سیندک: بلوچستان کا سونا مقامی آبادی کی زندگی بدلنے میں مددگار کیوں نہیں؟

جاسم محمد

محفلین
سیندک: بلوچستان کا سونا مقامی آبادی کی زندگی بدلنے میں مددگار کیوں نہیں؟
ریاض سہیل بی بی سی اردو، سیائن دک

_106554296_screenshot2019-04-22at18.10.22.png

Image captionسیائن دک بلوچی زبان میں سیاہ پہاڑی کو کہا جاتا ہے
پاکستان اور ایران کی سرحد پر واقع قصبے تفتان کی حدود شروع سے کچھ پہلے انگریزی اور چینی زبان پر آسمانی رنگ کا ایک بورڈ آویزاں ہے، جس پر تحریر ہے کہ ’ویلکم ٹو سیندک پراجیکٹ‘ لیکن یہ خیرمقدم ہر شہری کے لیے نہیں بلکہ کچھ لوگوں کے لیے ہے۔

اس پراسرار جگہ پر سونے اور چاندی کے ذخائر ہیں مگر یہ معدنیات کیسے نکالی جاتی ہیں، کہاں فروخت ہوتی ہیں اور کیا منافع ہوتا ہے یہ ایک راز ہے جو چند سینوں یا پھر بعض دستاویزات میں موجود ہے۔
p0775y6g.jpg

بلوچستان کے علاقے سیندک کی سونے کی کانوں کے ملازمین بھی انتہائی مشکل حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں
سیندک کیا ہے
سیندک بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ہے۔ سیائن دک بلوچی زبان میں سیاہ پہاڑی کو کہا جاتا ہے۔

اس منصوبے کا آغاز 1990 میں ہوا تھا، جس میں چینی کمپنی کو کان کی کھدائی، دھات کی صفائی کے کارخانے، بجلی، پانی کی فراہمی اور رہائشی کالونی کی تعمیر کی ذمہ داری دی گئی۔

1995 میں سیندک کا آزمائشی آپریشن شروع کیا گیا اور 1500 میٹرک ٹن تانبے اور سونے کی پیداوار کی گئی جبکہ اگلے ہی سال تیکنیکی اور مالی وجوہات کی بنا پر اس منصوبے کا آپریشن معطل کردیا گیا جس کے بعد 2003 سے دوبارہ آپریشن بحال ہوا۔

یہاں کان کنی اور صفائی و پیداوار کا کام چینی کمپنی ایم آر ڈی ایل کے پاس ہے۔

_106554352_screenshot2019-04-22at18.13.45.png

24 گھنٹے کام جاری رہتا ہے
سیندک میں اس وقت مغربی کان میں کھدائی مکمل ہو چکی ہے جبکہ مشرقی اور شمالی کانوں سے خام مال حاصل کیا جارہا ہے۔ یہ کام 24 گھنٹے بغیر کسی وقفے کے جاری رہتا ہے۔

10 ڈمپر 80 سے 90 ٹن خام مال کو سیمولیٹر کے پاس ذخیرہ کرتے ہیں جہاں سے یہ ریت بن کر دوسرے سیکشن میں جاتا ہے، وہاں سے مختلف رولرز سے گزار کر پانی اور کیمیکل سے اس کو پراسیس کیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ بھٹی میں پہنچتا ہے جہاں اس کے بلاک بنائے جاتے ہیں۔

سات برس تک اس منصوبے میں بطور کاسٹنگ آپریٹر کام کرنے والے احمد یار کا کہنا ہے کہ چوبیس گھنٹوں میں تین کاسٹنگ ہوتی تھیں اور ہر کاسٹنگ میں 44 سے 52 بلاکس بنتے تھے جن کا وزن پانچ سو کلوگرام سے سات سو کلوگرام ہوتا تھا۔

سیندک سے ملازم خوش کیوں نہیں
علی احمد خان نے 2003 سے 2008 تک سیندک میں ملازمت کی اس کے بعد ملازمت چھوڑ دی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہاں تنخواہ بہت کم تھی، چینی کمپنی بین الاقوامی کمپنی ہے لیکن ملازمین کو 80 سے لے کر 120 ڈالر ماہانہ تنخواہ دی جاتی تھی جس وجہ سے ملازم طبقہ بدحال ہے۔

_106554176_saindak.jpg

احمد یار نے 2003 سے 2010 تک سمیولیٹر سیکشن میں بطور کاسٹنگ آپریٹر کام کیا۔ ان کے مطابق وہاں ملازمت کانٹریکٹ پر ہوتی ہے، جب سال پورا ہوتا ہے تو پھر اس میں توسیع کردی جاتی ہے اگر کسی ملازم کا کوئی مسئلہ اٹھے تو بغیر اس کا موقف جانے بات سنے اسے فارغ کردیا جاتا ہے۔

