سیاسی اخلاقیات

یہ کالم 2018 میں لکھا تھا. ملاحظہ ہو.
اخلاقیات کا گہرا تعلق معاشرے کے ساتھ بنتا ہے اور معاشرے کی اصلاح اس کے بغیر ناممکن ہے کیوں کہ اخلاقیات ہمیں غیبت ، چغل خوری ، بد گمانی ، جھوٹ ، فریب ، دھوکے بازی ، چوری ، بخل ، انتقام ، منافقت ، ظلم و زیادتی، بغض و کینہ ، دو رُخی ، خیانت ، بے ایمانی ، حسد ، لعن طعن ، گالم گلوچ ، طمع و لالچ ، بہتان و تہمت اور بد دیانتی وغیرہ تمام ظاہری و باطنی بیماریوں سے بچاتی ہے ۔ بد قسمتی سے ہمارے اندر اخلاقیات کا مادہ معدوم ہوتا جارہا ہے جس کے منفی اثرات معاشرے کی پیشانی پر نمایاں نظر آتے ہیں۔افسوس ہمیں اصلاح معاشرہ کی کوئی فکر تک لاحق نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرہ روز بروز زوال کی دلدل میں دھنسا جارہا ہے۔ اگر اخلاقیات کو معاشرتی اداروں کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہمیں تقریباً ہر ادارہ اخلاقیات کے دائرہ کار سے باہر نکلتا دکھائی دے رہا ہے ۔وضاحت کے لئے سادہ سی مثال یہ دی جاسکتی ہے کہ اگر کسی ادارے میں چور اُچکاے کو نگہبانی کے لئے بھرتی کیا جائے تو اس سے کیا خیر کی توقع رکھی جا سکتی ہییا اگر ایک خائن کو کسی ادارے میں کوئی عہدہ سونپا جائے تو اس سے ایمان داری کی توقع رکھنا محض خام خیالی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اگرچہ اخلاقیات کا پہلو ہر لحاظ سے اپنے اندر وسعت سموئے ہوئے ہے لیکن راقم الحروف اپنے اس کالم کو صرف سیاسی اخلاقیات تک محدود رکھ رہا ہے ۔تمہید کے لئے ایک لطیفہ گوش گزار کرنا چاہتا ہوں، اُمید ہے کہ محظوظ ہونے کے ساتھ ساتھ اُس کی گہرائی میں چھپے مفہوم کو بھی سمجھ پائیں گے۔ کہتے ہیں ایک دفعہ سیاست دانوں کی بس کھائی میں گر گئی ۔ گاؤں کے لوگ امداد کی غرض سے جائے حادثہ پر پہنچے اور ریسکیو ٹیمیں حسب روایت ذرا تاخیر سے پہنچیں۔ریسکیو آپریشن مکمل ہوا تو کوئی بھی سیاست دان زندہ نہیں بچ پایا تھا اور جب لوگوں سے حادثے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ جب بس کو حادثہ پیش آیا تو اُس وقت چیخ و پکار اور ہم زندہ ہیں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں لیکن ہم کو اس لئے یقین نہیں آیا کہ سیاست دان کبھی سچ نہیں بولتے۔

