
صرف میاں محمد نواز شریف ہی کا نہیں، پاکستان کے تمام بڑے سیاستدانوں کا اصل امتحان اب شروع ہوا ہے۔بطور صحافی مجھے شرمندگی اس بات پر بھی ہے کہ سیاستدان جس فیصلہ کن مرحلے کی طرف بڑھ رہے ہیں اس کا ذکر نہ اخباروں میں ہے نہ ٹیلی وژن سکرینوں پر۔
ساری توجہ مبذول ہے تو اس فروعی سوال کے اوپر کہ آیا تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی کے استعفےٰ”آئین وقانون کی بالادستی“ کی خاطر روبہ عمل لائے جائیں یا نہیں۔
جنرل پاشا اور ظہیر السلام عباسی صاحبان کے تحریک انصاف والوں کے ساتھ رابطے اور واسطے اب کوئی راز نہیں رہے۔ سوال اُٹھ رہے ہیں کہ جہانگیر کرامت سے استعفیٰ لینے اور جنرل مشرف کو برطرف کرنے کی جرا¿ت دکھانے والے نواز شریف میں اب اتنا دم باقی ہے کہ وہ اپنی ملازمتوں سے باقاعدہ ریٹائر ہوچکے جرنیلوں کی ”غیر آئینی مداخلتوں“ کے بارے میں کم از کم تحقیقات کا حکم دینے کی ہمت دکھاسکیں۔
نواز شریف کو ”شیر بن شیر“ بننے کے مشوروں کے ساتھ ہی ساتھ شوربرپا ہے تو حامد خان کے اس ”کلمہ حق“ کا جو ان دنوں انہوں نے اپنی سیاست سے زیادہ ذاتی طیارے کی بدولت مشہور ہوئے جہانگیر ترین کی ذات کے بارے میں بلند کررکھا ہے۔ کپتان کو دھرنے کی طرف اُکسانے کا سارا الزام ان کے سرمنتقل کیا جارہا ہے ۔ ایسا کرتے ہوئے کوئی ایک لمحہ کو یہ سوچنا بھی گوارا نہیں کررہا کہ سیاست میں ”مشورے“ اہم نہیں ہوتے رہ نماﺅں کے ”فیصلے“ ہوتے ہیں۔ عمران خان کی اصل شان تو ویسے بھی ”کپتان“ کی صورت آشکار ہوئی تھی۔ ان سے انور مسعود کی اس بھولی بھینس والے رویے کی توقع کیوں جو انار کلی بازار کی رونقوں میں گھِر کر حواس کھودیتی ہے۔
معشوق کی ”سادگی“ پر شعر لکھے جاتے ہیں۔ عملی سیاست اور وہ بھی ا قتدار کے بے رحم کھیل سے وابستہ دھڑے بازی اور تخت یا تختہ کے تناظر میں ایسی سادگی ”ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے“ والی کیفیت کی طرف لے جاتی ہے۔ میں جس فیصلہ کن معرکے کا ذکر کرنا چاہ رہا ہوں وہ ہمارے سیاسی بت کدے کے کسی ایک صنم ہی کو نہیں وہاں موجود تمام لات ومنات کے لئے قیامت کی گھڑی ثابت ہوسکتی ہے۔
نظر بظاہر واقعہ بہت سادہ ہے۔ نواز شریف کے کبھی کبھار وزیر اعظم سے بھی زیادہ بااثر سمجھے جانے والے وزیر خزانہ نے پاکستان میں قائم بینکوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ایسے تمام افراد جو -باقاعدگی سے اپنے ٹیکس ادا نہیں کرتے- کی طرف سے جاری کئے چیکوں کی ادائیگی کرتے ہوئے بظاہر ایک کم تر مگر مخصوص رقم ٹیکس کی صورت منہا کرلیں۔ تاجر حضرات اس فیصلے پر بہت چراغ پا ہیں۔ ہفتے کے روز اس فیصلے کے خلاف احتجاج کے لئے پاکستان کے کئی شہروں میں بازار بھی بند رکھے گئے۔ کراچی کے تاجر مگر الگ سے 5اگست کو جلوہ دکھائیں گے۔ حکومت مذاکرات پر آمادہ ہے۔ مگر ان مذاکرات کے ذریعے تاجر وںکو زیادہ سے زیادہ رعایت چیکوں پر عائد ٹیکس میں کچھ کٹوتی کی صورت ہی میسر ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی رعایت کی توقع رکھنا محض خام خیالی ہوگی۔
