سپریم کورٹ میں ججوں کے خلاف غلیظ مواد

اسلام آباد ..............سپریم کورٹ کے فل کورٹ میں صدارتی ریفرنس کے خلاف چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس افتخار محمد چوہدری کی آئینی درخواست کی سماعت آج بھی جاری ہے۔وفاق کے وکیل ملک عبدالقیوم دلائل دے رہے ہیں۔ گزشتہ روز سماعت کے دوران فل کورٹ نے انٹیلی جنس اداروں کے اہلکاروں کے سپریم کورٹ اور ملک کی تمام ہائی کورٹس میں داخلے پر پابندی لگاتے ہوئے ڈی جی انٹیلی جنس بیورو کو حکم دیا تھا کہ سات دن کے اندر اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی رہائش گاہوں اور عدالتوں میں نصب جاسوسی کے آلات کا پتا لگا کر ہٹایا جائے اور کارروائی مکمل ہونے پر عدالت میں9 جولائی تک حلفیہ بیان داخل کرایا جائے جبکہ سپریم کورٹ نے چیف جسٹس پاکستان،جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف ریفرنس کی بنیاد بننے والی مبینہ دستاویزات پر مشتمل درخواست وفاق کی جانب سے واپس لینے کی بنیاد پر خارج کردی اور وفاق کو1لاکھ روپے جرمانہ اداکرنے کا حکم دیا ۔جسٹس خلیل الرحمان رمدے کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے فل کورٹ میں مسٹر جسٹس محمد نواز عباسی،مسٹرجسٹس فقیر محمد کھوکھر،مسٹرجسٹس میاں شاکر اللہ جان ،مسٹرجسٹس ایم جاویدبٹر،مسٹرجسٹس تصدق حسین جیلانی، مسٹرجسٹس سیدسعید اشہد،مسٹرجسٹس ناصر الملک،مسٹرجسٹس راجہ فیاض احمد،مسٹرجسٹس چوہدری اعجاز احمد،مسٹرجسٹس سید جمشید علی ،مسٹرجسٹس حامد علی مرزا اور مسٹر جسٹس غلام ربانی شامل ہیں۔
جنگ اخبار


عدالت نے انٹیلیجنس بیورو کے ڈائریکٹر جنرل کو حکم جاری کیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ اور تمام ججوں کے دفاتر کا معائنہ کرنے کے بعد حلفیہ بیان عدالت میں جمع کرایں کہ وہاں جاسوسی آلات نصب نہیں ہیں۔

عدالت نےسپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے رجسٹراروں کو حکم جاری کیا ہے کہ وہ انٹیلیجنس اداروں کے اہلکاروں کے مانگنے پر ججوں سے متعلق کوئی دستاویز ان کے حوالے نہ کریں۔

سپریم کورٹ نے حکومت کی جانب سے دستاویزات جمع کرانے والے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ چودھری اختر علی کا لائسنس معطل کرتے ہوئے انہیں شو کاز نوٹس جاری کیا کہ کیوں نہ ان کے خلاف توہین ِعدالت کی کارروائی شروع کی جائے۔عدالت نے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ کا خلاف تادیبی کے لیے ان کا مقدمہ پاکستان بار کونسل کے حوالے کرنے کا بھی حکم جاری کیا۔

تاہم عدالت نے وفاقی حکومت کے وکیل کی درخواست کو مانتے ہوئے وفاقی حکومت کی جانب سے ایک لاکھ بطور اخراجات جمع کرانے کی صورت میں ریکارڈ واپس لینے کی منظوری دے دی ہے۔ عدالت نے وفاقی حکومت کی جانب سے وصول ہونے والے ایک لاکھ روپے سیلاب زدگان کے فنڈ میں جمع کرانے کا حکم جاری کیا۔

پیر کے روز جب عدالت کی کارروائی شروع ہوئی تو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے وکیل اعتزاز احسن نے عدالت کی توجہ ایک ایسے پیمفلٹ کی طرف دلائی جس میں ججوں سے متعلق انتہائی نازیبا کلمات اور گالیاں درج تھیں۔

بیرسٹر اعتزاز احسن نے عدالت کی توجہ پارلیمانی امور کے وفاقی وزیر ڈاکٹر شیر افگن کے ایک مقدمے پر ’خفیہ نوٹ‘ کی طرف بھی دلائی جس میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے پر تبصرہ کیا گیا تھا اور اسے صدر کو پڑھنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔
بحوالہ بی بی سی اردو
 
