arifkarim
معطل
بغیر ایندھن کے شمسی توانائی سے چلنے والے طیارے سولر امپلس کی بحرالکاہل کو عبور کرنے کی کوشش کو ترک کرنا پڑا ہے۔
خراب موسم نے طیارے سولر امپلس کو اتارنے کے لیے جاپان جانے پر مجبور کردیا۔
اس ایک سیٹ والے طیارے کے پائلٹ فضا میں 36 گھنٹے تک پرواز کرتے رہے جبکہ ایک اندازے کے مطابق چین سے امریکی ریاست ہوائی کے اس سفر میں وہ چھ دنوں تک پرواز کرنے والے تھے۔
اب سولر امپلس کی ٹیم جاپان میں موسم کے اچھے ہونے اور صاف آسمان کا انتظار کرے گی تاکہ پھر سے بحرالکاہل کو عبور کرنے کی کوشش کی جائے۔
موناکو میں کنٹرول روم سے اس طیارے کی پرواز پر نظر رکھنے والے پائلٹ برٹرینڈ پیکارڈ نے کہا: ’ہم لوگ احمق جانباز نہیں بلکہ ایکسپلورر ہیں۔ اور ہمارے لیے ہمارا تحفظ ہماری ترجیحات میں پہلے مقام پر ہے۔‘
انھوں نے کہا :’طیارے کے ساتھ سب کچھ درست ہے لیکن موسم اس کے مطابق نہیں ہے۔ ہم ناگویا میں اتریں گے اور بہتر حالات کا انتظار کریں گے۔‘
دونوں پائلٹ سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھتے ہیں بائیں برٹرینڈ ہیں تو دائیں لمبے قد کے آندرے بورشبرگ ہیں
بغیر ایندھن کے شمشی قوت سے چلنے والا طیارہ سولر امپلس سنیچر کو بحرالکاہل کو عبور کرنے کے لیے روانہ ہوا تھا اور اسے سوئٹزلینڈ کے پائلٹ آندرے بورشبرگ چین سے امریکی ریاست ہوائی لے جا رہے تھے۔
تجرباتی طیارہ جس کے بازو کی لمبائی جمبو جیٹ سے زیادہ ہے لیکن اس کا وزن صرف ایک موٹر کار سے قدرے زیادہ ہے مقامی وقت کے مطابق چین کے شہر نانجینگ سے شب کے بعد دو بجکر 39 منٹ پر روانہ ہوا۔
اس پراجیکٹ کا مقصد اس طیارے کے ذریعے پوری دنیا کا چکر لگانا ہے جبکہ ابھی یہ سنگل سیٹڈ پروپیلر کے ذریعے چلنے والا طیارہ اپنے ساتویں مرحلے میں ہے۔
مکمل طور پر شمسی توانائی پر چلنے والے اس طیارے کے سفر کا آغاز مارچ میں ابوظہبی سے ہوا تھا لیکن ایک ماہ تک چین کے ساحل پر اسے موسم کے مناسب ہونے کے لیے انتظار کرنا پڑا۔
اس سولر امپلس نامی جہاز کو نہ صرف موافق ہوا کی ضرورت ہے بلکہ اسے صاف موسم کی بھی ضرورت ہوگی تاکہ اس کے پروں پر لگے 17 ہزار سیلز اپنی بہترین کارکردگی دے سکیں۔
اس کے پینل پر لگی بیٹریاں اس قدر چارج ہوں کہ رات بھر طیارے کو پرواز میں مدد کرتی رہیں۔
برٹرینڈ پیکارڈ نے اس سے قبل کے مرحلے پر اسے کامیابی کے ساتھ چلایا
مسٹر بورشبرگ انتہائی تجربہ کار پائلٹ ہیں اور ایک تربیت یافتہ انجینیئر ہونے کے سبب وہ طیارے کے تمام قسم کے نظام سے پوری طرح واقف ہیں۔
اس کے باوجود وہ انھیں اس بات کا پوری طرح احساس ہے کہ یہ مشن کس قدر مشکل ہے۔
انھوں نے ہوائی کے لیے پرواز بھرنے سے پہلے بی بی سی کو بتایا: ’یہ سفر بہت حد تک میرے اپنے بارے میں ہے یہ ایک اندرونی (روحانی) سفر ہونے جا رہا ہے۔
’یہ میری خود کی دریافت ہوگی کہ اس پانچ چھ دنوں کے دوران جب میں ہوا میں ہوں گا تو میں کیسا محسوس کرتا ہوں اور میں کس طرح خود کو رکھتا ہوں۔‘
برٹرینڈ پیکارڈ جنھوں نے پہلے مرحلے کے دوران اس سولر امپلس کو چلایا تھا انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ: ’وہاں ایک وقت میں ایک ہی پائلٹ ہو سکتا ہے اس لیے پائلٹ کو خود ہی سب کچھ کرنا ہے۔ اور یہ بہت بڑا طیارہ ہے، اس کے بازو بہت لمبے ہیں، یہ بہت سست رفتار جہاز ہے۔