گزشتہ روز ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ نے کہا کہ انہوں نے اس بار انتخابات کے لئے مضبوط اُمیدواروں کو ٹکٹ دیئے ہیں۔ جی ہاں ! مضبوط اُمیدوار اُسی کو کہا جاتا ہے جس کے پاس زیادہ دولت و پیسہ ہو اور منتخب ہو کر اپنے اور پارٹی کے لئے زیادہ سے زیادہ کما سکے۔بادی النظر اس کے ، کہ وہ لوٹا یعنی موسمی پرندہ ہی کیوں نہ ہو۔یہ بات من اظہر الشمس ہے کہ موسمی پرندے ہر انتخابات میں حصہ لیتے ہیں، ہواؤں کے رُخ پر اپنی جماعتیں تبدیل کرتے رہتے ہیں اور ہر جماعت کے ساتھ لمبی اننگز کھیلنے کا عہد وپیمان بھی کرتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جماعتوں میں شمولیت کے وقت اُن کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہا جاتا ہے اور انہیں جماعت کی مخصوص ٹوپیاں وغیرہ اور ہار پہنائے جاتے ہیں۔ یہ ہماری سیاسی اخلاقیات ہیں اور انہی اخلاقیات کے ساتھ ہم انتخابات 2018 ء میں جارہے ہیں۔ ہر طرف سیاسی اخلاقیات کی دھجیاں بکھرتی نظر آرہی ہیں اور پُرانے کارکنوں اور جیالوں کا استحصال کر کے موسمی پرندوں کو ٹکٹ دیئے جارہے ہیں۔ پھر پانچ سال کا دورانیہ عیش و عشرت اور ٹھاٹ باٹ میں گزر جاتا ہے اور نئے انتخابات کے لئے ونڈ سوک ( ہوا کارُخ معلوم کرنے کا آلہ ) کی مدد سے نئی جماعت کا رُخ کیا جاتا ہے اور نئے عہد وپیمان کے ساتھ الیکشن لڑا جاتا ہے۔ پس ایسے سیاسی اخلاقیات سے عاری سیاست دانوں کا راستہ عوام صرف و صرف ووٹ کی طاقت روک سکتے ہیں اور اپنے سیاسی جماعتوں کے قائدین کو احساس دلا سکتے ہیں کہ اُن کے فیصلے درست نہیں ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
”سیاسی فرقہ واریت “ یہ عنوان شاید آپ کو عجیب سا لگے، ممکن ہے یہ لفظ آپ نے پہلے کبھی سنا بھی نہ ہو، لیکن یہ حقیقت ہے کہ سیاسی فرقہ واریت کی تاریخ نہ صرف بہت پرانی ہے بلکہ یہ عنوان سیاہ ترین تاریخ رکھتا ہے۔ سیاسی تفرقہ باز ہمیشہ اپنے کالے کرتوں پر پردہ ڈالنے کے لئے مذہبی تفرقہ بازی کا واویلا کرتے رہے ہیں۔سیاسی تفرقہ بازی کے مختلف لیول ہیں، ایک انٹرنیشنل سطح کی سیاسی تفرقہ بازی ہے اور ایک ملکی سطح کی تفرقہ بازی۔​

جس طرح تمام شعبوں میں سیاست کو تفوق حاصل ہے، باقی دنیا جہان کے شعبے سیاست کے ماتحت ہی ہیں اسی طرح فرقہ واریت میں بھی سیاسی فرقہ واریت کو باقی تمام فرقہ واریتوں پر برتری حاصل ہے، اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مذہبی فرقہ واریت کی خفیہ سرپرستی اور قیادت درحقیقت سیاسی لوگ ہی کرتے آئے ہیں، یعنی مذہبی فرقہ واریت میں اتنا دم خم نہیں کہ وہ سیاستدانوں کی پشت پناہی کے بغیر چل سکے۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ سیاستدان ایسا کیوں کرتے ہیں، تو اس کا سادہ سا جواب ہے کہ اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لئے مذہبی لوگوں کو استعمال کرنا صدیوں پرانی بات ہے۔

فرقہ واریت اور تفرقہ بازی کوئی بھی ہو، چاہے مذہبی ہو یا سیاسی، لسانی ہو یا علاقائی ہر ایک انتہائی بُری اور بیانک نتائج رکھتی ہے۔لیکن سیاسی تفرقہ بازی کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو کلیجہ منہ کو آجاتا ہے۔ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے ہمیشہ یہی سنتے آئے ہیں کہ مذہبی فرقہ واریت معاشرے کے لئے ناسور ہے۔ جی! یقینا یہ بات بالکل سچ ہے۔ لیکن اس سے بھی بڑا سچ یہ ہے کہ سیاسی فرقہ واریت اور تفرقہ بازی صرف معاشرے ہی نہیں بلکہ پوری انسایت کے لئے ناسور ہے۔
اگرملکی سطح کی سیاسی فرقہ واریت کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں نظر آئے گا کہ ایک پاکستانی قوم کو سینکڑوں سیاسی پارٹیوں میں تقسیم کرکے ایک دوسرے کا ایسا دشمن بنا دیا گیا ہے کہ اب سیاسی پارٹیوں نے اپنے اپنے عسکری ونگ بھی بنالئے ہیں۔ہمارے ملک میں تین چار بڑے سیاسی فرقے ہیں، باقی چھوٹی چھوٹی فرقیاں تو بے حساب ہیں۔ ان فرقوں کے نمائندے روزانہ شام سات بجے سے رات گیارہ بجے تک مختلف چینلز پر آکر اپنے اپنے فرقے کی مدح سرائی اور مخالف فرقے کی خرابیوں کو بیان کرنا جہاد سمجھتے ہیں۔سیاسی فرقہ بازوں میں ایک کمال یہ بھی ہے کہ یہ کسی بھی وقت اپنا فرقہ تبدیل کرلیتے ہیں چنانچہ کل کا یزید آج کا حسین بن جاتا ہے۔

