مناسب نہ سمجھا کہ ان کی تمام تر توجہ اپنے مفادات پر ہوتی ہے پاکستان، پاکستان کا مفاد نہ کبھی ان کی ترجیح تھا نہ ہو گا ورنہ پاکستان کا جو حال آج ہے وہ ہر گز نہ ہوتا۔​
عزیز الرحمن صاحب، عدم توجہ وعدم تعاون کا یہی شکوہ پاکستانی ایمبیسیڈر جمیل خان اور قونصل جنرل طارق سومرو کے بارے میں بھی کرتے پائے گئے جس کی تصدیق وہاں موجود بیسیوں پاکستانیوں نے کی کہ ایک مرتبہ فیتہ کاٹنے کی غرض سے دو گھنٹے پہلے آنے والے ایمبیسیڈر صاحب نے دوبارہ مڑ کر پاکستانی پویلیئن کی خبر تک نہ لی۔ جب کہ انڈین ایمبیسیڈر، انڈین قونصل جنرل یا انڈین ایمبیسی کا کوئی نہ کوئی نمائندہ پاکستانی پویلئن سے متصل انڈین پویلئن میں روز آکر صبح سے رات گئے تک بیٹھا کرتے تھے اور لوگوں کو انڈین پویلئن کی طرف متوجہ کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کرتے رہے۔​
جب پاکستانی اداروں کی طرف سے عزیز الرحمن صاحب پوری طرح مایوس ہو گئے تو انہوں نے اپنے احباب کرنل نصیر انجم جو شارجہ میں مقیم پاکستانی سکول کے پرنسپل بھی ہیں اور ویلکم بک پورٹ کراچی کے روحِ رواں قمر زیدی صاحب کو مختلف ذمہ داریاں سونپیں۔ قمر زیدی صاحب نے ایک سچے پاکستانی ہونے کی حیثیت سے شارجہ بک فیئر میں پاکستانی پویلئن کو کامیاب بنانے کیلئے دن رات ایک کر دیا ورنہ شاید پاکستانی پویلئن میں اُلو بول رہے ہوتے اور ایک بین الاقوامی بک فیئر میں پاکستان کو نمایاں ہونے کا جو موقع ملا تھا وہ ضائع ہو جاتا۔ رولر آف شارجہ کے فنانشل ایڈوائزر عزیز الرحمن صاحب ان کے احباب کرنل نصیر انجم، عبدلرشید صاحب اور خصوصاً ویلکم بک پورٹ والے قمر زیدی اس میلے میں پاکستان کی بھرپور اور قابل فخر شرکت کو یقینی بنانے پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اور سرکاری اداروں کے وہ ملازمین جو اس کام کی تنخواہ لے کر ہل کر پانی نہیں پینا چاہتے وہ چار حرفوں کے حقدار ہیں۔​
کتاب میلے میں پوری دنیا میں ہر زبان کے نامور ادیبوں، شاعروں لکھاریوں کو مدعو کیا گیا تھا اور مختلف ہالز میں ان کے ساتھ ان کی تصنیفات سننے اور سوال وجواب کے سیشنز جاری تھے۔ مجھ سے پہلے معروف شاعر، کالم نویس جناب عطاء الحق قاسمی صاحب کے ساتھ سیشن ہو چکاتھا اس سے اگلے روز امجد اسلام اور انور مسعود صاحب کو سنا گیا تھا اور کتاب میلے کے آخری روز ایک ہال میں معروف انڈین رائٹر ارون دھتی رائے کے ساتھ سیشن تھا اور ایک ہال میں پاکستان کی طرف سے مجھے ایک نوجوان شاعر کالم نگار اور ڈرامہ رائٹر کی حیثیت سے مدعو کیا گیا تھا۔ دبئی کے معروف شاعر فیاض ظفر صاحب میرے ساتھ نشست میں میزبانی کے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ ہال پاکستانی اور کچھ انڈین سامعین سے بھرا ہوا تھا۔ کرسیاں کم پڑ جانے کی وجہ سے کچھ لوگوں کو پیچھے کھڑے ہو کر پروگرام سننا پڑا۔ ہر دانشور، لکھاری، شاعر کو پروگرام کے مطابق ایک گھنٹہ دیا جاتا ہے مگر لوگوں کا ذوق شوق اور محبت دیکھتے ہوئے آرگنائزرز نے میری ساتھ کی گئی نشست کو آدھا گھنٹہ اور بڑھا دیا۔ یوں مجھ سے ایک گھنٹہ شاعری سنی گئی اور آدھا گھنٹہ مختلف سیاسی، سماجی، موضوعات اور میرے فن پر سوالات کیے گئے۔​
واپسی کے سفر میں میں یہی سوچ رہا تھا کہ خلیج کی وہ ریاستیں اور وہ معاشرے جن کو ہم ملوکیت کے مارے بند معاشرے کہتے ہیں۔ اپنی نسلوں کو کتاب کی روشنی سے منور کر رہے ہیں اور ہم ایک جمہوری ملک ہونے کے باوجود کتاب سے بے پناہ دور ہو چکے ہیں۔ ماضی میں اگر عوام، اشرافیہ اور حکومتوں نے کتاب سے دوری اختیار نہ کی ہوتی تو آج ہمارے بچے کمر پر بستے کی جگہ بم نہ باندھ رہے ہوتے۔​
وصی شاہ کا کالم مطبوعہ نئی بات 12 دسمبر 2012​
 
پاکستانی سٹالز پر کتابوں کی قیمت کا فارمولا بھی ملاحظہ ہو۔۔۔جو قیمت پاکستانی روپے میں لکھی ہوئی ہے، اسکو دس پر تقسیم کرکے حاصل قسمت درہموں میں ادا کیجئے۔ مثلاّ اگر قیمت 400 روپے درج ہے تو 40 درہم ادا کرنے ہونگے۔ پاکستان میں وہی کتاب آپکو 300 میں ملے گی اور یہاں سٹال پر 40 درہم یعنی لگ بھگ 1050 روپے میں پڑے گی۔
 
Top