اس سولر امپلس نامی جہاز کو نہ صرف باد موافق کی ضرورت ہے بلکہ صاف موسم کی بھی اسے ضرورت ہوگی تاکہ اس کے پروں پر لگے 17 ہزار سیلز اپنی بہترین کارکردگی حاصل کر سکیں
’جب ہوا تیز ہو تو اس کا کنٹرول کرنا بعض اوقات مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن اس میں ایک خود کار پائلٹ کا نظام بھی ہے۔ طیارے پر ٹوائلٹ موجود ہے، کئی دن کے لیے کھانا ہے، پانی اور سب کچھ ہے اور ہم لوگ تربیت یافتہ بھی ہیں۔‘
اگر ابتدا میں کوئی پریشانی ہوتی ہے یا موسم خراب ہو جاتا ہے تو مسٹر بورشبرگ چین یا جاپان کے لیے واپسی کا فیصلہ کر سکتے ہیں اور انھوں نے وہی کیا کیونکہ سفر میں وہ مرحلہ بھی آنے والا تھا جب ان کے پاس واپسی کی سہولت نہیں رہتی اور اگر واقعی کوئی بڑی خراب پیدا ہو جاتی تو پھر ان کی سپورٹ ٹیم کو ان کے لیے تیار رہنا ہوگا۔
ایسے میں پائلٹ خود سے نیچے نہیں جاسکتا ہے کیونکہ پانی پر اترتے ہی بجلی کے جھٹے لگیں گے اس کے برعکس انھیں کسی پانی والے جہاز کا انتظار کرنا ہوگا جو آئے اور انھیں اترنے کی سہولت فراہم کرے۔
اس مرحلے میں تاخیر سے آئندہ مراحل بھی اثر انداز ہوں گے۔
اس سولر امپلس پراجیکٹ کا مقصد کسی خاص قسم کی ہوا بازی کا مستقبل پیش کرنا نہیں بلکہ صاف ستھرے ایندھن کے استعمال کا مظاہرہ کرنا ہے۔
http://www.bbc.com/urdu/science/2015/06/150601_solar_impulse_forced_land_japan_mb
شمسی توانائی کا مستقبل بارش کی نظر ہو گیا
خراب موسم نے طیارے سولر امپلس کو اتارنے کے لیے جاپان جانے پر مجبور کردیا۔
اس ایک سیٹ والے طیارے کے پائلٹ فضا میں 36 گھنٹے تک پرواز کرتے رہے جبکہ ایک اندازے کے مطابق چین سے امریکی ریاست ہوائی کے اس سفر میں وہ چھ دنوں تک پرواز کرنے والے تھے۔
اب سولر امپلس کی ٹیم جاپان میں موسم کے اچھے ہونے اور صاف آسمان کا انتظار کرے گی تاکہ پھر سے بحرالکاہل کو عبور کرنے کی کوشش کی جائے۔
موناکو میں کنٹرول روم سے اس طیارے کی پرواز پر نظر رکھنے والے پائلٹ برٹرینڈ پیکارڈ نے کہا: ’ہم لوگ احمق جانباز نہیں بلکہ ایکسپلورر ہیں۔ اور ہمارے لیے ہمارا تحفظ ہماری ترجیحات میں پہلے مقام پر ہے۔‘
انھوں نے کہا :’طیارے کے ساتھ سب کچھ درست ہے لیکن موسم اس کے مطابق نہیں ہے۔ ہم ناگویا میں اتریں گے اور بہتر حالات کا انتظار کریں گے۔‘
دونوں پائلٹ سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھتے ہیں بائیں برٹرینڈ ہیں تو دائیں لمبے قد کے آندرے بورشبرگ ہیں
بغیر ایندھن کے شمشی قوت سے چلنے والا طیارہ سولر امپلس سنیچر کو بحرالکاہل کو عبور کرنے کے لیے روانہ ہوا تھا اور اسے سوئٹزلینڈ کے پائلٹ آندرے بورشبرگ چین سے امریکی ریاست ہوائی لے جا رہے تھے۔
تجرباتی طیارہ جس کے بازو کی لمبائی جمبو جیٹ سے زیادہ ہے لیکن اس کا وزن صرف ایک موٹر کار سے قدرے زیادہ ہے مقامی وقت کے مطابق چین کے شہر نانجینگ سے شب کے بعد دو بجکر 39 منٹ پر روانہ ہوا۔
