ناصر علی مرزا
معطل
سرداروں کے 12 بجنے کی حقیقت جاننےکیلئے آج کے ایک بچے نے پلاننگ کی ۔۔۔۔ اور سردار جی کے راستے میں کھڑا ہوگیا جہاں سےوہ اپنی صبح و صبحُ (قریبا‘‘12 بجے) دہی لے کے گُذرا کرتے تھے۔
ٹائیم پوچھنے پر سردار جی نے ٹائیم دیکھنے کی کوشش میں دہی والے ہاتھ کو گُھما کے دہی گِرا دیا۔اور لگے بچے کو گھورنے۔۔۔۔!
بچہ بھاگ گیا۔
اگلے دن تصدیق کے خیال سے ایک بار پھر ٹائیم پوچھا تو سردار جی ۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر دہی گِرا بیٹھے ۔
تیسرے دن سردار جی بہت محتاط انداز میں خود بچے کو تلاشتی نگاہوں سےدیکھتے ۔۔۔ دہی والا برتن گھڑی والے ہاتھ کی بجائے دوسرے ہاتھ میں لیئے چلے آ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بچے پر نگاہ پڑی ۔۔۔۔ بڑے انداز میں مُسکرائے اور بولے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مینوں پتا ۔۔۔ تُوں اج وی میرا دہی سُٹّن دے چکر اِچّ ایتھے کھڑا ایں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بڑے انداز سے گھڑی والے باتھ کو اونچا کر کے گھڑی دیکھتےہوئے (دہی والے ہاتھ کو عورتوں کی طرح اپنے ہی محور میں گھماتے ہوئے) بولے ۔۔۔۔۔ پر اج ساڈھے بارہ نیہئوں وجنے۔۔۔۔۔۔۔!!!
ربط
سکھوں کے بارہ بجنے کے حوالے سے کئی لطائف مشہور ہیں۔ اس کے پیچھے قصہ یہ ہے کہ 1739ء میں شاہ ایران، نادر شاہ ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو اس نے کافی لوٹ مار مچائی۔ وہ دہلی تباہ کرکے تخت طائوس، کوہ نور ہیرا اور مغلوں کادیگر قیمتی مال واسباب لیے واپس ایران کی طرف چل پڑا۔ پنجاب سے گذرتے ہوئے اس کا ٹکرائو سِکھوں سے ہو گیا جو تب تک اپنی باقاعدہ فوج تشکیل دے چکے تھے۔
اس سِکھ فوج کا پہلا کمانڈر ،جسّاسنگھ تھا۔ اس نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ ایرانی فوج پہ شب خون ماریں۔ چنانچہ عموماً رات بارہ بجتے ہی سِکھ سپاہ پلٹتے ایرانیوں پر گوریلا حملے کرتی اور انہیں خاصا نقصان پہنچاتی۔ ایرانی فوج تو مقدور بھر مقابلہ کرتے ہوئے واپس چلی گئی مگر بعدازاںسکھ فوجیوں نے دیگر دشمنوںکے خلاف لڑتے ہوئے اپنا یہ طرزعمل برقرار رکھا ۔وہ رات بارہ بجے کے آس پاس اتنی شدت اور خوفناکی سے مخالفوں پہ دھاوا بولتے کہ پورے پنجاب میں مشہور ہوگیا ، اس وقت سِکھوں کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہے۔ اسی بات سے پھر اس مثل نے جنم لیا کہ بارہ بجتے ہی سکھ اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھتے گویاحیوان بن جاتے ہیں۔ تاہم سکھوں کا دعویٰ ہے کہ کوئی انہیں ’’بارہ بج گئے نیں‘کہے تو اس کا مطلب ہے کہ اسے مدد درکار ہے …وہ اس لیے کہ نادر شاہی فوج پر حملے انہوں نے ہندو عورتوں و بچوں کو رہا کرانے کے لیے کیے تھے۔ واللہ علم! دلچسپ بات یہ کہ پچھلے دنوں برطانوی لینکاسٹر یونیورسٹی کے نفسیات داں، پروفیسر کیری کوپر کی ایک تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ دن میں بہترین فیصلے کرنے کا سب سے موزوں وقت ’’بارہ بجے‘‘ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ تب تک انسان عموماً اپنے بیشتر کام نمٹاکر فارغ ہوجاتا ہے نیز بھوک بھی اس پہ سوار نہیں ہوتی۔ چنانچہ وہ آرام وسکون سے صحیح فیصلے کرتا ہے۔ جبکہ رات دس بجے فیصلے کرنے کا سب سے ناموزوں وقت ہے۔ کیونکہ تب تک عام انسان اپنی ساری ذہنی و جسمانی صلاحیتیں صرف کربیٹھتا ہے۔لہذا اس وقت کیا گیا فیصلہ اکثر درست ثابت نہیں ہوتا۔گویا اب بہترین فیصلہ کرنے کی خاطرکوئی بھی سِکھ بن سکتا ہے ،مگر صبح کے بارہ بجے والا سِکھ!