ہماری حکومتوں اور خاص کر ہمہ وقت مستعد ہونے کا دعوے دار بنے میڈیا کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ وہ پاکستان کے عوام کو یہ بتاہی نہیں پائے کہ 2011ءسے پاکستان کو ”قرض“ اور ”امداد“ فراہم کرنے والے ممالک تواتر سے ہماری حکومتوں کو آگاہ کررہے ہیں کہ ان کے ٹیکس گزار اپنی رقوم سے پاکستان ایسے ملکوں کو ”خیرات“ دینے پر تیار نہیں جو عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت ہونے کا دعوے دار ہے اور جس کی اشرافیہ کی اکثریت دھڑا دھڑ لندن، نیویارک اور دوبئی جیسے شہروں میں ہوش ربا قیمتوں والی جائیدادیں خرید رہی ہے۔
آپ کو یہ اطلاع فراہم کرنے کے بعد یہ اعتراف کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ خوشحال ممالک کے ”ٹیکس گزاروں“ کی سوچ میں مبینہ تبدیلی درحقیقت اظہار ہے پاکستان کو ”امداد“ اور ”قرض“ فراہم کرنے والی حکومتوں کے دفاعی اور قومی سلامتی کے امور کے حوالے مرتب ترجیحات کا ازسر نو تعین۔
قیامِ پاکستان کے ابتدائی ایام معاشی حوالوں سے بہت کڑے تھے۔ اکھنڈ بھارت کے خواب دیکھنے والوں کو پورا یقین تھا کہ پاکستان ٹھوس معاشی وجوہات کے سبب اپنا وجود برقرار نہ رکھ پائے گا۔ تحریک پاکستان کے دوران ابھرے جذبات کی بدولت مگر ہمارے بزرگوں نے جن میں سیاست دان بھی تھے اور انگریز کے تربیت یافتہ سوچ بچار کرنے اور اپنی رائے پر اڑ جانے والے سرکاری افسر بھی، گلشن کا کاروبار چلاہی لیا۔ مگر پھر اپنے نصیب میں آگئے بہت وکھری نوعیت کی سوچ رکھنے والے پاکستان کے پہلے ”دیسی“ کمانڈر اِن چیف جنرل ایوب خان جن کی یاد ”تیرے جانے کے بعد“ آج بھی کسی نہ کسی ٹرک کی پشت پر تصویر سمیت مزین ہوئی نظر آجاتی ہے۔
1950ءکی دہائی کے آغاز کے ساتھ ہی موصوف امریکہ کے دورے پر روانہ ہوئے۔ واشنگٹن جاتے ہوئے لندن کے ایک ہوٹل میں رکے اور وہاں انہوں نے اپنی نگاہِ بلند سے مرتب کیا ایک Visionجس نے پاکستان کو ایک توانا ملک بنانا تھا۔ ان کا ”وژن“ تحریری صورت میں آج بھی دستیاب ہے۔ اسے غور سے پڑھیں تو موصوف کی نگاہ کوئی اتنی دوربین نظر نہیں آتی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد شروع ہوچکی تھی امریکہ اور سوویت یونین کے مابین سرد جنگ۔ ہمارے ”مردِ آہن“ نے فیصلہ کیا کہ اس جنگ میں امریکہ کا اتحادی بنا جائے۔ اس خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لئے انہوں نے اس وقت کی جیسے تیسے منتخب حکومت اور پارلیمان سے بالا بالا دستخط کردئیے سیٹو اور سینٹو جیسے معاہدات میں شمولیت کے لئے۔ پاکستان میں ان اتحادوں کی بدولت آگئی US Aidاور اکثر مقامات پر پاکستان اور امریکہ کے جھنڈے ہاتھوں کی صورت ایک دوسرے سے گرم جوش مصافحہ کرتے نظر آئے۔
