سوچ کے در

با ادب

محفلین
سوچ کے در

کتنے مزے کی کہانیاں لکھتی ہیں آپ ۔

آپ کتنے آرام سے یہ سب کہانیاں لکھ لیتی ہیں ۔
ادیب تو بہت اچھے ہوتے ہیں جو محسوس کرتے ہیں کہہ ڈالتے ہیں ۔

یہ اور اسطرح کے مختلف تبصرے ہم اکثر سنتے رہتے ہیں ۔ لیکن حقیقت اسکے بہت برعکس ہوتی ہے ۔
کہانیاں لکھنا ایک آسان کام ہر گز نہیں ہے ۔ کرداروں کی تمام کیفیات انسان خود جھیل کے انھیں صفحہ قرطاس پہ اتارنے کے قابل ہوتا ہے ۔
ادیب اپنے کرداروں کے ساتھ ہنستا ہے ان کرداروں کے ساتھ روتا ہے ان کے غموں کو اپنا غم جان کے ان میں ڈوب جاتا ہے ۔
انکی مسکراہٹوں کو اپنا سمجھ کے قہقہے لگاتا ہے ۔
کہانیاں لکھنا بے حد مشکل کام ہے ۔ میں اپنے دل کی عام کیفیات کو بغیر کسی لگی لپٹی کے لکھ سکتی ہوں لیکن میں ان لوگوں کی کہانیاں لکھتے ہوئے شدید کرب سے گزرتی ہوں جنھیں میں نے زندگی میں بہت دور سے دیکھ کے محسوس کیا ہوتا ہے ۔

ہم ادیب کی لکھی گئی کتاب پڑھتے ہیں اور اس سے ایک رشتہ استوار کر لیتے ہیں ۔ ہم ادیب کو اس کتاب کا ہیرو سمجھتے ہیں لیکن یہ ہر گز ضروری نہیں ہے کہ کہانی کا خالق بذات خود کہانی کا ہیرو ہو ۔
اور کہانی میں ادیب کی زندگی کے رنگ چھلکتے ہوں یہ بھی ہر گز ضروری نہیں ۔

تخلیق کار وہ حساس لوگ ہوتے ہیں جو کسی بھی واقعے سے متأثر ہو کر اس واقعے کو دل میں بسا لیتے ہیں ۔
کبھی کبھی کسی کی نظروں کا زاویہ کوئی خلاف توقع کہا گیا چھوٹا سا جملہ کوئی چھوٹی سی حرکت ہمیں خود سے باندھ لیتی ہے ۔
ہم چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے اس منظر میں خود کو محسوس کرنے لگتے ہیں ۔
اور جب وہ منظر کسی طور دل اور دماغ سے جدا نہیں ہو پاتا تو ہمیں اسے الوادع کہنے کے لیے کاغذ اور قلم کے حوالے کرنا پڑتا ہے ۔ حساسیت کے دکھ اور خوشیاں بھی عجیب ہیں یہ لوگوں کو سمجھائی نہیں جا سکتیں اسی لیے یہ دکھ سکھ کاغذ قلم سے بانٹ لیے جاتے ہیں ۔ وہ خاموش سامع ہوتے ہیں اور خاموش سامع کس قدر بڑی نعمت ہے یہ وہی جان سکتے ہیں جنھیں اسکی ضرورت ہوتی ہے ۔
آپ لوگوں کو درد بتائیں خوشی بتائیں وہ ان احساسات میں اپنی رائے شامل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔
حالانکہ کبھی آپ کسی دوسری رائے کو سننا ہی نہیں چاہتے فقط اپنی کہہ دینا چاہتے ہیں لیکن یہ سب سمجھانا بذات خود کار دشوار ہے ۔
ہم ادیب کو پسند کرتے ہیں اسے سراہتے ہیں اسکے اسی انداز کی وجہ سے جو وہ اپناتا ہے لیکن اگر کبھی اس سے ملاقات ہو جائے تو مشورہ دینے سے بھی باز نہیں آتے کہ آپکا وہ جو فلاں ٹیڑھا اینگل ہے وہ اگر ذرا سا یوں کر کے سیدھا کر لیں تو مزید پر کشش لگیں گے ۔