پیر کے روز سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس کے وکیل چوہدری اعتزازاحسن نے کہاکہ وفاق کی جانب سے جو متفرق دستاویزات جمع کرائی گئی ہیں ان کا مقصد ججوں کو بدنام کرنا ہے۔ اس درخواست میں ججوں کو بدنام کرنے والا مواد ہے۔ چیف جسٹس کے خلاف 9 مارچ کو ریفرنس دائر ہوا ہے جبکہ وفاق کی جانب سے جمع کروائے جانے والے مواد میں ایک بیان حلفی 16 مارچ کا ہے۔ یہ عدالت کے ساتھ مذاق ہے۔ وفاق کے وکیل ملک قیوم نے کہا کہ یہ دستاویزات اس لئے عدالت میں جمع کروائی ہیں تا کہ ہم بتا سکیں کہ ان کی بنا پر صدر نے رائے قائم کی ہے۔ چوہدری اعتزازاحسن نے کہا کہ وفاق کے مختصر بیان میں کہا گیا ہے کہ اخباری تراشوں کو شہادت کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا یہ صرف بدنام کرنے کی کوشش ہے۔ سینیٹر ڈاکٹر بابر اعوان نے فروری میں ایک انٹرویو دیا تھا جس میں ڈاکٹر بابر اعوان کی رائے کو بطور شہادت پیش کیا ہے یہاں پر ایس ایم ایس کو بھی بطور ثبوت پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ مواد کس نے داخل کیا ہے، کس نے تحریر کیا ہے اس بارے کچھ پتہ نہیں۔ ان میں ججوں کے خلاف انتہائی نازیبا اور ناروا زبان استعمال کی گئی ہے۔ مسٹر جسٹس حامد علی مرزا نے کہا کہ بعد میں ایسی چیزیں سامنے آئیں جس کی بنا پر دوبارہ سننے کا فیصلہ ہوا۔ چوہدری اعتزاز نے مزید کہا کہ ایک کیس فخر الدین جی ابراہیم کے حوالے سے بھی ہے، جس کے متعلق بھی وفاق نے درخواست میں الزام عائد کر کے کہا ہے کہ تحریری فیصلہ کچھ اور تھا اور زبانی فیصلہ کچھ اور تھا حالانکہ اس بارے میں فخر الدین جی ابراہیم نے کچھ نہیں کہا ہے۔ جسٹس محمد نواز عباسی نے کہا کہ اس کیس میں جس دن فیصلہ ہوا اگلے دن ہم نے تحریری فیصلہ جاری کر دیا تھا۔ مسٹر جسٹس رمدے نے ملک قیوم سے استفسار کیا کہ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی کہ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں اور آپکو کیا ہدایات ہیں۔ انہیں مقدمات کی روشنی میں ہم ریفرنس خارج کر سکتے ہیں کہ یہ امتیازی ریفرنس ہے کیونکہ یہ فیصلہ ایک جج نے تو نہیں دیا جبکہ ریفرنس ایک جج کے خلاف آیا۔ عدالت میں پیش کرنے کے لئے یہ بھی کوئی شواہد نہیں جس میں عدلیہ اور ججوں کو گالیاں دی گئی ہیں اور یہ بھی پتہ نہیں کہ یہ دستاویزات کس نے دیئے اور یہ کہاں سے آئے، جس نے یہ دستاویزات فراہم کی ہیں، ان سے پوچھیں گے۔ ملک قیوم نے کہا کہ مجھ کو وضاحت کرنے دیں یہ وہ مواد ہے جو کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں پہلے ہی پیش کر دیا گیا ہے مسٹر جسٹس رمدے نے کہا کہ پھر آپ اس کو یہاں کیوں لے آئے، ہم نے بہت برداشت کا مظاہرہ کر لیا ہے لیکن اب بات یہاں تک پہنچ گئی۔ ملک قیوم نے کہا کہ پھر آپ حکم کریں ہم ہر حکم ماننے کے لئے تیار ہیں۔ مسٹر جسٹس رمدے نے کہا کہ جس نے بھی یہ دستاویزات دائر کی ہیں ہم سزا دیں گے۔ ملک قیوم نے کہا کہ میں نے تو انکو پڑھا بھی نہیں مجھ کو تو صبح ہی یہ ملی ہیں مسٹر جسٹس: انہوں نے کہاکہ یہ آپ کی ذمہ داری ہے میں نے آپ کو پہلے بتایا تھا کہ یہ محمد دین اوراللہ دتہ کا کیس نہیں ہے، احتیاط کا مظاہرہ کریں ایک جانب صدر ہے جوکہ اس ملک کی یکجہتی کی علامت ہے اوردوسری جانب عزت مآب چیف جسٹس ہیں۔ ملک قیوم نے کہاکہ آپ مسلسل مجھے ہی دبائے جارہے ہیں میں نے کہاکہ یہ دستاویزات پہلے ہی کونسل میں موجود ہیں، اگرمجھے سننا نہیں تومیں بیٹھ جاتا ہوں، مسٹر جسٹس رمدے نے کہا کہ اگرآپ نے یہی کچھ کرنا ہے تو آپ بیٹھ ہی جائیں توزیادہ بہتر ہے، مواد لائے ہو تو اسے ثابت کرو۔ ملک قیوم نے کہا کہ میں غیرمشروط معافی مانگتا ہوں یہ دستاویزات اوردرخواست واپس لیتا ہوں۔ مسٹرجسٹس رمدے نے کہاکہ ہربات کا تماشا بنادیا، اسکا فیصلہ اب ہم نے کرنا ہے کہ اس سکینڈلائزیشن پرکیا ایکشن لیا جائے دستاویزات کہاں سے لائے کیوں کہ ہم ایکشن لینگے اورسزا بھی دینگے آپ صرف یہ بتادیں کہ آپ اس درخواست کی ذمہ داری لیتے ہیں یا نہیں، اگرذمہ دار نہیں بنتے توپھراس کے ذمہ دار کو تلاش کریں کہ جس نے یہ داخل کی ہیں۔ فاضل عدالت کے استفسار پر صدر کے وکیل سید شریف الدین پیرزادہ اور اٹارنی جنرل نے درخواست سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ عدالت نے اپنے احکامات میں کہا ہے کہ حکومتی وکلاء نے ان دستاویزات سے لاعلمی کا اظہارکیاہے۔ ان دستاویزات پر کسی کے دستخط موجود نہیں ہیں۔ان دستاویزات کا مقصد صرف بدنام کرناہے جب حکومتی وکلاء سے کہا گیا کہ آپ ان دستاویزات اوردرخواست کے مصنّف کا نام بتائیں تووفاق کے وکیل نے کہاکہ میں اس درخواست کوواپس لیتا ہوں،وفاق کے وکیل نے بتایا کہ نہ تومیں نے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کوہدایت کی تھی اور نہ ہی میں نے ان دستاویزات سے لاعلمی کا اظہارکیاہے اس دوران چوہدری اعتزازاحسن نے عدالت کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ عدالت میں تصاویر بھی پیش کی گئی ہیں جوکہ ججوں کی نجی زندگی کے تقدس پرڈاکہ ڈالنے کی عکاسی ہے، جس میں سے ایک گھرچیف جسٹس کا ہے۔ وقفے کے بعد چوہدری اخترعلی ایڈووکیٹ آن ریکارڈ نے عدالت سے کہاکہ میں نے مذکورہ مواد کو پڑھا ہی نہیں، یہ وزارت قانون وانصاف میں تیارہوئے ہیں اور وزارت قانون کے سیکرٹری نے اس ہدایت کے ساتھ مجھے دیئے تھے کہ انہیں ہرحال میں عدالت میں جمع کرانا ہے کیونکہ ملک قیوم نے کہا تھا کہ میرے دلائل کا انحصار ان دستاویزات پرہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ دستاویز / مواد 28جون کو وزارت قانون کے ایڈیشنل سیکرٹری، لاء سیکرٹری کے پرائیویٹ سیکرٹری اور ایک سول جج میرے پاس لائے تھے۔ ملک محمد قیوم نے بھی مجھ کوکہا کہ آپ وزارت قانون کے سیکرٹری کی ہدایت پرعمل کریں۔ مسٹرجسٹس رمدے نے کہاکہ آپ کوکچھ اندازہ ہے کہ کس کی جانب سے یہ دستاویزات جمع کرائی گئی ہیں، یہ دستاویزات صدرکی جانب سے جمع کروائی گئی ہیں اب اس کے جو نتائج ہونگے اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی حالانکہ صدرنے تویہ دستاویزات دیکھی بھی نہیں ہونگی۔مسٹر جسٹس عباسی نے کہاکہ اگرآپ اس بیان حلفی کودیکھیں تواس میں لکھا ہے کہ یہ تمام چیزیں میرے علم کے مطابق درست ہیں۔ مسٹر جسٹس رمدے نے کہا کہ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ نے غلطی کی ہے اب انہیں اس کی سزا بھی بھگتنا پڑیگی، اس پرآپ کے دستخط ہیں، سارے ملک میں جب یہ چیزیں پڑھی جائینگی کہ صدرنے ججوں کوبدنام کرنے کیلئے کیا دستاویزات دائرکی ہیں، جبکہ صدر کو تو پتہ بھی نہیں ہوگا، وہ بے چارہ توکہیں سورہا ہوگا آپ نے اپنے موکل کو خوش کرنے کیلئے خطرہ مول لیا ہے۔ مسٹر جسٹس رمدے نے احکامات جاری کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ مواد کا مقصد عدالت کو بد نام کرنا او ر کچھ ججوں کی شہرت کو رسوا کرنا مقصود ہے، اس لئے عدالت حکم دیتی ہے کہ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ چوہدری اختر علی کیخلاف پاکستان بار کونسل میں شکایت درج کرائی جائے اور بے ضابطگی کا ارتکاب کرنے پر ان کا لائسنس معطل کیا جاتا ہے۔ فاضل عدالت نے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے وضاحت طلب کی ہے کہ پاکستان بار کونسل کے رولز (30)کے مطابق انکی وکالت پر کیوں نہ پابندی عائد کی جائے اور ججوں اور عدالت کو بد نام کرنے کے الزام میں کیوں نہ سزا دی جائے، فاضل عدالت نے کہا کہ اس کی الگ سماعت کیلئے فائل بنائی جائے۔ ملک محمد قیوم نے اس موقع پر عدالت میں کہا کہ میری غلطی ہے میں جمعرات کو چلا گیا تھا، میں نے ان دستاویزات کو پڑھا نہیں حالانکہ انکو پڑھنا چاہیے تھا۔ مسٹر جسٹس رمدے نے کہا کہ ہر کوئی چلا نہیں گیا، ہر کوئی چل گیا ہے۔ فاضل عدالت نے دوبارہ آرڈرلکھواتے ہوئے کہا کہ ملک قیوم دستاویزات کے تحریر کنندہ کو سامنے لائیں ملک قیوم نے کہا کہ واقعے کے دوران میں نے اس معاملہ پر سیکرٹری قانون سے بات کی ہے سیکرٹری قانون نے کہا ہے کہ وزارت قانون میں یہ مواد تیار کیا گیا ہے جبکہ تصاویرتیار کرنے والے کے بارے میں بھی بتایا جائے گا اس بیان کی روشنی میں فاضل عدالت نے وزارت قانون کے سیکرٹری کو شو کاز نوٹس جاری کر دیئے۔ ان دو ماہ کے دوران چیف جسٹس کے وکیل چوہدری اعتزاز احسن نے بار بار اس عدالت کی توجہ اس جانب مبذول کروائی ہے کہ خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار آزادانہ طو رپر عدالت اور ججوں کی رہائش گاہوں میں گھومتے پھرتے ہیں جاسوسی کرتے ہیں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کی جاسوسی کرتے ہیں تا ہم عدالت مسلسل انکو نظر انداز کرتی رہی لیکن اب ہم مجبور ہو گئے ہیں کہ حکم جاری کر دیا کہ کوئی غیر متعلقہ شخص بشمول خفیہ ایجنسیوں کے اہلکارسپریم کورٹ اور چاروں ہائی کورٹس میں داخل نہیں ہونگے، نہ تو کوئی ریکارڈ حاصل کر سکیں گے اور نہ ہی عدالت کے کسی عہدیدار سے رابطہ کریں گے اور نہ ہی عدالت کا کوئی اہلکار کوئی ریکارڈ یا دستاویزان کے حوالے کر یگا۔ وکلاء پر قانون کے مطابق دستاویز حاصل کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہو گی۔ فاضل عدالت نے ڈائریکٹر جنرل آئی بی کو حکم دیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ چاروں ہائی کورٹس اور ججوں کی رہائش گاہوں کا معائنہ کریں اور یہ یقینی بنائیں کہ ان جگہوں پر جاسوسی کے آلات تو نصب نہیں ہیں۔ اس کی ایک ہفتے میں معائنہ مکمل کریں اور 9 جولائی کو سپریم کورٹ میں بیان حلفی جمع کرائیں۔ سپریم کورٹ کے رجسٹرار اس حکم پر عملدر آمد کو یقینی بنائیں جبکہ ہائی کورٹس کے رجسٹرار بھی عمل در آمد کو یقینی بنائیں عدالت کی حکم عدولی کی صورت میں ذمہ داری رجسٹرار پر عائد ہو گی۔ وفاق کے وکیل ملک قیوم نے غیر مشروط معافی مانگ کر درخواست واپس لینے کی درخواست کی ہے ، وفاق کی جانب سے درخواست کو واپس لینے کی بنا پر خارج کر دیا گیا اور وفاق کو ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا گیا ہے، جرمانے کی یہ رقم بلوچستان کے سیلاب زدگان میں تقسیم کی جائے گی۔ فاضل عدالت نے مزید سماعت منگل کے روز تک ملتوی کر دی اور وفاق کے وکیل کو کہا کہ جب تک نیا ایڈووکیٹ آن ریکارڈ نہیں لاتے آپ تکنیکی اعتبار سے دلائل نہیں دے سکتے۔ چوہدری اعتزاز احسن نے اس مرحلے پر کہا کہ میں ان دستاویزات کی بنا پر دلائل دوں گا اور ان دستاویزات کی نقل کیلئے درخواست دونگا۔

مزید جنگ اخبار سے
 
Top