مذہبی فرقہ واریت سے جو نقصان ہوتا ہے وہ بھی درحقیقت سیاسی فرقہ واریت کا ہی نتیجہ ہوتا ہے لیکن آئیے دیکھتے ہیں کہ خالصتا سیاسی فرقہ واریت نے اس دنیا کو کیا دیا:
٭پچھلے چند سالوں میں صرف کراچی شہر میں سیاسی فرقہ واریت کے نتیجے میں 25ہزار لوگ قتل ہوئے۔
٭مقبوضہ کشمیر میں سیاسی اختلاف کی بنیاد پر ایک لاکھ کشمیریوں کو قتل کیا جاچکا ہے۔
٭برما میں ہزاروں مسلمانوں کو بدھ متوں نے قتل اور دو لاکھ کو ملک بدر کیا۔
٭2001سے اب تک امریکا افغانستان میں15لاکھ مسلمانوں کو قتل کرچکا ہے۔
٭80ءکی دہائی میں روس نے افغانستان میں15لاکھ مسلمانوں کو قتل کیا،50لاکھ ہجرت کرکے دربدر ہوئے۔
٭90ءکی دہائی میں امریکا نے عراق پر حملہ کرکے15لاکھ انسانوں کو قتل کیا اور بعد میں ”سوری“ کرکے فرشتہ بن گیا۔
٭1992ءبوسنیا میں ایک لاکھ مسلمانوں کو قتل کیا گیا،20لاکھ ہجرت کرکے دربدر ہوئے،20ہزار عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔
٭1994ءمیں روانڈا (عیسائی ملک) میں صرف اور صرف100دنوں میں ”10 لاکھ“ انسانوں کو قتل اور5لاکھ خواتین کی عصمت دری کی گئی۔
٭1975ءکمبوڈیا میں صرف4سالوں میں20لاکھ انسانوں کو قتل کیا گیا۔ ٭امریکا نے پچھلے 200سال میں دنیا کے70ملکوں میں1ارب30کروڑ انسانوں کو قتل کیا۔
1948 سے اب تک اسرائیل 51لاکھ فلسطینیوں کو شہید کرچکا ہے۔
٭1945ءامریکا نے ایک منٹ میں بم گرا کر80ہزار جاپانیوں کو سیاسی تفرقہ بازی میں قتل کیا۔
٭1943ءبرطانوی حکمران چرچل نے بنگلہ دیش میں مصنوعی قحط پیدا کرکے 70لاکھ بنگالیوں کو قتل کیا۔
٭1942میں اسٹالن نے کریمیا کے اڑھائی لاکھ شہریوں کو صرف30منٹ میں شہر سے نکلنے کا حکم دیا اور پھرزبردستی اٹھا اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا۔
٭پہلی جنگ عظیم میں2کروڑ انسان قتل کیے گئے۔
٭دوسری جنگ عظیم میں6کروڑ انسان قتل ہوئے۔
٭ہٹلر نے اپنے دور حکومت میں ڈیڑھ کروڑ انسانوں کو قتل کیا۔
٭لینن روسی حکمران نے اپنے دور حکومت میں2کروڑ انسانوں کو قتل کیا۔
٭اسٹالن نے اپنے دور حکومت میں6کروڑ انسانوں کو قتل کیا۔
٭نپولین(عیسائی لیڈر) نے 50لاکھ انسانوں کوقتل کیا۔
٭سری لنکا میں سیاسی اختلافات کی بنیاد پر حکومت اور باغیوں کی لڑائی میں ایک لاکھ انسان قتل ہوئے۔
٭یگوڈا (کمیونسٹ پولیس آفیسر) نے 10لاکھ انسانوں کو تشدد کرکے قتل کیا۔
٭جنرل لوتھر وون نے لمیبیا میں ایک لاکھ انسانوں کو قتل کیا۔
٭شاکازولو افریقہ کا حکمران، جس نے 20لاکھ انسانوں کو قتل کیا۔
٭ماوزے تنگ چین کے کمیونسٹ حکمران نے 5کروڑ انسانوں کو سیاسی بنیادوں پر قتل کیا۔
٭روس نے اٹھارویں صدی کے آخر میں قفقاز کے15لاکھ مسلمانوں کو قتل کیا،نقل مکانی کرنے والے اس سے الگ ہیں۔
٭گیارہویں صدی میں سیاسی فرقہ واریت کے نتیجے میں25000000 اڑھائی کروڑ انسانوں کو قتل کیا گیا۔
٭سکندر اعظم (عیسائی حکمران) نے 10لاکھ انسانوں کو قتل کیا
۔ ٭چنگیز خان نے ایک گھنٹے میں17لاکھ 48ہزار انسانوں کو قتل کرنے کا ریکارڈ بنایا، کل 4کروڑ انسان قتل کیے۔
یہ ساری تاریخ نہیں بلکہ چند ایک نمونے ہیں۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی فرقہ واریت کو ختم کرکے پورے ملک کی عوام کو ایک امت بنایا جائے۔ اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم قرآن وسنت کی رہنمائی میں اسلام کے درخشندہ اصولوں کے مطابق اپنا سیاسی نظام وضع کریں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ایک پڑھے لکھے آدمی کے پاس کیا ہے؟
  • اُس کے پاس علم ہے
  • دیانت ہے
  • سفید پوشی ہے اور ملک و قوم کا درد ہے
  • اس کے پاس دماغ ہے
  • صلاحیت ہے
  • deliver کرنے کی capability بھی ہے
یعنی وہ سارا کچھ ہے جس پر قوم فخر کر سکتی ہے۔