1958ءکے آتے آتے ”مردِ آہن“ نے فیصلہ کرلیا کہ سیاستدان بدعنوان ہی نہیں نااہل بھی ہیں۔ خود کو فیلڈ مارشل بناکر ہماری نگہبانی اور رہ نمائی کا فریضہ اپنے ذمے لے لیا۔ ان کے اقتدار سنبھالتے ہی متعارف ہوا پاکستان میں ”خسارے“ کا بجٹ۔ مطلب ایسے بجٹ کا صرف اتنا ہے کہ ریاست اپنے اخراجات کو مقامی طورپر جمع شدہ محاصل کے ذریعے پورا نہیں کرپاتی۔ آمدنی اور اخراجات میں جو تفاوت ہے اسے پورا کریں گے ورلڈ بینک اور IMFوغیرہ۔
قرض کی مے نے ہمارے لئے دُنیا کو ہرا بھرا کرکے دکھانا شروع کردیا۔ آج بھی ہارورڈ وغیرہ جیسے اداروں سے فارغ التحصیل Technocratsحضرات بہت ڈھٹائی سے ان ادوار میں ہوئی ”ترقی“ کو بہت غم زدہ ہوکر یاد کرتے ہیں جو ایوب خان، جنرل ضیاءاور مشرف جیسے مردانِ آہن کی بلند نگاہوں کی طفیل ہمیں نظرآیا کرتی تھی۔
بیتے دنوں کو سینوں پر ہاتھ مار کر یاد کرتے یہ بنیادی طورپر موقعہ پرست اور دانشوارانہ حوالوں سے مکمل بددیانت ”ماہرینِ معیشت“ کبھی گوارا نہیں کرتے کہ خلقِ خدا کو کھل کر بتائیں کہ ہمارے نام نہاد ”مردانِ آہن“ کی نگاہ ہرگز بلند نہ تھی۔ ایوب خان کو ملی سرد جنگ، جنرل ضیاءکو ربّ نے نوازا ”افغان جہاد“ سے اور مشرف کے بخت جاگے بش کی ”دہشت گردی“ کے خلاف بربا جنگ کے ذریعے۔ ان کے دور کی سب ”رونقیں“ وقتی، جعلی اور کھوکھلی تھیں۔
صدر بش کے زمانے میں اربوں ڈالر لٹا کر پوری دُنیا کو محض فوجی قوت کے بل پر اپنے زیرنگین رکھنے کے خواب دیکھنے والا امریکہ اب ضرورت سے کہیں زیادہ بیدار ہوچکا ہے۔ اپنے قومی مفادات کی خاطر اتنا خود غرض ہوچکا ہے کہ ”برائی کا محور“ ٹھہرائے جانے والے ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کرتے وقت اسرائیل اور سعودی عرب جیسے ازلی حلیفوں کوبھی خاطر میں نہیں لایا۔ ہم تو پھر اسلامی جمہوریہ پاکستان ہیں جس کا چین یار ہے اور اس پہ جان بھی نثار ہے۔
پاکستانی ریاست کو اپنے اخراجات اب مقامی طورپر اکٹھا کئے محاصل سے پورا کرنا ہوں گے۔ ”کاروباری طبقے“ کا نمائندہ مانے جانے والا نواز شریف یہ کام نہ کرپایا تو کوئی اور سیاستدان بھی نہیں کر پائے گا۔ ”تبدیلی“ کے اپنے تئیں نشان بنے عمران خان تو پہلے ہی اس معاملے میں تاجروں کی حمایت کر بیٹھے ہیں۔ سیاستدان باہم مل کر محاصل جمع کرنے کے راستے نہ بنا پائے تو پھر یہ فریضہ اب کسی اور ”مردِ آہن“ کو ادا کرنا ہوگا اور یہ بات دیوار پر لکھی حقیقت کی مانند ہم سب پر عیاں ہونی چاہیے۔