ٹائیم پوچھنے پر سردار جی نے ٹائیم دیکھنے کی کوشش میں دہی والے ہاتھ کو گُھما کے دہی گِرا دیا۔اور لگے بچے کو گھورنے۔۔۔۔!
بچہ بھاگ گیا۔
اگلے دن تصدیق کے خیال سے ایک بار پھر ٹائیم پوچھا تو سردار جی ۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر دہی گِرا بیٹھے ۔
تیسرے دن سردار جی بہت محتاط انداز میں خود بچے کو تلاشتی نگاہوں سےدیکھتے ۔۔۔ دہی والا برتن گھڑی والے ہاتھ کی بجائے دوسرے ہاتھ میں لیئے چلے آ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بچے پر نگاہ پڑی ۔۔۔۔ بڑے انداز میں مُسکرائے اور بولے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مینوں پتا ۔۔۔ تُوں اج وی میرا دہی سُٹّن دے چکر اِچّ ایتھے کھڑا ایں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بڑے انداز سے گھڑی والے باتھ کو اونچا کر کے گھڑی دیکھتےہوئے (دہی والے ہاتھ کو عورتوں کی طرح اپنے ہی محور میں گھماتے ہوئے) بولے ۔۔۔۔۔ پر اج ساڈھے بارہ نیہئوں وجنے۔۔۔۔۔۔۔!!!
ربط
سکھوں کے بارہ بجنے کے حوالے سے کئی لطائف مشہور ہیں۔ اس کے پیچھے قصہ یہ ہے کہ 1739ء میں شاہ ایران، نادر شاہ ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو اس نے کافی لوٹ مار مچائی۔ وہ دہلی تباہ کرکے تخت طائوس، کوہ نور ہیرا اور مغلوں کادیگر قیمتی مال واسباب لیے واپس ایران کی طرف چل پڑا۔ پنجاب سے گذرتے ہوئے اس کا ٹکرائو سِکھوں سے ہو گیا جو تب تک اپنی باقاعدہ فوج تشکیل دے چکے تھے۔
اس سِکھ فوج کا پہلا کمانڈر ،جسّاسنگھ تھا۔ اس نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ ایرانی فوج پہ شب خون ماریں۔ چنانچہ عموماً رات بارہ بجتے ہی سِکھ سپاہ پلٹتے ایرانیوں پر گوریلا حملے کرتی اور انہیں خاصا نقصان پہنچاتی۔ ایرانی فوج تو مقدور بھر مقابلہ کرتے ہوئے واپس چلی گئی مگر بعدازاںسکھ فوجیوں نے دیگر دشمنوںکے خلاف لڑتے ہوئے اپنا یہ طرزعمل برقرار رکھا ۔وہ رات بارہ بجے کے آس پاس اتنی شدت اور خوفناکی سے مخالفوں پہ دھاوا بولتے کہ پورے پنجاب میں مشہور ہوگیا ، اس وقت سِکھوں کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہے۔ اسی بات سے پھر اس مثل نے جنم لیا کہ بارہ بجتے ہی سکھ اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھتے گویاحیوان بن جاتے ہیں۔ تاہم سکھوں کا دعویٰ ہے کہ کوئی انہیں ’’بارہ بج گئے نیں‘کہے تو اس کا مطلب ہے کہ اسے مدد درکار ہے …وہ اس لیے کہ نادر شاہی فوج پر حملے انہوں نے ہندو عورتوں و بچوں کو رہا کرانے کے لیے کیے تھے۔ واللہ علم! دلچسپ بات یہ کہ پچھلے دنوں برطانوی لینکاسٹر یونیورسٹی کے نفسیات داں، پروفیسر کیری کوپر کی ایک تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ دن میں بہترین فیصلے کرنے کا سب سے موزوں وقت ’’بارہ بجے‘‘ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ تب تک انسان عموماً اپنے بیشتر کام نمٹاکر فارغ ہوجاتا ہے نیز بھوک بھی اس پہ سوار نہیں ہوتی۔ چنانچہ وہ آرام وسکون سے صحیح فیصلے کرتا ہے۔ جبکہ رات دس بجے فیصلے کرنے کا سب سے ناموزوں وقت ہے۔ کیونکہ تب تک عام انسان اپنی ساری ذہنی و جسمانی صلاحیتیں صرف کربیٹھتا ہے۔لہذا اس وقت کیا گیا فیصلہ اکثر درست ثابت نہیں ہوتا۔گویا اب بہترین فیصلہ کرنے کی خاطرکوئی بھی سِکھ بن سکتا ہے ،مگر صبح کے بارہ بجے والا سِکھ!