سوچ کوئی بھی نہیں ہوتی عمل سے باہر

سوچ کوئی بھی نہیں ہوتی عمل سے باہر
تم بھی آ جاؤ ذرا کنجِ غزل سے باہر
زندگی بکھری ہے پیچیدہ گزرگاہوں میں
اور ہم رہتے رہے دشت و جبل سے باہر
سوہنیوں اور چنابوں میں ہے نسبت اب بھی
اور سسیاں بھی نہیں ہیں ابھی تھل سے باہر
اپنی حسرت کی منادی نہ کرو لوگوں میں
اب جہانگیر بھی ہے شیش محل سے باہر
تا ابد لمبی مسافت ہے سفر کی لیکن
ہم تو نکلے ہی نہیں روزِ ازل سے باہر
کوئی یکتا نہیں ہوتا ہے مثالیں لیکر
اور تم سوچ نہیں سکتے بدل سے باہر
زندگی مچھلی کی مانند ہے احسان یہاں
اور وہ جی بھی نہیں سکتی ہے جل سے باہر
احسان الٰہی احسان
 
Top