پاکستانی
محفلین
جنرل مشرف کی طرف سے ملک میں لگائی گئی ایمرجنسی کی وجہ سے کنواروں کے مزے ہو گئے ہیں۔ ہر طرف سے بینڈ، باجوں اور شہنائیوں کی آوازیں آ رہی ہیں۔ ماحول اور موسم کے مطابق آجکل شادیوں کی رسمیں زوروں پر ہیں۔ یہاں ڈیرہ غازی خان میں ہر جمعرات، جمعہ اور ہفتے کی راتوں میں آدھے شہر کی سڑکیں ٹینٹوں اور قناعتوں کی وجہ سے بند ہوتی ہیں۔ خود مجھے ایک ماہ سے مسلسل ہر ہفتے دو تین شادیوں میں شرکت کرنی پر رہی ہے، اس وجہ سے میں نے سوچا کہ کیوں نہ آپ کو سرائیکی خطے میں شادی کی خوبصورت رسمیں متعارف کرائی جائیں۔
شادی ایک خوبصورت بندھن اور مقدس فریضہ ہے۔ سرائیکی خطے کے لوگ عرصہ دراز سے اس کی ادائیگی اپنے روایتی طریقے سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔ سائنس اور کمپیوٹر کے اس تیز رفتار دور میں جہاں خود انسان متاثر ہوا ہے وہاں ان رسموں میں بھی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں مگر ان رسموں کی بنیاد وہی زمانہ قدیم والی ہی ہیں۔
جس گھر میں لڑکی پیدا ہوتی ہے ماں، باپ اسی دن سے اس کی رخصتی کی تیاریاں شروع کر دیتے ہیں کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ بیٹیاں پرایا دھن ہوتی ہیں۔ ماں ہر وقت بیٹی کے اچھے نصیب کی دعائیں کرتی رہتی ہے۔ سرائیکی خطہ پسماندگی اور غربت کا شکار ہے اس لئے دیہی خواتین اپنی جمع پونجی اور مال مویشی پال کر آہستہ آہستہ ‘ڈاج‘ یعنی جہیز اکٹھا کرتی رہتی ہیں، کیونکہ ایک ہی وقت میں وہ پورا انتظام نہیں کر سکتے۔ اس کے ساتھ ساتھ بیٹی کی تربیت، اسے ہنرمند بنانے اور کھانے پینے میں مہارت پر خاص توجی دی جاتی ہے۔ جب لڑکی جوان ہو جاتی ہے تو ماں باپ پہلی فرصت میں مناسب ‘ور‘ یعنی رشتہ ملتے ہی اپنی بیٹی کے ہاتھ پیلے کر دیتے ہیں۔ شادی کی رسومات کئی مرحلوں اور دنوں پر مشتمل ہوتی ہیں لیکن مل جل کر کام کرنے کی وجہ سے بڑی آسانی سے تمام مرحلے طے ہو جاتے ہیں۔ سب سے پہلے لڑکے کے گھر سے اس کی ماں یا کوئی قریبی رشتے دار عورت لڑکی والوں کے گھر جاتی ہے۔ لڑکی کو ہر لحاظ سے دیکھ کر، گھر اور دیگر چیزوں کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے۔ اگر لرکی پسند آ جائے تو اپنے گھر والوں خصوصاََ شوہر کو رضا مند کیا جاتا ہے۔ ادھر لڑکی کی ماں اپنے شوہر سے رشتے کے بارے میں بات کرتی ہے۔ اس کے بعد خواتین کا ایکدسرے کے گھر میں آنا جانا، تحفے تحائف دینا شروع ہو جاتا ہے۔ بالآخر جب دونوں خاندان رشتہ کرنے پر راضی ہو جاتے ہیں تو ایک رات مخصوص کر دی جاتی ہے، اُس رات لڑکے والے اپنے چند قریبی رشتے داروں کے ہمراہ لڑکی والوں کے گھر آتے ہیں اور اس رات شادی کی تاریخ طے کی جاتی ہے جسے گنڈھیں باندھنا کہتے ہیں۔
مزید یہاں
شادی ایک خوبصورت بندھن اور مقدس فریضہ ہے۔ سرائیکی خطے کے لوگ عرصہ دراز سے اس کی ادائیگی اپنے روایتی طریقے سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔ سائنس اور کمپیوٹر کے اس تیز رفتار دور میں جہاں خود انسان متاثر ہوا ہے وہاں ان رسموں میں بھی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں مگر ان رسموں کی بنیاد وہی زمانہ قدیم والی ہی ہیں۔
جس گھر میں لڑکی پیدا ہوتی ہے ماں، باپ اسی دن سے اس کی رخصتی کی تیاریاں شروع کر دیتے ہیں کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ بیٹیاں پرایا دھن ہوتی ہیں۔ ماں ہر وقت بیٹی کے اچھے نصیب کی دعائیں کرتی رہتی ہے۔ سرائیکی خطہ پسماندگی اور غربت کا شکار ہے اس لئے دیہی خواتین اپنی جمع پونجی اور مال مویشی پال کر آہستہ آہستہ ‘ڈاج‘ یعنی جہیز اکٹھا کرتی رہتی ہیں، کیونکہ ایک ہی وقت میں وہ پورا انتظام نہیں کر سکتے۔ اس کے ساتھ ساتھ بیٹی کی تربیت، اسے ہنرمند بنانے اور کھانے پینے میں مہارت پر خاص توجی دی جاتی ہے۔ جب لڑکی جوان ہو جاتی ہے تو ماں باپ پہلی فرصت میں مناسب ‘ور‘ یعنی رشتہ ملتے ہی اپنی بیٹی کے ہاتھ پیلے کر دیتے ہیں۔ شادی کی رسومات کئی مرحلوں اور دنوں پر مشتمل ہوتی ہیں لیکن مل جل کر کام کرنے کی وجہ سے بڑی آسانی سے تمام مرحلے طے ہو جاتے ہیں۔ سب سے پہلے لڑکے کے گھر سے اس کی ماں یا کوئی قریبی رشتے دار عورت لڑکی والوں کے گھر جاتی ہے۔ لڑکی کو ہر لحاظ سے دیکھ کر، گھر اور دیگر چیزوں کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے۔ اگر لرکی پسند آ جائے تو اپنے گھر والوں خصوصاََ شوہر کو رضا مند کیا جاتا ہے۔ ادھر لڑکی کی ماں اپنے شوہر سے رشتے کے بارے میں بات کرتی ہے۔ اس کے بعد خواتین کا ایکدسرے کے گھر میں آنا جانا، تحفے تحائف دینا شروع ہو جاتا ہے۔ بالآخر جب دونوں خاندان رشتہ کرنے پر راضی ہو جاتے ہیں تو ایک رات مخصوص کر دی جاتی ہے، اُس رات لڑکے والے اپنے چند قریبی رشتے داروں کے ہمراہ لڑکی والوں کے گھر آتے ہیں اور اس رات شادی کی تاریخ طے کی جاتی ہے جسے گنڈھیں باندھنا کہتے ہیں۔
مزید یہاں