’یونین سازی کی اجازت نہیں اگر کوئی آواز اٹھاتا ہے تو اسے ملازمت سے فارغ کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بھائی تم تو لیڈر بن گئے ہو۔‘

ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ ’جو ملازم دیہاڑی دار ہیں انھیں چار ماہ کی مسلسل ملازمت کے بعد چھٹی ملتی ہے۔ ماسک اور شوز وغیرہ ہوتے ہیں جو ماسک دیے جاتے ہیں وہ گیس ماسک نہیں بلکہ ڈسٹ ماسک ہوتے ہیں جبکہ سلفر گیس کی بو شدید آتی ہے۔ حادثے میں اگر کوئی ملازم مر جائے تو کوئی انشورنس نہیں۔‘

سیندک اور مقامی ترقی
سیندک ممنوعہ علاقہ ہے، مرکزی سڑک سے لے کر منصوبے تک ایف سی، لیویز اور پولیس کی درجن کے قریب چوکیاں قائم ہیں۔ اس علاقے میں چار گاؤں بھی واقع ہیں جن کے رہائشی لوگوں کو خصوصی پاس جاری کیے گئے ہیں جن کی مدد سے انھیں آمدورفت کی اجازت ہے۔

_106554292_screenshot2019-04-22at18.14.24.png

ایف سی کی ہر چوکی گاؤں کے داخلی راستے پر بھی موجود ہے۔ ان گاؤں کے لوگوں کے لیے ایک ہائی سکول اور ہسپتال کی سہولت فراہم کی گئی ہے لیکن حاملہ خواتین شہر کے ہسپتال جاتی ہیں۔

سیندک کے متصل گاؤں کی سڑکیں آج بھی کچی ہیں جبکہ بچے کھلے پتھریلے میدان میں کھیلتے ہیں۔ کوئی گراؤنڈ موجود نہیں۔ کمپنی نے دو دیہات کو بجلی فراہم کی تھی جبکہ دو اس سے محروم رہے بعد میں انھیں سولر پلیٹس لگا کر دی گئیں۔

سیندک کے آس پاس تافتان، نوکنڈی اور ضلعی ہیڈکوارٹر دالبندین واقع ہیں۔ مقامی لوگوں کو پانی کی سہولت فراہم کرنے کے لیے ایک پائپ لائن بچھائی گئی ہے لیکن یہ منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکا۔

پانی صرف چند کلومیٹر تک پہنچ پاتا ہے جبکہ بجلی کی عدم فراہمی اور موٹروں کی فنی خرابی کے باعث مقررہ مقامات پر پانی نہیں پہنچ سکا۔

_106556498_saindak1.jpg

حالیہ بارشوں سے قبل چاغی بلوچستان میں قحط سالی سے شدید متاثرہ علاقے میں شامل تھا، جہاں مال مویشی کی بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں جبکہ خواتین اور بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔

دالبندین کے ایک مقامی سماجی کارکن ظفر خان کا کہنا ہے کہ مقامی ترقی میں سیندک کا کوئی کردار نہیں۔ ’ہاں اس منصوبے سے فائدہ یقیناً پہنچا ہے، ایک چینی کمپنی کو اور دوسرا وفاقی حکومت کو۔ باقی چاغی کے عوام اور بلوچستان کو کچھ نہیں ملا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’بیشک انہوں نے ہمارے چوکیدار اور مالی وغیرہ رکھے ہیں، جنھیں دس ہزار روپے تنخواہ دی جاتی ہے جبکہ صوبائی حکومت نے کم از کم اجرت 14 ہزار مقرر کی ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔‘

_106554294_img_4490.jpg

پوزیشن ہولڈرز کے لیے بھی ملازمت نہیں
سیندک منصوبے کی بحالی 2003 میں ہوئی۔

تقریباً دس سال کے بعد دالبندین میں وفاقی حکومت نے ٹیکنیکل کالج قائم کرنے کا اعلان کیا اور یہ کالج 2017 میں فعال ہوا یہاں ویلڈنگ اور وائرنگ سمیت 6 ماہ کے شارٹ کورسز کرائے جاتے ہیں۔

اب تک یہاں سے دو بیچ فارغ ہوچکے ہیں لیکن اس تربیت نے بھی سیندک میں ان کے لیے روزگار کے دروازے نہیں کھولے۔

