سچ ہے کہ مجھ کو اس سے محبت نہیں رہی
اس کے خلوص میں بھی تو شدت نہیں رہی
جھوٹی ستائشوں پہ سبھی خوش تھے اس قدر
سچ بولنے کی اب مری عادت نہیں رہی
تاریکیاں بڑھیں تو مجھے سوجھنے لگا
پھر اس کے بعد آنکھوں کی حاجت نہیں رہی
لطفِ سفر ملے گا بھلا جنوری میں کیا
سورج میں جون جیسی تمازت نہیں رہی
اب کے زمانِ ہجر بڑا مختصر رہا
اب کے وصال یار میں لذت نہیں رہی
سطحی غزل بھی ہو تو ترنم سے پڑھ کمال
اب شاعری میں فن کی ضرورت نہیں رہی
اس کے خلوص میں بھی تو شدت نہیں رہی
جھوٹی ستائشوں پہ سبھی خوش تھے اس قدر
سچ بولنے کی اب مری عادت نہیں رہی
تاریکیاں بڑھیں تو مجھے سوجھنے لگا
پھر اس کے بعد آنکھوں کی حاجت نہیں رہی
لطفِ سفر ملے گا بھلا جنوری میں کیا
سورج میں جون جیسی تمازت نہیں رہی
اب کے زمانِ ہجر بڑا مختصر رہا
اب کے وصال یار میں لذت نہیں رہی
سطحی غزل بھی ہو تو ترنم سے پڑھ کمال
اب شاعری میں فن کی ضرورت نہیں رہی