سیاسی درجہ حرارت مزید بڑھے گا

جاسم محمد

محفلین
سیاسی درجہ حرارت مزید بڑھے گا
8 October, 2020
701_27135316.jpg


خصوصی ایڈیشن

تحریر : خاور گھمن
اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کا ڈھانچہ تشکیل دیا جا چکاہے۔مولانا فضل الرحمن تحریک کے پہلے مرحلے میں حزب اختلاف کے اتحاد کی سربراہی کریں گے، پیپلزپارٹی کے راجہ پرویز اشرف سینئر نائب صدر ، (ن )لیگ کے شاہد خاقان عباسی سیکرٹری جنرل اور عوامی نیشنل پارٹی کے میاں افتخارسیکرٹری اطلاعات ہوں گے یہ عہدے عارضی ہوں گے یا مستقل اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے ، بہر حال پی ڈی ایم نے اپنے جلسوں کے شیڈول کا اعلان کر دیا ہے۔

ا ب سوال یہ ہے کہ کیا اپوزیشن کا یہ اتحاد ملک میں کوئی قابل ذکر سیاسی ہلچل پیدا کر سکے گا جو کہ کسی سیاسی تبدیلی کاباعث بنے۔؟ اس پر بعض عناصر کی جانب سے پہلا رد عمل آیاکہ پی ڈی ایم نے مولانا کے ہاتھ پر بیعت کر کے اس تحریک کو شروع ہونے سے پہلے ہی زمین بوس کر دیا ہے۔ اسلام آباد کی سیاست کو دہائیوں سے دیکھنے وا لے سیاسی مبصرین کے مطابق پیپلز پارٹی کا حقیقی ووٹر اور سپورٹر کبھی بھی مولانا فضل الرحمن کے کہنے پر سڑکوں پر آئے گا نہ لاٹھیاں کھائے گا کیونکہ پیپلز پارٹی کا ایک خاص مزاج ہے۔ اگر بلاول بھٹو زرداری یا پھر آصف علی زرداری نے پارٹی کو پوری طرح اس تحریک میں شامل کیا جس کے آثار فی الحال نظر نہیں آرہے تو پیپلز پارٹی کو مستقبل میں کافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ اگر مولانا بلاول بھٹو زرداری اور آصف زرداری سے سندھ اسمبلی تحلیل کرنے کیساتھ قومی اسمبلی سے استعفوں کا مطالبہ بھی کر دیتے ہیں جسکا مولانا برملا اظہار بھی کر چکے ہیں تو پیپلزپارٹی کی قیادت کیلئے یہ قابل قبول نہیں ہوگا۔ ایسی صورتحال میں پیپلز پارٹی اس اتحاد سے کسی بھی مرحلے پر جان چھڑا سکتی ہے۔ اگر ایک صوبے کی حکمران اور اپوزیشن کی بڑی جماعت کے پی ڈی ایم سے اختلافات سر اٹھاتے ہیں تو پھر اس اتحاد کا مستقبل کیا ہو گا اس کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں۔

دوسری جانب (ن) لیگ میں پیپلز پارٹی سے بھی زیادہ دلچسپ صورتحال بنتی نظر آرہی ہے واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ (ن) لیگ کے اندر نواز شریف کی حالیہ تقریروں کی وجہ سے کافی اضطراب پایا جاتا ہے۔(ن )لیگ تاریخی طور پر مقتدرہ کے قریب رہی ہے، اس کا ایک رہنما بھی ایسا نہیں جو براہ راست سیاست میں آیا ہو ۔ شریف خاندان سے لیکر خواجہ آصف ، احسن اقبال شاہد خاقان عباسی اور راجہ ظفر الحق سے لیکر چودھری نثار علی خان تک جو کہ ویسے آجکل پارٹی سے تھوڑا دور ہیں،سب کی سیاسی پرورش ضیاء دور میں ہوئی ۔ اس لیے (ن )لیگ مقتدرہ کی حامی تصور کی جاتی رہی ہے۔یہ اور بات ہے کہ ہر دورِ حکومت میں نواز شریف کے مقتدرہ سے اختلاف ہوتے رہے جس کا خمیازہ آخر میں پارٹی کو ہی بھگتنا پڑتا رہا ہے۔ پارٹی کے ایک سے زیادہ لوگوں سے جب اس حوالے سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ پارٹی قائد کی تمام پالیسیوں پر ہم ان کے ساتھ ہیں لیکن براہ راست قومی سلامتی کے ادارے سے ٹکرائو ہم افورڈ نہیں کر سکتے ؟ ان میں سے ایک رہنما نے تو یہاں تک کہہ دیا جب ہم قومی سلامتی ادارے کا نام لیکر الزام تراشی شروع کر دیں گے تو اس کا مطلب ہے کھلم کھلا لڑائی۔ تو کیا پارٹی اس لڑائی کیلئے تیار ہے؟پارٹی میں لوگ یہی سوال پوچھ رہے ہیں ؟ اور جب اس طرح کا بیانیہ لندن میں بیٹھ کر بنایا جائے گا تو پارٹی کے اندر اور باہر سے لوگ شک کی نظر سے ہی دیکھیں گے۔ ؟ بہت سے سوالات ہیں جن کا جواب ملک میں موجود لیگی قیادت کے پاس نہیں، نواز شریف جس طرح لندن گئے، بہتر ہوتا علاج کروا کے واپس آتے اور ملک میں رہ کر اپنی قانونی اور سیاسی لڑائی لڑتے۔