لیکن اس انتخابی نظام کے سامنے ان کی تمام صلاحیتیں صفر ہیں۔ حالانکہ اس ملک کی عوام میں talent کی کمی نہیں۔ اس میں امریکی قوم سے بھی بہتر talent ہے۔ خدا کا فضل ہے اس سرزمین پاکستان پر کہ یہاں کے ڈاکٹرز، انجینئرز، قانون دان، economists، sociologists وغیرہ مغربی اور یورپی اقوام سے کسی طرح پیچھے نہیں۔ میں مجموعی طور پر بات کر رہا ہوں، کسی شعبے میں ہم دنیا کی کسی قوم سے پیچھے نہیں لیکن نظام ہم سب کے پاؤں کی زنجیر بنا ہوا ہے۔ یہاں تو سیاست وہی کر سکتا ہے جس کے پاس طاقت ور گھوڑے یعنی winning horses ہوں۔
جہاں حکومت سازی کے لیے گھوڑوں کی سی مار دھاڑ پر مبنی طاقت درکار ہو وہاں دانش و حکمت اور علم و بصیرت وغیرہ کی کیا قدر ہوگی؟
فکر کی صلاحیت اور ذہنی قابلیت کو کتنا weight مل سکے گا؟

پاکستان میں حقیقی تبدیلی — کیوں اور کیسے؟ سے اقتباس
 

راشد احمد

محفلین
تیسری دنیا کے ممالک میں سیاست میں اخلاقیات صرف مخالف کیلئے ہوتی ہے۔ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والے دوسروں کے ووٹ کی بے حرمتی کرتے ہیں سندھ ہاؤس میریٹ ہوٹل کی طرح

جو اپنے لئے حلال سمجھتے ہیں اسے دوسروں کیلئے حرام سمجھتے ہیں
 
Top