سیاست کے چار اسباق ؛ ٹونی بین

الف نظامی

لائبریرین
برطانوی لیبر پارٹی کے عوام دوست راہنما ٹونی بین گزشتہ دنوں جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ ٹونی بین کی موت سے نہ صرف برطانیہ ایک جنگ دشمن آواز سے محروم ہوگیا بلکہ دنیا بھر کے بائیں بازو کے لوگ ایک حقیقی جمہوری پرچارک سے محروم ہو گئے۔
چاہے افغانستان اور عراق میں فوجی مداخلت ہو یا عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی بالادستی ، ٹونی بین سامراجی حکومتوں اور اداروں کے بلند آواز نقاد تھے۔
ان کے خیال میں سیاست نے انہیں چار سبق سکھائے تھے ۔ یہ سبق ایسے ہیں کہ اگر انہیں پاکستانی سیاست دان بھی سیکھ لیں تو ہمارے لیے بہت مفید ہوگا۔

ٹونی بین کے چار اسباق:-
پہلا سبق :-افسر شاہی ، عوامی حکومتوں کے ہر فیصلے اور پالیسی کو ناکام بنا سکتی ہے۔
دوسرا سبق :-سیاسی جماعتوں کی مرکزیت پارٹی کے سربراہ کو اس قابل بنا دیتی ہے کہ وہ سیاسی جماعت کو اپنی ذاتی بادشاہت کی طرح چلا سکے۔
تیسرا سبق:- صنعت کاروں اور مالیاتی اداروں کی طاقت اتنی ہے کہ وہ کسی بھی حکومت پر بے تحاشا معاشی دباو ڈال کر اسے اپنے حق میں بلیک میل کر سکتے ہیں۔
چوتھا سبق:- میڈیا کی طاقت قرونِ وسطیٰ کے کلیساوں کی طرح ہے جس میں روز مرہ کے واقعات کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے جس طرح معاشی بالادست طبقات چاہتے ہیں۔

ٹونی بین کا کہتا تھا کہ کاروباری اداروں کے معاشی دباو کے مقابلے میں یونیز کا دباو بہت معمولی ہوتا ہے۔ معاشی دباو کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے وقتا فوقتا عوامی اخراجات میں کمی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔

ٹونی بین ایک ایسی جمہوریت کا پرچار کرتے رہے جس میں سیاسی جماعتوں کے ڈھانچے میں کہیں زیادہ جمہوریت ہو۔

2005 میں 80 سال کی عمر میں انہوں نے ایک ٹی وی پروگرام میں بتایا کہ:-
"عالمی بینک اور آئی ایم ایف جیسے ادارے جو مکمل طور پر غیر منتخب ہیں ،یعنی ان میں عوامی نمائندگی بالکل نہیں ، لیکن پھر بھی بین الاقوامی سیاست و معیشت کے فیصلے کرنے میں آزاد ہیں اور اپنے فیصلے منتخب حکومتوں پر تھوپنے پر قادر بھی"

ماخذ:-
مضمون:"عوام دوست ، جنگ دشمن ٹونی بین بھی گئے"از ڈاکٹر ناظر محمود ؛"روزنامہ جنگ سنڈے میگزین ؛ 20 اپریل 2014
 
آخری تدوین:
Top