سوانح عمری فردوسی صفحہ 23

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
t85fgx.jpg
 

ماہی احمد

لائبریرین
تمہید میں لکھا ہے کہ احمد بن سہل کے دربار میں ایک بڈھا تھا جو سام نریمان کی اولاد تھا۔ اس کے پاس سلاطین ایران کی تاریخ تھی۔ اور رستم کی اکثر داستانیں اسکو زبانی یاد تھیں۔ شغاد کا قصہ میں نے اس سے لے کر نظم کیا
یکے پیر بُدنامش آذاد سرد
کہ با احمد سہل بود ہے بہ مرد

کجا نامہ خسروان واشتے
تن و پیکر پہلوان دشتے

بہ سام نریمان کشیدش نثراد
بسے داشتے رزم رستم بیاد

بگویم سخن انچر زویا فتم
سکن رایک اندرد گریا فتم
فردوسی کا دعویٰ ہے ،ہم کو انکار کی کوئی وجہ نہیں لیکن امر غور طلب ہے کہ فردوسی نے خود تیسری جلد میں دقیقی کے اشعار کے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:
یکے نام دیدم پُرازداستان
سخنہائے ان پرمش راستان

فانہ کہن بودومنشور بود
طبائع نہ پیوندا و دور بود

گزشتہ بروسالیان دو ہزار
گرایدون کہ برتر نیاید شمار

گرفتم بگویندہ بر آفرین
کہ پیوندرا راہ دادا ندرین
تیسرے شعر میں صاف تصریح ہے کہ کتاب مذکور دو ہزار برس کی تصنیف تھی یہ ظاہر ہے کہ دو ہزار برس پہلے ایران کی جو زبان تھی ، وہ فردوسی کے زمانے کی زبان نہ تھی بلکہ ژندی یا اس کے قریب قریب ہو گی جو سنسکرت سے ملتی جلتی ہے اور جو پہلوی زبان سے بھی بہت مختلف ہے۔ اس لئیے یہ ثابت ہونا بہت ضروری ہے کہ فردوسی اس زبان سے واقف تھا یا کوئی شخص ترجمہ کرتا جاتا تھا۔ لیکن تذکروں اور خود فردوسی کے بیان میں اسکی کوئی شہادت موجود نہیں۔
شاہنامہ کے ماخذ کے متعلق، دیباچہ میں اور چند روایتیں مذکور ہیں، واقعہ نگاری کے فرض کے لحاظ سے ہم اُن کو بھی نقل کرتے ہیں۔ لیکن جہاں ان میں بدیہی غلطی ہے ہم اس کی تغلیظ کر دینگے۔
ساماینوں کو ایران کی تاریخ مرتب کرنے کا ہمیشہ خیال رہا۔ انہیں سے نوشیروان کو سخت شغف تھا، چنانچہ تمام اطراف و دیار میں قاصد بھیج کر ہر جگی سے تاریخی ذخیرے جمع کئیے
 

حسان خان

لائبریرین
تمہید میں لکھا ہے کہ احمد بن سہل کے دربار میں ایک بڈھا تھا جو سام نریمان کی اولاد تھا۔ اس کے پاس سلاطین ایران کی تاریخ تھی۔ اور رستم کی اکثر داستانیں اسکو زبانی یاد تھیں۔ شغاد کا قصہ میں نے اس سے لے کر نظم کیا۔
یکے پیر بُد نامش آزاد سرو
کہ با احمد سہل بودے بہ مرو

کجا نامۂ خسروان واشتے
تن و پیکر پہلوان داشتے

بہ سام نریمان کشیدش نثراد
بسے داشتے رزم رستم بیاد

بگویم سخن آنچہ زو یا فتم
سخن را یک اندر دگر یا فتم
فردوسی کا دعویٰ ہے۔ ہم کو انکار کی کوئی وجہ نہیں۔ لیکن یہ امر غور طلب ہے کہ فردوسی نے خود تیسری جلد میں دقیقی کے اشعار کے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:
یکے نام دیدم پُر از داستان
سخن ہائے آن پرمنش راستان

فسانہ کہن بود و منشور بود
طبائع ز پیوند او دور بود

گزشتہ بروسالیان دو ہزار
گر ایدون کہ برتر نیاید شمار

گرفتم بگویندہ بر آفرین
کہ پیوندرا راہ داد ا ندرین
تیسرے شعر میں صاف تصریح ہے کہ کتاب مذکور دو ہزار برس کی تصنیف تھی یہ ظاہر ہے کہ دو ہزار برس پہلے ایران کی جو زبان تھی، وہ فردوسی کے زمانے کی زبان نہ تھی بلکہ ژندی یا اس کے قریب قریب ہو گی جو سنسکرت سے ملتی جلتی ہے اور جو پہلوی زبان سے بھی بہت مختلف ہے۔ اس لئے یہ ثابت ہونا بہت ضروری ہے کہ فردوسی اس زبان سے واقف تھا یا کوئی شخص ترجمہ کرتا جاتا تھا۔ لیکن تذکروں اور خود فردوسی کے بیان میں اسکی کوئی شہادت موجود نہیں۔
شاہنامہ کے ماخذ کے متعلق، دیباچہ میں اور چند روایتیں مذکور ہیں، واقعہ نگاری کے فرض کے لحاظ سے ہم اُن کو بھی نقل کرتے ہیں۔ لیکن جہاں ان میں بدیہی غلطی ہے ہم اس کی تغلیط کر دینگے۔
ساساینوں کو ایران کی تاریخ مرتب کرنے کا ہمیشہ خیال رہا۔ ان میں سے نوشیروان کو سخت شغف تھا، چنانچہ تمام اطراف و دیار میں قاصد بھیج کر ہر جگہ سے تاریخی ذخیرے جمع کئے
 
Top