کالج کے پرنسپل عالم خان کا کہنا ہے کہ ہم نے اپنے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے سامنے یہ بات رکھی ہے کہ جو ٹاپ ہولڈر ہیں انھیں تو ملازمت فراہم کی جائے انھوں نے کہا کہ وہ چینی کمپنی سے بات کریں گے۔

_106554378_screenshot2019-04-22at18.14.54.png

بلوچستان اور وفاق کا تنازع
پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں آغاز حقوق بلوچستان پیکیج کے تحت سیندک منصوبہ بلوچستان کو دیا گیا تھا اور قرار دیا گیا کہ اگر بلوچستان اس کا کنٹرول حاصل کر لیتا ہےتو اسے منافعے میں سے 35 فیصد حصہ ملے گا، لیکن وفاقی حکومت نے اس منصوبے پر ہونے والی سرمایہ کاری کی واپسی کا مطالبہ کر دیا جو 27 ارب روپے بتائی جاتی ہے۔

سابق وزیرِاعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ کا کہنا ہے کہ انھوں نے میاں نواز شریف کی حکومت کو کہا تھا کہ وفاق کا وعدہ ہے لیکن انھوں نے منصوبہ نہیں دیا جب معاہدے کی مدت پوری ہوئی تو انہوں نے کہا کہ آپ اس کی توسیع کریں تو میں نے انکار کر دیا۔

’پچاس فیصد چین لے جائے، 48 فیصد وفاقی حکومت لے، باقی بلوچستان کو صرف 2 فیصد رائلٹی ملے گی۔ لیکن بدقسمتی سے بلوچستان کی آنے والی حکومت نے معاہدے میں توسیع کر دی۔‘

_106554348_screenshot2019-04-22at18.11.48.png

سیندک میٹل لمیٹڈ کا موقف
حکومت پاکستان کی جانب سے سیندک میٹل لمیٹیڈ اس منصوبے کی نگرانی کرتی ہے۔ کمپنی کے ایک اعلیٰ اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ پروجیکٹ میں چینی کمپنی اور حکومت پاکستان کی نفع میں حصے داری پچاس، پچاس فیصد ہے، جبکہ بلوچستان حکومت کو پانچ فیصد رائلٹی دی جاتی ہے جبکہ ایم آر ڈی ایل نفع میں سے 5 فیصد کان کی بہتری کی مد میں ادا کرتی ہے۔

اہلکار کا کہنا ہے کہ 2016 کی پیدوار کے مطابق 14 ہزار 136 ٹن تانبا نکالا گیا جبکہ 11 ہزار 33 کلو گرام سے زائد سونا اور 1706 کلو گرام چاندی بھی نکلی۔

کمپنی کی مارچ 2019 کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی ملازمین کی تعداد 1659 تھی جن میں سے 125 ڈیلی ویجز پر جبکہ 1634 کانٹریکٹ ملازم ہیں جن میں 75 فیصد کا تعلق بلوچستان سے ہے ان میں بھی اکثریت ضلع چاغی کی ہے۔ ان ملازمین کی کم از کم تنخواہ 150 ڈالر ماہانہ (21 ہزار روپے) جبکہ زیادہ سے زیادہ 1500 ڈالر ماہانہ ہے۔

سیندک میٹل لمیٹڈ نے ملازمین کی حفاظت اور مقامی ترقی کے حوالے سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات نہیں دیے، تاہم چینی کمپنی ایم آر ڈی ایل کے صدر خوشو پنگ نے حال ہی میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ بلوچستان کی معاشی و سماجی ترقی کے لیے ہر ممکن کردار ادا کر رہے ہیں۔

_106554350_screenshot2019-04-22at18.12.11.png

عوام اور سیاست دانوں میں بےچینی
سیندک منصوبے سے ملنے والی آمدنی سے بلوچستان کے سیاست دان اور عوام دونوں ناخوش ہیں۔

یہ بلوچستان کے سیاسی بیانیے کا ایک بنیادی حصہ ہے۔ سینیٹ سے لے کر صوبائی اسمبلی کے اندر اور باہر اس منصوبے پر بات کی جاتی ہے۔

پاکستان کے آئین کے مطابق معدنیات پر صوبے کا حق ہے، بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن ثنا بلوچ کی درخواست پر بلوچستان اسمبلی نے کمیٹی بھی تشکیل دی ہے جو اس حوالے سے سفارشات پیش کرے گی، جبکہ بلوچستان ہائی کورٹ میں بھی ایک درخواست زیر سماعت ہے۔
 
Top