اس پراجیکٹ کا مقصد اس طیارے کے ذریعے پوری دنیا کا چکر لگانا ہے جبکہ ابھی یہ سنگل سیٹڈ پروپیلر کے ذریعے چلنے والا طیارہ اپنے ساتویں مرحلے میں ہے۔
مکمل طور پر شمسی توانائی پر چلنے والے اس طیارے کے سفر کا آغاز مارچ میں ابوظہبی سے ہوا تھا لیکن ایک ماہ تک چین کے ساحل پر اسے موسم کے مناسب ہونے کے لیے انتظار کرنا پڑا۔
اس سولر امپلس نامی جہاز کو نہ صرف موافق ہوا کی ضرورت ہے بلکہ اسے صاف موسم کی بھی ضرورت ہوگی تاکہ اس کے پروں پر لگے 17 ہزار سیلز اپنی بہترین کارکردگی دے سکیں۔
اس کے پینل پر لگی بیٹریاں اس قدر چارج ہوں کہ رات بھر طیارے کو پرواز میں مدد کرتی رہیں۔
برٹرینڈ پیکارڈ نے اس سے قبل کے مرحلے پر اسے کامیابی کے ساتھ چلایا
مسٹر بورشبرگ انتہائی تجربہ کار پائلٹ ہیں اور ایک تربیت یافتہ انجینیئر ہونے کے سبب وہ طیارے کے تمام قسم کے نظام سے پوری طرح واقف ہیں۔
اس کے باوجود وہ انھیں اس بات کا پوری طرح احساس ہے کہ یہ مشن کس قدر مشکل ہے۔
انھوں نے ہوائی کے لیے پرواز بھرنے سے پہلے بی بی سی کو بتایا: ’یہ سفر بہت حد تک میرے اپنے بارے میں ہے یہ ایک اندرونی (روحانی) سفر ہونے جا رہا ہے۔
’یہ میری خود کی دریافت ہوگی کہ اس پانچ چھ دنوں کے دوران جب میں ہوا میں ہوں گا تو میں کیسا محسوس کرتا ہوں اور میں کس طرح خود کو رکھتا ہوں۔‘
برٹرینڈ پیکارڈ جنھوں نے پہلے مرحلے کے دوران اس سولر امپلس کو چلایا تھا انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ: ’وہاں ایک وقت میں ایک ہی پائلٹ ہو سکتا ہے اس لیے پائلٹ کو خود ہی سب کچھ کرنا ہے۔ اور یہ بہت بڑا طیارہ ہے، اس کے بازو بہت لمبے ہیں، یہ بہت سست رفتار جہاز ہے۔
اس سولر امپلس نامی جہاز کو نہ صرف باد موافق کی ضرورت ہے بلکہ صاف موسم کی بھی اسے ضرورت ہوگی تاکہ اس کے پروں پر لگے 17 ہزار سیلز اپنی بہترین کارکردگی حاصل کر سکیں
’جب ہوا تیز ہو تو اس کا کنٹرول کرنا بعض اوقات مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن اس میں ایک خود کار پائلٹ کا نظام بھی ہے۔ طیارے پر ٹوائلٹ موجود ہے، کئی دن کے لیے کھانا ہے، پانی اور سب کچھ ہے اور ہم لوگ تربیت یافتہ بھی ہیں۔‘
اگر ابتدا میں کوئی پریشانی ہوتی ہے یا موسم خراب ہو جاتا ہے تو مسٹر بورشبرگ چین یا جاپان کے لیے واپسی کا فیصلہ کر سکتے ہیں اور انھوں نے وہی کیا کیونکہ سفر میں وہ مرحلہ بھی آنے والا تھا جب ان کے پاس واپسی کی سہولت نہیں رہتی اور اگر واقعی کوئی بڑی خراب پیدا ہو جاتی تو پھر ان کی سپورٹ ٹیم کو ان کے لیے تیار رہنا ہوگا۔
ایسے میں پائلٹ خود سے نیچے نہیں جاسکتا ہے کیونکہ پانی پر اترتے ہی بجلی کے جھٹے لگیں گے اس کے برعکس انھیں کسی پانی والے جہاز کا انتظار کرنا ہوگا جو آئے اور انھیں اترنے کی سہولت فراہم کرے۔
اس مرحلے میں تاخیر سے آئندہ مراحل بھی اثر انداز ہوں گے۔
اس سولر امپلس پراجیکٹ کا مقصد کسی خاص قسم کی ہوا بازی کا مستقبل پیش کرنا نہیں بلکہ صاف ستھرے ایندھن کے استعمال کا مظاہرہ کرنا ہے۔
http://www.bbc.com/urdu/science/2015/06/150601_solar_impulse_forced_land_japan_mb
شمسی توانائی کا مستقبل بارش کی نظر ہو گیا