سیاست اور جمھوریت میں چلتا ہے

سب چلتا ہے۔

گھبرائیے نہیں سیاست اور جمھوریت میں سب چلتا ہے۔

جمھوریت سیاست کا وہ پودا ہے جو آہستہ آہستہ بڑھتا ہے ۔ یہ آبیانی ، ہوا ، روشنی اور حفاظت مانگتا ہے اور اگر اس کی صحیح باغبانی کی جائے تو ایک بہت بڑا گھنا سایہ دار ، ٹھنڈی چھاؤں والا درخت بن جاتا ہے۔

جمھوریت کی جسامت پانی جیسی جو حجم تو رکھتا ہے مگر اس کی کوئی خاص شکل اور رنگ نہیں ہوتا ۔ جس کا عکس آئینے جیسا ہوتا ہے سامنے کھڑے ہوں تو اصلیت واضح کردیتا ہے اب یہ دیکھنے والے پہ منحصر ہے کہ اپنی ڈراونی اصلیت دیکھ کر بھاگ نکلتا ہے یا اپنے آپ کو سنوار لیتا ہے۔ اس کا درجہ حرارت تھرموپول جیسا ہوتا ہے نہ گرمی کو جذب یا ٹرانسفر کرتا ہے نہ سردی کو ۔ ہر موسم میں معتدل رہتا ہے۔

سیاست ایک ایسا شعبہ ہے جس میں ہر کوئی قسمت آزماء سکتا ہے۔ اس میں الو کے استاد بھی ہوتے ہیں ، جھرلو کے پٹھے بھی ، کیمیاگر منصف بھی ، مسخرے حکمران بھی ، تعریف گو تجزیہ کار بھی اور میرے جیسے دیوانے مفکر بھی۔

جمھوریت میں سیاست اور حکومت سازی کو ایسے سمجھئے کہ ایک سٹیج شو ہورہا ہے ہر کوئی اپنا خاص کردار لئے سٹیج پر اپنے اپنے کرتب کو پیش کر رہا ہے ۔ کوئی ڈرامے کر رہا ہے تو کوئی فنکاری کے اور عوام سامعین ہیں جو ہر ایک کے کردار ، کرتب اور فنکاری کو دیکھ رہے ہیں۔ داد سے حوصلہ افزائی اور ۔۔۔۔۔۔

مگر مت بھولئے جمھوریت میں سیاستدان کے تجربہ اور اہلیت کی کوئی شرط نہیں مگر عوام کے باشعور ہونے کی شرط ضرور ہے۔ سیاست میں الو کے استاد ، جھرلو کے پٹھے ، کیمیاگر منصف ، مسخرے حکمران ، اور دیوانے مفکر ہوسکتے ہیں لیکن اگر عوام باشعور ہوں تو اپنے اندر چھپے ہوئے ہیرے بھی مد مقابل سامنے لا کھڑا کر سکتے ہیں۔

جمھوریت میں حکمرانوں کو دیکھ کر عوام کے تجربہ ، تعلیم و تربیت ، اہلیت اور شعور کا اندازہ ہوتا ہے۔ اسی لئے تو ان کو عوامی نمائیندہ کہا جاتا ہے۔

جمھوریت میں سیاستدان شاگرد اور عوام تربیت گاہ یا درسگاہ ہوتے ہیں ۔ حکمران خادم اور عوام مالک ہے ۔ اگر سیاستدان کی تربیت ، قابلیت اور اہلیت میں کمی رہ گئی ہے تو اس میں قصور وار تربیت گاہ اور درسگاہ ہے اور اگر کوئی نا اہل حکومتی اہم عہدہ تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا ہے تو قصور خادم کا نہیں بلکہ مالک کا ہے۔

واللہ ، پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ جمھوریت میں عوام ہی سرچشمہ طاقت ہوتے ہیں اگر وہ اپنی اہمیت ، ذمہ داری اور فرض کو سمجھتے ہوں تو۔

کبھی کسی وقت بھی حالات کی کایہ پلٹ سکتے ہیں اور عوام جب چاہیں ہر کسی کا احتساب ہو سکتا ہے اگر عوام میں وہ سیلف اسٹیم ہو جو ایک جمھوری ریاست میں ہونی چاہیے۔

بس اس چلنے دیجئے سب ٹھیک ہو جائے گا ، وقت لگے گا مگر یاد رکھئے پھر کہتا ہوں۔
’’ ہم بدلیں گے تو بدلے گا پاکستان ‘‘
 
Top