ہم یہ نہیں سوچتے کہ جس زاویے سے وہ ٹیڑھا ہے وہی اسکا حسن ہے ۔
لوگوں کو جیسے وہ ہیں ویسے ہی قبول کر لینے کا رویہ ابھی ہمارے معاشرے میں پروان نہیں چڑھا ۔
ہم اپنے پسندیدہ لوگوں کو اپنی پسند کے سانچے میں ڈھالنے کے شدید خواہش مند ہوتے ہیں ۔ یہ سوچے بغیر کہ انکی اپنی بھی کوئی سوچ ہے زاویہ نظر ہے نکتہ نگاہ ہے ۔ اور اپنے بھی کچھ حالات اور ماحول ہے جس کا وہ کبھی حصہ رہے یا اب حصہ ہیں ۔

یہی حال کہانیوں کا بھی ہے ۔ ہم ہر کہانی کا دی اینڈ اپنے مطابق چاہتے ہیں ۔ کہانی میں جہاں ہمارے جذبات مجروح ہو رہے ہوں یا ہماری فینٹسی کو ٹھیس پہنچتی ہو وہاں ہم ادیب سے شدید ناراض ہوتے ہیں کہ ایسا کیوں کیا ۔ کہانی کو اس موڑ پہ کیوں لے آیا ۔ یہاں یوں نہیں ووں ہونا چاہیے تھا ۔

خیالات لکھ لینا اور خیالات کو نظم اور ترتیب سے لکھ لینا دونوں میں عام انسان اور ادیب کا فرق ہے ۔
ہمارے ہاں عوام الناس میں ابھی کتب بینی کا رجحان اس لیول پر نہیں پہنچا جہاں ہم ادب کی مختلف اصناف میں فرق کر سکیں ۔ اور انھیں اسی رنگ میں قبول کر سکیں
ناول نگار ' افسانہ نگار ' ڈرامہ نویس ' کالم نگار ' بلاگر وغیرہ وغیرہ ادب کی مختلف اصناف ہیں ۔
ہم بعض اوقات اور خاص طور پر سوشل میڈیائی دور کے بعد سبھی چیزوں کو گڈ مڈ کر کے ایک کھچڑی سی بنا چکے ہیں ۔ اور ہر اس شخص کو میڈل ڈالنے کے لیے تیار کھڑے ہیں جو لائکس کی برسات کی زد میں ہے ۔

ہم تنقید کے طریقوں سے بھی شدید نا بلد ہیں ۔ اگر ہمیں ایک بات ایک سوچ اور ایک زاویہ نگاہ سے اختلاف ہے تو ہم اس بھرپور اور شدت پسندانہ انداز سے اس کو جھٹلاتے ہیں کہ جیسے اگر اس قدر شدت نہ دکھائی تو خدانخواستہ کوئی سانحہ وقوع پذیر نہ ہو جائے ۔
ہمیں اشفاق احمد پسند ہیں تو ہم سعادت حسن منٹو کو شیطان صفت ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے ۔
ہم بانو قدسیہ کے مداح ہیں تو عمیرہ احمد کو سرے سے ادیب ماننے سے انکاری ہو جائیں گے ۔
کرنل محمد خان کو ادیب جانتے ہیں تو ممتاز مفتی کو گمراہ کن خیالات کا حامل جان کر ناک بھوں چڑھا لیں گے ۔
لیکن اگر تھوڑی دیر کو رک کر غور کیا جائے تو ہر ادیب کا اپنا نکتہ نگاہ اور انداز ہے ۔
ممتاز مفتی کبھی بھی مشتاق یوسفی نہیں بن سکتا اور مشتاق یوسفی کبھی مفتی صاحب بن کر الکھ نگری اور تلاش نہیں لکھ سکتے ۔
نسیم حجازی عنایت حسین نہیں ہو سکتا اور عنایت حسین سعادت حسن منٹو کی لکھی گئی کہانیوں کو لکھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔
اشفاق احمد کا تصوف الگ شے ہے اور بابا بلھے شاہ کسی اور اسکول آف تھاٹ کے مالک ہیں ۔
لیکن ایک چیز جو اہم ہے وہ اختلاف کا حسن ہے ۔ آپ ان سب میں سے کس کی سوچ کے حامی ہیں اور کس کی بات کو پسند کرتے ہیں یہ آپکے لیے اہم ہے ۔ اور جس سوچ سے آپکو اختلاف ہے وہاں اپنے اختلاف کو ضرور پیش کیجیے لیکن مخالفت پہ ہر گزمت اتر آئیے ۔
ہر انسان نہ ہی مکمل فرشتہ ہے نہ مکمل شیطان ۔
سبھی انسان عام انسان ہیں جو اپنی تلاشِ ذات میں سرگرداں کائنات کے اسرارو روموز کی کھوج میں مبتلا ہیں ۔
لفظ لکھنا آسان نہیں ۔ الفاظ آپکے دل کو چیر کر قلم کی نوک تک پہنچتے ہیں اور کاغذ کے سینے پہ ثبت ہوتے ہیں ۔

