سوانح عمری فردوسی صفحہ 37

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سوانح عمری فردوسی

صفحہ
37


eg7iwh.jpg
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ٹائپنگ از نیرنگ خیال

کر سکتے ہیں، اب قاعدہ یہ ہے کہ جب کسی چیز میں بالطبع تقدّم و تاخّر ہوگا، ضروری ہے کہ اسمیں مقدار ہو اور مقدار کے تمام اجزا مرتب ہوں، یہ بھی ضروری ہے کہ ایسی چیز متناہی ہو۔
غور کرو بوعلی سینا کی عبارت سے کیا کوئی شخص یہ سمجھ سکتا ہے؟
فردوسی نے آغاز کتاب میں مخلوقات کی پیدایش کی ابتداء، عناصر کا وجود، اور اُن کی ترتیب اور انقلابات لکھے ہیں۔
از آغاز باید کہ دانی درست سرِمایۂ گوہراں از نخست
کہ یزدان زنا چیز چیز آفرید بدان تا توانائی آمد پدید
وزومایۂ گوہر آمد چہار برآوردہ بےرنج و بےروزگار
نخستین کہ آتش زجنبش ومید زگرمیش بس خشکی آمد پدید
وزان پس زآرام سردی نمود زسردی ہمان باز ترسی فزود
چو این چار گوہر بجائے آمدند زبہر سپنجی سرائے آمدند
گیارُست، باچند گونہ درخت بزیراندر آمد سران شان ریخت
ببالد زارد جزین نیروے نہ پوید چوپویند گان ہر سوئے
نگہ کن برین گنبد تیز گرد کہ درمان ازوی سب و زدی است درد
نہ گشت زمانہ بفر سایدش نہ این رنج و تیماربگزایدش
نہ از گردش آرام گیرد ہمی نہ چون ما تباہی پذیرد ہمی
یونانیوں کے نزدیک آفرینش کی ابتدا اور اس کی تاریخ یہ ہے کہ خدا نے مادّہ پیدا کیا، مادّہ سے عناصر پیدا ہوئے۔ حرکت سے آگ پیدا ہوئے، آگ کی گرمی نے یبوست پیدا کی جس سے خاک کا وجود پیدا ہوا، پھر سکون کی وجہ سے رطوبت پیدا ہوئی۔ رطوبت نے پانی پیدا کیا، اس طرح چار عنصرپیدا ہوئے، پھر نباتات کا وجود ہوا ، جنمیں صرف نمو کی قوت ہے، ، متحرک بالارادہ نہیں۔
آسمان کی نسبت یونانیوں کا خیال تھا کہ وہ ابدی ہیں، اور امتداد زمانہ سے انمیں میں تغیّر اور زوال نہیں ہو سکتا۔ فردوسی نے اِن مسائل کو ایسے سادہ اور صاف الفاظ میں ادا کیا ہے کہ معمولی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ اور یہ خیال بھی نہیں ہوتا کہ ان میں فلسفیانہ
 
Top