(ن) لیگ میں بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ مریم نواز شروع دن سے پارٹی میں موجود ان لوگوں کے قریب ہیں جو (ن) لیگ کی اساس سے ناواقف ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں پارٹی کو ووٹ نواز شریف کے نام پر پڑتا ہے لیکن پارٹی نے کبھی بھی قومی سلامتی کے ادارے سے تصادم کر کے الیکشن نہیں جیتا۔ تینوں مرتبہ جب بھی نواز شریف وزیر اعظم بنے ہمارا بیانیہ مقتدرہ مخالف نہیں تھا۔ 2013 ء کے انتخابات کو ہی دیکھ لیں،پارٹی نے ججز بحالی تحریک چلائی جس کو یقیناً مقتدرہ کی پوری مدد تھی اور پھر اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ٹیلی فون پر نواز شریف نے لانگ مارچ ختم کیا اور ججز بحال ہوئے۔ انتخابات سے پہلے جنرل کیانی سے شہباز شریف کی ملاقاتیں ہوئیں اور اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا ہمارے حق میں کردار سب کے سامنے ہے۔ اور اب ہم سے کہا جا رہا ہے کہ ہم ان تمام ریاستی اداروں کیخلاف بیانیہ اپنا لیں۔ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ اس تحریک کے اغراض و مقاصد کے متعلق اور بھی بہت سارے ابہام پائے جاتے ہیں۔ مان لیتے ہیں یہ تحریک کامیاب ہو جاتی ہے ، وزیر اعظم گھر چلے جاتے ہیں یا اسمبلیاں تحلیل کردی جاتی ہیں تو آئندہ انتخابات کون کروائے گا؟ موجودہ سیاسی انتشار میں جب حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے بھی روادار نہیں اور مقتدرہ کہتی ہے سیاستدان خود مسئلے کا حل تلاش کریں۔اس صورت میں وزیر اعظم عمران خان اور مولانا فضل الرحمن کو کون ایک میز پر بٹھائے گا؟وہ کون سا ادارہ ہوگا،کیا طریقہ کار ہو گا جس کے زیر سایہ ہونے والے انتخابات کو تمام سیاسی جماعتیں من و عن تسلیم کر لیں گی؟ اور اگر پھر بھی عمران خان جیت جاتے ہیں تو اس صورتحال میں کیا ہوگا۔ ؟

دوسری جانب کیا وزیر اعظم (ن )لیگ کی انتخابی جیت کی صورت میں نواز شریف یا پھر مریم نواز کو مبارکباد دیں گے ؟ اسلام آباد میں موجود دانشوروں سے جب یہ سوال کیا گیا تو وہ پی ڈی ایم کی کامیابی کی صورت میں بھی کوئی واضح تصویر پیش نہیں کر سکے۔ سب سے پریشان کن بات یہ ہے فی الوقت کوئی ایک بھی ایسا ادارہ نہیں جس کو (ن )لیگ کی طرف سے ٹارگٹ نہیں کیا جارہا۔ مریم نواز اعلیٰ اداروں پر بھی سوال اٹھا رہی ہیں۔ نیب بھی ہدف تنقید ہے، بہت سارے کیسز زیر سماعت اور نواز شریف تا حیات نا اہل ہیں۔ مریم ضمانت پر ہیں،شہباز شریف کیخلاف نیب مقدمات بنا چکی۔ اب کیا (ن ) لیگ کی ان تمام مشکلات کا حل صرف تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے میں ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ آنیوالے دنوں میں سیاسی درجہ حرارت بڑھے گا۔ ہو سکتا ہے اس کو روکنے کیلئے کچھ مناسب اقدامات کر بھی لیے گئے ہوں کیونکہ سب کویہ یاد رکھنا ہوگا کہ پاکستان 22 کروڑ عوام کا ملک اور ایٹمی ریاست ہے لہٰذا کسی کو بھی حدود وقیود پار کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور سیاست میں نہ کوئی آخری حرف ہوتا ہے اور نہ کوئی آخری حریف۔۔۔۔۔
 
Top