#سمیراامام

۷ فروری ۲۰۱۹
#سوچ_کےدر
 

ام اویس

محفلین
سبھی انسان عام انسان ہیں جو اپنی تلاشِ ذات میں سرگرداں کائنات کے اسرارو رموز کی کھوج میں مبتلا ہیں ۔
لفظ لکھنا آسان نہیں ۔ الفاظ آپکے دل کو چیر کر قلم کی نوک تک پہنچتے ہیں اور کاغذ کے سینے پہ ثبت ہوتے ہیں ۔
دل تک پہنچنے کے لیے یہی الفاظ درکار ہیں
اور
سوچ کے در جب کھلتے تو کبھی آنسو لاتے ہیں کبھی ہنسی
منحصر ہے کہ کس سمت میں کُھلتے ہیں
 

یاسر شاہ

محفلین
ما شاء اللہ اچھی تحریر ہے -
ہم تنقید کے طریقوں سے بھی شدید نا بلد ہیں ۔ اگر ہمیں ایک بات ایک سوچ اور ایک زاویہ نگاہ سے اختلاف ہے تو ہم اس بھرپور اور شدت پسندانہ انداز سے اس کو جھٹلاتے ہیں کہ جیسے اگر اس قدر شدت نہ دکھائی تو خدانخواستہ کوئی سانحہ وقوع پذیر نہ ہو جائے ۔
واقعی-
 

سحرش سحر

محفلین
واہ، زبردست ! بہت خوب ....
آپ نے تو میرے خیالات کی ترجمانی کی ہے ...اپ نے اس موضوع پر مجھ سے پہلے ہاتھ صاف کر لیے. ....اور اپنے نام کر لیا :)
 

نسیم زہرہ

محفلین
ہم اپنے پسندیدہ لوگوں کو اپنی پسند کے سانچے میں ڈھالنے کے شدید خواہش مند ہوتے ہیں ۔ یہ سوچے بغیر کہ انکی اپنی بھی کوئی سوچ ہے زاویہ نظر ہے نکتہ نگاہ ہے ۔ اور اپنے بھی کچھ حالات اور ماحول ہے جس کا وہ کبھی حصہ رہے یا اب حصہ ہیں

ہم تنقید کے طریقوں سے بھی شدید نا بلد ہیں ۔ اگر ہمیں ایک بات ایک سوچ اور ایک زاویہ نگاہ سے اختلاف ہے تو ہم اس بھرپور اور شدت پسندانہ انداز سے اس کو جھٹلاتے ہیں کہ جیسے اگر اس قدر شدت نہ دکھائی تو خدانخواستہ کوئی سانحہ وقوع پذیر نہ ہو جائے

حقیقت کا بہترین اظہار
 
Top