سید ثقلین زیدی ؛ خطاط

الف نظامی

لائبریرین
291.jpg
 

الف نظامی

لائبریرین
سید ثقلین زیدی ؛ خطاط
(خورشید عالم گوہر قلم)
پھول بچو! ہمارے پیارے ملک پاکستان میں بہت سے ایسے فن کار گزرے ہیں اور موجود بھی ہیں کہ جن کے کمالِ فن کا ایک جہاں اعتراف کرتا ہے۔ ان فن کاروں نے علم و فن میں انمٹ نقوش مرتب کیے ہیں جو آج بھی نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ ان معروف اہلِ فن میں ایک نام سید ثقلین زیدی مرحوم کا ہے۔
آپ یکم اپریل 1943 ء کو ضلع سیالکوٹ کے ایک گاوں موضع گڈھیالہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محترم سید نیک عالم شاہ ایک بلند پایہ خوش نویس تھے اور قرآن کریم کی کتابت کے لیے ان کا نام منتخب کیا جاتا تھا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ معروف خطاط سید انور حسین نفیس رقم نے بھی ابتدائی مشق اپنے والد جناب اشرف زیدی اور حکیم سید نیک عالم سے حاصل کی تھی اور ممتاز خطاط محمد صدیق الماس رقم بھی آپ کے شاگردوں میں شامل ہیں۔

جناب ثقلین زیدی نے مقامی ہائی سکول سے میڑک کیا اور مرے کالج سیالکوٹ سے انٹر کیا۔ انٹر کے بعد آپ نے فاضل السنہ الشرقیہ بھی اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا۔ آپ نے خطاطی میں جب کمال حاصل کر لیا تو پھر اس فن کو ذریعہ روزگار کے لیے اپنایا۔ آپ نے چٹان ، مشرق اور معروف اخبار کوہستان میں نمایاں خدمات سر انجام دیں۔ بعد ازاں آپ نے ایک مقامی ادارے میں ملازمت شروع کر دی اور وہاں پر سیف الملوک ، حضرت بلال ، دیوانِ منشور ، رنگ تغزل جیسی معروف ادبی کتابوں کی بے مثال کتابت کی۔ آپ نے بے شمار مساجد میں سنگ مر مر پر خطاطی کے جوہر دکھائے اور شائقینِ فن سے خوب داد حاصل کی۔ میو ہسپتال کے آئی سیکشن کے باہر " اللہ نور السموت و الارض" ایک یادگار شاہکار ہے۔
آپ نے نقش سکول آف آرٹس میں بھی خطاطی کی تربیت دی۔آپ کا قول تھا کہ مسلسل مشق سے نہ صرف تیزی آتی ہے بلکہ الفاظ میں میں خوبصورتی بھی پیدا ہوتی ہے۔ آپ بے حد ملنسار اور وضع دار انسان تھے۔ صوم و صلوۃ کے پابند تھے۔ آپ کے مذاق برجستہ اور مہذب ہوتے تھے اور سننے والا تا دیر محظوظ ہوتا رہتا تھا۔ ثقلین زیدی نام و نمود سے بے نیا تھے اور اصول پسند تھے۔ وقت کا خاص خیال رکھتے اور ہر کام کو وقت پر کرتے تھے۔ آپ کے خطِ نستعلیق میں بے حد جاذبیت اور یگانگت تھی۔ آپ کی طبیعت میں کمرشل ازم نام کی کوئی چیز نہ تھی اور ان کی اس خوبی سے بعض لوگ ناجائز فائدہ اٹھاتے تھے۔
بہت سے پبلشنگ اداروں کی کوشش رہتی ہے کہ وہ اہل فن کا استحصال کرتے ہیں۔ ممتاز خطاطوں حافظ محمد یوسف سدیدی اور جناب نفیس رقم مرحوم سے بھی خطاطی کروا کر بہت سے لوگ محض "جزاک اللہ" کہہ کر کچھ خدمت کیے بغیر چل دیتے تھے۔ یہ روش محض ہمارے ہاں ہے اور قابل صد نفرت ہے اس لیے ہمارے ہاں اہل فن کسمپرسی کی حالت میں رہتے ہیں جب کہ یہ لوگ خود خوب روپیہ کماتے ہیں۔

سید ثقلین مرحوم کے فنکارانہ انداز میں جو مہارت تھی وہ اسی شب و روز محنت کا نتیجہ تھی جس کی وہ تلقین کرتے رہتے تھے۔ ان کا کردار اور ان کی شب و روز عبادت ان کی خطاطی میں واضح نظر آتی تھی۔ وہ عاجزی کا ایک نمونہ تھے۔ ہمیشہ مسکرا کر ملتے اور اگر کوئی دوسرا صاحب فن ملتا تو ہمیشہ اس کے کام کی تعریف کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ سچا فن کار کبھی اپنے منہ سے اپنی تعریف نہیں کرتا اور خود تعریفی ایسا فعل ہے جو اللہ تعالی کو پسند نہیں ہے ۔ ایسا کرنے والا یا تو ذہنی مریض ہوتا ہے یا پھر اسے آخرت کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔ سچ ہے کہ کسی بھی اہل فن اور اہل علم کو زیب نہیں دیتا کہ وہ خود اپنی تعریف کرتا پھرے۔ جس میں جو خوبی ہوتی ہے وہ جلد یا بدیر سب کے سامنے آجاتی ہے۔

سید ثقلین زیدی نے تمام عمر خطاطی کے فروغ میں صرف کی اور 28 اکتوبر 1998ء کو آپ لاہور میں وفات پا گئے۔
پیارے بچو! خدارا آپ زیادہ سے زیادہ اسلامی ثقافت اور نظریہ پاکستان کو سمجھو! کیونکہ ہمارا پیارا وطن پاکستان آپ کی راہ دیکھ رہا ہے۔
 
آخری تدوین:
Top